شعلوں میں لپٹے ہوئے اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل کی تصویر جسے ہندوستانی ٹیلی ویژن نے تفصیل سے اور بار بار دکھایا خوفزدہ لوگوں کے ذہنوں پر اب بھی نقش ہے۔ وہ پاکستان کی طرف سے فکر مند ہیں یہاں تک کہ جارح عناصر بھی اپنے اضطراب کو چھپا نہیں پا رہے ہیں۔ پڑھے لکھے طبقے کو یہ تشویش ہے کہ شاید پاکستان القاعدہ طالبان گٹھ جوڑ پر قابو نہ پا سکے اور ہو سکتا ہے اُسے فوج پر انحصار کرنا پڑے جو آخر کار اپنا خراج لے لے گی۔
عوام نہیں جانتے کہ القاعدہ۔ طالبان کا اشتراک پاکستان میں کس حد تک جڑ جما چکا ہے۔ لیکن یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ (ایف اے ٹی اے) وزیرستان اور بڑی حد تک صوبہ سرحد طالبان کے قبضے میں ہیں۔ اگر طالبان مزید علاقے پر قابض ہونا چاہیں تو اس کا اثر ہندوستان پر کیا پڑے گا۔ یہ بات سب سے زیادہ قابل تشویش ہے۔ صدر آصف علی زرداری کی یہ رائے کہ طالبان کو بالادستی حاصل ہے اور بھی پریشان کن ہے۔ امریکا کو اُن کی رائے سے اتفاق ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک مبصر نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوہاٹ سے نبّو تک کا سفر کرنے سے خبردار کیا ہے۔ مبصر کی دلیل یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان پہلے ہی اس علاقے سے دستبردار ہو چکی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو بار بار کے اس الزام میں بھی کچھ صداقت ضرور ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف وردی میں رہتے ہوئے بھی القاعدہ۔ طالبان کی سرکوبی کے لیے کبھی سنجیدہ نہیں رہے بلکہ یہ انہیں امریکا سے رقم ہتھیانے کا ایک مؤثر طریقہ نظر آیا۔
یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ صدر پرویز مشرف کے ایماء پر ہی امریکی فوجوں نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا اور وہاں مداخلت کی۔ اس کے برخلاف زرداری یا چیف آف آرمی اسٹاف کا یہ بیان کہ پاکستان کی آزادی سے کھلواڑ کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی ایک خوشگوار حیرت بن کر سامنے آیا ہے۔ پاکستان اپنے علاقے کا دفاع کر رہا ہے اور اس کے آثار اُس وقت نظر آئے جب حال ہی میں اُس کی توپوں نے امریکی ہیلی کاپٹروں کو بھگا دیا۔ پاکستان سب سے بڑی طاقت سے نہ الجھنے میں احتیاط برت رہا ہے لیکن اپنے وقار کو سلامت رکھنے کی خاطر اسلام آباد جو کچھ کر رہا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ القاعدہ۔ طالبان اشتراک پاکستان میں اپنے علاقے کو وسیع کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ وہ اُن شمالی علاقوں تک رسائی چاہتے ہیں جس سے انہیں افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرنے میں مدد ملے جو اُس وقت تک اُن کے زیرِ اقتدار رہا جب امریکا کی مدد سے قوم پرست افغان فوجوں نے انہیں شکست دی تھی۔ دراصل امریکا ہی طالبان کو وجود میں لانے کا ذمہ دار ہے۔ سرد جنگ کے دوران جب واشنگٹن ماسکو کو بے جان کر دینے کے در پے تھا امریکا نے افغانستان سے لامذہب سوویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کرنے کے لیے بنیاد پرستوں کو تربیت دی تھی۔ افغانستان کے واقعات کے زیر اثر جب سوویت یونین پسپا ہو گیا تو امریکا سرد جنگ جیت گیا۔ وہی بنیاد پرست آج کے طالبان ہیں اور اُن کے پاس وہی ہتھیار ہیں جو امریکا نے فراخدلی سے فراہم کیے تھے۔
ہندوستانی مہذب معاشرہ یہ محسوس کرتا ہے کہ پاکستان میں القاعدہ کی پیش رفت ایک خطرے سے کم نہیں۔ آخری جنوبی حد پر واقع کیرالہ اور آخری شمالی حد پر واقع کشمیر میں القاعدہ کی موجودگی کی اطلاعات پہلے ہی سے مل رہی ہیں۔ ایک خفیہ ایجنسی نے ملک میں حالیہ ٹرین بم دھماکوں کا سلسلہ اسی تنظیم سے جوڑا ہے۔ جس بات کو شاید ٹھیک طرح نہیں سمجھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ طالبان کے خلاف ہندوستان کی جنگ ہندوستان کی جنگ بھی ہے۔ پاکستان اگر کبھی اُس سے شکست کھاتا ہے تو ہندوستان کے دفاع کا پہلا محاذ مسمار ہو جائے گا۔ اس طرح طالبان کو ہندوستان کی جمہوریت اور رواداری جیسی اقدار پر حملہ کرنے کے لیے ایک لانچنگ پیڈ ہاتھ آ جائے گا۔ یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے پوری مہذب دنیا کی طرف سے اپیل و التجا کے باوجود افغانستان میں بدھ کے مجسمے کو تباہ کیا۔
دہشت گردی ایک ذریعہ ہے تو طالبانستان اُس کا مقصد ہے۔ نئی دہلی اور اسلام آباد کو باہم مل کر اس دشمن سے لڑنا چاہیے۔ کسی وقت دونوں نے ایک ایک مشترکہ حکمتِ عملی وضع کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن عملاً اب بھی کچھ نہیں ہو سکا۔ دہلی اور اسلام آباد میں ہوئے دھماکوں کے بعد کوئی چیز واضح ہو کر سامنے آنی چاہیے تھی۔ ایک دوسرے کے خلاف شک و شبہ اس قدر شدید ہے کہ اُسے وہ اس وقت بھی دور نہیں کر سکتے جب دشمن اندر سے اپنا کام کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم من موہن سنگھ اور زرداری کے درمیان ملاقات سے منظر نامہ بدلے کیونکہ دونوں تعلقات کو معمول پر لانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان کے بعض بارسوخ حلقوں نے تجویز رکھی ہے القاعدہ۔ طالبان سے کوئی امن معاہدہ یا ان کے ساتھ جنگ بندی کی گفتگو طالبان کی پیش رفت میں رکاوٹ تو ڈال سکتی ہے انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ زرداری کی تشخیص درست ہے کہ دہشت گردی سرطان کے مرض کی طرح ہے اور اس کا خاتمہ کیا جانا ہی ضروری ہے۔ اس پوری کہانی کا وِلن مشرف ہیں جن کے ایماء پر طالبان نے قدم جمائے اور انہوں نے ہی یہ کہا کہ وہ طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ صورتحال کو خراب کرنے کے لیے اُن کی سرزنش کی جانی چاہیے تھی پاکستان کے لیے جن کی استحکام کے حصول کی غرض افغاستان میں طالبان کو رکھنے کے ان کے منصوبے اس پورے سلسلے کا آغاز ہوا۔
اس میں نئی دہلی کے لیے ایک عبرت ہے جو فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف اقوام کے تجزیے کے ضمن میں بے عملی اور ناکارکردگی کی افسوسناک تصویر پیش کرتا ہے۔ قانون و ضابطہ ہمیشہ ایک ریاستی موضوع رہا ہے پھر بھی مرکز کا رویہ ڈھیلا رہا۔ اُس نے دفعہ ۳۵۵ کے خطوط پر اڑیسہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور کیرالا کی حکومتوں کو ایک مشورہ دیا جس کی رو سے وفاق کی یہ ذمہ داری ہے کہ خارجی جارحیت اور داخلی انتشار سے ریاستوں کی حفاظت کرے۔ اگر نئی دہلی معینہ دفعہ ۳۵۵ کے تحت حکم صادر کرتا تو ہندوئوں میں SIMI جیسی تنظیم بجرنگ دل کھلے عام عیسائیوں کا قتل نہ کرتی اور گرجا گھروں کو آگ نہ لگاتی اور حیرت کی بات ہے کہ بجرنگ دل پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔
نئی دہلی نے ریاست کو بغیر مقدمہ چلائے لوگوں کو حراست میں رکھنے کا اختیار دینے والے قانون پری ونشن آف ٹیررسٹ ایکٹی وٹیز ایکٹ (پوٹا) کے دوبارہ نفاذ کے لیے بی جے پی کے مطالبے کو مسترد کر کے اچھا کیا۔ اس ایکٹ کا استعمال نکسلیوں اور مسلمانوں کے خلاف بڑی بے رحمی سے کیا گیا۔ ایسے ماحول میں مسلمان ہی اُس کا نشانہ بنتے۔
اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی کا نتیجہ انسانوں کی موت اور تباہی ہوتا ہے لیکن اس کا خوفناک اثر یہ پڑتا ہے کہ عوام کا اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔ ہر واقعہ کے بعد حکومتیں اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر ذرائع کی کوتاہیوں اور خامیوں کو دیکھ سکتی ہیں اور بہتر کارکردگی کا وعدہ کرتی ہیں۔ لیکن ایسے واقعات کا اثر ناقابل تلافی ہو کیونکہ بعض فرقوں کو اجنبیت یا الگ پڑ جانے کا احساس ہوتا ہے۔
دہلی میں ٹیلا ہائوس میں ہونے والی مڈ بھیڑ میں یہی ہوا جس میں دو دہشت گرد اور ایک پولیس انسپکٹر مارے گئے۔ مڈبھیڑ کی حقیقت و صداقت پر بحث اب بھی زوروں پر ہے۔ علاقے کے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا ہے۔ اس طرح کا احساس پیدا ہونے کی وجہ عوام اور ذمہ داران کے درمیان اعتبار کا فقدان ہے۔ یہ معاملہ ذرا زیادہ ہی سنگین ہے۔ مسلمان اور عیسائی کا حکومت کی انصاف پسندی سے اعتماد اُٹھ چکا ہے اور اسی طرح ہندو بھی اُس تفریق و تعصب سے اکتایا ہوا ہے جس میں بہت سے لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔
دریں اثناء دہلی، ممبئی، کلکتہ اور چینئی جیسے چار بڑے شہروں میں ایک ٹی وی نیٹ ورک کی طرف سے انجام دیے گئے جائزے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ۶۷ فیصد لوگ عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہیں۔ اُن کے ساتھ کیا واقعہ پیش آئے گا یہ وہ نہیں جانتے۔ اس سے مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply