
یہ مہینہ فروری کا اور سال ۱۹۷۲ء کا تھا۔ مشہور اطالوی صحافی خاتون آریانہ فلاسی ڈھاکا میں ایک سیاسی رہنما کا انٹرویو کرنے اُس کے گھر پہنچی تو برآمدے میں ۵۰؍افراد کھڑے تھے۔ اُن لوگوں کو دیکھ کر آریانہ نے کہا کہ ’’میرے آنے کی اطلاع اندر کیجیے‘‘۔ اِس درخواست کے جواب میں وہاں کھڑے ایک آدمی نے نہایت غصیلے اور درشت، بلکہ خوف ناک انداز میں غرّاتے ہوئے کہا ’’انتظار کرو‘‘۔ ’’حکم‘‘ سنتے ہی آریانہ انتظار میں بیٹھ گئی، جس کے بعد وقت لمحہ لمحہ گزرنے لگا۔ ایک، دو، تین گھنٹے گزر گئے، یہاں تک کہ رات ساڑھے آٹھ بجے آریانہ کو سیاسی رہنما کے کمرے میں جانے کی اجازت ملی۔
کمرے میں ایک آرام دہ صوفہ اور دو کرسیاں پڑی تھیں۔ سیاسی رہنما نہایت بے ڈھنگے انداز میں ٹانگیں پسارے صوفے پر قابض تھا، جبکہ باقی دونوں کرسیوں پر موٹی توند والے دو سیاستدان دھنسے ہوئے تھے، جو غالباً وزیر تھے۔ آریانہ اندر داخل ہوئی تو کسی نے کوئی سلام کیا نہ ہی آریانہ کی آمد کا کوئی نوٹس لیا۔ آریانہ حیران و گم سم کھڑی تھی کہ اچانک موٹے عدسوں والی عینک پہنے سیاسی رہنما نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’بیٹھ جاؤ‘‘ جس پر آریانہ اُس رہنما کے صوفے کے ایک سرے پر دبک کر بیٹھ گئی اور تیزی سے اپنے ریکارڈر کو متحرک کرنے لگی۔ ابھی آریانہ نے بمشکل ریکارڈر کا بٹن دبایا ہی تھا کہ سیاسی رہنما نے گرج دار آواز میں آریانہ سے کہا ’’جلدی کرو، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ہاں! پاکستانیوں نے ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو مارا ہے اور یہی سچ ہے۔ ۳۰ لاکھ، ۳۰ لاکھ، ۳۰لاکھ‘‘۔ آریانہ حیران تھی کہ یہ سیاسی رہنما کس طرح ۳۰ لاکھ انسانوں کے مارے جانے کے اعداد و شمار تک پہنچا ہے؟
آریانہ نے ٹوکنا چاہا ’’جناب وزیر اعظم!‘‘ مگر وہ کوئی بات سننے کے بجائے پھر گرج دار آواز میں دھاڑنے لگا۔ ’’اُنہوں نے ہماری عورتیں، اُن کے شوہروں کے سامنے ماری ہیں۔ شوہر، بیٹوں اور بیویوں کے سامنے مارے ہیں۔ دادا اور نانا، اپنے پوتوں اور نواسوں کے سامنے۔ چچیاں، چچوں کے سامنے۔‘‘ آریانہ نے ایک بار پھر ٹوک کر سوال کرنے کی کوشش کی ’’جناب وزیر اعظم۔۔۔ میں چاہوں گی۔۔۔!‘‘
مگر سیاسی رہنما آریانہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اُسی بپھرے انداز میں وزیروں کی طرف رُخ کرتے ہوئے بولا ’’اِس کو سنو، یہ کیا چاہتی ہے؟ تمہیں کوئی حق نہیں چاہنے کا۔۔۔ ’سمجھی‘۔ جو میں کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے‘‘۔
بپھرے ہوئے انداز میں سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران پاکستانی فوج کے ہاتھوں ۳۰ لاکھ بنگالیوں کے قتلِ عام کا منفی، لغو اور زہریلا پراپیگنڈا کرنے والا یہ سیاستدان کوئی اور نہیں بلکہ خود ساختہ بنگلا بندھو، شیخ مجیب الرحمن تھا، جو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بنگلادیش کا وزیراعظم بن چکا تھا۔
پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بنگلا دیش میں شیخ مجیب اور اُس کی عوامی لیگ نے پاکستان، پاک فوج اور بھارتی مداخلت کے دوران پاکستان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف، اِس قدر منفی پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ خود پراپیگنڈا کرنے والوں کو سمجھ نہ آئی کہ کہاں، کب اور کتنا جھوٹ بولنا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ مجیب اور سانحہ مشرقی پاکستان کے اہم اور بڑے کرداروں نے الزام لگایا کہ پاکستانی فوج نے لاکھوں بنگالیوں کا قتلِ عام اور ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی۔ یہ الزام لگانے والے بڑے کرداروں کے اپنے اعداد و شمار میں اتنا فرق تھا کہ یہ الزام سرے سے ہی جھوٹا اور لغو دکھائی دیتا ہے۔
ایک جانب شیخ مجیب الرحمن ۳۰ لاکھ بنگالیوں کا واویلہ مچا رہا تھا جبکہ دوسری جانب ۷ جنوری ۱۹۷۲ء کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے بنگلا دیش کے وزیر اطلاعات شیخ عبدالعزیز کے حوالے سے کلکتہ سے اعلان کیاکہ ’’۱۰؍لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں‘‘۔ یہی نہیں بلکہ بنگالی شاعر اسد چودھری کی نظم ’’رپورٹ ۱۹۷۲ء‘‘ اُن تمام واقعات کی تفصیل پر مبنی قرار دی جانے لگی، جس میں دعویٰ کیا کہ ’’ہمیں آزادی کے لیے ۱۰؍لاکھ شہیدوں کا لہو دینا اور ۴۰ ہزار عورتوں کی عزت قربان کرنا پڑی‘‘۔
اسی طرح بھارتی جنرل مانک شا کا کہنا تھا کہ ’’مشرقی محاذ کے بھارتی کمانڈر، جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے مطابق پاکستانی فوج نے ۱۰؍لاکھ افراد کو مارا۔ لیکن جہاں تک شیخ مجیب کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ ۳۰ لاکھ لوگ مارے گئے، یہ ایک ناممکن سی بات لگتی ہے‘‘۔ اس سے قبل بنگلا دیش کی تخلیق کے ایک اہم کردارمیجر جنرل ڈی کے پیلٹ نے بھی ۱۰؍لاکھ کا عدد دہرایا حالانکہ وہ کوئی تائیدی ثبوت پیش نہ کرسکا۔ اس کے علاوہ سانحہ مشرقی پاکستان کے اہم کردار تینوں بھارتی جرنیلوں یعنی مانک، اروڑا اور پیلٹ نے پاکستانی فوج پر قتل و غارت کا الزام لگاتے ہوئے صرف دو لفظوں کا سہارا لیا ہے۔ اول یہ کہا کہ ’’جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘‘ اور دوم یہ کہ ’’مجیب نے کہا‘‘۔ اس کے علاوہ ان کے پاس ’’دس لاکھ‘‘ کا بھی کوئی ثبوت نہ تھا۔
بنگالی مورخ ڈاکٹر عبدالمومن چودھری کے مطابق ’’۳۰ لاکھ کے افسانے کو وضع کرنے کے پیچھے دراصل روزنامہ ’’پوربو دیش‘‘ ڈھاکا کے مدیر احتشام حیدر چودھری اور اشتراکی روس کے سرکاری اخبار روزنامہ ’’پراودا‘‘ ماسکو کا دہلی میں متعین نمائندہ تھے۔ ’’پوربو دیش‘‘ میں احتشام حیدر نے ۲۲ دسمبر ۱۹۷۱ء کو اداریہ ’’یحییٰ حکومت کو پھانسی دو‘‘ میں لکھا کہ ’’پاکستانی فوج نے ۳۰ لاکھ بنگالی اور دوسو دانشور مارے‘‘ حالانکہ اُسی اخبار نے صرف ایک روز قبل ۲۱ دسمبر ۱۹۷۱ء کو آٹھ کالم پر مشتمل ایک فیچر میں یہ عنوان جمایا تھاکہ ’’بنگال کے کتنے لوگ مارے گئے؟ فیچر میں یہ بحث کی گئی کہ ’’بنگال میں ہر جگہ یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ کتنے لوگ قتل ہوئے، ۱۰، ۲۰، ۳۰، ۴۰ یا ۵۰ لاکھ؟‘‘لیکن کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے، لوگوں کو اس کا جواب چاہیے اور ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا‘‘۔
