پاکستان کی معیشت ہمیشہ مد و جزر کا شکار رہی ہے۔ گو کہ پاکستان کو ورثے میں بچے کھچے صرف چند ادارے ملے لیکن اس وقت ایک قابل انتظامیہ موجود تھی جس کی بدولت ۱۹۵۰ء تک پاکستانی معیشت ایک مستحکم درجہ اختیار کرچکی تھی۔ کوریا کی جنگ میں پاکستانی کپاس، پٹ سن سے خوب زرِمبادلہ حاصل ہوا۔ لیکن ملکی معیشت میں تبدیلی ۱۹۵۸ء کے بعد آئی۔ پاکستان کا دوسرا پانچ سالہ منصوبہ ۱۹۶۵ء میں ختم ہوا۔ اس وقت پاکستانی معیشت کو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت حاصل تھی۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت جو ممالک پہلی دنیا (ترقی یافتہ ممالک) کا درجہ حاصل کرسکتے تھے، ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد معیشت میں خرابی پیدا ہوئی لیکن جلد ہی اس پر قابو پالیا گیا اور ۱۹۶۸ء تک ترقی کی شرح دوبارہ سات فیصد سے زیادہ ہوگئی۔ اس کے بعد حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔ ۱۹۷۲ء میں جب نئی حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اس نے ملک میں بہت سی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا ردِعمل منفی ہوا۔ بڑی صنعتوں کو قومیا لیا گیا۔ اس طرح پاکستان میں موجود کئی ایک بڑے صنعت کاروں کو ملک چھوڑنا پڑا۔ اس عمل سے ملک میں صنعتوں کی ترقی کی شرح بہت کم ہوگئی اور اس کا اثر عمومی قومی پیداوار پر بھی پڑا۔ روپیہ کی قدر کم کرنے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ البتہ بہت سے لوگوں کو مشرقِ وسطیٰ جانے کا موقع ملا۔ اس طرح ملک میں مصنوعی خوشحالی نظر آنے لگی۔
۱۹۸۰ء کے عشرے میں ملک میں سیاسی استحکام رہا، اس لیے دوبارہ ترقی کی شرح بڑھنے لگی، لیکن افغان بحران کی وجہ سے ملک میں اندرونی بحران پیدا ہوتا رہا۔ ۱۹۸۸ء کے بعد سے آنے والی حکومتوں نے پائیدار ترقی کے بجائے وقتی اقدامات سے عوام کو خوش رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد پھر کبھی بھی پاکستانی معیشت مستحکم نہ ہوسکی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کو مسلسل کم کیا جاتا رہا۔ ملک میں ڈیم نہ بنائے گئے اور سستی بجلی نہ مل سکی۔ ملک آئی پی پیز کے چنگل میں پھنس گیا، جس کی وجہ سے نہ صرف توانائی مہنگی ہوئی بلکہ گردشی قرضہ بھی بڑھتا رہا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان پر بین الاقوامی پابندیاں ختم ہوئیں بلکہ بہتر ہوئیں، ۲۰۰۸ء تک برسراقتدار رہنے والی حکومت نے معاشی مسائل کو بہت سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اس عرصے میں ترقی کی شرح بڑھ گئی۔ ۲۰۰۶ء میں جی ڈی پی میں ۵ء۸ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ افسو س کہ اس کے بعد پھر جی ڈی پی گرنا شروع ہوگئی۔ روپے کی قدر کم کردی گئی۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اگر ہم ماضی قریب کا جائزہ لیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے۔ آج پاکستان معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ روپیہ اپنی قدر کھورہا ہے۔ برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ معیشت سست روی کا شکار ہے اور ٹیکس آمدنی میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو اسے سب سے بڑا مسئلہ ادائیگیوں کے خسارہ کا درپیش تھا۔ سابقہ حکومت نے برآمدات پرکوئی توجہ نہ دی جو کہ ۲۰۱۳ء کے بعد مسلسل گررہی تھیں۔ ۲۰۱۳ء میں ہماری برآمدات ۲۵؍ارب ڈالر تھیں جو کہ ۲۰۱۷ء میں کم ہو کر صرف ۲۱؍ارب ڈالر رہ گئیں۔ اس طرح بجائے اس کے کہ برآمدات بڑھتیں وہ کم ہوگئیں۔ اگر ہماری برآمدات صرف ۱۵فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھتیں تو ۲۰۱۸ء تک یہ کم از کم ۵۵؍ارب ڈالر ہونی چاہیے تھیں۔ اس طرح ہم خسارے کے بجائے منافع میں ہوتے۔ اس وقت ہماری بیرونی سالانہ ادائیگیاں ۶۰؍ارب ڈالر ہیں جبکہ بیرونِ ملک سے ملنے والی ترسیلات ۲۰؍ارب ڈالر ہیں۔ نئی حکومت کو صرف بیرونی ادائیگیوں کے مسئلے سے نمٹنا تھا جس کو حل کرنے کے دو طریقے تھے۔ یا تو برآمدات کو بڑھایا جائے یا درآمدات کو کم کیا جائے۔ پاکستان کا سب سے بڑا خسارہ چین کے ساتھ ہے جو کہ تقریباً ۱۴؍ارب ڈالر کا ہے۔ اگر چین کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کیے جاتے کہ وہ پاکستان سے اتنی ہی مقدار میں درآمدات کرے جتنی برآمدات ہیں تو مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔ دوسری صورت میں تمام غیرضروری درآمدات پر پابندی لگا دی جاتی اس طرح پاکستان اس درآمدات میں کم ازکم ۳۰فیصد کمی کرسکتا تھا۔ آج اگر ہم بازاروں میں جائیں تو آپ کو فرنیچر، باتھ ٹائلز، چاکلیٹ، بسکٹ، کپڑے اور نہ جانے کیا کیا غیر ضروری اشیا درآمد شدہ ملتی ہیں۔ اگر ان کو بند کردیا جائے تو نہ صرف زرِمبادلہ کی بچت ہوگی بلکہ ملک میں بھی ان کی پیداوار بڑھے گی۔ اس طرح ہماری جی ڈی پی میں اضافہ ہوگا۔ ایوب خان کے دور میں کوئی ایسی شے بیرون ملک سے درآمد نہیں ہوتی تھی جو کہ ملک میں بنتی ہو۔ آج صورت حال یہ ہے کہ صرف وہی چیز ملک میں بنتی ہے جو کہ درآمد نہ ہوسکے۔ اس امپورٹڈ کلچر نے معیشت کا ستیا ناس کردیا ہے۔ افسوس کہ معاملات کو معاشی کے بجائے سیاسی طور پر لیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط بھی کڑی ہیں۔
اگر ہم معاشی بحران کا تجزیہ کریں تو مسئلہ صرف بیرونی ادائیگیوں کا تھا جس کے لیے ہمیں ڈالر درکار تھے۔ ملک میں ڈالر کی کوئی کمی نہیں۔ دراصل ڈالر کے بڑھنے کو بنیاد بناکر لوگوں نے اپنی بچت روپے کے بجائے ڈالر میں کرنا شروع کردی ہے۔ آج ملک میں کم ازکم بیس، پچیس ارب ڈالر اس طرح خرید کر گھروں اور لاکروں میں رکھے گئے ہیں اگر عوام کو پتا چل جائے کہ ڈالر گرنے والا ہے تو یہ تمام ڈالر مارکیٹ میں آجائیں گے۔ حکومت اگر ڈالر کا ریٹ فکس کر دیتی تو بہت بہتر ہوتا۔ اس وقت ڈالر کی صحیح شرح ۱۲۰ روپے ہونا چاہیے۔ اگر اسے ۱۲۰روپے مقرر کیا جاتا تاکہ کوئی شخص مارکیٹ سے ڈالر خرید نہیں سکتا تو گھروں میں رکھے ہوئے ۲۰؍ارب ڈالر مارکیٹ میں آجاتے جن کو حکومت خرید سکتی تھی۔ عام آدمی کو ڈالر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ چند امیر لوگ ڈالر مارکیٹ سے خرید کر بیرون ملک جائیدادیں خریدتے ہیں جس کا خمیازہ پوری قوم بھگتتی ہے۔ صرف اس طبقے کو بچانے کے لیے ڈالر کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنا بدنیتی ہے۔ اب تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فری ڈالر مارکیٹ دراصل منی لانڈرنگ کا ذریعہ بھی ہے۔ غیرضروری درآمدات کو بند کرکے اور ڈالر کو فکس کرکے حکومت معاشی بحران پر اب بھی قابو پاسکتی ہے۔ اگر ہم نے آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ان کی شرائط پر عمل کیا تو اس کا منفی نتیجہ نکلے گا۔ کیونکہ اس سے ملک کی جی ڈی پی مزیدگرسکتی ہے۔ سرمایہ کاری ختم ہو جائے گی۔ قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی۔ اس طرح لوگوں میں بھی بے چینی بڑھے گی۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہمارے بیرونی قرضوں میں ۵۰ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اب ہمیں ہر سال بجٹ میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ۵۰ فیصد زیادہ رقم رکھنی پڑے گی۔ اس طرح بجٹ خسارہ مزید بڑھ جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں مزید ٹیکس لگانے پڑیں گے۔ یہ ایک Vicious Circle ہے جو کہ ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ کرنسی میں کمی سے برآمدات میں اضافہ ضروری نہیں ۵۰ فیصد کرنسی کم کرنے کے باوجود ہماری برآمدات صرف دو فیصد بڑھ سکیں۔ اگر درآمدات میں کمی درکار ہے تو ان پر ویسے ہی پابندی لگا دی جائے یا اس پر بہت زیادہ درآمدی ڈیوٹی لگا دی جائے۔ اس طرح ہمارے ٹیکس میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
بنگلادیش اور بھارت کی کرنسی ہم سے زیادہ مضبوط ہے، لیکن ان کی برآمدات میں ہر سال ۱۰سے ۱۵ فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ دراصل برآمدات بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پیداوار بڑھائیں اور پیداواری لاگت میں کمی کریں، تاکہ یہ بیرون ملک مقابلہ کرسکیں۔ اسی طرح آپ کی مارکیٹنگ صلاحیتیں بھی بہتر ہونی چاہئیں۔ بیرون ملک سفارت کاروں کو برآمدی ٹارگٹ دیے جائیں۔ آج کے دور میں سفارت کاری کاروبار سے منسلک ہے۔ ملک کے اندر صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور بہتر حالات پیدا کیے جائیں۔ اسی طرح ملک سست رفتاری سے باہر آسکے گا۔ ملک میں صرف پیداواری منصوبہ بندی کی جائے اگر ملک میں معاشی ڈسپلن ہو جائے تو پاکستان میں کثیر بیرونی سرمایہ کاری ممکن ہے کیونکہ پاکستان ۲۲ کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے اور یہاں منافع کمانے کے حد درجہ مواقع موجود ہیں۔ عوام میں شعور پیدا کیا جائے کہ صرف ملک کی بنی ہوئی اشیا خریدیں۔ آج ملک میں تیار ہونے والی اشیا کی لاگت اور قیمت درآمدی قیمت سے زیادہ ہے اس کی وجہ غیر ضروری ٹیکس اور توانائی کی قیمت ہے۔ ایسے حالات میں کوئی بھی ملک میں صنعت نہیں لگائے گا۔
ملک میں ایک اور بڑا مسئلہ سرکاری اداروں کا خسارہ ہے۔ افسوس ابھی تک کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ اسٹیل ملز اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں خسارے میں ہیں۔ ان تمام اداروں کو فوری طور پر یا تو نجی شعبوں میں دیا جائے یا صوبوں کے حوالے کر دیا جائے۔ اس طرح ہم تقریباً ۱۰۰؍ارب روپے کی بچت کرسکتے ہیں۔ اسی طرح خسارے میں چلنے والی تقسیم کار کمپنیوں کے بجائے منافع والی کمپنیوں کو نجی شعبے کو دیا جارہا ہے۔ اس طرح سے معاملات حل نہیں ہوسکتے۔ ملک میں جرأت مندانہ اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ فوری طور پر ڈیم بنائے جائیں۔ خاص طور پر کالاباغ ڈیم جو کہ سب سے جلدی اور کم رقم میں بن سکتا ہے۔ معیشت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اسے سیاسی طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ پاکستان ایک بہت ترقی پذیر معیشت رہا ہے لیکن صرف سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے آج تباہ حال معیشت کا حامل ہے۔ اگر ہم نے اپنی معیشت کو سنجیدگی سے اور جرأت مندی سے نہ چلایا تو حالات بگڑسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ کوئی بھی ملک ایسے حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آج بنگلادیش اور ویت نام بھی پاکستان سے آگے ہیں۔ کل اور بہت سے ممالک بھی ترقی کی دوڑ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ اس لیے معاشی سنجیدگی کی اشد ضرورت ہے۔
(بحوالہ: “hilal.gov.pk”)
Leave a Reply