
گیارہ ستمبر کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی نے یوٹرن لیا۔ طالبان سے قطع تعلق کرکے انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیاگیا اور امریکیوں کو ایک بار پھر گلے لگالیا گیا۔ اگرچہ پاکستان کی اس پالیسی کو پاکستان کے عوام نے بالکل پسند نہیں کیا اس لئے کہ اس پالیسی کی وجہ سے ان کے مسلم افغان بھائیوں کا بہت ہی سفاک طریقے سے قتل عام ہوا۔ لیکن شاید یہ قدم وقت کی ضرورت تھی۔ یہ پالیسی اس وقت اپنے نقطۂ کمال کو پہنچ گئی جب صدر پرویز مشرف نے امریکی جیوش کانگریس سے خطاب کیا اور واشنگٹن پوسٹ کو اپنا مشہور انٹرویودیا۔ پاکستان شاید واحد ملک ہے جس نے امریکیوں کا ان کی انتہائی اہم ضرورت کے وقتوں میں ساتھ دیا ہے۔ خواہ چین کے ساتھ روابط استوار کرانے کا معاملہ ہو یا افغانستان سے سوویت فوج کی بے دخلی کا معاملہ ہو یا گیارہ ستمبر کے بعد امریکا کی مدد کا معاملہ ہو۔بہرحال جب امریکا کی ضرورت پوری ہوگئی تو پاکستان نے ہمیشہ اپنے آپ کو تنہا اور بے یارومددگار ہی پایا۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے عوض بھاری قیمت ادا کی ہے۔ جب سے صدر پرویز مشرف نے اتاترک کے فلسفے کو اختیار کیا ہے کچھ ایسے افسوسناک واقعت سننے کو ملے ہیں جو کبھی پہلے سننے میں نہیں آئے تھے۔ پہلے یہ خبر سننے کو ملی کہ ایک پاکستانی لڑکی نے “Miss Earth Competition”میں حصہ لیا ہے۔ اس کے بعد یہ خبر آئی کہ پاکستان میں پہلی بار باضابطہ طور سے(Officially) دو مَردوں کی شادی (Same Sex Marriage) عمل میں آئی ہے۔ جس سمت میں پاکستان آگے بڑھ رہا ہے وہ قدرت کے لئے قابل قبول نہیںتھا۔ نتیجتاً اس نے پاکستان میں زلزلہ برپا کردیا۔ بدقسمتی سے دوسروں کے جرائم کے پاداش میں ہزارہا معصوم لوگ ہلاک ہوگئے۔ کتنے ہی خاندان ختم ہوگئے او رپورا انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا۔ یہ زلزلہ تاریخ میں بدترین بحران ہے جس سے پاکستان کبھی دو چار ہوا ہو۔ اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں‘ مثبت پہلو یہ بھی کہ قوم اپنے پاکستانی بھائیوں کی مدد کے لئے متحدہوگئی ہے۔ یہ جذبہ صرف پاکستان میں دیکھنے میں نہیں آیا ہے بلکہ باہر کے ملکوں میں بھی پاکستانی اسی جذبے کا اظہار کررہے ہیں‘ سیاستداں بھی متحد ہوگئے ہیں انہوں نے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیا ہے اور باہم متحد ہوکر حکومت کے ساتھ راحت کاری کے کاموں میں تعاون کررہے ہیں۔ فوج نے بھی راحت کاری کے کاموں میں مثبت کردار ادا کیا ہے جس کی ضرور تعریف کی جانی چاہئے۔ میڈیا نے زلزلے کی شدت اور اس کے نقصانات کے حجم سے آگہی بخشنے میں بہت توانا کردار ادا کیا ہے۔ قومی جذبے کو بھرپور طریقے سے بیدار کرنے میں میڈیا نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور سے شمالی امریکا کے لوگوں میں یہ کام ARY ٹی وی نے بہت ہی شاندار طریقے سے کیا ہے۔ ہر وقت تازہ معلومات کی فراہمی انہیں پورے کے پورا نمبر دیئے جانے کا تقاضا کرتی ہے۔ ایک کلیدی اینکر کے طور پر ڈاکٹر شاہد مسعود کا کردار انتہائی قابل تعریف ہے۔ جہاں تک منفی پہلوئوں کا تعلق ہے تو راحت کاری کا کام دیر سے شروع ہوا اورسست رفتار ہے۔ پاکستان میں تو Disaster Recovery Unit نہیں ہے جیسا کہ دوسرے ممالک میں اس طرح کے بحرانی حالات میں دیکھنے میں آتی ہے۔ پاکستان اس طرح کے بحرانوں سے نمٹنے کے لئے پہلے سے تیار نہیں تھا۔پرویز مشرف اور شوکت عزیز کو اسلام آباد کے بجائے اپنا بیس کیمپ آزاد کشمیر میں بنانا چاہئے تھااور وہیں سے معاملات کی نگرانی کرنی چاہئے تھی۔
اس حوالے سے چند تجاویز پیش خدمت ہیں:
پاکستان ایک بہت مصیبت کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ لوگوں کی بازآبادکاری میں سالوں لگ جائیں گے۔ یہ انتہائی مشکل ٹاسک ہے۔ لیکن جس طرح پاکستانیوں کے جذبۂ قربانی اور فراخدلی کا ہر جگہ مشاہدہورہا ہے اس کام کا انجام پانا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ ایکشن پلان کے ساتھ باز آبادکاری کے لئے جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک ٹرسٹ کا قیام بھی ضروری ہے‘ جو لاوارث بچوں کی مستقل طور سے نگہداشت کر سکے۔ اس ٹرسٹ کو اہل خیر حضرات کے تعاون سے قائم کرنا چاہئے۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ امداد کا جو امڈتا سیلاب ہے وہ مستحق افراد تک ضرور پہنچے۔ ان رقوم کا شفاف استعمال بہت اہم ہے۔ ڈونر حضرات کی خدمت میں بھی تقسیم امداد کی رپورٹ پیش کرنا ایک قابل ستائش اقدام ہوگا۔ زلزلہ پاکستان کے لئے نیا واقعہ ضرور ہوگا لیکن یہ کوئی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا ہے کہ پاکستان دوبارہ اس کی زد میں نہیں آئے گا۔
لہٰذا ایک اسپیشل ٹاسک فورس اس حوالے سے تشکیل دیا جانا چاہئے جو اس طرح کے ہنگامی حالات میں متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر فوری طور پر اقدام کرے۔ یوں تو پاکستان کی بہتری کے لئے بہت سارے اقدامات تجویز کئے جاسکتے ہیں اور اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے مثلاً سیاسی و بیورو کریسی کے اسٹرکچر نیز جاگیردارانہ نظام کی تبدیلی کی ضرورت کے معاملے پرلیکن اب اس نہج پر کام کا آغاز بھی ہونا چاہئے۔ بدعنوانی پاکستانی معاشرے کا جزو لانیفک ہوکر رہ گئی ہے۔ چنانچہ اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا ۔ وہ لوگ جو ٹیکس چوری کرتے ہیں اور اپنے کاروبار کو شفاف نہیں رکھتے ہیں انہیں اپنے رویے کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ تمام اقدامات اگرچہ اس وقت ضروری ہیں لیکن راحت کاری کے مقابلے میں ان کی حیثیت ثانوی ہوگئی ہے۔ تاہم ان خطوط پر کام کا آغاز ہوجانا چاہئے اس لئے کہ پاکستان میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی موجودہ پالیسی ایک ماسٹر پلان کی تیاری ہونی چاہئے تاکہ اس کی روشنی میں متاثرین کی مدد کی جاسکے ‘ ان کی نوآبادکاری کا کام ہوسکے۔ ان کو ایسی مدد ہوسکے جس کی بناء پر وہ خود اپنی تعمیر نو کرسکیں۔ صدر پرویز مشرف پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کو غربت‘ جہالت ‘ جاگیردارانہ نظام اور بیورو کریسی کے چنگل سے نکالیں۔ متاثرین زلزلہ کی امداد پاکستانی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ پاکستان کو مستقبل کے کسی اور زلزلے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ پرویز مشرف ایک بار پھر یوٹرن لیں جیسا کہ انہوں نے گیارہ ستمبر کے بعد لیا تھا۔
(آئی ڈی ڈاٹ کام)
Leave a Reply