
سعودی عرب ایک بار پھر پاکستان کے در پر دستک دے رہا ہے۔ علاقائی خطرات سے نمٹنے میں ریاض کا ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کے لیے سال کے ابتدائی ایام میں وزیرِ خارجہ عادل الجبیر اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے فرزند اور نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اسلام آباد کے الگ الگ دورے کیے۔ یعنی ایران کے خلاف سعودیوں کو پاکستان کی حمایت درکار ہے۔
ریاض کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو دنیا کی دوسری بڑی مسلم آبادی رکھنے والی اس واحد جوہری طاقت سے اسے بہت کچھ حاصل ہوسکتا ہے۔ سعودی چاہتے ہیں کہ دسمبر ۲۰۱۵ء میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے جو ۳۴ ممالک کا اتحاد انہوں نے قائم کیا ہے، پاکستان علانیہ خود کو اس کا حصہ قرار دے۔ اگر اسلام آباد نے سعودی عرب کی علاقائی پالیسیوں کی بھرپور اور مسلسل سفارتی حمایت پر بھی اکتفا کیا تو بھی ریاض مطمئن ہوجائے گا۔ لیکن ایسی حمایت ملنا بھی اب تک تو مشکل ہی لگ رہا ہے۔ اپریل ۲۰۱۵ء میں بھی جب ریاض نے یمن کی جنگ میں اسلام آباد کی عسکری مدد چاہی تو سعودی حکام کو خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑا تھا۔
اس دفعہ عادل الجبیر اور محمد بن سلمان کو اسلام آباد میں دو مختلف پیغامات سننے کو ملے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ راحیل شریف نے سعودی سلامتی کو کسی بھی خطرے کی صورت میں ’’سخت ردعمل‘‘ ظاہر کرنے کی بات کی۔ دوسرا پیغام وزیراعظم نواز شریف نے دیا۔ انہوں نے کسی بھی فریق کی طرف داری کا بوجھ اٹھانے کے بجائے دانشمندی سے کام لیتے ہوئے ایران اور سعودی عرب کے تنازع میں پاکستانی ثالثی پر زور دیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ موقع پرستی کی حدوں کو چھوتا نواز شریف کا یہ غیرجانبدارانہ رویہ ہی سعودی، ایران جھگڑے میں اسلام آباد کا کردار متعین کرے گا۔ ۱۹۴۷ء میں آزادی کے بعد سے ہی پاکستان کو بارہا عربوں اور ایرانیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا ہے۔ کئی بار اسلام آباد نے غیرجانبدار رہنے کی گنجائش نکال لی، جس سے درحقیقت اسے مسلسل فائدہ ہی ہوا۔
تاریخ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ فرقہ وارانہ ہمدردیوں کے بجائے جغرافیائی سیاسی ترجیحات ہی اسلام آباد کو راس آئیں گی۔ آج پاکستان کے خلیجی عرب ممالک، خاص طور پر سعودی عرب سے انتہائی گہرے تعلقات ہیں جہاں لاکھوں پاکستانی کام بھی کرتے ہیں اور وہیں سے سستا تیل اور دیگر معاشی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن ایران ایک بڑا ہمسایہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوہری صلاحیتوں کا حامل ایک ایسا ملک ہے جو برسوں کی عالمی تنہائی کے بعد اب دوبارہ ابھر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلام آباد سعودی درخواست پر غور کرتا ہے تو تہران کو بھی ایک نئے زاویے سے دیکھنا پڑتا ہے۔
ایران، پاکستان تناؤ
عمومی نظریہ یہ ہے کہ ایران، پاکستان تعلقات ۱۹۷۹ء میں ایرانی انقلاب کے بعد خراب ہونا شروع ہوئے، کیونکہ اس کے نتیجے میں تہران میں ایک انقلابی شیعہ حکومت وجود میں آئی اور سُنّی عرب ریاستوں نے اسلام آباد کو گھیرے میں لے لیا۔ جیسا کہ گزشتہ ہفتے ’’ٹائم میگزین‘‘ نے بھی لکھا کہ ایران، پاکستان تعلقات اس وقت سے ’’خراب ہیں، جب سے آیت اللہ خمینی اقتدار میں آئے اور تہران نئی دہلی سے قریب ہوگیا‘‘۔ لیکن درحقیقت یہ سیکولر اور مغرب نواز ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی تھے جنہوں نے خمینی کے اقتدار میں آنے سے ایک دہائی پہلے ہی اسلام آباد اور تہران کی دوستی کو دشمنی میں بدلنے والی طاقتوں کو متحرک کردیا تھا۔
جب ۱۹۴۷ء میں پاکستان وجود میں آیا تو کمیونزم مخالف شاہِ ایران کو خدشہ ہوا کہ یہ بکھری ہوئی کمزور قوم کہیں سوویت یونین کا لقمۂ تر نہ بن جائے۔ انہوں نے امداد، نقد رقوم اور سفارتی حمایت پاکستان کے پلڑے میں ڈالی، خاص طور پر اُس وقت، جب اس نے ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں بھارت کے خلاف جنگیں لڑیں۔ لیکن دو مرتبہ پاکستانی مؤقف شاہ کو ناراض کرگیا۔
پاکستان کا پہلا مطالبہ تو یہ تھا کہ شاہِ ایران بھارت کو تنہا کریں۔ شاہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا اور ۱۷ مئی ۱۹۷۴ء کو سوال اٹھایا کہ ’’کیا پاکستان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ بھارت سے جنگ کرے اور جیت جائے؟‘‘ دوسری مرتبہ وہ مزید جھنجھلا اٹھے، جب بھارت کے ساتھ عسکری دوڑ کی مالی امداد کے لیے پاکستان نے تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستوں کی جانب دیکھنا شروع کیا۔ ۱۹۶۸ء میں جب برطانیہ نے خطے سے دستبرداری کے اشارے دیے تو پاکستان نے عسکری محافظ بننے کا خواب دیکھتے ہوئے خلیجی ریاستوں کی جانب کئی فوجی دستے بھیجے۔ لیکن پھر پاکستانی صدر ایوب خان نے خلیج فارس کا عسکری قائد بننے کے ایرانی منصوبے کو چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور تہران کی خوش قسمتی کہ امریکی صدر نکسن نے بھی برطانیہ کی جگہ لینے کے لیے شاہ کو تھپکی دی اور پاکستان چپ ہوگیا۔ لیکن ایران، پاکستان تعلقات میں توڑ پھوڑ شروع ہوچکی تھی اور کسی طرح کی فرقہ واریت یا تاریخی تنازع کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا۔ اس وقت کے اسلام آباد، تہران تعلقات کا ذکر کرنے والی امریکی و برطانوی خفیہ دستاویزات میں بھی ’’شیعہ‘‘ اور ’’سُنّی‘‘ کے الفاظ کہیں نہیں ملتے۔ ان دنوں ایک اور اصطلاح زیادہ عام تھی: شاہ نے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کہا کہ ’’بھٹو عربوں کو خوش کرنے کے لیے اس قدر بے تاب ہیں کہ انہوں نے ’خلیج‘ کا ذکر اس کے لازمی لاحقے ’فارس‘ کے بغیر کرنا شروع کردیا ہے۔ اگر انہیں سستا تیل درکار ہے تو انہیں ہر حال میں اپنے عرب دوستوں کا کچھ کرنا ہوگا‘‘۔
دور بینی
لیکن اگر شیعہ سُنّی تقسیم کوئی مسئلہ نہیں تھی، تب بھی عرب و عجم کی کشمکش اصلی تھی اور اس نے پاکستان کو بیچ میں پھانسا ہوا تھا۔ فروری ۱۹۷۴ء میں شاہ نے اسلامی کانفرنس کے لیے لاہور آنے کی بھٹو کی دعوت محض اس لیے رد کردی تھی کہ بظاہر اس کی تاریخ سعودی شاہ فیصل نے چُنی تھی۔ شاہ نے اس موقع پر اپنے انتہائی قریبی رفقاء سے کہا کہ ’’آخر میں کیوں فیصل کو تاریخ متعین کرنے دوں؟ــ‘‘ یہ واقعہ بظاہر بے ضرر تھا لیکن یہ ان اوّلین مواقعوں میں سے تھا، جب ایران اور سعودی عرب دونوں نے پاکستان کو گھیرنے کی کوشش کی۔ آخر میں پاکستان نے کانفرنس میں عربوں سے لاکھوں کے اقتصادی وعدے حاصل کرلیے۔ یہی بھٹو صاحب پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول شیعہ سیاستدان تھے، جو دوسروں کی توقعات کو اکثر غلط ثابت کردیتے تھے۔
۱۹۷۹ء میں شاہ کے زوال اور اسلامی شیعہ حکومت کے قیام نے ایران کے سُنّی عرب ہمسایوں کو تو یقیناً بہت زیادہ چوکنا کیا مگر پاکستانی مؤقف پر اس کا کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ ایران، عراق جنگ (۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۸ء) کے دوران جب خلیجی ریاستیں عراقی صدر صدام حسین کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہی تھیں اور تہران کو تنہا کرنے کے لیے اسلام آباد پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا، پاکستانی ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ پاکستان میں سُنّی نواز پالیسیوں کے معمار فوجی آمر ضیا الحق نے عرب مطالبات کے جواب میں زبانی جمع خرچ تو کیا مگر عملی طور پر کراچی بندرگاہ ایران کے لیے کھول دی تاکہ اس کے تجارتی جہاز عراقی فضائیہ کے حملوں سے بچے رہیں جو ایرانی بندرگاہوں کو نشانہ بنارہی تھی۔ اس دور میں پاکستان، ایران تجارت بھی خوب پھلی پھولی اور ساتھ ہی اسلام آباد عربوں کی مایوسی دور کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ دوسرے الفاظ میں اسلام آباد نے انتہائی حساس توازن قائم کیا اور اس کے ثمرات بھی سمیٹے۔
۴۰ سال کا آزمودہ یہی سادہ سا نسخہ حالیہ سعودی، ایران زور آزمائی کے دوران بھی پاکستانی فیصلوں میں آزمایا جائے گا۔ لیکن آج کا معاملہ محض جغرافیائی سیاسی سطح پر پھرتی دکھانے کا نہیں، کیونکہ آج پاکستان میں فرقہ واریت کا مسئلہ پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہوچکا ہے۔ ۸۰ فیصد سُنّی اور ۲۰ فیصد شیعہ مسلمانوں پر مشتمل تقریباً ۱۹ کروڑ آبادی کا حامل یہ ملک اب ایران اور سعودی عرب کی جانب سے چھیڑی گئی کسی اور فرقہ وارانہ جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ کئی مواقعوں کی طرح اس دفعہ بھی اسلام آباد، تہران اور ریاض کے خدشات دور کرنے کی کوشش ضرور کرے گا لیکن علاقائی بالادستی کے لیے جاری ان کی سرد جنگ کا ایندھن نہیں بنے گا۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“Pakistan’s game: The biggest winner in the Iranian- Saudi dispute”. (“Foreign Affairs”. January 17, 2016)
Leave a Reply