آج پاکستان اپنی تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سے وہ ایک فیصلہ کن اور مکمل جمہوریت کی جانب پیش رفت کر سکتا ہے یا وہ فوج کے ماتحت نیم شہری حکومت کی جانب آگے بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان میں طویل مدتی سماجی تبدیلیوں اور سیاسی طاقتوں کے درمیان توازن ہے۔ ملک میں جمہوریت کو تقویت حاصل ہو سکتی ہے لیکن اس کے نتائج کا انحصار زیادہ تر اس بات پر ہو گا کہ اس عمل میں اہم اداکار صدر پرویز مشرف، پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کے معاون صدر آصف علی زرداری اور پاکستان مسلم لیگ (نواز شریف) کے صدر نواز شریف کس طریقہ سے اس کام کو انجام دیں گے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان قائدین کے عمل سے جو نتیجہ نکلے گا اس سے پاکستان کی مغربی سرحد پر القاعدہ اور طالبان کی شدت پسندی کے تعلق سے ریاست متحدہ امریکا کا کیا رویہ رہے گا۔ اس تعلق سے ہندوستان بھی ایک بہت ہی اہم اور مددگار کردار ادا کر سکتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ امن کی پیشرفت میں مدد مل سکتی ہے۔ جو دونوں ممالک کے لیے سود مند ثابت ہو گی۔ گزشتہ ہفتے میرے پاکستان کے دورہ سے یہ اہم نتیجہ نکلتا ہے۔ اس سفر کے دوران میں پاکستان کے کئی سیاسی تجزیہ نگاروں، سماجی سائنسدانوں، سابق سفارتکاروں اور سماجی کارکنوں سے ملاقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں پاکستان کے ممتاز وکلاء کی جانب سے ملتان تا اسلام آباد ’’لانگ مارچ‘‘ سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جنرل مشرف کی جانب سے علیحدہ کردہ ججوں کا یہ اقدام ایک نئی تبدیلی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ قومی انتخابات کے چار ماہ کے بعد بھی ملک میں کوئی مستحکم حکومت قائم نہیں ہو سکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی جانب سے کیے گئے وعدے جن میں پاکستان میں وفاقی کابینہ Federal Cabinet سے علیحدگی کے بعد اس کی واپسی کی راہ ہموار ہو سکے۔ (پاکستان میں مسلم لیگ کابینہ سے اس لیے علیحدہ ہو گئی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے علیحدہ شدہ ججوں کی جلد ماموری سے اتفاق نہیں کیا تھا۔) ان دونوں جماعتوں کے درمیان ایک غیر اطمینان بخش اتحاد قومی سطح پر قائم ہوا ہے۔ اسی طرح سے پنجاب میں جہاں نواز شریف کے بھائی شہباز شریف وزیراعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں وہاں بھی یہی حالات ہیں۔ یہ دونوں قومی سیاسی جماعتیں صاف طور پر ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں کی سماجی بنیادوں اور قیادت کے پس منظر اور سیاسی اولیت کے اعتبار سے ایسا ہونا غیر متوقع نہیں تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) بنیادی طور پر ایک پنجابی سیاسی جماعت ہے جس کی بنیادیں شہری مہم پسند تاجروں اور مالدار کسانوں پر مشتمل ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک وسیع تر قومی اساس حاصل ہے اور وہ صوبہ سندھ میں مضبوط ہے جہاں اس کو بڑے زمینداروں کی تائید حاصل ہے۔ اس سلسلے میں یہ سوال مرکزی نوعیت کا ہے کہ کیا یہ دونوں سیاسی جماعتیں متحد رہ سکتی ہیں؟ طویل عرصہ تک نہیں تو کم از کم صدر مشرف کے اپنے عہدہ سے سبکدوش ہونے تک اور کیا ملک میں فوج کا اقتدار اس حد تک کمزور ہو جائے گا کہ ایک مستحکم جمہوری اور دستوری حکومت کا قیام ممکن ہو سکے۔ اس قسم کے امکانات غیر یقینی صورتحال کے بادلوں کے سائے میں آگئے ہیں۔ یہ حالات اس لیے نہیں پیدا ہوئے ہیں کہ صدر مشرف کو فوج کی بالکلیہ تائید حاصل ہے۔ بلکہ مسٹر زرداری کو امریکی دبائو کے تحت اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ صدر مشرف کو برقرار رکھنے سے گریز کریں۔ واشنگٹن سنجیدہ مشوروں کے برخلاف اس بات سے مطمئن ہے کہ صدر مشرف طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ میں اس کے بہترین حلیف ہیں۔ حالانکہ ان کا عمل مشتبہ رہا ہے۔ مسٹر زرداری بلین ڈالر کے کرپشن مقدموں میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ وہ National Reconciliation Ordinance کو دوبارہ استعمال کرنا پسند نہیں کریں گے۔ جس کے تحت انہیں اور بے نظیر بھٹو کو پاکستان واپس ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔ کئی پاکستانی تجزیہ نگاروں نے جن سے میں نے بات چیت کی ہے ان کا ایقان ہے کہ NRO کا دوبارہ استعمال کیا جائے گا، اگر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو دوبارہ مامور کیا جائے۔ مسٹر زرداری اپنی اہلیہ کے قتل کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پر عملاً قابض ہو گئے ہیں۔ انہیں کوئی آزادانہ سیاسی موقف حاصل نہیں ہے اور وہ سیاسی دبائو اور خاص طور پر امریکا کے بلیک میل کا شکار ہو گئے ہیں۔
مسٹر زرداری مری ڈکلریشن سے منحرف ہو گئے ہیں جس پر مارچ کے مہینے میں انہوں نے مسٹر نواز شریف کے ساتھ دستخط کیے تھے تاکہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کی ایک قرار داد کے ذریعہ بحال کر دیا جائے کسی دستوری ترمیم کے ذریعہ لیکن اب اپنی کم ہوتی ہوئی تائید کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے زرداری نے صدر مشرف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی بھلائی کے لیے خود اپنے طور پر مستعفی ہو جائیں یا پھر پارلیمنٹ کا سامنا کریں جو ان کے مطابق انہیں برخاست کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ لیکن وہ اس مطالبہ پر کب تک قائم رہیں گے کہا نہیں جا سکتا ہے۔
جہاں تک مسٹر نواز شریف کے مطالبہ کا سوال ہے وہ اس پر بضد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسٹر مشرف اقتدار پر قابض ہو گئے ہیں اور انہیں فوراً مستعفی ہونا چاہیے۔ انہوں نے پرانے تنازعوں کو دوبارہ تازہ کیا ہے۔ مثلاً کارگل کا تنازعہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسٹر مشرف اور وہ اس معاملہ میں اٹل ہیں۔ انہوں نے صاف طور پر مخالف مشرف اور موافق عدلیہ رویہ اختیار کیا ہے اور عوام بھی مشرف کے فوجی اقتدار سے نالاں ہیں۔ جیسا کہ ایوب خان، یحییٰ خان یا ضیاء الحق کے تعلق سے تھے۔ مسٹر نواز شریف کے اس ادعا سے انہیں روایتی پی پی پی کے ہمدردوں بشمول بائیں بازو کے لبرل دانشوروں کی تائید حاصل ہو رہی ہے۔ مسٹر نواز شریف کا موجودہ رویہ پاکستان کے اس موقف کی تائید میں ہے اور خاندانی حکومت اور آمریت کے خلاف ہے۔ وہ جمہوریت اور محاسبہ کی تائید میں ہیں۔ وکلاء کی تحریک جو بے حد متاثر کن ہے کیونکہ وہ صلاحیتوں کو منظم کر سکتے ہیں۔ جس سے اس صورتحال کی تائید ہوتی ہے اور وہ اپنے مطالبہ میں نیا جوش پیدا کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان میں موجودہ اکثریتی خیالات کی ترجمانی کرتی ہے اور حالیہ کئی سماجی رجحانات کی تائید میں ہے اور جس میں محاسبہ کی تائید ہوتی ہے۔ حالیہ رجحانات میں تعلیم کا عام کیا جانا، ذرائع ابلاغ کی ترقی اور آزادی جس سے مباحثہ کو بے حد ترقی ہوئی ہے اور جو ہندوستان کے ٹیلی ویژن کی آزادی سے زیادہ شدید طور پر سیاسی نوعیت کی ہے۔ ساتھ ہی شہری متوسط طبقہ کی تعداد جو زیادہ وسیع ہو رہا ہے اور متوسط آمدنی والے طبقہ نے جو قدیم جاگیردارانہ ماحول سے آزاد ہو چکا ہے وہ نئے مواقع کی تلاش میں ہے جس میں خود کو اجاگر کرتے ہوئے ایک بہتر مستقبل کی تلاش شامل ہے۔
عوام کے یہ طبقات فوج سے فطری طور پر بدظن ہیں اور اس کے غلط انتظام کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ فوج کی بدعنوانیوں سے نفرت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ عوامی اداروں کو زیادہ جواب دہ ہونا چاہیے۔ یہ دونوں امور ایسے ہیں جن سے پاکستانی عوام کو لگائو Concern ہے۔ بجلی کی قلت، قیمتوں میں اضافہ اور بنیادی ضروری اشیاء کی قلت، جیسے گندم کے آٹے کی قلت اور سبزیوں کی قلت (جو ہندوستان سے درآمد کی جا رہی ہیں) ایسے مسائل ہیں جن سے عام پاکستانی باشندے متاثر ہیں۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں۔ پاکستان میں بجلی کی سپلائی کی صورتحال ہندوستان سے بدتر ہے جہاں چار گھنٹوں سے آٹھ گھنٹوں تک بڑے شہروں میں بجلی مسدود ہو جاتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ عام بات ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ فوجی حکومت کے دوران بجلی کی پیداوار میں ایک بھی میگاواٹ کا اضافہ (گزشتہ ۸ سال میں )نہیں کیا گیا تھا۔ بجلی کی اس شدید قلت کا صرف عارضی علاج یہ بتلایا جاتا ہے کہ انفرادی طور پر قیمتی Invertors نصب کیے جائیں جو کہ آبادی کا صرف ۲۰ فیصد ہی برداشت کر سکتا ہے۔ پاکستان میں سماجی رجحانات میں شدت آبادی کی Generational Shift کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو ماضی میں ہندوستان سے متعلق تھی۔ اب فوج کی اور بیورو کریسی کی ملی بھگت کے ساتھ سیاسی اعلیٰ طبقات کا شعور ماضی کے ’’ہندو انڈیا‘‘ اور ’’مسلم پاکستان‘‘ کے فرضی وجود میں تضاد کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جس میں ’’ثقافتی ٹکرائو‘‘ کو مذہبی رنگ دیا گیا تھا اور جس میں تقسیم ہند کی کڑوی یادیں شامل تھیں۔ ان تمام باتوں کے علاوہ پاکستان کی نئی نسل جو گزشتہ دس سال یا اس سے زیادہ عرصہ میں بلوغ کو پہنچی ہے وہ اپنے آپ کو ہندوستان یا ہندوستانیت کے مفہوم میں نہیں سوچتی ہے۔ یہ نسل جنوبی ایشیاء کی ثقافتی جڑوں اور اس کی تہذیب سے منسلک ہے۔ جو وادی سندھ کی تہذیب سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ ثقافت ماضی کی پرتشدد یادوں اور ۱۹۴۷ء کے قتل عام سے منسلک ہے۔ موجودہ نسل پاکستان کے وجود کو ہندوستان سے دشمنی کے ساتھ نہیں جوڑتی ہے، جو پاکستان نیشنل سیکورٹی ایکٹ کی تشکیل سے منسلک ہے اور جس میں جمہوریت کی مخالفت اور فوجی آمریت بالکل فطری پیداوار تصور کیے جاتے ہیں۔
اوپر بیان کیے گئے تمام امور موافق جمہوریت تحریک سے مربوط ہیں جو گزشتہ ۱۵ یا ۲۰ سال قدیم ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ بعض قلیل مدتی عوامل بھی ہیں جن سے پاکستان کے کم نظر سیاسی قائدین متاثر ہیں اور آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں بھی تجزیہ کی کمی اور قومی آمریت یا بیرونی دبائو کے خلاف جدوجہد کا بھی وسیع تجربہ نہیں ہے۔ پاکستان میں بیرونی دبائو بہت زیادہ ہے۔ امریکا کی کوئی خاص پالیسی پاکستان کے تعلق سے نہیں ہے۔ اس کے پاس صرف مشرف کی تائید کی پالیسی ہے۔ مشرف کو اقتدار میں رکھنا تاکہ وہ پاکستان کے جوہری بم کے سائنسداں اے کیو خان کو زیر کر کے رکھیں اور مخالف امریکا جہادیوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہیں۔ جنرل مشرف نے زائد از ۶۰۰ مشکوک تشدد پسندوں کو امریکا کے حوالے کر دیا ہے تاکہ اس کو کروڑوں ڈالر حاصل ہو سکیں۔ صدر مشرف نے ان پاکستانیوں کو امریکا کے بدنام گوانتا ناموبے کے جیل خانہ میں بند کروا دیا ہے۔ صدر مشرف نے ۰۰۰,۹۰ پاکستانی افواج کو امریکا کی ’’مخالف دہشت گردی‘‘ جنگ میں جھونک دیا ہے جہاں پر ۱۰۰۰ فوجیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ حالانکہ صدر مشرف نے ۱۰ ملین ڈالر سے زائد رقم طویل مسافتی اسلحہ کی خریداری میں صرف کیے ہیں جو ملک کی مشرقی سرحد پر رکھے گئے ہیں۔ جنرل مشرف نے سرحد کی ۷ ایجنسیوں (علاقوں) میں موافق طالبان قبائلی سرداروں سے مشتبہ معاہدے کیے ہیں جو وفاقی نظم و نسق کے قبائلی علاقے میں واقع ہیں۔ پاکستان کے صحافی احمد راشد نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ FATA کے علاقہ میں گزشتہ جنوری کو ایک خفیہ CIA اڈہ قائم کیا گیا ہے جو مخالف میزائل اڈہ ہو گا۔ گزشتہ ہفتہ کم ازکم ۱۱ پاکستانی سپاہیوں کو امریکی فوج کے حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ پاکستانی فوج میں خود اعتمادی کی کمی ہے اور وہ بے چین ہو گئی ہے۔ پاکستانی فوج کو امریکا کی جنگ میں جھونک دیا گیا ہے اور اس کے کئی سپاہی ملازمت ترک کر چکے ہیں۔ پاکستان کی سرحدی فوج (Frontier Force) جنگ کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے ۲۵۰ فوجیوں کو طالبان نے ایک بھی گولی چلائے بغیر گرفتار کر لیا تھا۔ ان تمام امور کی وجہ سے مشرف کے تعلق سے واشنگٹن کے رویہ میں تبدیلی آسکتی ہے۔ ہندوستان کے لیے یہ مناسب وقت ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوری اور غیر فوجی اقدامات کی تائید میں غیر معمولی اقدام کرے۔ پاکستان کے ساتھ فراخ دلی کی پالیسی سے ہندوستان کے طویل مدتی مفادات کو مدد مل سکتی ہے۔ ہندوستان کو پاکستانی عوام کی غیر معمولی تائید حاصل ہو سکتی ہے اگر وہ یکطرفہ طور پر ہندوستان میں پاکستانی اشیاء کی درآمد کی اجازت دیتا ہے اور پاکستانی خدمات حاصل کرتا ہے اور ویزا کی شرائط نرم کر دیتا ہے۔ ہندوستان کی معیشت میں پاکستان کی درآمدات کو آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کو چاہیے کہ وہ ہند۔ پاک سرحدات کو بتدریج غیر فوجی علاقہ قرار دیدے تاکہ حال ہی میں شروع کیے گئے ’’عظیم دوستانہ تعلقات‘‘ کو مزید تقویت حاصل ہو۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply