پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے۔ یہ تعداد جنوبی ایشیا کے کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے ابتدائی مرحلے میں صوبوں نے اپنے طور پر اقدامات کیے۔ صوبوں نے لاک ڈاؤن مختلف درجات میں نافذ کیا ہے۔
ایران سے آنے والے زائرین کو الگ تھلگ رکھنے کے حوالے سے کوتاہی کا ارتکاب کیا گیا۔ وزیر اعظم بھی اس حوالے سے تذبذب کا شکار رہے ہیں۔ سعودی عرب سمیت بیشتر مسلم ممالک نے باجماعت نماز پر پابندی عائد کی مگر پاکستان میں اس حوالے سے نیم دلانہ فیصلے کیے گئے ہیں اور وہ بھی خاصی تاخیر سے۔ ایک بنیادی حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں صحتِ عامہ کی وزارت اور نجی اسپتال اس وبا سے نمٹنے کی خاطر خواہ اہلیت کے حامل نہیں۔ غیر معمولی بیماریوں یا وباؤں سے نمٹنے کی صلاحیت پاکستان کے شعبۂ صحت سے متعلق اداروں میں برائے نام ہے۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں میں ایک ڈاکٹر بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر اور پیرا میڈکس شدید خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں کیونکہ اُنہیں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے دوران محفوظ رکھنے والا سامان (لباس، کٹ وغیرہ) بھی میسر نہیں۔
پاکستان میں صحتِ عامہ کے حوالے سے بنیادی ڈھانچا چونکہ انتہائی خراب حالت میں ہے اس لیے اگر یہاں کورونا وائرس کی وبا نے زور پکڑا تو انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ سیاسی سطح پر کوتاہیوں کا ارتکاب ہوا ہے۔ فوج نے ہمیشہ کی طرح اپنی مہارت ثابت کی ہے۔ وہ اس کا بعد میں بھی فائدہ اٹھاتی اور صِلا پاتی رہے گی۔
کورونا وائرس چین کے شہر ووہان سے پھیلا۔ اس حقیقت کے بے نقاب ہوتے ہی باقی دنیا نے چین سے تعلق ختم کرنا شروع کیا۔ بہت سے ممالک نے چین سے طلبہ سمیت اپنے شہریوں کو نکالنے کو ترجیح دی۔ یہ بہت حد تک چین سے امتیازی سلوک تھا۔ ایسے میں پاکستان نے اُس کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا اور اپنے ۸۰۰ طلبہ کو وہاں سے نہیں نکالا۔ یہ بھرپور دوستی اور یکجہتی کا ثبوت تھا۔
پاکستان میں کورونا وائرس بظاہر اُن زائرین کے ہاتھوں پھیلا جو ایران سے واپس آئے تھے۔ ابتدائی مرحلے میں اُنہیں خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی، الگ تھلگ نہیں رکھا گیا۔ جب معاملہ بگڑ گیا تب یعنی ۱۳ مارچ کو سخت تر اقدامات کیے گئے۔ یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے میں کچھ غلطی ہوگئی ہے۔ بہر کیف، ایران اور افغانستان سے ملحق سرحد بند کردی گئی۔ تعلیمی اداروں کو بھی بند کردیا گیا۔ وفاقی حکومت نے خصوصی رابطہ کمیٹی قائم کی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ادارے (پی ڈی ایم اے) کو بھی الرٹ کردیا گیا ہے۔ مزید سخت اقدامات بھی خارج از امکان نہیں۔
حکومت نے تبلیغی جماعت والوں پر بھی زور ڈالا کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو معطل یا محدود کردیں۔ جب کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورتِ حال خاصی کشیدہ ہوچکی تھی تب بھی تبلیغی جماعت کا اجتماع ہوا جس میں کم و بیش ڈیڑھ لاکھ افراد نے شرکت کی۔ یہ ۱۲ مارچ کی صورتِ حال تھی۔ اس کے بعد لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگائی گئی مگر شاید تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
