پاکستان میں جمہوریت فوجی آمریت کے مختلف ادوار کے درمیان وقفہ متعارف کرانے کی غرض سے لائی گئی ہے۔ محسوس تو یوں ہی ہوتا ہے۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سے اقتدار کا پلڑا افواج کی جانب جھکتا چلا گیا۔ ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۷ء تک حالت یہ تھی کہ بھارت میں وزیراعظم ایک رہا اور آرمی چیف کئی تبدیل ہوئے۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان میں ایک آرمی چیف کے تحت کئی وزرائے اعظم آئے اور گئے۔
فوجی آمروں نے اپنی ضرورت اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے آئین میں جی بھر کے ترامیم کیں۔ ان ترامیم سے ریاست کو چلانے والا بنیادی قانونی ڈھانچہ ہی تہس نہس ہو گیا۔ اشرافیہ دن بہ دن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی اور عوام کو کچھ بھی نہ مل سکا۔ فوجی حکومتوں کی مرتب کی ہوئی پالیسیوں نے دہشت گردی اور بدنظمی کو ہوا دی۔ حالات کی خرابی سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، معیشت دیوالیہ پن سے دوچار ہوئی اور دکھ کی بات یہ ہے کہ فوجی حکومت کے ہاتھوں مسائل سے دوچار ہونے کے بعد لوگ پھر فوج کا سیاست میں خیر مقدم کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت جمہوریت کا راگ الاپتی ہے تاہم حقیقی جمہوریت کوعام کرنے اور اسے ادارے کی شکل دینے کے لیے کوئی تیار اور سنجیدہ نہیں۔ ہندوستان پر انگریزوں نے جس طرح حکومت کی اس کا کچھ کچھ انداز اب بھی پاکستانی حکمرانوں میں جھلکتا ہے۔ وہ عوام کو بھیڑ بکری ہی سمجھتے ہیں۔ حکمرانوں کی بنیادی ذہنیت وہی سامراجی نوعیت ہے۔
قیام پاکستان کو ۶۳ سال ہو چکے ہیں مگر اب تک جاگیردارانہ، قبائلی اور پنچایتی نظام سے جان نہیں چھڑائی جاسکی۔ جاگیردارانہ نظام نے ایک طرف جمہوریت کے پنپنے کی گنجائش ختم کی ہے اور دوسری طرف بیورو کریسی کو غیر معمولی اختیارات کا حامل بنا دیا ہے۔ اشرافیہ تمام معاملات پر اس طرح حاوی ہے کہ اب اس کے اثرات کم کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
۱۹۵۳ء میں بھارت میں زرعی اصلاحات نافذ ہوئیں اور جاگیر داری کو جڑ سے ختم کر دیا گیا۔ پاکستان میں ایسی کوئی بھی تبدیلی اب تک نہیں لائی جاسکی۔ لوگ اب بھی جاگیرداروں، وڈیروں، ملکوں، سرداروں اور نوابوں کے شکنجے میں ہیں۔ فوجی حکومت کے خاتمے پر جب بھی جمہوریت بحال ہوتی ہے جاگیرداروں ہی میں سے غیر تعلیم یافتہ، نااہل اور ناموزوں افراد منتخب اداروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی ان میں ذرا بھی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ اس کے نتیجے میں کرپشن بڑھتی ہے، نااہلی کو مزید فروغ ملتا ہے اور ملک میں سیاسی اور معاشی زبوں حالی میں اضافے کے ساتھ ساتھ انتشار بڑھتا ہے۔
کمزور جمہوری حکومتیں پاکستان میں زرعی اصلاحات نافذ کرنے اور جاگیرداری ختم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ سیاست کے جسم پر جاگیرداری اور استحصالی نظام ناسور کی مانند ہے۔ دہشت گردی، توانائی کے بحران اور قدرتی آفات نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ سیاسی نظام کی خرابی نے پورے معاشرے کو زوال اور انحطاط سے دوچار کیا ہے۔ مفاہمت کے نام پر مراعات یافتہ طبقات نے اتحاد کرلیا ہے۔ یہ صورتحال ملک کے کروڑوں غریبوں کے لیے مزید پریشان کن ہے۔
جمہوریت پاکستان کو طاقتور اور قابل احترام ملک میں تبدیل کر سکتی تھی۔ اب جمہوریت کا تانا بانا بکھر رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ سب تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ جمہوریت ہی میں حقیقی احتساب ممکن ہے مگر اس کے لیے لازم ہے کہ پہلے جمہوریت کو اس کی اصل رو ح کے ساتھ سیاسی نظام کا حصہ بنایا جائے۔
مصیبت یہ ہے کہ جس جمہوریت کو کسی بھی ملک یا ریاست کے لیے زندگی کا عمومی معیار بلند کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے وہی جمہوریت اب آمریت اور استبداد کو برقرار رکھنے کے آلے میں تبدیل ہو گئی ہے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں یہ تصور بہت خوش آئند ہے۔ مگر اس کا عملی اطلاق تو کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ جو لوگ کل تک یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ جمہوریت ہو گی تو کوئی برائی اور تباہی نہ ہو سکے گی وہی لوگ اب جمہوریت کے ذریعہ مزید خرابیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ناقص جمہوریت کی کوکھ سے مسائل ہی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ پاکستان کی بقا اب اس امر میں پوشیدہ ہے کہ آئین میں نئی ترامیم نہ کی جائیں اور جمہوریت کو مکمل طور پر پنپنے کا موقع دیا جائے۔ کسی بھی ملک میں جمہوریت راتوں رات ختم نہیں ہوتی۔ اس کا زوال خاصا سست رفتار ہوتا ہے۔ یہ موت خاصی آہستگی سے، چپکے چپکے واقع ہوتی ہے۔ پاکستان میں آج بھی جمہوریت دَم توڑ رہی ہے۔
(بشکریہ: ’’گارجین‘‘ لندن۔ ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply