چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا اہم حصہ پاکستان سے گزرتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے ہراول دستے کی حیثیت رکھنے والا منصوبہ چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان اور چین دونوں ہی کے لیے بہت اہم ہے۔ پاکستان کے لیے یہ اس لیے اہم ہے کہ اس کی بدولت معیشت تبدیل ہوجائے گی، ملک تیزی سے ترقی کرنے کے قابل ہوجائے گا، بہت بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ملک کے پس ماندہ علاقوں کو اس عظیم منصوبے سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ دوسری طرف چین کے لیے بھی یہ منصوبہ بہت اہم ہے کیونکہ اس کی کامیابی ہی سے دوسرے منصوبوں کو بروقت شروع کرنے اور ان پر تیزی سے کام کرنے کی تحریک مل سکے گی۔
مغرب کے تجزیہ کار پاکستان اور چین کے مابین بڑھتے ہوئے اشتراکِ عمل کے حوالے سے خدشات پروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔ مغربی میڈیا میں ایسا بہت کچھ آرہا ہے، جو شکوک و شبہات پیدا کرنے کے مقصد کے تحت ہے۔ ایسا ہی ایک ’’چشم کشا‘‘ تجزیہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔)
پاکستان کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو میں کلیدی کردار حاصل ہے تاہم یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں چین کے نوآبادیاتی عزائم کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے، بالخصوص قدرتی وسائل تک زیادہ سے زیادہ رسائی کے حوالے سے۔
چین کے معاشی عزائم کے لیے ایک چیلنج کے روپ میں پاکستان اور نیپال نے ڈیم کی تعمیر کے دو منصوبوں سے اپنے آپ کو الگ کرنے کو ترجیح دی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب پاکستان میں چین کے حوالے سے چند ایک خدشات ضرور پائے جاتے ہیں، خاص طور پر نو آبادیاتی انداز سے قدرتی وسائل تک زیادہ سے زیادہ رسائی اور انہیں حاصل کرنے سے متعلق۔
چین کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی معاہدے میں تمام فریقین کو زیادہ سے زیادہ فوائد سے ہم کنار کرنا چاہتا ہے۔ چینی خارجہ پالیسی میں اسے win-win اصول کا نام دیا گیا ہے یعنی ایسا معاہدہ جس میں کسی بھی فریق کے کسی بھی مفاد کو داؤ پر لگانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ چینی قیادت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی سرمایہ کاری کرتی ہے وہاں فریق ثانی کو بھرپور طور پر پنپنے کا موقع ملتا ہے۔ ایسے میں ڈیم کے منصوبوں سے پاکستان اور نیپال کا الگ ہو جانا کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔ ناقدین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کی نظریں پاکستان کے قدرتی وسائل پر ہیں۔ وہ پاکستان سے گرینائٹ، بلیک ماربل اور دوسرا بہت کچھ نکالنا چاہتا ہے۔ سری لنکا اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے دوسرے بہت سے ممالک البتہ چین کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان کے سامنے اور کوئی راستہ بھی نہیں۔
گزشتہ ماہ دیامر بھاشا ڈیم کے منصوبے میں چین سے اشتراکِ عمل ختم کرنے کی وجوہ بیان کرتے ہوئے واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے سربراہ مزمل حسین نے بتایا کہ چین نے جو شرائط رکھی ہیں، وہ کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں کیونکہ وہ پاکستان کے بنیادی مفادات کے برخلاف ہیں۔
گلگت بلتستان میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے کچھ ہی فاصلے پر ۱۴؍ارب روپے کی لاگت سے ۴۵۰۰ میگا واٹ کے پن بجلی گھر کی تعمیر پر بھی پاکستان اور چین کے درمیان بات بگڑی۔
پاکستان کے فیصلے سے دو دن قبل نیپال کے نائب وزیراعظم اور وزیر توانائی کمل تھاپا نے ڈھائی ارب ڈالر کی لاگت سے چین کے گیزوبا گروپ کے اشتراکِ عمل سے ایک پن بجلی گھر قائم کرنے کے معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
نیپال میں انتخابات کا دوسرا مرحلہ ۷ دسمبر کو ہے۔ اگر نیپالی کانگریس اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تو ڈھائی ارب ڈالر کا یہ منصوبہ گریٹر یوریشیا گیم کے حوالے سے کلیدی حیثیت اختیار کرجائے گا۔
دیامر بھاشا ڈیم سی پیک کا اہم حصہ تھا۔ چین نے پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے بہت سے وعدے کیے ہیں۔ گوادر کی بندر گاہ بھی چین کی تیار کردہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو کے حوالے سے سی پیک کے منصوبے کلیدی کردار ادا کریں گے۔ چین نے پاکستان میں پچاس ارب ڈالر سے زائد سرمایہ لگانے کے معاہدے کیے ہیں۔ کسی بھی ایک ملک کے لیے یہ چین کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہوگی۔
دیامر بھاشا ڈیم کے معاملے میں چین سے بات کا بگڑ جانا ایسی بات نہیں جو آسانی سے نظر انداز کردی جائے۔ اس منصوبے کے لیے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت تمام بڑے عالمی مالیاتی اداروں نے کچھ لگانے سے معذرت کرلی تھی۔ اس کا بنیادی سبب بھارت کی طرف سے تحفظات کا اظہار تھا کیونکہ یہ ڈیم متنازع علاقے میں قائم کیا جارہا تھا۔
پندرہ برس میں دیامر بھاشا ڈیم پر کام پانچ مرتبہ شروع ہوکر رک چکا ہے۔ واپڈا کے چیئرمین مزمل حسین کہتے ہیں کہ اب اس منصوبے کے لیے پانچ سالہ فنڈنگ کا شیڈول مرتب کیا گیا ہے اور یہ منصوبہ ۲۰۲۶ء میں مکمل ہوجائے گا۔
چین کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ڈیم کی تعمیر کے منصوبوں سے نیپال اور پاکستان کا الگ ہو جانا، ایک بڑی مثال قائم کردے گا۔ شنگھائی انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز میں جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر ژاؤ گین چینگ کہتے ہیں ’’چینی قیادت کو یہ بات کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ کسی بھی معاہدے میں فریق ثانی اُسی وقت دلچسپی لے گا جب اُسے اس بات کا یقین ہوگا کہ یہ اس کے لیے کسی بھی اعتبار سے خسارے کا سودا نہیں۔ جو کچھ اس وقت ہوا ہے وہ مستقبل میں بھی دیگر چینی منصوبوں کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ عالمی سطح پر ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ چین کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو زندگی اور موت کا معاملہ ہے اور یہ کہ وہ اس منصوبے کو ہر قیمت پر مکمل کرے گا۔ ٹھیک ہے مگر ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کسی بھی منصوبے میں شامل ہونے والا ہر فریق اپنے مفادات کا تحفظ بھی چاہے گا۔ چین کے لیے ممکن نہیں کہ دوسروں کے مفادات کو یکسر نظر انداز کرے‘‘۔
چین بیشتر منصوبوں کے حوالے سے جو مالیاتی شرائط عائد کر رہا ہے ان کے حوالے سے بھی اور کسی بھی منصوبے کے حقیقی معاشی فوائد کے حوالے سے بھی متعلقہ ممالک کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان کی ماربل انڈسٹری کے لیے چین ایک نئی منڈی ہے اور اس میں پاکستانیوں کے لیے خاصی کشش ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ چین کو پاکستانی ماربل کی منڈی بنانے سے پاکستان کو شدید نقصان کا سامنا ہے۔ پاکستان سے جو ماربل چین کو برآمد کیا جاتا ہے وہی ماربل تھوڑی سی پروسیسنگ کے بعد پاکستان کو واپس بھیجا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں ماربل انڈسٹری متاثر ہو رہی ہے۔
ماربل کے ایکسپورٹر اور ریٹیلر شکیل خان نے ایشیا ٹائمزکو بتایا کہ چین کے خریدار ماربل کے بڑے، چوکور ٹکڑے خریدنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بیشتر خریدار بیضوی شکل کے ٹکڑے خریدتے ہیں، جو بعد میں مزید کئی ٹکڑوں میں کاٹ کر فروخت کیے جاتے ہیں۔ چینی خریدار جس طرح کے ٹکڑے چاہتے ہیں اُن کے حصول کے نتیجے میں ان کانوں سے ماربل نہیں خریدا جاتا جہاں ماربل میں دراڑیں پڑ گئی ہوں۔
پشاور میں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر زاہد شنواری نے بتایا کہ چینی خریدار بازار سے صرف کمیاب قسم کا اور معیاری مال مثلاً اونیکس، بلیک گولڈ ماربل اور انتہائی اعلیٰ معیار کا گرینائٹ خریدتے ہیں۔ نیز یہ کہ پاکستان میں ماربل انڈسٹری کے پاس ماربل کو بہترین فنشنگ دینے کے لیے مطلوب ہائی ٹیک مشینری دستیاب نہیں۔
معاشی بالا دستی
پاکستان کی ماربل انڈسٹری کا معاملہ بتاتا ہے کہ آگے چل کر پاکستان میں چین کا عمل دخل غیر معمولی حد تک بڑھ جائے گا۔ ایک طرف تو پاکستان کی معیشت متاثر ہوگی اور دوسری طرف ثقافتی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ میڈیا کے میدان میں بھی چین کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاسکیں گے۔ یہ خدشہ بھی پروان چڑھ رہا ہے کہ چین کو پاکستان میں نگراں ریاست کی سی پوزیشن حاصل ہوجائے گی۔ پاکستان کا ہر اہم معاملہ اس کی گرفت میں ہوگا۔
چینی منصوبوں کے حوالے سے سری لنکا، میانمار اور پاکستان میں بلوچستان کی حد تک مزاحمت پائی جاتی ہے۔ چین کے عظیم منصوبے میں سرکاری شعبے کی بہت سی کمپنیوں کے ذریعے پاکستان میں ہزاروں ہیکٹر اراضی پر نئے بیجوں کی آزمائش سے آبپاشی کے جدید ترین نظام تک بہت سے تجربات شامل ہیں۔ چینی کمپنیوں کو بہت سی چینی وزارتوں اور چائنا ڈیویلپمنٹ بینک کی طرف سے فراخ دلانہ قرضے اور سرمایہ فراہم کیا جائے گا۔
چین کے درجنوں تجارتی اور صنعتی ادارے پاکستان میں بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ لائیو اسٹاک اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں اور دوسری طرف وہ پریسیشن اریگیشن کے حوالے سے بھی بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان ویلیو ایڈیڈ اشیا تیار کرنے والے ملک کے بجائے محض خام مال فراہم کرنے والا ملک بن کر رہ جائے گا۔
پاکستان میں ایک بڑی ٹیکسٹائل اور گارمنٹ انڈسٹری موجود ہے مگر چین چاہتا ہے کہ اپنے شورش زدہ صوبے سنکیانگ میں اوغور نسل کے مسلمانوں میں شورش پسندی ختم کرنے کے لیے وہاں ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ دے۔ اس صنعت کے لیے خام مال پاکستان فراہم کرے گا۔ ویلیو ایڈیشن کا کام سنکیانگ کے مسلمان کریں گے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو محض خام مال برآمد کرنے والے ملک کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ یہ سب کچھ چین کے عظیم منصوبے کے مندرجات میں شامل نکات ہیں۔
ڈیم کے منصوبوں سے پاکستان اور نیپال کا الگ ہو جانا اس بات کا اشارا ہے کہ چین کو کسی بھی معاہدے کے تمام فریقوں کے لیے مساوی معاشی فوائد کا اہتمام کرنا ہوگا۔ ایسا کیے بغیر اُس کے لیے بھرپور انداز سے آگے بڑھنا ممکن نہ ہوسکے گا۔
انڈونیشیا کے اخبار جکارتہ پوسٹ نے سال رواں کے اوائل میں اپنے ایک اداریے میں لکھا تھا کہ چین اگر عالمی سیاست و معیشت کے حوالے سے تیزی سے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اسے لازمی طور پر اپنا وژن واضح کرنا ہوگا اور متعدد ممالک کے عوام میں پائے جانے والے خدشات سے متعلق وضاحت بھی کرنا ہوگی تاکہ مزاحمت کا عنصر کم سے کم سطح پر رہے اور مل جل کر کام کرنے کی راہ ہموار ہونے میں زیادہ دیر نہ لگے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
(James M. Dorsey متعدد ایوارڈ حاصل کرنے والے صحافی اور اسکالر ہیں۔ وہ سنگاپور کے ایس راجا رتنم اسکول آف انٹر نیشنل اسٹڈیز کے سینئر فیلو اور یونیورسٹی آف ووئرز برگ کے انسٹی ٹیوٹ آف فین کلچر کے شریک ڈائریکٹر ہیں۔)
“Pakistan: Where China hits a wall”.(“The Globalist”. November 30, 2017)
Leave a Reply