چند برس قبل بھارت میں ایک تھنک ٹینک ’’وویکانند فاؤنڈیشن انٹرنیشنل‘‘ نے وسط ایشیا پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا تھا۔ اس وقت فاؤنڈیشن کے چیئرمین بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوول تھے۔ چونکہ وسط ایشیا میری بھی دلچسپی کا موضوع رہا ہے، اس لیے اس تھنک ٹینک کے رابطہ عامہ کے ڈائریکٹر اور مصنف انوج دھر نے مجھے بھی شرکت کی دعوت دی۔ پہلی نشست میں ان ممالک کے سفراء نے پریزنٹیشن دی۔ بتایا گیا کہ دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے بعد دیگر امور پر گفتگو ہوگی۔ فاؤنڈیشن کے خوبصورت احاطہ میں کھانے کے دوران میرے ایک سابق ایڈیٹر شاستری رام چندرن نے مجھے اجیت دوول سے ملایا، گوکہ وہ مجھے پہلے سے ہی جانتے تھے۔ ۲۰۰۲ء میں انٹیلی جنس بیورو کے اسپیشل ڈائریکٹر کے بطور میرے گھر پر چھاپے، گرفتاری اور بعد میں تفتیش اور کیس کی قیادت ان کے سپرد تھی۔ خیر اجلاس دوبارہ شروع ہونے سے قبل اعلان ہوا کہ مذاکرہ کی دیگر نشستیں میڈیا کے لیے اوپن نہیں ہیں۔ اس لیے میڈیا سے وابستہ حضرات چلے جائیں۔ چند روز بعد معلوم ہوا، کہ انوج دھر کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اجلاس ختم ہوتے ہی دوول نے کمرے میں بلا کر میڈیا کو مدعو کرنے پر اس کی سرزنش کی۔ جب اس نے یاد دلایا، خود انہوں نے ہی وسط ایشیا سے دلچسپی رکھنے والے میڈیا سے وابستہ افراد کو مدعو کرنے کے لیے کہا تھا تو دوول نے سوال کیا کہ پوری دہلی میں مدعو کرنے کے لیے میڈیا میں صرف افتخار گیلانی ہی اس کو نظر آیا تھا؟ اس خطا کے لیے دھر کو نکال باہر کر دیا گیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہ نوجوان مصنف میرا اور دوول کا احسان مند ہے، کہ اس فاؤنڈیشن سے نکلنے کے بعد اس نے تحقیق میں اپنا وقت صَرف کرکے پے درپے سبھاش چندربوس پر دو شاہکار شائع کروا کے بھارت کی جنگِ آزادی کے کئی پہلوؤں سے پردہ اٹھا کر نام کمایا۔
پچھلے سال وزارتِ داخلہ کے احاطے میں دوول صاحب سے میں نے پوچھا کہ آیا ان کے پاس کشمیر میں عوامی غیض و غضب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کوئی نسخہ ہے؟ تو انہوں نے چھوٹتے ہی کہا کہ کشمیریوں اور پاکستان کو باور کرانے کا یہ پہلا موقع ہے کہ ان کا مطالبہ اور ان کی منزل ناقابلِ حصول ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سابق حکومتوں نے کشمیری راہنماؤں کی چاہے وہ حریت پسند ہوں یا بھارت نواز، ابھی تک صرف ناز برداری کی ہے۔ ان کو حقیقت کا ادراک نہیں کروایا ہے۔ بھارت میں جواہر لال نہرو کے ’’پنچ شیل‘‘ اور بعد میں اندرکمار گجرال کی ’’ڈاکٹرین‘‘ خارجہ پالیسی کے اہم عنصر رہے ہیں۔ گجرال ڈاکٹرین کے مطابق بھارت کو ایک بڑے ملک ہونے کے ناطے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرکے رعایت باہمی کا انتظار کیے بغیر خطے کے دیگر ممالک کو مراعات دینی چاہییں۔ مگر دوول ڈاکٹرین کی بنیاد دیگر ممالک خاص طور پر پاکستان کی کمزور رگوں یعنی بلوچستان اور گلگت بلتستان پر ہاتھ ڈال کر، اس کو کشمیر سے باز رکھنا ہے۔ ان کی ڈاکٹرین کا اہم جزو کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر کشمیر پر فورسز کے ذریعے بالادستی حاصل کروا کے، پاکستان اور کشمیری عوام کا ذہن تبدیل کروانا ہے۔ جس سے ایک طرف پاکستان تائب ہو جائے اور دوسری طرف کشمیریوں پر یہ واضح ہو کہ بھارت کے بغیر ان کا مستقبل کہیں اور نہیں ہے۔ اس ڈاکٹرین کا دوسرا جزو بھارت نواز کشمیر پارٹیوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سے متعلق ہے۔ اس کے مطابق یہ پارٹیاں بھی حق خوداختیاری، خودمختاری اور سیلف رول جیسے نعروں کے ذریعے کشمیری ذہنوں کو آلودہ کرتی ہیں اور حریت پسندی کو آکسیجن فراہم کرتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹرین کے مطابق ان پارٹیوں کو بھی یہ احساس دلانا ہے کہ وہ نئی دہلی کو بلیک میل کرنے اور سیاسی حل پیش کرکے اب اور سیاست نہیں کرسکتی ہیں اور ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح تعمیر اور ترقی کے ایشو کو لے کر ہی اب وہ کشمیر میں حکومت کرسکتی ہیں۔ سابق قومی سلامتی مشیر شیوشنکر مینن سے جب میں نے دوول ڈاکٹرین کے حوالے سے پوچھا، تو ان کا کہنا تھا کہ ایک پولیس مائنڈسیٹ ہے۔ ’’سیاسیات اور سفارتی امور کا ابتدائی طالب علم بھی یہ بتا سکتا ہے کہ کسی مزاحمت کو اگر آپ یہ باور کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی منزل ناقابل حصول ہے تو متبادل دینا بھی لازمی ہوتا ہے۔ ورنہ مایوسی کی دلدل میں ایک بڑی آبادی کو دھکیلنا مزید خطروں کو دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘۔
اپنے کیریئر کے دوران پنجاب میں سکھ انتہاپسندی سے نمٹنے اور اسلام آباد میں خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے انڈرکور ایجنٹ کے طور پر کئی سال کام کرنے کی وجہ سے دوول کا ہدف ہی پاکستان کو نیچا دکھانا ہے۔ بھارت کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب A Vultures of Feast میں انکشاف کیا ہے کہ جولائی ۲۰۰۵ء میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹر کے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹیلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت دوول بھی براجمان تھے۔ یہ واقعہ دبا دیا گیا، مگر معلوم ہوا کہ دوول ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر ایک آپریشن پر کام کررہے تھے، جس کا مقصد ۱۹۹۳ء کے ممبئی دھماکوں میں ملوث گینگسٹر داؤد ابراہیم کو ٹھکانے لگانا تھا۔ ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن سے قبل دوول نے انتہائی جرأت اور مہم جوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عبادت گاہ میں موجود سکھ انتہا پسندوں کے ٹھکانوں اور ان کی ملٹری استعداد کی بھرپور معلومات حاصل کی تھیں جس کے لیے ان کو اعلیٰ ایوارڈ ’’کیرتی چکر‘‘ سے نوازا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے یونٹ نے ایک وائرلیس میسج کو ڈی کوڈ کردیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا کوئی افسر گولڈن ٹیمپل میں انتہا پسندوں کی فوجی تنصیبات کا جائزہ لینے اور قلعہ بندی کرنے کا مشورہ دینے آرہا ہے۔ چونکہ یہ تقریباً طے تھا کہ بھارتی فوج اب کسی بھی وقت عبادت گاہ کے کمپلیکس پر چڑھائی کرنے والی ہے، دوول نے آئی ایس آئی کا ہی افسر بن کر عبادت گاہ تک رسائی حاصل کرکے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ریٹائرڈ میجر جنرل شہبیگ سنگھ سے اکال تخت میں ملاقات کرکے فوجی تیاریوں اور قلعہ بندیوں کا بھرپور جائزہ لے کر اور اس کا خاکہ ذہن میں بناکر باہر آگیا۔ ان کی اس مہم جوئی سے فوج کے لیے گولڈن ٹیمپل پر حملہ کرنے میں خاصی سہولت ہوگئی۔ فوج کو معلوم تھا کہ پانی کی ٹنکی کے اوپر اینٹی ایئرکرافٹ اور اینٹی ٹینک گن چھپی ہوئی ہے۔ اسی طرح کشمیر میں منحرف جنگجوؤں کو منظم کرکے اخوان کا قیام بھی ان کا کارنامہ ہے، جنہوں نے کشت و خون کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ نیوکلیئر دھماکوں کے بعد اٹل بہاری واجپائی نے ایک سفارتکار برجیش مشرا کو بھارت کا پہلا قومی سلامتی مشیر مقرر کیا جو ان کے پرنسپل سیکرٹری بھی تھے۔ اس کے بعد من موہن سنگھ نے اس عہدے کو بانٹ کر سفارت کار جے این ڈکشٹ اور انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ایم کے نارائنن کے حوالے کیا۔ ڈکشٹ کے انتقال کے بعد یہ عہدہ کلی طور پر نارائنن کے پاس آگیا، حالانکہ اس دور میں بھی نارائنن پر الزام تھا کہ وہ پولیس کی تنگ ذہنیت سے باہر نہیں آ پارہے ہیں۔ مگر من موہن سنگھ کے پاس چونکہ شیام سرن اور بعد میں شیوشنکر مینن جیسے زیرک سفارت کار سیکرٹری خارجہ کے طور پر موجود تھے اس لیے نارائنن اس حد تک حاوی نہیں ہوسکے جس طرح موجودہ حکومت میں دوول ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت وزیراعظم مودی کے پاس دوول اگر کمرے میں موجود ہوں تو کتنی ہی اشد ضرورت کیوں نہ ہو، حکم ہے کہ کوئی بھی کمرے میں نہیں آسکتا اور نہ ہی فون کے ذریعے وزیراعظم کا پرائیویٹ سیکرٹری ان کو کسی بھی طرح کی یاددہانی کراسکتا ہے۔ حکومت چلانے کے لیے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹیلی جنس میں تو درست ہے، مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مودی حکومت نے دوول ڈاکٹرین اپنا کر اپنے آپ کو ایک ایسی پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے جہاں اس کے پاس آپشن انتہائی محدود ہیں۔ پاکستان کے نزدیک کشمیری بھی قانونی فریق ہیں اور کشمیریوں کے ساتھ بات چیت کا عمل آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اس صورت حال میں بات چیت کی بحالی تقریباً ناممکن نظر آرہی ہے، کیونکہ جہاں نئی دہلی کے لیے سخت گیر موقف سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں وہاں پاکستان کے لیے کشمیر کے حوالے سے اختیار کردہ موقف سے پیچھے ہٹنا سیاسی اور سفارتی خودکشی سے تعبیر ہوگا۔ تعطل اور جمود کی یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، کیونکہ جب برصغیر کی ان دو جوہری طاقتوں کے درمیان کوئی رابطہ ہی نہ ہوگا تو اس کے نتیجے میں ماحول مزید کشیدہ بن جائے گا اور وہ کشیدگی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘کراچی۔ ۹ مئی ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply