
کئی ماہ تک غور و خوض کے بعد پاکستان نے آخر کار شمالی وزیرستان میں مقامی اور غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ حتمی کامیابی تک آپریشن جاری رہے گا۔ شمالی وزیرستان افغانستان کے بارڈر کے ساتھ پاکستان کا وہ قبائلی علاقہ ہے جس کے بارے میں امریکا کا خیال ہے کہ یہ طالبان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا عالمی ہیڈ کوارٹر ہے۔ حکومت کو توقع ہے کہ حال ہی میں شروع کیا گیا جامع فوجی آپریشن ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے حوالے سے فیصلہ کن ثابت ہو گا۔ آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ ۱۵جون کو شروع کیا گیا۔ پہلے چار روز میں ۲۰۰ سے زائد دہشت گرد مارے گئے۔ ان کے لاتعداد ٹھکانے اور اسلحہ و بارود کے ذخائر تباہ کردیے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں وہ باغی بھی شامل ہیں جنہوں نے تین ہفتے پہلے کراچی ایئر پورٹ پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں ۲۰ سے زائد شہری اور ۱۰ حملہ آور ہلاک ہوگئے تھے۔
پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف فُل اسکیل فوجی آپریشن کا مشکل فیصلہ انتہا پسندوں سے کئی ماہ تک مذاکرات کے بعد کیا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت دہشت گردی ختم کرنے کے حوالے سے فوجی آپریشن کے آپشن کو استعمال کرنے کے معاملے میں متامل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے عوامی سطح پر اور سیاسی حلقوں میں خود پر ہونے والی تنقید کے باوجود اس مسئلے کا پُرامن حل تلاش کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور اس مقصد کے لیے عسکریت پسندوں سے بات چیت چلتی رہی۔ دوسری طرف شدت پسندوں نے حکومت کی اس کاوش اور نرمی کا خوب فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے مذاکرات میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہونے دی اور ساتھ ہی ساتھ دہشت گردی بھی جاری رکھی۔ حالات کی خرابی سے بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہوا۔ عسکریت پسندوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو زیادہ منظم اور طاقتور بنایا اور زیادہ زور و شور سے دہشت گردی شروع کر دی۔ ۸ جون کو کراچی ایئرپورٹ پر حملے نے گیم چینجر کا کردار ادا کیا۔ جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حکمت عملی کے حوالے سے یُو ٹرن لیا اور انتہا پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے فوجی آپریشن کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ مہم آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ شمالی وزیرستان میں جن دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان میں مقامی کے علاوہ غیر ملکی بھی شامل ہیں جیسے چیچن، ازبک، ترکمان، تاجک اور مغربی چین سے تعلق رکھنے والے اوغور وغیرہ۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو اقدامات کیے جارہے ہیں، وہ دہشت گردی کے خلاف اپنائی گئی حکمت عملی کی ایک جہت کو واضح کرتے ہیں۔ یہ حکمت عملی اس وقت مکمل کامیابی سے ہمکنار ہو گی جب سرحد پار کرکے افغانستان فرار ہونے والوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام افغان فورسز ہی کر سکتی ہیں۔ پاکستان نے افغانستان سے اس سلسلے میں اقدامات کے لیے کہا ہے۔ اگر دہشت گردوں کو افغانستان میں موجود پاکستان کے مخالفین کی طرف سے پناہ اور حمایت مل گئی، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے، تو اس صورت میں ممکن ہے پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے متوقع نتائج برآمد نہ ہو سکیں۔ یہی سبب ہے کہ اس معاملے میں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
ایک سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس کے نتائج یا رد عمل کے خوف سے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ پاک فوج نے اشارہ دیا تھا کہ وہ شمالی وزیرستان کو چھ ہفتوں میں کلیئر کرالے گی۔ اس کے آثار بھی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ ظاہر ہے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے فوج کو وہاں قیام کرنا پڑے گا۔ ۲۰۰۹ء میں جب فوج نے سوات میں پاکستانی طالبان کے خلاف آپریشن کیا تھا، تب ملا فضل اللہ، جو اس وقت طالبان کے سربراہ ہیں، فرار ہو کر افغانستان چلے گئے تھے۔ اب وہ وہیں سے طالبان کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
فوجی آپریشن کے کچھ سنجیدہ سماجی، معاشی اور انسانی پہلو بھی ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ طالبان نے آپریشن پر رد عمل ظاہر کیا تو اس کا نتیجہ پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی ۶۰ہزار سے زائد شہری اور سکیورٹی اہلکار دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ردعمل کی صورت میں مزید خون بہنے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان اس وقت اپنی جغرافیائی اور نظریاتی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ۱۸؍کروڑ افراد اور معیشت، دونوں خطرے میں ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان فوجی آپریشن کے اخراجات برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ معاشرتی سطح پر تقسیم بھی بڑھ سکتی ہے۔ ملک میں انتہا پسندوں کی حمایت پہلے ہی خاصی ہے۔ آپریشن سے بے گھر ہونے والوں کو عارضی طور پر بسانے اور انہیں خوراک وغیرہ فراہم کرنے کا مسئلہ بھی سر اٹھا رہا ہے۔ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کی بلا واسطہ اور بالواسطہ معاشی قیمت کا اندازہ لگائیں تو کہا جاسکتا ہے کہ ملک کے شمال مغربی حصوں میں اب تک چلائی گئی کسی بھی فوجی مہم کی نسبت اس آپریشن کے اخراجات زیادہ ہوں گے۔ یہ معاملہ پہلے سے دگرگوں معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بارہ سال تک جاری رہنے والی جنگ میں پاکستان اب تک ۱۰۳؍ارب ڈالر کا نقصان اٹھاچکا ہے۔ ان اخراجات نے معیشت کے دوسرے شعبوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ دہشت گردی سے برآمدات سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں کیونکہ تجارتی وفود سکیورٹی خدشات کے باعث پاکستان آنے سے گریز کرتے ہیں۔ آرڈر کی بر وقت تکمیل کے حوالے سے وہ تحفظات کا شکار بھی ہوتے ہیں، اس لیے عام طور پر دوسرے ملکوں کو آرڈر دیتے ہیں۔ اگر تجارت کے حوالے سے اجلاس ناگزیر بھی ہو تو پاکستان میں نہیں کیا جاتا بلکہ کسی اور ملک کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور ملک بین الاقوامی منڈی میں مسابقت کی پوزیشن میں نہیں رہتا۔ آپریشن کے تناظر میں فوج کی جانب سے حکومت سے اضافی فنڈ کا تقاضا بھی کیا جاسکتا ہے جبکہ قومی آمدنی اور اخراجات میں بڑھتے ہوئے فرق کے باعث حکومت پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہے۔ دہشت گردی کے باعث ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں پہلے ہی خاصی کمی واقع ہو چکی ہے۔ خراب حالات کے باعث بہت سے صنعتی یونٹس بند ہوچکے ہیں جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوچکا ہے۔ معیشت کی رفتار خاصی سست ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا گراف مزید نیچے آگیا اور ترقی کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچے کی تباہی کا عمل جاری رہا تو حکومت پر دباؤ بڑھتا ہی جائے گا۔
امریکا ایک عرصے سے پاکستان پر زور دے رہا تھا کہ وہ شمالی وزیرستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کرے۔ پاکستان نے یہ قدم اٹھالیا ہے۔ اب عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کی بھرپور مدد کرے تاکہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو۔
“Pakistan to pay hefty price for assault”. (“atimes.com”. June 23, 2014)
Leave a Reply