پاکستان میں ٹرک پینٹنگ آرٹ

کراچی کا ایک ٹرک پینٹر ۲۲ سالہ حیدر علی ایک گھنے سایہ دار برگد کے نیچے اپنی ایک تازہ تخلیق (پینٹنگ) کو آخری شکل دے رہا تھا‘ جس میں ہرکولَس کے ذریعہ ایک شیر کو قابو کرتے دکھایا گیا تھا۔ اس پینٹنگ میں لال‘ پیلے‘ نیلے‘ ہرے‘ شوخ اور چمکتے رنگوں کا بے دریغ استعمال تھا۔ ان کا دس سالہ بھتیجا فرید خالد تاج محل کی پینٹنگ کے لیے آگے کے اوپری حصے پر سفید رنگ پھیر رہا تھا تاکہ یہ حصہ ٹرک میں تاج کی مانند معلوم ہو۔ حیدر علی کے والد کی مانند جنہوں نے ۸ سال کی عمر سے ہی اپنے بیٹے کو ہاتھ میں برش پکڑا دیا تھا‘ حیدر بھی اپنے بھتیجے فرید کے ساتھ استادی کی روایت جاری رکھے ہوئے تھا‘ جو صبح میں اپنے اسکول سے فارغ ہونے کے بعد دوپہر میں ورک شاپ میں اپنے چچا کی مدد کیا کرتا ہے۔ دس ٹن والے وزنی جاپانی ہینو کے نیچے لیٹ کر ایک کاریگر لوہے کے پیپل نما پتے کو ٹرک باڈی کے چاروں طرف باندھ رہا تھا۔ جب یہ ٹرک سڑکوں پر رواں دواں ہوتا ہے تو لوہے کے پتے آپس میں ٹکرا کر ایک ناپسندیدہ شور کا موجب بنتے ہیں جو ٹرک ڈرائیور کے کانوں کو بہت بھاتے ہیں۔ زنجیر باندھنے والے کے اوپر ایک بڑھئی لکڑی کے تختوں کو چھیل رہا ہوتا ہے تاکہ دروازے کو آراستہ کیا جائے۔ قریب ہی میں ٹرک کا مالک بیٹھا ہوتا ہے جو جاری کام کی نگرانی کر رہا ہوتا ہے‘ جیسے کہ ایک نائی کسی آدمی کے چہرے پر شیو سے پہلے شیونگ کریم سے جھاگ تیار کر رہا ہوتا ہے۔ ایک ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ چھوٹے سے ریڈیو سے برآمد ہوتی ہے‘ اُسی طرح‘ جس طرح کٹی ہوئی پتنگیں کسی پول سے لٹک کر ہوا میں پھڑپھڑاتی ہیں۔ گارڈن جو کراچی شہر کا قلب ہے اور ہمیشہ ٹریفک رش کا منظر پیش کرتا ہے‘ یہیں ٹرک پینٹنگ صنعتیں تیزی سے پھل پھول رہی ہیں۔ پورے پاکستان میں گردش کرتا ہوا یہ فولک آرٹ گائوں کی گلیوں‘ شہر کی شاہراہوں اور طویل فاصلوں والے ہائی ویز کو ایسے نیشنل آرٹ گیلری میں تبدیل کیے ہوئے ہے‘ جس کی کوئی دیوار نہیں۔ یہ ہر آن اپنی بدلتی شکلوں کے ساتھ اپنی نمائش جاری رکھتے ہوئے حرکت میں ہے۔ پاکستانی ٹرکوں‘ بسوں اور آٹو رکشا کی اکثریت طرح طرح کے شوخ رنگوں سے رنگے ہوئے ہیں‘ اوپر سے نیچے تک آنکھوں کو چوندھیا دینے والے نقشے اور تصاویر سے پُر ہوتے ہیں۔ ان گاڑیوں پر خوشخطی میں اشعار بھی لکھے ہوتے ہیں۔ مذہبی اہمیت کے حامل جملے بھی چسپاں ہوتے ہیں صرف بڑے ٹرک جو دراصل فریٹ ٹرک ہوتے ہیں‘ ۱۸ پہیوں والے‘ سجاوٹ کا اہتمام نہیں کرتے اور نسبتاً سپاٹ دکھتے ہیں۔ تصاویر کو نمایاں کرنے کی خاطر ٹرک والے رنگا رنگ بتیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان کا یہ ذوق مغرب و مشرق کا سیکولر و مذہبی ہر طرح کا رنگ اپنے اندر لیے ہوتا ہے۔ مسرت شاہین کی مانند فلمی اداکارہ اورعمران خان کی طرح کے کرکٹ اسٹار ہوتے ہیں‘ تو قدیم یونان کی مونا لیزا اور جدید یورپ کی لیڈی ڈیانا کی تصویریں ہوتی ہیں۔ بعض ٹرکوں پر پاکستانی فوج کے ہیرو اور شہدا کی تصویریں ہوتی ہیں مثلاً سرور شہید وغیرہ کی۔ بعض پر ایف۔۱۶ لڑاکا جنگی طیارہ اور غوری میزائل کی تصاویر بنی ہوتی ہیں۔ بعض ٹرک والے مذہبی مقامات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کے ٹرکوں پر مکہ کے خانہ کعبہ کی یا اسلام آباد والی فیصل مسجد کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ کسی ٹرک پر کھلا ہوا قرآن پینٹ کیا ہوا ہوتا جس کے ورقوں پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ بعض ٹرکوں پر ایسی بھی تصویریں ہوتی ہیں جو جذبۂ حب الوطنی کی مظہر ہوتی ہیں۔ ٹرکوں پر براق ایک بہت ہی پسندیدہ تصویر ہے۔ یعنی ایسے سفید گھوڑے کی تصویر جس کے پر لگے ہوتے ہیں اور جو ایک غیرمعمولی رفتار کے ساتھ رسولؐ کو مکہ سے یروشلم لے گیا تھا۔ ان ٹرکوں پر کبھی قدرتی مناظر پینٹ کیے ہوئے ہوتے ہیں مثلاً جھیلوں کی اور برف پوش پہاڑیوں کی تصویریں۔ پہاڑ کی چوٹیوں پر بنے گھروں کی تصویر اور ہرن کا پیچھا کرنے والے شیر کی تصویر بھی بہت عام ہے۔ علاوہ ازیں ٹرکوں کو مختلف رنگوں سے پینٹ کیا جاتا ہے۔ مصنوعی مگر رنگ برنگ کے پھولوں سے اسے سجایا جاتا ہے۔ ان پر لال اور پیلی بتیاں لگائی جاتی ہیں۔ امریکیوں کو پاکستانی پینٹنگ سے آراستہ ٹرک کا تھوڑا مزہ اس وقت لگا جب علی اور باڈی میکنگ ماہر کے کاریگر جمیل الدین ۲۰۰۲ء میں Smithsonian Folklife Festival میں کراچی سے ایک ٹرک واشنگٹن ڈی سی لے کر آئے۔ انہوں نے اسے نیشنل مال روڈ پر سجایا۔ ٹرک کے ایک انتہائی شوقین شخص Jonanthan Merk Kenoyer جو کہ یونیورسٹی آف واشنگٹن میں اینتھراپولوجی کے پروفیسر جو معتبر امریکی دانشور ہیں‘ نے ٹرک Collection میں پاکستان کے مختلف النوع آرٹ کے حامل ٹرکوں کو بھی شامل کیا ہے۔ ہڑپّا آرکیالوجیکل ریسرچ پراجیکٹ کے کوآرڈینیٹر Kenoyer جو ۵ ہزار سالہ پرانی انڈس تہذیب کے علاقے میں مامور ہیں‘ نے ٹرک پینٹنگ کا بڑا طویل مشاہدہ کیا ہے۔ سواریوں کے سجائے جانے کی روایت ۹ ہزار سالہ پرانی ہے۔ یعنی مٹیوں والی عمارتوں کے شہر ہڑپّا سے بھی قبل کی ہے۔ آج ٹرک بردار اس وقت کے Neolithic تاجروں کے جانشیں ہیں جو آج کے پاکستان کی سرزمین سے ہوتے ہوئے مال‘ وسطی ایشیا کے علاقوں میں لے جایا کرتے تھے۔ ان دنوں یہ اونٹوں کو سجایا کرتے تھے اور یوں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ Kenoyer کا کہنا ہے کہ آج پینٹنگ کے کام دیکھ کر یہ پتا لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے مالکان اور ڈرائیور کا تعلق کس نسل اور علاقے سے ہے‘ ٹھیک اسی طرح جس طرح قدیم برتنوں پر ہوئی پینٹنگ کے ڈیزائن دیکھ کر اس کے خالق کا پتا لگایا گیا۔ آج آپ ٹرک کو دیکھ کر یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ کس علاقے کا ٹرک ہے اور اس کے ڈرائیور کا تعلق کس علاقے اور قبیلے سے ہے۔ ٹرک پینٹنگ اور باڈی سازی بہت بڑی تجارت ہے۔ صرف کراچی میں جو کہ تقریباً ایک کروڑ ۴۰ لاکھ آبادی پر مشتمل پورٹ سیٹی ہے‘ اس پیشے میں ۵۰ ہزار سے زائد لوگ وابستہ ہیں‘ جن میں ماہرین سے لے کر تربیت پانے والے ملازمین شامل ہیں۔ اس پیشے کے آزاد کاریگر اپنی کاریگری پر نازاں ہیں۔ کاریگر اپنی پینٹنگ میں کافی وقت لیتے ہیں‘ جس کی وجہ سے زیادہ تعداد میں ٹرکوں کو پینٹ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ بہت سی بسوں‘ ٹرکوں اور رکشوں میں اکثر تصاویر و علامات مشترک ہوتی ہیں لیکن ہر پینٹنگ اپنی الگ انفرادیت کی حامل ہوتی ہے۔ گارڈن روڈ ڈسٹرکٹ کی گرد آلود تنگ گلیوں میں دوچار چکر لگانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہر پانچ آدمیوں میں کا ایک گاڑیوں کی تزئین کے پیشے سے متعلق ہے۔ گویا کہ یہ علاقہ پینٹر کے پیشے کے لیے ایک خصوصی تعلیم گاہ ہے۔ علی کے ورکشاپ سے قریب‘ گھنٹوں تک لمبے ایک صاف ستھرے قمیص میں ملبوس ایک نفیس کاریگر مڈگارڈ کو گاڑی سے الگ کر رہا ہوتا ہے پھر اس کے بعد ایک معاون اسے شوخ سرخ‘ پیلے اور ہرے رنگوں سے رنگتا ہے۔ قریب ہی ایک دیوار سے لگی دکان میں ایک آدمی رنگوں کے ڈبوں سے سجے طشت لیے ہوتا ہے۔ ان رنگوں کو وارنش کے لیے کام میں لایا جاتا ہے جس سے پینٹنگ میں چمک پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایسی پینٹنگ ہوتی ہے جو رات میں چمکتی ہے۔ ایک دوسری گلی میں ایک ۱۴ سالہ لڑکا آہنی ریڈی ایٹر گِرِل کے زنگ کو فیومنگ ایسڈ کے ذریعہ صاف کر رہا ہوتا ہے۔ دکانوں کی قطاریں سجاوٹ کی چیزوں سے بھری ہوتی ہیں۔

ٹرک کے مالکان ان سجاوٹوں پر تھوڑے پیسے خرچ کرتے ہیں۔ ایک بہترین پینٹنگ میں ۵۰۰ سے ۱۰۰ ڈالر تک کے خرچ آتے ہیں‘ اس کا دار و مدار اس پر ہے کہ پینٹنگ کتنی رنگا رنگ اور شوخ ہے۔ باڈی کی سجاوٹ اور اس کی مرمت پر یقینی طور سے ۲ ہزار ڈالر سے زائد کا خرچ آتا ہے۔ تمام لوگوں نے یہ بتایا کہ بنیادی پینٹنگ اور باڈی کے کام پر کم از کم ڈھائی ہزار ڈالر کا خرچ آتا ہے جو کہ ڈرائیور کے تقریباً ۲ سالوں کی تنخواہ کے برابر ہے۔ قانون کے مطابق ٹرک کے مالکان یا مالک ڈرائیورز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ گاڑیوں کی سجاوٹ پر آئے مصارف کو برداشت کرے لیکن کون سی پینٹنگ کس نوعیت کی ہونی چاہیے‘ اس کا فیصلہ اکثر ٹرک کے ملازم ڈرائیور کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اس طرح کی پینٹنگ میں ۶ سے ۱۰ ہفتے لگ جاتے ہیں۔ اس دوران ٹرک کے ڈرائیور ورکشاپ کا چکر لگاتے رہتے ہیں اور کاریگروں کو پینٹنگ اور مرمت کے حوالے سے مشورے دیتے رہتے ہیں‘ تبدیلیاں تجویز کررہے ہوتے ہیں جبکہ اس عرصے میں ان کی آمدنی کا سلسلہ بھی رُکا ہوتا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ ٹرک والوں کی اکثریت ہر تین چار سال بعد ٹرک کی تزئین و آرائش پر ایک خطیر رقم خرچ کر دیتی ہے۔ علی جو اپنے زیادہ تر آرڈرز زبانی وصول کرتا ہے‘ اپنی پینٹنگ پر دستخط ضرور کرتا ہے۔ یہی اس کا خاموش اشتہار ہے‘ جس کے ذریعہ وہ گاہکوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے میں کامیاب ہے۔ آرٹسٹ کا کہنا ہے کہ مالکان جتنا خرچ کرتے ہیں‘ اتنا پاتے ہیں۔ پینٹنگ جتنی اعلیٰ ہو گی‘ اُتنی قیمتیں ہوں گی۔ آج کے نودولتیے ٹرک مالکان ۱۳ ہزار ڈالر تک ٹرک کی سجاوٹ اور شیشہ پر خرچ کر ڈالتے ہیں۔ ان کی پینٹنگ میں چار ماہ سے زائد کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ٹرک کے ایک مالک ڈوڈا خان کا کہنا ہے کہ ’’میرا ٹرک جتنی خوبصورت پینٹنگ کا حامل ہو گا‘ اُتنا ہی زیادہ لوگ اسے کرائے پر لیں گے‘‘۔ ڈوڈا خان کوئٹہ کا رہنے والا ہے۔ لکڑی اور شیشہ صوبہ سندھ ٹرانسپورٹ کر کے اپنی روزی کماتا ہے۔ واضح رہے کہ کراچی صوبہ سندھ کا صدر مقام ہے۔ ٹرک والے اپنے گھر پر بھی اتنے پیسے خرچ نہیں کرتے۔ دُریا قاضی جنہیں پاکستانی ٹرک ڈیکوریشن کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا کہا جاتا ہے‘ کا کہنا ہے کہ ’’مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک ڈرائیور نے مجھ سے کہا تھا کہ میں نے اپنی پوری زندگی اور سرمایہ ٹرک میں جھونک دیا ہے۔ اگر وہ اس کی بہترین پینٹنگ کے ساتھ اس کی شان و شوکت میں اضافہ نہیں کرے گا تو وہ اپنے آپ کو بہت ہی ناشکرا محسوس کرے گا‘‘۔ قاضی مطمئن ہیں کہ ٹرک آرٹ پاکستانی معاشرے سے متعلق حقیقت کو اونچا دکھانے کی ہمہ جہت خواہش کے حوالے سے وسیع تر سچائی کی عکاسی کرتا ہے۔ ’’ہمارے اندر ہر چیز کو سجانے کی ناقابلِ مزاحمت خواہش پائی جاتی ہے‘ خواہ معاملہ کیسٹ پلیئر کا ہو یا دلہن اور ٹرک کا ہو۔ موصوفہ فرماتی ہیں کہ ایسا اس وجہ سے ہے کہ ہم خواب دیکھنے والے اور حقیقت سے راہِ فرار اختیار کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ ہماری ضرورت کا حصہ ہے کہ ہم اپنے تجربے پر آرائش کا غلاف چڑھائیں تاکہ ہم اپنی بے رنگ اور پھیکی زندگی کو بھول سکیں‘‘۔ اپنے سفید اور چمکتے بالوں اور ایک اعلیٰ طبقے کے لہجے میں بات کرنے والی قاضی کے لیے ٹرک پینٹنگ کی جمالیات کا دلدادہ ہونا انہونی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ معمولی پذیرائی والے اس آرٹ کے تئیں ان کے جذبات کو مبغوض نظروں سے دیکھا گیا جب دس سال قبل انہوں نے یونیورسٹی طلبہ سے ایک ٹرک ڈیکوریشن کا خیال دل میں لایا۔ وہ چاہتی تھیں کہ طلبہ ٹرک پینٹ کریں اور پھر اپنے اس موبائل شاہکار کو پورے پاکستان میں گھمائیں۔ ان کا یہ خیال اس لیے تھا کہ عام آدمی کا اس پر ردِعمل معلوم کریں۔ قاضی نارتھ کراچی میں رہتی ہیں‘ ان کے گھر میں پینٹ کیے ہوئے ٹرکوں کی تصاویر کے ساتھ افغان جنگ میں کام آنے والے ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں کی تصاویر بھی ہیں۔ سندھی امبرائڈری کے نمونے بھی ہیں نیز علی بابا کے افسانوی خزانے کی تصویر بھی ہے۔ قاضی صاحبہ فرماتی ہیں کہ ’’آرٹ اس ملک میں صرف بڑے لوگوں کا شغل رہ گیا ہے اور معاشرے سے ناپید ہوتا جارہا ہے۔ چنانچہ میں چاہتی ہوں کہ آرٹ کو اس کی گیلریز سے نکال کر سڑکوں پر لے آئوں‘‘۔ پروفیسر صاحبہ کا کہنا ہے کہ اس خانہ بدوش طلبہ نمائش کے حوالے سے لوگوں کی رائے بڑی مثبت تھی۔ اگرچہ بعض پیشہ ور ٹرک آرٹسٹ کا تبصرہ بہت سخت تھا۔ گارڈن روڈ پینٹرز کا کہنا تھا کہ آپ کی تصاویر دلچسپ ہیں لیکن آپ نے اسے پینٹ بہت خراب انداز میں کیا ہے۔

طلبہ کا خیال تھا کہ وہ زیادہ باصلاحیت اور قابل ہیں کیونکہ انہوں نے آرٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی لیکن انہیں جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ آرٹ درحقیقت بہت ہی نفاست کا تقاضا کرتا ہے۔

بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ میں پینٹ کیے ہوئے رکشے ہوتے ہیں جبکہ جاپان میں ٹریلرز لائٹوں سے سجے ہوتے ہیں۔ دس سال تک ورکشاپوں کی خاک چھاننے‘ اور نامنٹس شاپز کا معائنہ کرنے‘ ٹرک ڈیلرز‘ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے مالکان‘ ٹرک ڈرائیوروں‘ ٹرک آرٹس اور کرافٹس مین اور سپلائر سے بات کرنے کے بعد پروفیسر صاحبہ نے ٹرک پینٹنگ کی تاریخ سے متعلق بہت ساری معلومات اکٹھی کی ہیں جسے وہ کبھی کتابی شکل دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ موصوفہ فرماتی ہیں کہ ۴۰ کی دہائی میں جیسا کہ ٹرکوں کے ذریعہ دور دراز تک مال برداری کا سلسلہ شروع ہوا تو ٹرک کمپنی نے اپنا ’لوگو‘ مخصوص کر لیا تاکہ ناخواندہ عوام جن کی اکثریت اس وقت تھی اور اب بھی پاکستان میں ان کی اکثریت ہے‘ پہچان سکیں کہ ٹرک کا مالک کون ہے۔ ۱۹۴۷ء میں علیحدہ ہونے والے اس نوزائیدہ ملک سے یکجہتی کا اظہار یقینی طور سے ایک نفع کا سودا تھا۔ چنانچہ اس زمانے میں ٹرکوں پر پرچمِ ہلال نصب ہوتے تھے۔ قاضی صاحبہ فرماتی ہیں کہ ڈیزائن جتنا اچھا ہوتا تھا اتنا ہی بزنس بھی اچھا ملتا تھا۔

قاضی صاحبہ کے خیال میں کراچی اگرچہ ٹرک ڈیکوریشن کا اہم مرکز ہے تاہم دوسرے شہروں میں لوگوں نے اس پیشے میں اپنی انفرادیت قائم رکھی ہے۔ مثلاً پشاور میں ٹرک پر تصاویر سے زیادہ عمدہ خطاطی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں پلاسٹک شیٹس سے ڈیزائن بناتے اور ٹرک کے باہری حصوں پر چسپاں کرتے ہیں۔ بلوچستان اور پشاور کے کاریگر ٹرک پر لکڑی کے کاموں کے لیے مشہور ہیں جبکہ سندھ میں اونٹ کی ہڈیوں کا ٹرک کی سجاوٹ میں استعمال عام ہے۔

(بشکریہ: سعودی آرامکو ورلڈ۔ مارچ / اپریل ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*