پاکستان کی معیشت اور اس کا مستقبل

گزشتہ دنوں جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے تحت ایک سیمینار بعنوان پاکستان کی معیشت اور اس کا مستقبل کا انعقاد کی گیا۔ ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے سیمینار سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ۱۹۹۰ء کی دہائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دہائی پاکستان کے لیے کچھ نہیں لائی حالانکہ یہ بات درست نہیں کیونکہ ۹۰ء کی دہائی آج کے دور سے بہتر اور آج کی پالیسوں کے مقابلے میں ۹۹ء سے پہلے کی پالیسیاں بہتر تھیں۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے اعداد و شمار کی بنیاد پر کہا کہ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ موجودہ معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت آئندہ آنے والے دور میں مزید سنگین خطرات کا سامنا کرے گی ، مختلف شماریاتی تجزیے بتاتے ہیں کہ ملکی معیشت کے خدوخال منفی رحجانات دکھا رہے ہیں۔ ۲۰۰۶ء کے مالیاتی سال کے لیے جو بڑے ۶اہداف مقرر کیے گئے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہو سکا جیڈی پی کے حصول کا جو تعین کیا گیا تھا وہ حاصل نہیں کیا جا سکا۔ بجٹ خسارہ ، مالیاتی خسارہ اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ یہ سب مالیاتی پالیسی کی ناکامی کا نہ بولتا ثبوت ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے ۱۹۹۹ء میں افراط زر کی شرح ۷ء۴فی صد تھی جب کہ آج افراط زر کی شرح ۸فیصد سے بھی زائد ہے صرف ۰۵۔۲۰۰۴ء میں افراط زر کی شرح میں دو گنا اضافہ ہوا۔ اس وقت تجارتی خسارہ ۵ء۱ ارب ڈالرز تھا جو آج بڑھ کر ۵ء۱۲؍ارب ڈالرز سے بھی تجاوز کر رہا ہے آج ۱۹۹۹ء میں ۸ء۱؍ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ جہاں تک زرمبادلہ کے ذخائر کا تعلق ہے تو اس میں پاکستانی حکومت کی پالیسیوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ یہ ۱۱/۹ کے بعد کے حالات کا نتیجہ ہیں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ بھی متنازعہ اور قابل بحث موضوع ہے کیونکہ ا ن اداروں کی پرائیوٹائزیشن کی جارہی ہے اس میں ملکیت تبدیل ہو رہی ہے کوئی نیا سرمایہ نہیںلگا یاجارہا ہے۔ پرائیوٹائزیشن کے نام پر ملک کے اہم صنعتی و مالیاتی اداروں کو فروخت کیا جارہا ہے جومستقبل میں پاکستان کے وجود کے لیے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔

بینکوں کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد حسن نے کہا کہ بینکس اپنے کھاتے داروں کا استحصال کر رہے یہ مرکزی بینک سیت ۱۲سے ۱۳فی صد شرح منافع لے کر کھاتے داروں کو صرف ۲% دیا جا رہا ہے اور خدمات پر اخراجات بہت زیادہ ہے جبکہ دوسری جانب بڑے بڑے سیاستدانوں ، بیوروکریٹ اور دیگر بااثر شخصیات کے اربوں کے قرضے معاف کر دیئے جب کہ حکومت کے تمام تر دعوں کے باوجود پاکستان دنیا میں ناکام ریاستوں کی فہرست میں ۹ ویں نمبر پر ہے۔ اس صورتحال میں مشکالات سے بچنے کے لیے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

گڈزگورنس کا نفاذ کرپشن اور پرائیوٹائزیشن کا خاتمہ اور نڈر یفامز کے ساتھ ساتھ ایک نئی معاشی پالیسی کی ضرورت ہوگی۔ سیمینار سے شعبہ کے پروگرام ڈائر یکٹر گڈگورنس کا نفاذ کرپشن اور پرائیو ٹائزیشن کا خاتمہ اور ینڈریفامز کے ساتھ ساتھ ایک نئی معاشی پالیسی کی ضرورت ہوگی۔

سیمینار سے شعبہ کے پروگرام ڈائر یکٹر پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ ملک میں جمہوری قدروں کی مضبوطی اور سول اور فوجی اداروں کا اپنا اپنا کام کرنا ملک کے لیے بہت ضروری ہے۔

(رپورٹ: آفتاب احمد)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*