پاکستان نے دنیا کے نقشے پر اپنے آپ کو ہر اعتبار سے ایک بے وقار اور بے اعتبار ملک ثابت کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ اپنے وجود کے اول روز سے ہی مراعات یافتہ طبقات کی حریصانہ نگاہوں کا اسیر ہو گیا جنھوں نے استعماری و استکباری طاقتوں کی مدد سے ملک کے مخلص رہنمائوں بشمول قائداعظمؒ کو اُن کے اپنے خوابوں کے مطابق پاکستان کی تعمیر کے منصوبے میں ناکام بنا دیا۔ رفتہ رفتہ اس ملک پر اغیار کی گرفت اس قدر مضبوط ہوئی کہ حکومت کا کوئی بھی شعبہ استعمار کی دست برد سے آزاد نہیں رہا، بالخصوص وزارتِ خارجہ اور مسلح افواج میں استعماری طاقتوں نے اس قدر اثر و نفوذ حاصل کر لیا کہ ان دونوں اداروں کا اپنے لیے کسی آزاد پالیسی کا تعین ایک ناممکن سی بات ہو کر رہ گئی۔ چنانچہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد پر پے در پے جو کاری ضربیں لگی ہیں، ان میں ان دو اداروں کی بنیادی کردار کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا ملک میں آج تک جو بھی نظامِ حکمرانی قائم ہوا، خواہ اس کی شکل ننگی مطلق العنانیت کی رہی ہو یا مطلق العنانیت کے ہاتھ کا کھلونا نام نہاد جمہوریت کی رہی ہو، وہ اپنی فطرت میں عوام دشمن اور اسلام دشمن ہی رہا۔ اس ملک میں مظلوم ترین شے اسلام ہی رہا ہے۔ بعید ہے کہ کوئی گروہ، ملک یا قوم اسلام کے ساتھ مخلص ہو اور وہ دنیا میں عز و شرف اور طاقت حاصل نہیں کر سکے لیکن اس کے باوجود کہ اس ملک میں حکومتی سطح سے لے کر عوامی سطح تک اسلام بحیثیتِ نعرہ زبان زدِ عام رہا۔ پاکستانی قوم کی داخلی و بیرونی، ہر محاذ پر رسوائی یہ ثابت کرتی ہے کہ اسلام کے ساتھ کسی بھی سطح پر حقیقی اخلاص کا مظاہرہ نہیں کیا گیا بلکہ اسے اپنے سیاسی اور دیگری مادی مفادات کی تکمیل کے لیے محض بطور ہتھکنڈہ استعمال کیا گیا ہے۔
اسلام توحید کا علمبردار ہے اور توحید کی فطرت ہے کہ وہ منقسم لوگوں میں اتحاد و وحدت پیدا کر کے انھیں ہم آہنگ کرتا ہے۔ تفاہمِ باہمی، بقائے باہمی اور ہم زیستگی کے اصول کو تقویت بہم پہنچاتا ہے نیز معنویت پر مبنی ایک ایسے کلچر کو فروغ دیتا ہے جس کی پاکیزگی اپنے دشمنوں تک کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ لیکن ہمارے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ آخر اسلام جہاں مختلف طبقات میں ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کرنے میں کیوں ناکام رہا؟ یہاں اسلام اورجہاد کو عنوان بنا کر مختلف دھڑے بندیاں ہوئیں اور ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے نعرے بھی بلند ہوئے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہاں ایسے مسائل کے حل کے لیے کبھی بھی حقیقی اسلام سے مدد نہیں چاہی گئی بلکہ اپنے مفاد پرستانہ اہداف کے لیے ہم نے محض اسلام کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا۔ پھر اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا، ۶۰ سال بعد بھی ہم اس لائق نہ ہو سکے کہ ہم زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنے مستحکم اصول یا پالیسی طے کریں۔ معاملہ خواہ داخلی سیاست کا ہو یا بین الاقوامی سیاست کا، معاشرتی و تعلیمی نظام کا ہو یا اقتصاد و معیشت کا، ہر جگہ Adhocism نظر آتا ہے۔ استقلال و پائیداری ہمیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ البتہ صرف انتشار اور طوائف الملوکی میں پائیداری ضرور نظر آتی ہے۔
کشمیر و افغانستان ہماری خارجہ پالیسی کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے تھے۔ بجائے اس کے کہ ہماری حکومت اپنی خارجہ پالیسی میں پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتی، اس مسئلے کو اسلام اور کفر کا مسئلہ بنا کر عوام کے بیچ لے آئی۔ پھر ان کے دینی جذبات کو ابھار کر ان دونوں محاذوں پر اُن کو عسکری قوت کے طور پر استعمال کیا گیا جبکہ ہماری مسلح افواج پوری توانائی کے ساتھ اپنا وجود رکھتی تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن نوجوانوں کو ملک کی داخلی سیاست اور معاشرتی مسائل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا، وہ عسکری محاذوں پر جارہے ہیں اور مسلح افواج جنھیں محاذوں پر سرگرم رہنا چاہیے تھا، وہ داخلی طور پر بہت سرگرم نظر آرہے ہیں یا خارجہ پالیسی کو ایک خاص رُخ دینے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بلاشبہ اس سارے ڈیولپمنٹ میں عوامی دینی و سیاسی تنظیموں کے قصور کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جنھوں نے اپنے کارکنوں کے سیاسی شعور کو بیدا رکرنے کی کماحقہٗ کوشش نہیں کی جس کے سبب اس کے ذہنی جذبات کا استحصال ممکن ہو سکا۔ اس سارے ناخوشگوار ڈیولپمنٹ کے ناگوار اثرات کا خمیازہ بے چارے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر پاکستان کی عالمی سطح پر رسوائی یا پسپائی ہوئی ہے تو دکھ انھیں ہوتا ہے، کرب و اضطراب کے وہ شکار ہوتے ہیں، یاس و قنوطیت انھیں گھیرے میں لے لیتی ہے۔ ملک مشکل میں ہوتا ہے تو اس کی مشکل کا براہِ راست اثر عوام پر پڑتا ہے، اقتصادی مشکلات کی صورت میں قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں، عوام کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ سیاسی انتشار اور محاذ آرائی کی صورت میں محاذ آراء گروہ کی گولیوں کا نشانہ بے گناہ اور راہ چلتے عوام کو بنایا جاتا ہے، اقتصاد عوام کا تباہ ہوتا ہے، تعلیم ان کی متاثر ہوتی ہے۔
راقم کی نظر میں یہ سارا قبضہ جس میں کراچی آگ و خون میں نہا گیا، دو گروہ کے درمیان Power Struggle کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک گروہ کی سرخیل بے نظیر صاحبہ ہیں اور دوسرے گروہ کے سرخیل صدر پرویز مشرف ہیں۔ پرویز مشرف نے امریکا، یورپ اور بھارت کو یہ باور کرا دیا کہ ہم اسلامی انتہا پسندی کے دشمن ہیں، لبرل اپروچ کے علمبردار ہیں۔ افغانستان اور کشمیر پالیسی پر اپنے رویے میں تبدیلی کے اظہار کو پرویز مشرف مغرب اور بھارت کے سامنے عملی ثبوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں جبکہ بے نظیر صاحبہ مغرب اور بھارت میں اپنی شٹل ڈپلومیسی کے ذریعہ ان قوتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ میں یہ کام پاکستان میں بہتر طور پر انجام دے سکتی ہوں۔ وہ پرویز مشرف کی جانب سے اسلامی انتہا پسند عناصر کے خلاف کارروائی کو مصنوعی ثابت کر رہی ہیں۔ ان عناصر کی درپردہ پشت پناہی کا اُن پر الزام لگا رہی ہیں۔ مزید برآں وہ مغربی ممالک اور بھارت کو پرویز مشرف جیسے مطلق العنان حکمرانوں کو recognition دینے پر حیرت کا اظہار کر رہی ہیں اور یوں انھیں دبائو میں لے رہی ہیں۔ موصوفہ کا ان قوتوں سے کہنا ہے کہ وہ یہ سارے کام Democratic Legitimacy کے ساتھ کر سکتی ہیں۔ امریکا، مغرب یا بھارت کلی طور سے پرویز مشرف کی مخالفت کو afford نہیں کر سکتے ہیں البتہ وہ پاکستان میں اپنے عوامی اثر و رسوخ کو پرویز مشرف کے خلاف استعمال کرنے کا کوئی زبردست مظاہرہ کرتی ہیں تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ان قوتوں نے اس صورت میں موصوفہ کی درپردہ حوصلہ افزائی کو مسترد نہیں کیا ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کے حوالے سے بے نظیر کے بیانات محض ایک کنفیوژن پیدا کرنے کی غرض سے ہیں، ورنہ صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ بے نظیر کو اس مہم میں عدلیہ کے کچھ عناصر کی حمایت بھی حاصل ہے جس میں سرِ فہرست افتخار محمد چوہدری ہیں، اعتزاز احسن کا ان کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ چپکا ہونا اس کا واضح ثبوت ہے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھی اس Move پر متفق معلوم ہوتے ہیں۔ نواز شریف نے بے نظیر کی صدر پرویز کے ساتھ ڈیل پر جو تشویش کا اظہار کیا ہے وہ بھی محض پرویز مشرف کے خلاف اپوزیشن کی حکمتِ عملی سے لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ اسی لیے نواز شریف نے بلاتاخیر یہ بات کہی کہ بی بی نے پرویز مشرف سے کوئی ڈیل نہ کیے جانے کے حوالے سے مجھے یقین دہانی کرائی ہے۔
بے نظیر کے اقتدار میں آنے کی صورت میں ایم کیو ایم پر اُفتاد آجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم اس وقت پوری طاقت سے صدر پرویز مشرف کی حمایت میں سامنے آگئی اور چوہدری افتخار کے استقبال کی صورت میں اپوزیشن کی عوامی طاقت کا جو اظہار ہونا تھا، اسے سبوتاژ کرنے میں ایم کیو ایم نے کوئی دقیقہ فروگذاشت کرنا مناسب نہ جانا، حالات بتاتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی اس حکمتِ عملی کو پرویز مشرف کی صد فیصد حمایت حاصل تھی۔ بہرحال اقتدار کی اس کشمکش نے چالیس سے زائد لوگوں کے خون کا نذرانہ لیا ہے اور اس کے نتیجے میں سیکڑوں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ فوج اور اس کے حکومتی حلیف نے کراچی کے لوگوں پر بالخصوص اور ملک کے دوسرے لوگوں پر بالعموم دہشت بٹھا کر یہ تاثر دیا ہے کہ حکومت کے خلاف کسی مہم کا ایسا ہی سنگین نتیجہ نکلتا ہے۔ بہرحال ایک بات پاکستان کے حکمراں طبقے یا مراعات یافتہ طبقے کو ضرور سمجھ لینا چاہیے، وہ یہ کہ عالمی حالات اب جس رُخ پر جارہے ہیں، کچھ عرصے بعد ایسے طبقات کے لیے نراج (Anarchy) سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہے گا چنانچہ بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں اور اپنی سیاست کو اخلاقی قدروں کا پابند بنائیں۔ انسانی جانوں کا احترام کریں اور حکومت و عوام کے مابین موجود اجنبیت اور تفاوت کو دور کریں اور یہ ایک عادلانہ، منصفانہ نظام کے قیام کے ذریعہ ہی ممکن ہے جسے ہم جیسے مسلم ملک میں اسلام کے معنوی و روحانی اَقدار پر مبنی ہونا چاہیے۔ اگر انھوں نے اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں کی تو وہ دن دور نہیں جب وہ اپنی بداعمالیوں کے سنگین نتائج کا ازخود مشاہدہ کریں گے۔
{}{}{}
Leave a Reply