
امریکا میں یہودی لابی کا کیا مقام ہے؟ اس بات پر روشنی ڈالنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکی پالیسی سازی میں انہیں کلیدی مقام حاصل ہے۔ امریکی معیشت کا مکمل کنٹرول ان کے پاس ہے، منی مارکیٹ ہو، بینکنگ کا نظام، تجارتی ادارے، سماجی خدمات کے ادارے ہوں یا پھر میڈیا کے اہم ترین ادارے، سب ہی پر ان کی مکمل چھاپ موجود ہے۔ الغرض امریکا کی یہودی کمیونٹی یہاں مقیم دیگر کمیونٹیز کے لیے ہمیشہ ایک مشعل راہ رہی ہے، جس کو دیکھ کر ہر کمیونٹی خود کو اس معاشرے میں زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ خود پاکستانی کمیونٹی بھی ترقی کے لیے یہاں یہودیوں کی مثال دیتی ہے اور ان کی طرح عمل کرنے کی تلقین کرتی رہتی ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان یہودیوں میں موجود اسرائیلی لابی پاکستانی کمیونٹی کے قریب آنے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ اب سے چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ واشنگٹن میں پاکستان کے ایمبیسیڈر ایٹ لارج رفعت محمود نے اپنے گھر پر پاکستانی کمیونٹی کی چیدہ چیدہ شخصیات کا اہم اجلاس طلب کیا تھا اور اس کا مہمان خصوصی واشنگٹن میں تعینات اسرائیلی سفیر کو بنایا تھا۔
اس تقریب نے پاکستانی کمیونٹی کی اہم ترین شخصیات کو اسرائیلی سفیر سے اور اسرائیلی سفیر کو پاکستانی اہم شخصیات سے میل جول بڑھانے کا موقع فراہم کیا، جس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں اسرائیلی سفیر نے اسی وقت اس یقین کا اظہار کر دیا تھا کہ بہت جلد پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس تقریب میں پاکستانی سفارت خانے میں تعینات پاکستانی ملٹری اتاشی بریگیڈیئر عبداللہ ڈوگر نے بھی شرکت کی تھی۔ ظاہر ہے یہ شرکت پاک اسرائیل اعلیٰ سطح کے رابطوں کی نشاندہی کر رہی تھی۔
اس تقریب کے بعد واشنگٹن میں گرچہ مزید کوئی ایسی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی اور نہ ہی اس اقدام پر کسی جانب سے تنقید کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس طرح وہ حلقے جو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کے مخالف ہیں، ان کی آواز تو سامنے نہیں آئی لیکن ان پاکستانی حلقوں کو، جو پاک اسرائیل تعلقات کی بحالی کے خواہاں ہیں، تقویت ملی اور اب حال ہی میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ’’اپنا‘‘ اور اسرائیلی رابطوں کی بازگشت سننے کو مل رہی ہے۔ رفعت محمود کی رہائش گاہ پر ہونے والے ان رابطوں کا ہی نتیجہ ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستانی ڈاکٹروں کی ایک سو رکنی ٹیم نے اسرائیل کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی پر تبادلۂ خیال کیا۔
امریکا میں خوشحال پاکستانیوں کی بڑی تعداد شعبۂ طب سے وابستہ ہے اور وہ عموماً جن بڑے بڑے اسپتالوں میں ملازمت کرتے ہیں، ان کے مالکان یہودی ہی ہیں، اس لیے ان رابطوں کا مؤثر ذریعہ بھی یہ ڈاکٹرز ہی ہوسکتے تھے جن کی تنظیم پاکستانی امریکیوں کی سب سے مستحکم آرگنائزیشن ہے۔ حال ہی میں اسرائیل کی خواہش پر پاکستانی ڈاکٹروں کی ایک سو اراکین پر مشتمل ٹیم نے اسرائیل کا جو دورہ کیا، اس میں سب سے اہم کردار واشنگٹن میں تعینات اسرائیلی سفیر نے ادا کیا۔ اس طرح ان کے پاسپورٹس پر اسرائیل کا ویزہ نہیں لگایا گیا بلکہ انہیں ایک راہداری پرچی پر اسرائیل میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی، تاکہ ان کا سفری ریکارڈ صاف ستھرا رہے اور پاکستان میں ان کے داخل ہوتے ہوئے اعتراضات نہ کیے جاسکیں۔ ’’اپنا‘‘ کے صدر ڈاکٹر آصف رحمن کا کہنا ہے کہ جب تمام عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات بحال کر رہے ہیں تو پاکستان کو تعلقات کی بحالی میں کیا قباحت ہے؟