ایران سے آنے والوں کو ۱۳ مارچ کے بعد قرنطینہ میں رکھا جانے لگا۔ تفتان میں اس حوالے سے سہولتیں برائے نام تھیں۔ قرنطینہ کا یہ حال تھا کہ وہاں رکھے جانے والے لوگوں کو مقامی بازار تک جانے اور وہاں سے ضرورت کی اشیا خرید لانے کی اجازت بھی دی جاتی تھی۔ نہ تو ٹیسٹ کیے گئے اور نہ ڈھنگ سے الگ تھلگ رکھا گیا۔ بظاہر حفاظتی تدابیر اختیار کیے بغیر ہی اُنہیں گھر جانے کی اجازت بھی دی گئی۔ صوبائی حکومتوں نے ایران سے واپس آنے والوں کی اسکریننگ اپنے طور پر اور اپنے وسائل سے شروع کی۔ جن کے ٹیسٹ مثبت آئے انہیں قرنطینہ میں ڈال دیا گیا۔ ایران سے واپس آنے والوں میں سے اب تک ۶۰۰ سے زائد افراد میں کورونا وائرس پایا گیا ہے۔ ایران سے آنے والے بعض زائرین نے قرنطینہ سے بھاگنے کی کوشش بھی کی ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے ہاتھوں پہلی موت ایک ایسے شخص کی ہوئی جو ۹ مارچ کو سعودی عرب سے واپس آیا تھا اور مبینہ طور پر کورونا وائرس کا شکار ہوچکا تھا۔ عمرے سے واپسی پر گاؤں میں اُس کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں کم و بیش دو ہزار افراد شریک ہوئے۔ لوگوں نے اُسے گلے لگاکر مبارک باد دی۔ ۱۶؍ مارچ کو ڈاکٹروں نے چیک اپ کے بعد اُسے الگ تھلگ رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس مشورے پر اُس نے عمل نہ کیا اور گھر واپس چلا گیا۔ ۱۸؍ مارچ کو اس کا انتقال ہوا۔ انتظامیہ نے پورے گاؤں کو سیل کرکے قرنطینہ میں تبدیل کردیا ہے۔
پاکستان میں گھرانے بڑے ہیں یعنی ایک گھر میں بالعموم تین تا پانچ بچے ہیں۔ میل جول بھی زیادہ ہے۔ ایسے میں قرنطینہ کے اصول پر پوری طرح عمل کرانا انتہائی دشوار ہے۔ کورونا وائرس کی وبا اگر پاکستان میں جوبن تک پہنچی تو انتہائی خطرناک صورتِ حال پیدا ہوگی۔
٭ عمران خان کی حدود
عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘۔ یہ جملہ سوشل میڈیا پر بہت چلایا گیا ہے۔ عمران خان نے لاک ڈاؤن سے انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یومیہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے غریب محنت کش لاک ڈاؤن کے نتیجے میں مکمل بے روزگار ہوجائیں گے۔ ایسی حالت میں معیشت کا بگاڑ بڑھے گا۔ انہوں نے کورونا وائرس سے بچاؤ کی ایک اہم تدبیر کے طور پر اہل وطن کو مشورہ دیا کہ ایک دوسرے سے دور رہیں۔ وہ اپنے خطاب کے دوران قوم کو یہ یقین دلانے میں ناکام رہے کہ کورونا وائرس انتہائی خطرناک وبا ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کو بعض امور میں اختیارات مل گئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ صوبائی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ اپنے طور پر کیا۔ سندھ نے ۲۳ مارچ کو لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا۔ سب اپنے اپنے طور پر کام کر رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے فوج سے مدد طلب کیا ہے۔
پاکستان نے پہلے مرحلے میں بیرونی پروازیں بند کیں اور پھر اندرونی پروازوں پر بھی تاحکم ثانی پابندی عائد کردی۔ یہ سب کچھ درست مگر عمران خان اب تک لاک ڈاؤن کے اعلان سے گریزاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کردیا تو وائرس کے مقابلے میں بھوک سے زیادہ لوگ مریں گے۔ عمران خان بظاہر نہیں چاہتے کہ عوام کے لیے پریشانی کا باعث بننے والے فیصلے کریں۔ انہوں نے ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کے امدادی پیکیج کا اعلان بھی کیا ہے۔ انہوں نے میڈیا کا سامنا بھی کیا ہے تاہم اب تک بھرپور سنجیدگی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے کرفیو نافذ کرنے کی تجویز بھی مسترد کردی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے کورونا وائرس کی نوعیت اور اثرات کے بارے میں غلط تصور قائم کرلیا ہے۔ اگر وبا پھیلی تو لاک ڈاؤن سے کہیں زیادہ پریشان کن صورتِ حال پیدا ہوگی اور ہلاکتوں کا گراف بھی بلند ہوجائے گا۔ عمران خان کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں ناکامی ہوئی تو پبلک ہیلتھ سسٹم پر شدید دباؤ پڑے گا۔ پاکستان کا پبلک ہیلتھ سسٹم اتنا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔ پاکستانی وزیر اعظم کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ کسی کی سنتے بھی نہیں اور ذہن بھی تبدیل نہیں کرتے۔
عمران خان بظاہر بحرانی کیفیت سے نمٹنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ توقع کرنی چاہیے کہ وہ جلد اپنا ذہن تبدیل کریں گے اور لاک ڈاؤن کی طرف جائیں گے۔ فوج ایسی صورتِ حال سے استفادہ کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ ملک کے معاملات پر اس کا تصرف بھی بڑھے گا اور اس کی مقبولیت بھی بڑھے گی۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۳ مارچ کو آئی ایس پی آر کے سربراہ نے پریس کانفرنس کی جس میں ان کا لہجہ ’’وزیر اعظمانہ‘‘ تھا۔ یہ پریس کانفرنس بظاہر وزیراعظم کے خیالات کے مقابل دوسری رائے پیش کرنے کے لیے تھی۔ اب اپوزیشن بھی ملک گیر لاک ڈاؤن کے نفاذ کا مطالبہ کر رہی ہے۔
٭ مذہبی معاملات
کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت نے باجماعت نماز اور نماز جمعہ پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ اس معاملے میں حکومت اور علمائے کرام دونوں کی طرف سے تذبذب کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ علمائے کرام کی طرف سے ردعمل کے خوف سے حکومت نے مساجد بند کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ لوگ بھی مساجد کا رخ کرتے رہے۔ ایک طرف تو یہ بات ہے کہ لوگوں کے نزدیک یہ اللہ سے رجوع کرنے کا وقت ہے اور دوسری طرف لوگوں نے یہ بھی سوچا ہے کہ جب حکومت نے مساجد بند نہیں کیں تو شاید کورونا وائرس کا خطرہ بہت بڑا نہیں ہے۔ علماکرام سے مشاورت کے بعد ۲۶ مارچ کو سندھ حکومت نے اعلان کیا کہ لوگ نماز جمعہ کے بجائے گھروں پر ظہر کی نماز پڑھیں تاہم مساجد کو تالا نہیں لگایا جائے گا۔ باجماعت نماز کو پانچ افراد تک محدود کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔
٭ چین کی انٹری
پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ۱۶ اور ۱۷ مارچ کو چین کا دورہ کیا۔ انہوں نے پاکستان میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے واقعات کو دیکھتے ہوئے چین سے مدد چاہی۔ چین نے ۱۰ لاکھ ماسک عطیہ کیے ہیں۔ علاوہ ازیں چین سے آلات اور کٹس بھی آئی ہیں۔
٭ لاک ڈاؤن کی ضرورت
اگر وفاق نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو پولیس اور رینجرز سے مدد لینا پڑے گی۔ فوج سے مدد لیے بغیر بھی چارہ نہ ہوگا۔ یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں لاک ڈاؤن پر زیادہ عمل کرانا ممکن نہ ہوگا۔ شہروں کے گنجان آباد علاقوں میں بھی یہی کیفیت ہوگی۔ پاکستان کی آبادی میں ۶۴ فیصد ایسے ہیں جن کی عمر ۳۰ سال سے کم ہے۔ کورونا وائرس سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت پاکستانیوں میں زیادہ ہے تاہم اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان بھی اس وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ وزیر اعظم کو مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ لوگ الجھ گئے ہیں۔ ۲۶ مارچ کو وفاقی حکومت کی پریس کانفرنس میں عمران خان نہیں تھے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر میڈیا کے سامنے آئے۔ عمران خان کے لیے مشورہ ہے کہ معجزے کا انتظار نہ کیا جائے، مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جائے۔ لاک ڈاؤن کا متبادل ایسی خرابی ہے جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔
(ترجمہ محمد ابراہیم خان)
“Pakistan teeters on the edge of potential disaster with the coronavirus”. (“brooking.edu”. March 27, 2020)
Leave a Reply