یہ سرخی جمانے کے بارہ گھنٹے بعد ہی اُس پروپیگنڈا ماسٹر نے اپنے سوال کی ’’تلاش و تحقیق‘‘ مکمل کرلی اور اگلے روز اِسی اخبار نے جواب دیا کہ ’’۳۰ لاکھ سے کم نہیں‘‘۔ پھر اس خبر کو ’’پراودا‘‘ کا خصوصی نمائندہ دہلی اپنے مرکز ماسکو بھیجتا ہے، جہاں خبر اس طرح شائع ہوتی ہے کہ ’’۳۰ لاکھ سے زیادہ‘‘ اور پھر ’’پراودا‘‘ کے حوالے سے ۵ جنوری کو ڈھاکا اور دہلی کے اخباروں میں خبر شائع کی جاتی ہے کہ ۳۰ لاکھ سے زیادہ بنگالیوں اور ۸۰۰ بنگالی دانشوروں کو مارا گیا‘‘۔ اُدھر پاکستان سے رہا ہونے کے بعد ۱۰؍جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب نے ڈھاکا ایئر پورٹ پر اترتے وقت پورے طمطراق سے یہ اعلان کردیا کہ ’’پاکستانیوں کے ہاتھوں ۳۵ لاکھ بنگالی مارے گئے اور تین لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی گئی‘‘۔ لیکن یہ جھوٹ زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور بعد میں اِس جھوٹے پروپیگنڈے کو خود بنگالیوں نے ہی مسترد کرنا شروع کر دیا۔
مثال کے طور پر جون ۱۹۹۳ء میں بنگلادیش کی قومی اسمبلی میں جنرل ضیاء الرحمن کے وزیر کرنل اکبر حسین نے بتایا کہ ’’بنگلا دیش بننے کے بعد حکومت نے ا علان کیا تھا کہ جس گھرانے کا کوئی فرد بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے یا لاپتا ہوا ہے، وہ گھرانہ متعلقہ فرد کا نام پتا بتا کر دو ہزار ٹکے (بنگالی کرنسی) بطور امداد وصول کر لے۔ اس اپیل کے جواب میں پورے بنگلا دیش سے صرف تین لاکھ افراد نے نام درج کرائے، کہاں گئے مارے جانے والے ۳۰ لاکھ کے لواحقین؟‘‘ کرنل اکبر حسین کے اس سوال پر پورے ایوان میں خاموشی چھا گئی۔
قارئین کرام! مجیب نے جھوٹے اور زہریلے پرپیگنڈے سے جو آلودگی پھیلائی تھی، وہ چار دہائیوں تک بنگالیوں کے ذہنوں کو مسموم کرتی رہی ہے۔ یہی منفی اور زہریلا پراپیگنڈا بعد میں متعصب دانشوروں کی تحقیق کیلئے ’’مستند‘‘ مواد بھی کہلایا اور اِسی ’’مستند‘‘ تاریخ کا زہر پلاکر بنگلا دیش کی نئی نسل کو جوان کیا گیا۔ اس تاریخ کو مزید مستند ثابت کرنے کیلئے بنگلا دیش میں عوامی لیگ کی حکومت، سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران پاکستان کے ساتھ کھڑا رہنے والوں کو پھانسی چڑھائے چلی جا رہی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ ۴۵ سال بعد بھی عوامی لیگ کیا کر رہی ہے؟ بلکہ سوال تو یہ ہے کہ پاکستان اپنے ’’شہدا‘‘ کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟ پاکستان کیوں عبدالقادر مُلّا سے لے کر مطیع الرحمن نظامی تک پھانسی پانے والے شہداء کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے کر نہیں جاتا؟ ہر سال ۱۶؍دسمبر کو پاکستان میں سانحہ مشرقی پاکستان کے مجرموں کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ خان ہی پاکستان توڑنے کے مجرم نہیں ہیں بلکہ ۴۵ سال پہلے متحدہ پاکستان کے دو لخت ہونے پر چپ سادھنے والے اور اب جماعت اسلامی بنگلادیش کے رہنماؤں کی پھانسیوں پر جو خاموش ہے، وہ سب پاکستان کے مجرم ہیں!!
(بشکریہ: رونامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور۔ ۱۲؍مئی ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply