آزاد مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پلوٹونیم کی پیداوار کے لیے ایک نئے طاقتور ریئیکٹر کی تعمیر شروع کر دی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ اگر اس خبر کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اس قدم کو ملک میں جوہری اسلحہ سازی کی صلاحیتوں میں توسیع کے لیے ایک اہم پیش رفت سمجھا جائے گا نیز اس سے خطے میں اسلحوں کی نئی دوڑ کے امکان کو تقویت ملے گی۔ واشنگٹن کے بعض جوہری ماہرین کا پیشہ ورانہ اندازہ ہے کہ پاکستان کے خوشاب جوہری اڈّے کی سٹیلائٹ تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ ایک جزوی طور سے تعمیر شدہ ڈھانچہ ہے جس پر ہیوی واٹر ریئیکٹر کا گمان ہوتا ہے جو سال میں ۴۰ سے ۵۰ جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں پاکستان کی موجودہ صلاحیت میں اس ریئیکٹر سے ۲۰ گنا اضافے کا امکان ہے۔ اس کی جائے تعمیر پاکستان کے واحد پلوٹینم پیدا کرنے والے ریئیکٹر، ۵۰ میگاواٹ والے ایک اوسط یونٹ کے برابر میں ہے جس نے ۱۹۸۸ء میں ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے برعکس نئے ریئیکٹر کے جہتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی صلاحیت ایک ہزار میگاواٹ یا اس سے بھی زیادہ کی ہو گی جیسا کہ Institute for Science & International Society کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس ۳۰ سے ۵۰ کی تعداد تک یورینیم وارہیڈز ہیں جو پلوٹونیم وار ہیڈز کے مقابلے میں میزائلوں پر لوڈنگ کے حوالے سے قدرے وزنی اور مشکل ہیں۔ مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کے David Albright اور Paul Brannan اپنے ایک ٹیکنیکل تجزیے میں جس کی کاپی واشنگٹن پوسٹ کو بھی فراہم کی گئی ہے، یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’جنوبی ایشیا جوہری اسلحوں کی دور کی آماجگاہ بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں یہاں سیکڑوں جوہری اسلحوں کا ڈھیر لگ سکتا ہے، کم از کم عسکری مقاصد میں کام آنے والے دھماکہ خیز مواد کا وسیع ذخیرہ وجود میں آسکتا ہے۔ اس تجزیے کے کلیدی نکات کی تائید دو دیگر آزاد جوہری ماہرین نے بھی کی ہے جنہوں نے قیمتاً دستیاب ان سٹیلائٹ امیجز کا جائزہ لیا ہے جسے ڈیجیٹل گلوب نے فراہم کیا ہے۔ پاکستان میں حکام نے اس رپورٹ کی نہ تصدیق کی ہے نہ تردید لیکن ایک سینئر پاکستانی افسر نے اپنا نام افشاں نہ کیے جانے کی شرط پر یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’جوہری توسیع کا عمل جاری ہے‘‘۔ اس افسر کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کا جوہری پروگرام مکمل ہو چکا ہے، اب ہم اس پروگرام میں مزید توسیع کے ساتھ اس کو مستحکم کر رہے ہیں۔ توسیع شدہ پروگرام میں سویلین نیو کلیئر پاور اور ملٹری کمپونینٹس کی تیاری کا پروگرام شامل ہے‘‘۔ اس پیش رفت کی وجہ سے ہند و پاک کے مابین برسوں پرانی مسابقت میں نئی تشویش نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس پہلے ہی سے درجنوں کی تعداد میں جوہری وارہیڈز، میزائل اور ان وار ہیڈز کو ڈھونڈنے والے دیگر ذرائع موجود ہیں۔ پاکستان نے بھی ہندوستان کی طرح اب تک NPT پر دستخط نہیں کیا ہے۔ اس کے صفِ اول کے سائنسدانوں میں سے ایک سائنس داں عبدالقدیر خان نے دو سال قبل ایک ایسے نیٹ ورک کو چلانے کا اعتراف کیا ہے جس نے لیبیا، شمالی کوریا اور ایران کو جوہری مواد نیز فنی معلومات فراہم کی تھیں۔ ممکنہ توسیع کی شہادت بھی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جبکہ کانگریس، بش انتظامیہ اور بھارت کے مابین متنازعہ جوہری تعاون پر مباحثہ کی تیاری کر رہی ہے۔ اس معاہدہ سے امریکا کی حساس جوہری ٹیکنالوجی تک بھارت کی رسائی ممکن ہو سکے گی اور اس کے بدلے بھارت کو اپنے سویلین نیوکلیئر سیکٹر کو قدرے سخت نگرانی میں دینا ہو گا۔ اس طرح کی کوئی پابندی بھارت کے ملٹری نیوکلیئر تنصیبات پر عائد نہیں ہو گی۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت کے پاس فی الوقت ۳۰ سے ۳۵ تک کی تعداد میں جوہری بم موجود ہیں جن کی تیاری جدید پلوٹینیم ڈیزائن پر ہوئی ہے۔ پاکستان جو اپنے وار ہیڈز کے لیے یورینیم پر مبنی سادہ ڈیزائن استعمال کرتا ہے، برسوں سے اس فکر میں ہے کہ اپنے اسلحوں کو جدید بنائے اور نئے بھاری پانی کے ریئیکٹر سے یہ کام آسان ہو جائے گا جیسا کہ اسلحہ کے ماہرین کا کہنا ہے۔ ایک یورپی سفارت کار اور جوہری ماہر جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے پر تاکید کی ہے سٹیلائٹ سے ملنے والی شہادتوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ’’پلوٹونیم بموں کے ساتھ پاکستان بھرپور انداز میں جوہری کلب میں شامل ہو سکتا ہے‘‘۔ اس نے Institute for Science & International Society کے جائزے سے اتفاق کیا ہے۔ البتہ پاکستان کی پلوٹونیم پیداوار کی صلاحیتوں میں اضافے کا اندازہ ۲۰ گنا کے بجائے ۱۰ گنا لگایا ہے۔ ایک تیسرا امریکی ماہر کلّی طور سے انسٹی ٹیوٹ کے اندازے سے متفق ہے۔ پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اوائل میں شروع کیا تھا اور ۱۹۹۸ء میں ایک کامیاب جوہری تجربہ کر دکھایا۔ پاکستان میں ۵۰ میگاواٹ والے پہلے پلوٹونیم پیدا کرنے والے ریئیکٹر کی سینٹرل خوشاب ضلع میں تعمیر کی تکمیل کو جوہری اسلحوں کو جدید کرنے کی سمت میں ایک بڑھتے ہوئے قدم سے تعبیر کیا گیا تھا۔ یہ ریئیکٹر سال میں تقریباً ۱۰ کلو گرام پلوٹونیم تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو دو جوہری بموں کے لیے کافی ہے۔ خوشاب میں ایک بڑے ریئیکٹر کی تعمیر بظاہر ۲۰۰۰ء میں کسی وقت شروع ہوئی تھی۔ سٹیلائٹ تصاویر جو ۲۰۰۵ء کے موسمِ بہار میں لی گئی ہیں، ظاہر کرتی ہیں کہ ایک مستطیل نما عمارت کا فریم کسی ایسی چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے جو ایک بڑے نیوکلیئر ریئیکٹر کا گول دھات کا بنا خول معلوم ہوتا ہے۔ ایک سال بعد بھی یعنی اپریل ۲۰۰۶ء میں ڈھانچے کی چھت ہنوز نامکمل معلوم ہوتی ہے جس کی وجہ سے نظر بغیر کسی رکاوٹ کے ریئیکٹر کے خدوخال تک جا پہنچتی ہے۔ البرائٹ کا کہنا ہے کہ ’’چھت کا اس طرح نامکمل ہونا میرے ذہن میں یہ نکتہ اٹھاتا ہے کہ پاکستان کو اس کی تکمیل کی نہ جلدی ہے اور نہ ہی وہ اس پروگرام کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔ رپورٹ یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ تعمیر کی سست رفتاری ظاہر کرتی ہے کہ اس کے اجزا کے حصول میں کچھ دشواریاں ہیں یا پھر کچھ دیگر تنصیبات جو پلوٹونیم بم سازی کے لیے ضروری ہیں، ابھی اپنی جگہ پر نصب نہیں کی جاسکی۔ پاکستان کو اپنی صلاحیتوں میں توسیع کی شاید اس لیے ضرورت ہے کہ وہ اپنے نئے ریئیکٹر کے لیے بھاری پانی تیار کرنا چاہتا ہے اور اس صلاحیت کو پانا چاہتا ہے جس کے ذریعہ وہ صَرف شدہ جوہری ایندھن کو Reprocess کر کے پلوٹونیم کشید کر سکے جیسا کہ رپورٹ بتاتی ہے۔ سٹلائیٹ تصاویر کی ترتیب کا موازنہ کرنے کے بعد انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ نگاروں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ نئے ریئیکٹر کی تکمیل ہنوز چند برسوں کے فاصلے پر ہے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ دھات کے بنے گول ڈھانچے کے قطر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا ریئیکٹر ہے جو ایک ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کا ریئیکٹر اسلحہ سازی کے لیے کارآمد ۲۰۰ کلو گرام پلوٹونیم ہر سال تیار کر سکتا ہے، اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ’’ریئیکٹر اپنی پوری توانائی کے ساتھ سال کے ۲۲۰ دنوں تک اوسطاً کام کرے گا۔ رپورٹ مزید کہتی ہے کہ ’’ایک بم میں ۴ سے ۵ کلو گرام تک پلوٹونیم خرچ ہوتے ہیں تو متوقع مقدار سے سال میں ۴۰ سے ۵۰ جوہری بم تیار کیے جاسکتے ہیں۔ اس رپورٹ پر بش انتظامیہ کا فوری طور سے کوئی ردِعمل نہیں ہے۔ البرائٹ کا کہنا ہے کہ اس نے ڈاٹا سے حکومتی تجزیہ نگاروں کو آگاہ کیا ہے جنہوں نے میرے اندازے سے اختلاف نہیں کیا ہے بلکہ یہ تاثر دیا ہے کہ وہ اس نئے ریئیکٹر کے حوالے سے پہلے ہی سے باخبر ہیں۔ البرائٹ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’اگر جنوبی ایشیا میں اسلحوں کی دوڑ کا خطرہ بڑھ رہا ہے تو اسے پہلے ہی سے کیوں نہیں زیرِ بحث لایا گیا؟‘‘ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی پیش رفت اس جلد بازی میں مزید شدت کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک ایسے معاہدے کا مطالبہ کیا جائے جس سے جوہری اسلحوں میں استعمال ہونے والے افزودہ مواد کی پیداوار کو روکا جاسکے۔ ان کے خیال میں امریکا کو چاہیے کہ مزید جارحانہ طریقے سے افزودہ مواد کی تیاری روکنے والے معاہدے کو وجود میں لانے کے لیے زور ڈالے جو کہ اس نے ابھی تک نہیں کیا ہے۔
(بشکریہ: انگریزی ہفتہ روزہ ’’انڈی پنڈنٹ‘‘ لاہور۔ شمارہ: ۱۹ تا ۲۵ مارچ ۲۰۰۷)
Leave a Reply