اس دورے میں ان پاکستانی ڈاکٹرز کی ملاقات اہم اسرائیلی حکام سے بھی رہی اور انہیں بیت المقدس کا دورہ بھی کرایا گیا جہاں انہوں نے دیکھا کہ کس طرح مسلمانوں کو بھی عبادت کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ اس دورے سے واپسی کے بعد ان ڈاکٹرز کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاک اسرائیل تعلقات کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستانی ڈاکٹرز کی تنظیم ’’اپنا‘‘ کا قیام دراصل پاکستانی کمیونٹی کے مفادات کی نگرانی اور انہیں امریکی معاشرے میں بلند مقام دلانے کے لیے عمل میں آیا تھا لیکن یہ آرگنائزیشن اب تک کوئی ایسا پروجیکٹ شروع نہ کرسکی جو اس کے مقاصد سے تال میل رکھتا ہو۔ حال ہی میں نیویارک کے ایک معروف پاکستانی امریکی سرجن سید عمران احمد کو میڈیکڈ فراڈ کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جبکہ ان کے میڈیکل منیجر کے مطابق ان پر جو الزام عائد کیا گیا ہے، اس الزام کے تحت کسی بھی ڈاکٹر پر ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے۔ صرف ڈاکٹر عمران احمد ہی نہیں بلکہ ہیوسٹن میں مزید تین پاکستانی ڈاکٹرز کو بھی اسی طرح کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ پریشانی کے اس لمحے میں ان ڈاکٹرز کے اہل خانہ نے جب مدد کے لیے اپنی تنظیم ’’اپنا‘‘ سے رابطہ کیا تو انہیں ’’اپنا‘‘ کا ٹکا سا جواب ملا کہ وہ اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔
پاکستان سمیت تیسری دنیا کے تمام ممالک کے تفتیشی اداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تفتیش اور تحقیق کے جدید ترین ذرائع سے واقف نہیں ہیں اور کسی ملزم سے تفتیش کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو دنیا کا کوئی بھی تحقیقاتی ادارہ تشدد اور غیر انسانی ظالمانہ عمل سے مبرا نہیں۔ حال ہی میں امریکی تحقیقاتی ادارے سی آئی اے کے حوالے سے امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس نے ایوانوں میں ایک ہلچل سی پیدا کردی ہے اور اس تحقیقاتی ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے پوچھ گچھ کے متنازع طریقے استعمال کرکے شدت پسندوں سے اہم معلومات حاصل کرنے اور ان کی بنیاد پر دہشت گرد حملے ناکام بنانے کے جو دعوے کیے تھے، وہ سراسر جھوٹ تھے۔ اس طرح امریکی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
واشنگٹن پوسٹ نے گزشتہ دنوں انکشاف کیا کہ سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے چھ ہزار تین سو صفحات پر مشتمل اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ سی آئی اے نے قیدیوں کے ساتھ کیا رویہ روا رکھا اور اس کی تفصیلات قانون سازوں سے چھپائے رکھی۔ کانگریس کی اس کمیٹی نے یہ رپورٹ اپنی چار سالہ تحقیقات کے بعد جاری کی ہے۔ چار برس پہلے جب سی آئی اے کے اس تفتیشی پروگرام پر تنقید سامنے آئی تھی، جس کا آغاز نائن الیون حملوں کے بعد کیا گیا تھا، اور اس تنقید کے بعد حکومت نے مشتبہ شدت پسندوں اور قیدیوں کے ساتھ ظالمانہ اور ناروا سلوک اور تفتیش کے دوران تشدد کے اس پروگرام پر پابندی عائد کردی تھی کیونکہ خود اس تفتیشی ادارے میں اس عمل پر افسران میں بے چینی پائی جاتی تھی اور کچھ افسران تو تشدد کے ان واقعات کے بعد ادارے ہی کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ سینیٹ کی کمیٹی نے اپنی یہ رپورٹ ابھی جائزے کے لیے خود سی آئی اے کو روانہ کی ہے تاکہ ان کا ردعمل بھی سامنے آسکے جس کے بعد یہ رپورٹ صدر اوباما کو روانہ کی جائے گی تاکہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس قانون سازی کی جاسکے۔ اس طرح اب پاکستانی تفتیشی ادارے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا طریقۂ کار ایک عالمی طریقۂ کار ہے۔
(بشکریہ: ’’اخبار جہاں‘‘ کراچی۔ ۲۱؍اپریل ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply