
پاکستان کے حالیہ انتخابات پر چین کو گہری نظر کیوں رکھنی چاہیے؟ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو چین کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے اہم اتحادی ملک میں باگ دوڑ کس سویلین حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ چین کے تعلقات ہمیشہ سے پاکستانی ’’فوج‘‘ کے ساتھ رہے ہیں، اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بیجنگ کے ساتھ مضبوط تعلقات کی اہمیت کو اچھی طرح سے سمجھتی ہیں۔ چینی حکام یقینی طور پر پہلے بھی پاکستانی سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں وغیرہ کے حوالے سے ترجیحات رکھتے تھے۔ لیکن اس کے اثرات پاکستان چین کے بنیادی تعلقات پر نہیں پڑا کرتے تھے، کیوں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مرکزی اہمیت سکیورٹی تعلقات کو حاصل تھی۔
لیکن اس ہفتے ہونے والے انتخابات کے دوران ہونے والی داخلی سیاست چین کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ چین کی طرف پاکستان کے معاشی حالات، توانائی، بندرگاہیں اور ریلوے کے انتظامی امور میں دلچسپی ایک اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ اس سارے عمل کی وجوہات صرف معاشی نہیں ہیں۔ اقتصادی راہداری دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے لیے امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتی تھی۔ چین اس راہداری کو پاکستان میں استحکام، پاکستان کی تزویراتی پوزیشن میں بہتری اور تعلقات کو دفاعی سطح سے ہٹ کر وسعت دینے کے لیے بھی استعمال میں لانا چاہتا ہے۔ لیکن ان انتخابات میں سی پیک ایک اہم جز ہے۔ اقتصادی راہداری کا دوسرا مرحلہ تعطل کا شکار ہے، ملک کی سیاسی توانائی سول ملٹری تعلقات کی نوک جھونک میں خرچ ہو رہی ہے، ’’بیلنس آف پیمنٹ ‘‘کا بحران سر پر کھڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیجنگ پر نئی دہلی کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اور ان تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ہیں۔
اسی لیے چین انتخابات کے بعد کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ چینی اس بات کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ آیا عمران خان کی حکومت اقتصادی راہداری سے جڑے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کا عزم و ارداہ اور اہلیت رکھتی بھی ہے یا نہیں۔ اگر وہ اس منصوبے کو مکمل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تو چین اس منصوبے سے پیچھے بھی ہٹ سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ۲۰۱۵ء سے آنے والی گرمجوشی ختم ہو سکتی ہے۔ اور چین امداد سے بھی ہاتھ کھینچ سکتا ہے۔
گزشتہ تین برسوں میں پاک چین معاشی تعلقات ایک متعین سمت میں آگے بڑھیں ہیں، خصوصاً ’’ژی جن پنگ‘‘ کے ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘منصوبے کے آغاز کے بعد سے کیوں کہ اس منصوبے کو ایک اہم منصوبہ سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستانی فوج کو ابھی بھی پاک چین تعلقات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، یہ اس راہداری منصوبے کی سلامتی کی ضمانت تولے سکتی ہے، لیکن اس پر عملدرآمد کروانا اس کے لیے ممکن نہیں۔ اس کام کے لیے چین کو ایک ایسی سویلین حکومت کی ضرورت ہے جو معاشی صورتحال کو سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہو، زیادہ بدعنوان نہ ہواور اپنی توانائی سیاسی معاملات میں صرف کرنے کے بجائے وہ ان منصوبوں پر عملدادرآمد کرواسکے اور چینی اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل اس منصوبے کی تکمیل کے لیے موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کے چینی حکام پاکستان مسلم لیگ (ن) یعنی نوازشریف کو دوسری مرتبہ وزیر اعظم دیکھنا چاہتے تھے۔ اور یہ چینی حمایت ہر سطح پر موجود تھی۔ چین نے مختلف مواقع پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ، جو کہ وزیر اعظم نواز شریف کے بھائی بھی تھے، کی کو ششوں کو سراہا، کیوں کہ سب زیادہ اقتصادی راہداری منصوبوں پر بروقت اور موثر عملدرآمد پنجاب میں ہی ہوا۔
اس حمایت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ چین کو بقیہ سیاسی جماعتوں سے کسی قسم کا مسئلہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے آغاز ہی سے چین کی حمایت کی، صدر زرداری کو اس بات کا کریڈٹ حاصل ہے کہ ان کے دور میں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر عملدرآمد کاآغاز ہوا، اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ کہ انھوں نے چین کو اس بات پر راضی کیا کے وہ گوادر کی بندرگاہ کو فعال کریں۔ منصوبے کے ابتدائی مراحل میں اس کی شفافیت اور مجوزہ روٹ کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کی جانے والی تنقید پر چین کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان سیاسی پیچیدگیوں کو بھی بعد میں حل کر لیا گیا تھا۔ ابتدا میں تو چینی حکام نے خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو نجی محفلوں میں تنقید کا نشانہ بنایا لیکن بالآخر خیبر پختون خواہ بھی اقتصادی راہداری کے اس منصوبے میں شامل ہو گیا۔
گزشتہ برس جب پاکستانی فوج نے نواز شریف کے خلاف مہم کو تیز کیا تو اچانک سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ جولائی ۲۰۱۷ء میں بدعنوانی کے الزام میں نا اہل کیے جانے کے بعد فوج نے پاکستان مسلم لیگ اور ان کے سربراہ (جن سے اعتماد اٹھ گیا تھا)کو دوبارہ انتخابات میں کامیابی سے روکنے کے لیے بھر پور کوششیں کیں۔ جس کے نتیجے میں چین کو ایک مرتبہ پھر ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا جن کا سامنا وہ پہلے بھی کر چکا ہے، یعنی کے ایک کمزور سویلین حکومت، جہاں سیاسی جنگ کو ’’گورننس‘‘ پر سبقت حاصل ہوگی، اور مستقبل قریب میں ان حالات میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی حتیٰ کہ انتخابات کے بعد بھی۔ لیکن اس دفعہ مسئلہ یہ تھا کہ چینی مفادات پر اس تبدیلی کے اثرات مختلف ہوں گے۔ گزشتہ برس کے اختتام تک تو بیجنگ نے ان حالات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ اس کے برعکس ماضی میں چینی حکام کے نزدیک سی پیک کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس کی سکیورٹی ہوا کرتی تھی، لیکن اب چینی ماہرین اور حکام کے لیے داخلی سیاست کے مسائل پریشانی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
اس کے علاوہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ بھی تعطل کا شکار تھا۔ موجودہ منصوبوں پر تو کام جاری ہے لیکن سی پیک کے دوسرے مرحلے کے لیے کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی۔، ان منصوبوں میں صنعت کاری کے شعبے میں تعاون، چینی طرز کے خصوصی اکنامک زون شامل تھے ۔جن کے نتیجے میں ہزاروں نوکریاں پیدا ہوں گی اور صنعتی پیداوار کے ساتھ برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ دوسرے مرحلے میں آنے والے تعطل کی واحد وجہ ملک کی سیاسی صورتحا ل نہیں تھی، بلکہ میری جو مختلف ذرائع سے ملاقاتیں رہی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تعطل کی بڑی وجہ مقامی سیاست ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے داخلی سیاست پر گہرے اثرات ہوں گے، جیسا کہ اکنامک زون کے لیے جگہ کا انتخاب ، مقامی کاروباری برادری کے تحفظات، اور وسیع تر منصوبہ بندی کے لیے بڑے پیمانے پر اکنامک اصلاحات وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کے جاری منصوبوں کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ پاکستان نے جس شاہانہ انداز سے شرح منافع طے کیا تھا وہ اس کو پورا کرنا بہت مشکل نظر آرہا ہے۔
ان تمام مسائل میں سب سے اہم ’’قرضوں کی ادائیگی کا بحران‘‘ اور آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ جانے کی ضرورت کے حوالے سے ہے۔ اس ساری صورتحال میں چین بری طرح سے پھنس گیا ہے۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف سے ایک دفعہ پھر قرض لیتا ہے توحکام کا یہ کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی یقینی طور پر ایک شرط یہ بھی ہو گی کہ’’ سی پیک‘‘ میں جاری منصوبوں میں اگر پیسہ لگایا جا رہا ہے تو اس منصوبے کی مکمل مالی صورتحال سے ہر صورت میں اسے آگاہ رکھا جائے۔ ایک اور ممکنہ شرط یہ بھی ہے کہ معاشی طور پر غیر منافع بخش منصوبوں کو معطل کر دیا جائے۔ اس کے بعد جو بیانیہ سامنے آئے گا وہ یہ ہو گا کہ ’’بیلٹ اینڈ روڈ ‘‘منصوبے میں شامل ایک اور ملک معاشی مشکلات کا شکار ہو گیا، وہ بھی کوئی اور نہیں بلکہ چین کا ’’قریب ترین دوست‘‘۔ حقیقت میں تو ’’بیلنس آف پیمنٹس‘‘کے بحران کی بڑی وجہ سی پیک کے منصوبے نہیں ہیں، لیکن سری لنکا، ملائیشیا اور دیگر کئی ممالک میں ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ کے تناظر میں کئی معاشی سکینڈل سامنے آچکے ہیں، اس لیے بدقسمتی سے یہاں بھی بحران کا ذمہ دار اسی چینی منصوبے کو قرار دینے کا پروپیگنڈا کیا جا تا ہے۔
چین کے پاس آئی ایم ایف کے متبادل آپشنز اور بھی پریشان کن ہیں، مثلا یہ کہ چین قلیل مدتی قرض دیتا رہے جیسا کہ اس کے پچھلے کچھ عرصے سے دے رہے ہیں۔ یا پھر بیجنگ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ذمہ داری پر پاکستان میں معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، یعنی پاکستان کی ڈالر کی ضرورت کو پورا کرنا وہ بھی بنا کسی یقینی ضمانت کے کہ مستقبل میں یہ مسئلہ دوبارہ سر نہیں اٹھائے گا۔
ان سارے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات کے بعد سی پیک منصوبے کے جوش و خروش میں واضح کمی آئے گی، اور اگر نواز شریف دوبارہ حکومت میں آجاتے تو بھی یہی حالات ہوتے۔ اگر اس صورتحال کو معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جا ئے تو یہ پریشان کن ضرور ہے لیکن تباہ کن نہیں۔ اس وقت تقریباً ۲۰ ؍ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں یا پھر تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ اگر پاک چین معاشی تعاون تعلقات کی مایوس کن تاریخ کو سامنے رکھ کر دیکھا جا ئے تو موجودہ معاشی تعاون ماضی کے مقابلے کئی سو گنا زیادہ ہے۔
آئی ایم ایف کا پروگرام اور اس کی سخت شرائط، منصوبوں میں شفافیت جیسے اقدامات کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن سی پیک پر کام کی رفتار کم ہونے کے سیاسی اور تزویراتی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کو سمجھنے کے لیے دیکھنا ہو گا کہ چینی قیادت سی پیک کومعاشی، سکیورٹی اور جغرافیائی سیاست کے تناظر میں کتنا فائدہ مند سمجھتی تھی۔ ۲۰۱۵ء سے پاکستان چینی خیر سگالی کا فائدہ اٹھا رہا ہے جب چینی صدر پاکستان کا دورہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ چینی تجزیہ نگار نے اس وقت سے ہی پاکستان کو چین کے ’’حقیقی اتحادی ‘‘کا درجے دے رہے تھے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ایک نمونے کے طور پر پیش کر رہے تھے۔
صدر ژی کو معمول کے مطابق بھارت اور پاکستان کا دورہ ایک ساتھ کرنا تھا، لیکن پاکستان میں جاری احتجاج کی وجہ سے ان کو اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا ۔پھر چین نے طے کیا کہ دورے کی اس منسوخی سے فائدہ اٹھایا جائے۔ چین کا خیال تھا کہ اس دورے کو اس طرح پیش کیا جائے کہ ’’پاکستان کا خصوصی طور پر دورہ کیا جا رہا ہے کیوں کہ چین پاکستان کے ساتھ تعلقات کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور اس دورے میں معاشی شراکت داری، مواصلاتی رابطے اور افغانستان، جہاں چین تعمیری کردار ادا کر رہا تھا، جیسے مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا۔ لیکن یہ خالصتاً دکھاوا بھی نہیں تھا کیوں کہ چین چاہتا تھا کہ اسے پاکستان کے ساتھ تعلقا ت کو مزید وسعت دینی چاہیے اور بھارتی رد عمل کی زیادہ پروا نہیں کرنی چاہیے۔ یعنی کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ الگ الگ معاملات لے کر چلنے چاہیے۔
’’سی پیک‘‘ وہ مضبوط کڑی تھی جس کے تحت سب کو باندھا جا سکتا تھا۔ چین کی وہ لابی جو مضبوط پاکستان کی حامی ہے، ان کے مطابق اقتصادی راہداری کی صورت میں ناقدین کو ایک موضوع مل گیا ہے (خوبصورت بیانات کے باوجود چین میں پاکستان پر تنقید کرنے والے بھی کافی لوگ ہیں)۔ پاکستان سے قریبی تعلقات کے حامی تجزیہ نگار نجی ملاقاتوں میں اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ ان قریبی تعلقات کی نوعیت لازمی طور پر اقتصادی ہوگی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ چین کی سلامتی پر اٹھنے والے خد شات پر بھی قابو پائیں گے۔ جیسا کہ معیشت کو استحکام دینا اورانتہا پسندی کا خاتمہ اور اعتدال پسندی پر مبنی خارجہ پالیسی جو کہ اقتصادی صورتحال کی بہتری کے لیے ایک ضروری شرط ہے۔ ان میں سے چند موضوع ایسے ہیں جن پر بھارت سے بھی بات ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ چینی وزیر اعظم نے نریندر مودی کو پیغام دیا تھا کہ سی پیک سے فائدہ اٹھا کرعوام میں موجودشدت پسندی کو کم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی فوج چیزوں کو آسان بنانے کے لیے اپنی کو ششیں کر رہی تھی۔ جس وقت سی پیک پر تبادلہ خیال کیا جا رہا تھا تو پاکستانی فوج اویغور عسکریت پسندوں(جو کہ چین کے لیے ایک مسئلے کی حیثیت رکھتے ہیں) کو آپریشن ضرب عضب کے ذریعے افغانستان کی طرف دھکیل رہی تھی۔
تعلقات کی مضبوطی کے لیے ابھی بھی تمام وجوہات منطقی ہیں۔ تیزی سے ترقی کرتے ہوئے بھارت کے سامنے ایک مضبوط پاکستان تاکہ اس کی طاقت کو کاؤنٹر کیا جا سکے اورپیپلز لبریشن آرمی کی عالمی سطح پر ’’پروجیکشن‘‘ کے لیے پاکستان کی غیر مشروط حمایت اور اسی طرح کی دوسری وجوہات ہیں جو چین کو پاکستان سے مضبوط تعلقات کا جواز فراہم کرتی ہیں۔ سی پیک نے ایسے تمام تزویراتی فوائد کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے جو کہ دنیا کے سامنے آسانی سے پیش کیا جا سکتا ہے ورنہ ماضی میں چین حکومت کی طرف سے صرف اسلحے کی فروخت ہی شہ سرخیوں کا حصہ بنتی تھی۔
نتیجتاً ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۷ء تک پاکستان نے اپنی سیاسی اہمیت میں بھی اضافہ کیا۔ وفود کا تبادلہ تواتر سے ہونے لگا، وہ وزرا جو کبھی شاذو ناز ہی ملاقاتیں کیا کرتے تھے اب ہر دو ہفتے میں کانفرنس کال کرنے لگے، سمینار ہونے لگے، منصوبوں پر کام کاآغاز ہو گیا، مختصر یہ کہ تعلقات کے رنگ ڈھنگ ہی تبدیل ہو گئے۔ اور اس بات کے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ پاکستان نے جو ٹرمپ انتظامیہ سے منہ پھیرا اس کی وجہ معاشی، سفارتی اور سلامتی کے معاملات میں چین کی جانب سے پاکستان کی ماضی سے کہیں زیادہ پشت پناہی تھی۔
خطے میں آنے والی تزویراتی تبدیلیاں
