
مغربی ذرائع ابلاغ نے پاکستان کو ہمیشہ ایک ایسے ملک کی حیثیت سے پیش کیا ہے جہاں ناخواندگی اور غربت کی کوکھ سے جنم لینے والی دہشت گردی اور انتہا پسندی پنپتی رہی ہے اور یہ کہ یہ ملک کسی بھی اعتبار سے کوئی اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ مغرب کے مین اسٹریم میڈیا نے یوریشیائی خطے میں تزویراتی استحکام اور اشتراکِ عمل پیدا کرنے سے متعلق پاکستان کی بنیادی اور جوہری صلاحیت کے بارے میں کم ہی کچھ بتایا ہے۔ عمومی تاثر یہی پیدا کیا گیا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور اب یہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی دلدل سے نکل نہیں سکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں دفاعی اور معاشی اعتبار سے پنپنے کی غیر معمولی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ خطہ یوریشین یونین، سارک، ایران، ترکی، چین اور دیگر بڑی علاقائی و عالمی طاقتوں اور اتحادوں کو جوڑنے اور ان کے درمیان اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی بھرپور شراکت سے ایک پان یوریشین اکنامک زون یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ روس بھی اب اس بات کو واضح طور پر محسوس کرتا ہے کہ پاکستان سے بہتر تعلقات ہی اس کے لیے معاشی امکانات کی نوید بن سکتے ہیں۔ اس کے لیے پاکستان جنوبی ایشیا میں گیٹ کیپر کی حیثیت رکھتا ہے۔ روس اور چین کے درمیان جو تزویراتی شراکت داری پائی جاتی ہے، اس کے فریم ورک میں رہتے ہوئے یوریشیائی خطے میں دوستی اور تعاون کو فروغ دینے میں پاکستان مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے اور روسی قیادت اس حوالے سے بہت محتاط اور حساس ہے۔ روس چاہتا ہے کہ خطے کے مجموعی حالات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے پاکستان سے تعلقات اس نوعیت کے رکھے جائیں کہ سفارتی سطح پر طاقت کا توازن بھی برقرار رہے اور پاکستان کے محل وقوع سے کماحقہ مستفید بھی ہوا جائے۔
زیرِ نظر مضمون کے پہلے حصے میں ہم اس امر کا جائزہ لیں گے کہ کس طور پاکستان اس خطے کی چار بڑی معیشتوں کو ایک لڑی میں پرونے کی اہلیت رکھتا ہے اور یہ کہ پاکستان اور روس کے درمیان تیزی سے پنپتے ہوئے تزویراتی اور معاشی تعلقات خطے میں کون سی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ دوسرے حصے میں ہم یہ دیکھیں گے کہ کس طور امریکا اس خطے میں بہتری کے حوالے سے پاکستان کے ممکنہ کردار کی راہ میں دیوار کھڑی کرنے کے حوالے سے کیا کیا کرسکتا ہے۔
ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اپنے محل وقوع کو بہتر انداز سے بروئے کار لاکر، جامع حکمتِ عملی اپناکر پاکستان کئی معاشی خطوں کو آپس میں جوڑ کر اس پورے براعظم کے لیے عالمی سطح پر امکانات بہتر بنانے کی بھرپور اہلیت کا حامل ہے۔ چین کی غیر معمولی سرمایہ کاری بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
یوریشین یونین
اس علاقائی تنظیم کا سربراہ روس ہے اور اس میں بیلاروس، کرغیزستان، قازقستان اور آرمینیا بھی شامل ہیں۔ قازقستان اور کرغیزستان کا جھکاؤ پاکستان کی طرف ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ازبکستان نے اب تک اس تنظیم میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے جس کے نتیجے میں معاملات تھوڑے سے اٹکے ہوئے ہیں۔ افغانستان کی صورت حال بھی ایک بڑے خطرے کی شکل میں موجود ہے اور اس خطرے کو ختم کیے بغیر معاملات درست کرنا ممکن نہ ہوگا۔ جنوبی ایشیا میں براہ راست تجارت کی راہ میں ایک بڑی اور واضح رکاوٹ افغانستان کی صورت حال ہے۔ اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے لیے دو متبادل راستے تجویز کیے گئے ہیں۔ ایک راستہ نارتھ ساؤتھ کوریڈور کا ہے جو روس، ایران اور بھارت پر مشتمل ہے۔ یہ راستہ بحیرۂ کیسپین اور بحیرہ عرب سے ہوکر گزرتا ہے۔ دوسرا متبادل راستہ پاکستان اور چین کے درمیان ہے جس کی تکمیل سے افغانستان کو بائی پاس کرنا ممکن ہوجائے گا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو مختصراً سی پیک کہا جاسکتا ہے۔ یوریشین یونین کو جنوبی ایشیا میں تعاون کی تنظیم سارک کے رکن پاکستان سے براہ راست تعلقات کی لڑی میں پرونے سے یوریشیا کے ممالک کی جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے براہ راست تجارت کی راہ ہموار کرنے میں بھی خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔
بین الاقوامی پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد اب ایران کے لیے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ یورپ اور امریکا مل کر ایران میں سرمایہ کاری بڑھا سکتے ہیں کیونکہ اسی سے دونوں کا مفاد بھی وابستہ ہے مگر اس بات کا امکان زیادہ قوی ہے کہ بھارت اور چین مل کر ایران میں غیر معمولی سرمایہ کاری کریں، بالخصوص بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے حوالے سے۔ چین اور بھارت دونوں ہی کے لیے تجارت کا دائرہ وسیع کرنے کے حوالے سے ایران بہت کارآمد ہے۔ اس ملک کو نظر انداز کرکے وہ متعلقہ خطے میں اپنے معاشی مفادات کو زیادہ تقویت بہم نہیں پہنچا سکتے۔
پاکستان کی طرح ایران کو بھی چین کسی طور نظرانداز نہیں کرسکتا۔ تینوں ممالک کے درمیان گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی اس امر کا غماز ہے کہ مستقبل بعید میں دونوں ممالک معاشی اعتبار سے زیادہ جڑے ہوئے ہوں گے۔ بھارت بھی چاہ بہار کی بندرگاہ اور دیگر مقامات پر سرمایہ کاری بڑھا کر ایران سے اپنے معاشی تعلقات مستحکم تر کرتا جارہا ہے۔ دونوں ممالک سمندر میں گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ایران اور بھارت اگر زمینی راستے سے تجارت کریں تو پاکستان کو ٹرانزٹ روٹ کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں مگر سیاسی وجوہ کی بنیاد پر اب تک ایسا نہیں ہوسکا۔ یہی سبب ہے کہ دونوں ممالک کو سمندر کے راستے ایک دوسرے کے نزدیک آنا پڑ رہا ہے۔
سارک اس خطے کی ایک اہم تنظیم ہے جو پاکستان سے شروع ہوکر بنگلا دیش تک پھیلی ہوئی ہے اور اس سے آگے نیپال اور بھوٹان بھی اس کا حصہ ہیں۔ یہ تنظیم خطے کے ممالک میں بہتر انداز سے تعاون کی راہ اب تک ہموار نہیں کرسکی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ امکانات ختم ہوگئے ہیں۔ اس تنظیم کو فعال کرکے خطے میں بہتر اور زیادہ مفید اشتراکِ عمل کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ سارک کا مضبوط ترین ملک بھارت ہے۔ دیگر ارکان میں پاکستان سب سے طاقتور ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات نے سارک کی طاقت گھٹانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اگر یہ دونوں ممالک (اب شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک میں رہتے ہوئے) اپنے اختلافات کو قابل قبول سطح تک لے آتے ہیں اور تعلقات بہتر بناتے ہیں تو سارک کو بھرپور طاقت والے معاشی خطے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں یوریشیائی خطے سے اس خطے کے تعلقات بہتر بنانے میں بھی غیر معمولی مدد ملے گی۔
سارک کے ارکان، بھارت اور بنگلا دیش اگر چاہیں تو مل کر چین سے بہتر اقتصادی تعلقات کی راہ ہموار کرسکتے ہیں اور ان کے درمیان ایک قابلِ عمل معاشی راہداری بن سکتا ہے۔ میانمار اور چند دوسرے ممالک کو بھی شامل کرکے پورے خطے کو بہتر معاشی امکانات سے ہمکنار کرنا بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی امور پر اختلافات ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ۱۹۶۲ء میں جنگ بھی ہوچکی ہے۔ چین کے سرحدی علاقے تبت اور سنکیانگ خاصے پسماندہ ہیں۔ چینی حکومت بھی چاہتی ہے کہ ان میں ترقی کی راہ ہموار کی جائے۔ سیاسی بنیاد پر کشیدگی نے اس معاملے کو اب تک روک رکھا ہے۔ دوسری طرف جموں و کشمیر کے حوالے سے چین اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے تعلقات پر بھارت کو تشویش لاحق رہی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور چین اس متنازع خطے سے دور رہیں۔ مگر اب معاشی امکانات اس قدر اور اتنے پُرکشش ہیں کہ چین، بھارت اور پاکستان میں سے کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ چند ایک اختلافی امور کو بھرپور ترقی کی راہ میں دیوار بننے کا موقع فراہم کیا جائے۔
ایران اور بھارت مل کر ایک ایسا زون تشکیل دینا چاہتے ہیں جس میں وسط ایشیا اور یوریشیا دونوں ہی کے لیے زیادہ امکانات ہوں۔ ان تمام ممالک کو بندر گاہ کی سہولت فراہم کرکے بھارت اور ایران اپنے لیے بھی زیادہ سے زیادہ ترقی کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب وسط ایشیا میں بھرپور سیاسی استحکام ہو اور اس خطے کے ممالک آپس کے اختلافات کو نظرانداز کرکے اپنے اپنے عوام کا بھلا سوچیں۔ قازقستان اور ترکمانستان جیسے ممالک کو ایک طرف ہٹاکر بھرپور علاقائی ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں ہوسکتا۔ اگر ایران اور قازقستان کے درمیان تعلقات بہتر ہوجائیں اور بھارت ان دونوں ممالک سے مل کر پاکستان سے گزرنے والا اکنامک زون تعمیر کرے تو بہت جلد وسط ایشیا اور یوریشیا کے لیے بھارتی مصنوعات کی ترسیل بھی شروع ہوسکتی ہے۔ ہر اقتصادی شاہراہ کی تعمیر کے لیے پاکستان انتہائی ناگزیر ہے۔ اس پورے ملک کو بائی پاس کرنے کی صورت میں کسی بھی علاقائی اقتصادی شاہراہ کے لیے زیادہ سودمند ثابت ہونا ممکن نہ رہے گا۔ بھارت اگر اپنا مال وسط ایشیا اور روس تک پہنچانا چاہتا ہے تو ناگزیر ہے کہ پاکستان کو کسی نہ کسی طرح اس کام میں معاونت کے لیے راضی کرے۔ ایسا کیے بغیر بہتر امکانات تلاش کرنا محض اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے جیسا ہی ہوگا۔
پاکستان اس اعتبار سے انتہائی خوش قسمت ہے کہ وہ چار بڑی معاشی راہداریوں کے سنگم پر ہے۔ اگر ایک پاکستان کو کسی نہ کسی طور مستحکم کرکے ان راہداریوں کا حصہ بنایا جائے تو چار بڑے بلاکس آپس میں جڑ سکتے ہیں۔ روس اور وسط ایشیا، یوریشیا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کو آپس میں جوڑنے کے حوالے سے پاکستان کا کردار انتہائی اہم بلکہ بنیادی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی خطہ پاکستان کو نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چین اور علاقے کے دیگر ممالک کو بڑے پیمانے پر توانائی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ پاکستان، ایران اور چین مل کر ایک ایسی گیس پائپ لائن تیار کریں جس کی مدد سے ایران اور وسط ایشیا سے گیس بڑے پیمانے پر چین اور دیگر علاقائی ممالک تک پہنچانا ممکن ہو۔ پاکستان میں گوادر سے چین کی سرحد تک ایک گیس پائپ لائن بچھائی جاسکتی ہے اور بچھائی جانی چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اور وسط ایشیا کی گیس کے ذریعے چین توانائی کی ضرورت بہت حد تک پوری کرے گا مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان اور چین مل کر دنیا کا سب سے بڑا سولر پارک بنا رہے ہیں جس کی مدد سے توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں غیر معمولی مدد ملے گی۔ یہ بھی پاک چین معاشی راہداری منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے۔
ان تمام منصوبوں کی تشکیل سے سب سے بڑا اور براہ راست فائدہ چین کو پہنچے گا۔ اسے پاکستان سے ہوتے ہوئے گوادر تک وہ راستہ ملے گا جو اُسے بحیرہ عرب میں بہتر رسائی فراہم کرے گا۔ اس صورت میں وہ آبنائے ملاکا سے گزرنے کا محتاج نہیں رہے گا جو اُس کے لیے اکثر بند رہا کرتی ہے اور مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ دوسری طرف چین کو اپنا مال جنوب مشرقی ایشیا کے خطے سے بھی گزارنا نہیں پڑے گا۔ میانمار اور دیگر ممالک نے حال ہی میں اس حوالے سے چینی مفادات کو بڑے نقصانات پہنچانے ہیں۔ چین آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ اسے بہت بڑے پیمانے پر اشیاء و خدمات درکار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر سے مال منگوانا پڑتا ہے۔ روز مرہ استعمال کی بہت سی اشیاء کے ساتھ ساتھ اشیائے خور و نوش کے حوالے سے بھی چین کو بہت سے ممالک سے بہتر معاشی تعلقات استوار رکھنا پڑتے ہیں۔ روس نے چند برسوں کے دوران چین کے لیے ایک بڑے سپلائر کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان بھی تجارت وسیع پیمانے پر ہوتی ہے مگر اس کے باوجود چین کو بیرونی دنیا سے تعلقات استوار رکھنا پڑتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ رسد یقینی بنانا ممکن رہے۔ تجارتی راہداریاں یقینی بنائے جانے کی صورت میں چین کے لیے بہترانداز سے تجارت جاری رکھنا ممکن ہوجائے گا۔
بنیادی ڈھانچے کا گراف بلند کرکے یعنی سڑکیں، ریلوے لائنیں اور پل وغیرہ تعمیر کرکے چین وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا سے اپنے سرحدی صوبے سنکیانگ کو جوڑ سکتا ہے۔ یہ صوبہ عدم استحکام کی نذر رہا ہے، جس کے نتیجے میں چینی قیادت کے لیے بہت سی مشکلات کھڑی ہوتی رہی ہیں۔ سنکیانگ مسلم اکثریتی صوبہ ہے جہاں انتہا پسندی بھی ہے اور مرکز سے گریز کا رجحان بھی۔ معاشی اعتبار سے مضبوط ہوجانے پر سنکیانگ میں انتہا پسندی بھی ختم ہوسکتی ہے اور مرکز کو اپنانے کا جذبہ بھی پروان چڑھ سکتا ہے۔ یوریشین یونین، سارک اور ایران کو ایک لڑی میں پروکر چین اپنے لیے بہتر امکانات کی راہ اس طور ہموار کرسکتا ہے کہ سنکیانگ میں بھی امن ہو اور ملک کے وسطی حصوں میں بھی سب کچھ عمدگی سے چلتا رہے۔
بھارت روایتی طور پر روس کا حلیف اور شراکت دار رہا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں بھارت نے روسی بلاک (سوویت یونین) کا ساتھ دیا جس کے صلے میں اسے بہت کچھ ملا۔ یوریشیا سے بہتر معاشی تعلقات نے بھارتی برآمدات کی راہ ہمیشہ ہموار رکھی ہے مگر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس اور بھارت دونوں کے لیے دنیا بہت بدل گئی ہے۔ روس کے لیے اب ناگزیر ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت سے ہٹ کر بھی دیکھے اور جن ممالک سے معاشی مفادات وابستہ ہوں، اُن سے بہتر تعلقات کی راہ ہموار کی جائے۔ یہی سبب ہے کہ روس اور پاکستان نزدیک آرہے ہیں۔ روس کی اہم شخصیات پاکستان کے دورے کرچکی ہیں۔ پاکستانی قیادت بھی روس آتی جاتی رہی ہے۔ دونوں ممالک خطے میں شراکت داری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ بھارت کے لیے تشویشناک اور پریشان کن ثابت ہوسکتا ہے۔ روس اور پاکستان کی قیادت کو اس معاملے میں بہت محتاط رہنا پڑے گا۔ انہیں کوئی بھی ایسا اشارا دینے سے گریز کرنا ہوگا کہ ان کا اتحاد بھارت سمیت خطے کے کسی بھی ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
سرد جنگ کے بعد جنوبی ایشیا میں سیاسی اور سفارتی اعتبار سے بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ روس کے لیے بھارت اور امریکا کے لیے پاکستان پہلے جیسا اہم نہیں رہا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی علانیہ جوہری قوتیں ہیں، جن کے درمیان کشیدگی پوری دنیا کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان کے لیے بھی لازم ہوگیا ہے کہ امریکا اور یورپ سے ہٹ کر خطے میں پارٹنر تلاش کرے اور دوسری طرف روس کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ بھارت سے ہٹ کر بھی خطے میں دوست ڈھونڈے۔ بھارت کے لیے یہ وقت بہت بڑے مخمصے کا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ روس کے لیے زیادہ پرکشش نہیں رہا اور دوسری طرف امریکا اور یورپ بھی دوستی کے نام پر اسے محض استعمال کرنے کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ سرد جنگ کے زمانے کی ڈائنامکس کے مطابق کام کیا جائے۔ پاکستان کے لیے بھی زیادہ ممکن العمل بات یہی ہے کہ اپنے خطے کی بڑی قوتوں سے بہتر تعلقات استوار رکھے تاکہ دور افتادہ طاقتوں (امریکا اور یورپ) پر زیادہ انحصار نہ کرنا پڑے۔ روس سے پاکستان کے تیزی سے پنپتے ہوئے تعلقات پاکستانی قیادت کی سوچ میں رونما ہونے والی نمایاں تبدیلی کی علامت ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھارت نے مغرب کی طرف اور پاکستان نے مشرق کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ پاکستان چین سے بہتر تعلقات کا خواہاں تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس نے روس کے لیے بھی پسندیدگی ظاہر کی۔ دوسری طرف نئی دہلی نے امریکا اور یورپ کی طرف دیکھتے ہوئے بہتر زندگی کے خواب سجانا شروع کیے۔ اب بھارت کو بھی یہ احساس ہوچلا ہے کہ مغرب سے زیادہ اسے مشرق کی طرف ہی دیکھنا پڑے گا۔
بھارتی قیادت بظاہر کئی میدانوں میں ایک ساتھ کھیلنا چاہتی ہے۔ ایک طرف وہ سرد جنگ کے بعد کی دنیا میں جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی نیت سے امریکا اور مغرب کے شراکت دار کی حیثیت سے کام کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ روس سے بھی اسٹریٹجک پارٹنر شپ برقرار رہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت کو اب بھی روس سے بہت سے تکنیکی شعبوں میں غیر معمولی معاونت مل رہی ہے۔ ساتھ ہی بھارت چین سے بھی بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ دو طرفہ تجارت کا دائرہ وسیع کرکے بھارت بہتر امکانات کو اپنے حق میں کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو بھارت اب بھی چین کے پراکسی کے روپ میں دیکھتا ہے یعنی اس کا اندازہ ہے کہ پاکستان جو کچھ بھی کرتا ہے، چین کی ایما پر کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بھارت نے مغربی سرحد پر صورت حال خراب کرکے پاکستان کو مستقل درد سر سے دوچار کر رکھا ہے۔ دوسری طرف چین اور پاکستان اب بھی بھارت کو ایک ایسے ملک کے روپ میں دیکھتے ہیں جسے امریکا نے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی خاطر آگے کر رکھا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا ہے۔ اس موقع سے دونوں کس حد تک فائدہ اٹھاتے ہیں اور کس طور اپنے اختلافات ختم کرکے جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور یوریشیا کو بار آور خطے بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ روس نے چین اور بھارت کے درمیان اختلافات کم کرانے کے حوالے سے کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان اختلافات اس نہج کو نہ پہنچیں کہ کئی خطوں کا استحکام داؤ پر لگ جائے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ روس یہی کردار پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کے حوالے سے ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر وہ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے راضی کرے اور چین کے ساتھ مل کر اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے تو اس خطے میں امریکا اور یورپ کے داخلے کی گنجائش نہ رہے۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ کشیدہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے امریکا اور یورپ کو آگے بڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ امریکا بظاہر تیسری قوت کا کردار ادا کرکے معاملات کو درست کرنے کی راہ پر جاتا دکھائی دیتا ہے، مگر در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ امریکا نے اب تک بھارت اور پاکستان میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوئی حقیقی اور ٹھوس کوشش نہیں کی ہے۔ گویا اسے یہ خوف لاحق ہو کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہونے سے اس کے اپنے مفادات داؤ پر لگ جائیں گے۔ روس سرد جنگ کے زمانے کو بھول کر اب پاکستان سے اپنے تعلقات بہتر اور مضبوط بنا رہا ہے۔ ایسے میں اگر وہ پاکستان اور بھارت کو قریب لانے میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے تو دونوں ممالک اور چین سے اس کے تعلقات مزید بہتر ہوں گے اور یوں تین چار خطوں کو جوڑنے میں مدد ملے گی اور اس کا حتمی فائدہ لازمی طور پر ان خطوں کے ہر ملک کو پہنچے گا۔ ایسا ہوا تو بہتر معاشی امکانات سے ہر ملک مستفید ہوگا اور ترقی و خوشحالی کا ایک سنہرا دور شروع ہوگا۔
چین اور روس کے متحرک ہونے سے خطے میں امریکا اور یورپ کے لیے کچھ کرنے کی گنجائش اب کم ہی رہ گئی ہے۔ چین نے پاکستان پر غیر معمولی توجہ دی ہے اور اسے مستحکم کرکے اپنے لیے بہتر راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف روس بھی بھارت سے اپنے دیرینہ تعلقات برقرار رکھتے ہوئے پاکستان سے دوستی بڑھا رہا ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے روس اور چین کی دوستی بہت سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔ بھارت کے لیے تو روس قابل قبول ہے ہی، پاکستان کے لیے بھی وہ بہت حد تک قابل قبول ہوسکتا ہے۔ امریکا اور یورپ نے اب تک جو کچھ اس خطے کے ساتھ کیا ہے، اُس کی روشنی میں آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ اب چین، پاکستان، بھارت اور روس نہیں چاہیں گے کہ ان کا کردار دوبارہ وسعت اختیار کرے۔ سارک کو مضبوط کرکے اور یوریشین یونین کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اگر بھارت کو بھی اس بڑے بلاک میں کسی نہ کسی طور متحرک کردیا جائے تو ساڑھے تین ارب سے زائد نفوس کے لیے ایک نئی دنیا پیدا ہوگی جس میں امکانات قطار بند کھڑے ہوں گے کہ کوئی آگے بڑھے اور ان سے مستفید ہو۔ اگر روسی قیادت پاکستان اور بھارت کو قریب لانے اور دوستی کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوجائے تو خطے میں کشیدگی کا بہت حد تک خاتمہ ہوجائے اور تب یہ ممکن ہوگا کہ خطے کے بیشتر ممالک مل کر تعمیر و ترقی کی ایک نئی راہ پر گامزن ہوں۔ (جاری ہے)
(ترجمہ محمد ابراہیم خان)
“Pakistan is the ‘Zipper’ of Pan-Eurasian integration”. (“en.riss.ru”. Sept. 15, 2015)
Leave a Reply