اب حالات بہت حد تک تبدیل ہو چکے ہیں۔ سی پیک کے حوالے سے پاکستان کی مشکلات تو داخلی ہیں لیکن اگر وسیع کینوس میں دیکھا جا ئے تو خطے میں بھی تزویراتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ نئی دہلی کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کے لیے چین پر بہت زیاہ سیاسی دباؤ ہے۔ حالیہ برسوں میں چین کو بھارت سے خراب تعلقات کی کئی مواقع پر خاصی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔
بھارت سے خراب تعلقات کی وجہ سے چین کو بھارت کے ساتھ سرحد پر، جو کہ نسبتاً پر امن ہوا کرتی تھی، مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ان مسائل کا سیاسی نقصان بھی ہوا، جیسا کہ انیسویں پارٹی کانگریس (یعنی اجلاس )کے وقت ڈوکلام کے سرحدی مقام پر کشیدگی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھارت نے۲۰۱۷ء میں BRIفورم کا بائیکاٹ کر کے بھی چین کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ پھر ۲۰۱۵ء میں سری لنکا کے انتخابات میں راجا پاکسے کی شکست میں بھارت کا کردار، بنگلادیش کی بندرگاہ Sonadiaکے منصوبے کا ہاتھ سے نکل جانا اور’’ بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ‘‘کے ہر منصوبے کو خطے میں بھارت کی طرف سے جس طرح سیاست کی نظر کیا جا رہا ہے یہ چین کے لیے مشکلات کا با عث بن رہا ہے۔
چین اور امریکا کے مابین جس طرح سے مسابقت بڑھ رہی ہے، بیجنگ اس مرحلے میں دنیا کی دیگر بڑی طاقتوں سے تعلقات مضبوط بنانے کی کو شش کر رہا ہے۔ پھر جیسے جیسے چین بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی سعی کر رہا ہے تو بھارت بھی مختلف معاملات پر بات چیت کے لیے تیار دکھائی دیتا ہے۔
اس سلسلے میں پاک چین تعلقات پھر موضوع بحث بنیں گے۔ مسعود اظہر سے لے کر نیو کلیئر سپلائر گروپ، اور خود سی پیک کے معاملے تک تمام ایشوز میں چین بھارت تعلقات کی کشیدگی کی بنیاد پاکستان ہی رہی ہے۔ بھارت نے چین کے اس موقف کو کبھی بھی قبول نہیں کیا کہ سی پیک خالصتاً معاشی منصوبہ ہے اور اس سے پاکستان میں عسکریت پسندی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ بھارت اس منصوبے کو اپنی خود مختاری کے تناظر میں دیکھتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس منصوبے سے پا ک چین سکیورٹی تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہوں گے۔ اس تاثر کو تبدیل کرنے کے لیے چین کو کوئی ایسا معاشی منصوبہ بھارت کے سامنے رکھنا ہو گا جس میں پاکستان شامل نہ ہو، لیکن ایسا کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ چین سمجھتا تھا کہ اب اس کے حکام اور افسران کو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے معاملے میں عالمی سطح پرپاکستان کی پشت پر کھڑے ہونے یا پاکستان کے موقف کے دفاع کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا، بیجنگ اب بھی اقوام متحدہ کی کمیٹیوں اور دیگر فورم پر پہلے کی طرح پاکستان کا دفاع کرتا نظر آتا ہے۔
مختصر یہ کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی اور سی پیک میں آنے والا یہ تعطل اپنے اثرات سے خالی نہیں ہو گا۔ بلکہ یہ اہم موڑ ہے جب پاکستان کو چاہیے کہ وہ چین کے لیے بھارت سے آزادانہ تعلقات کو بہت مشکل بنا دے، لیکن پاکستان اپنے عمل سے چین کے لیے بھارت سے تعلقات میں توازن پیداکرنے اور انھیں مستحکم کرنے کا خود موقع دے رہا ہے۔
چین کی پالیسی میں آنے والی یہ تبدیلی پاکستان پر پہلے سے ہی اثر انداز ہونا شروع ہو چکی ہے۔ فروری میں ہونے والے Financial Action Taskforce کے اجلاس میں چین نے پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘میں ڈالنے کی حمایت کر کے پالیسی میں تبدیلی کا ثبوت دیا۔ پاکستانی حکام نے چین کی حمایت حاصل کرنے کی بھر پور کوششیں کیں، لیکن چین بھارت سے اس بات پر مذاکرات کر رہا تھا کہ اگر بھارت اس فورم کے نائب صدر کے عہدے کے لیے چین کی حمایت کر دے تو وہ پاکستان کی حمایت سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ اگرچہ یہ ڈیل کوئی بڑی ڈیل نہیں تھی لیکن علامتی طور پر یہ فیصلہ اہم تھا۔ ایک عرصے تک جاری رہنے والی کشیدگی کے بعد چین اور بھارت اب باہمی مفادات پر بات چیت کر سکتے ہیں، اور ان مذاکرات میں پاکستان کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال ہو سکتا ہے۔
چین پاکستان پر اثر انداز ہونے والے دیگر معاملات پر بھی بھارت سے بات چیت کر سکتا ہے۔ اس میں ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبہ بھی شامل ہے۔ چین نے اس منصوبے پر تحفظات رکھنے والے ممالک سے رابطے کے لیے ازسرنو کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اگر چہ بھارت سی پیک پر مذاکرات کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دے رہا، لیکن اس منصوبے پر بھارتی تحفظات بات چیت کے ایجنڈے میں شامل ضرور ہیں۔
انتخابات کے بعد یہ عرصہ نہ صرف پاک چین تعلقات کے مستقبل کو ایک رخ دے گا، بلکہ آنے والے سالوں میں جنوبی ایشیا میں تزویراتی توازن کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت نے معاشی ایجنڈے پرسنجیدگی سے اپنی توجہ مرکوز رکھی اور معاملات کے حل کے لیے اپنی خواہش اور صلاحیتوں کو مظاہرہ کیا تو چین بھی سی پیک کے حوالے سے آنے والے مسائل پر لچکدارانہ رویے کے مظاہرے پر یقین رکھتا ہے۔ ویسے تو عمران خان نے کامیابی کے بعد جو پہلی تقریر کی وہ کافی حد تک مثبت تھی لیکن چین تحریک انصاف کے حوالے سے ماضی کے نسبت تلخ تجربے کو سامنے رکھ کر عملی اقدامات کا منتظر ہے۔ نجی ملاقاتوں میں چینی اس بات کا کھل کر اظہار کر چکے ہیں کہ معاشی اور سیاسی حالات کو سامنے رکھ کر ’’اقتصادی راہداری ‘‘ کے مختلف منصوبوں پر دوبارہ بات چیت کرنے میں کوئی عار نہیں۔ لیکن بیجنگ کو لگتا ہے کہ سیاسی حالات اسی طرح عدم استحکام کا شکار رہیں گے اور اسے بیلٹ اینڈ روڈ کے ایک اور منصوبے پر ذرائع ابلاغ میں تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور پاک چین دوستی کے زبانی دعوے اور سی پیک کے حوالے سے زبانی یقین دہانیاں پاکستان کے اس منفی تاثر کو زائل نہیں کر سکتیں کہ پاکستان اس پروجیکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کروانے کی صلاحیتیں نہیں رکھتا۔
سی پیک میں تعطل کے اثرات صرف معیشت تک محدود نہیں رہیں گے۔ پاک چین سکیورٹی تعلقات میں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی اور نہ ہی چین پاکستان کو بھارت سے تعلقات کی خاطر بار بار نظر انداز کرے گا، لیکن سی پیک کی کامیابی پاک چین تعلقات کو نہ صرف وسعت دیتی بلکہ مستقبل میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کے دوران پاک چین تعلقات بطور آلہ استعمال ہونے سے بھی بالا تر ہو جاتے۔ اس سی پیک کے ساتھ نہ صرف چین کی امیدیں بڑھیں ہیں بلکہ مطابات اور دباؤ میں بھی اضافہ ہوا۔ اور ایک مستقل رسک پیداہوا کہ اگر یہ امیدیں پوری نہ ہوئیں تو تعلقات ۲۰۱۳ء سے پہلے والی پوزیشن پر چلے جائیں گے اور آئندہ چین پاکستان پر ’’جوا‘‘ کھیلنے سے بھی احتیا ط کیا کرے گا۔
مختصر یہ کہ تعلقات میں توازن خطے میں سکیورٹی کی صوتحال کو استحکام بخشے گی۔ بڑھتے ہوئے پاک چین تعلقات جنوبی ایشیا جغرافیائی سیاست میں مسابقت بڑھانے کا باعث بن رہے تھے۔ لیکن دوسری طرف تعلقات میں کمی کے منفی پہلو یہ ہیں کہ فوجی اور سیاسی تعلقات سے ہٹ کر معاشی ایجنڈے پر تعلقات مضبوط کرنے کی جو پہلی کوشش کی گئی وہ ناکامی کا شکار ہو جائے گی، جس کہ نہ صرف ملک پر بلکہ خطے پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Buyer’s remorse: Pakistan’s elections and the precarious future of the China-Pakistan Economic Corridor”. (“warontherocks.com”. July 27, 2018)
Leave a Reply