
حالیہ ہفتوں میں ملک کے طاقتور آرمی چیف سمیت سینئر پاکستانی عہدیداروں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب ملک کی خارجہ پالیسی جیو اکنامک ہوگی۔ یہ ایک خوش آئند بیان ہے۔ دہائیوں تک پاکستان کی جیو اسٹریٹجک حیثیت تبدیل ہوتی رہی، پاکستان سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران فرنٹ لائن اسٹیٹ رہا، جس سے بے شمار انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور ترقی کی رفتار رک گئی۔ جس کے نتیجے میں ملک ایک سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل ہوگیا۔ جیو اکنامکس پالیسی صورتحال کو ہی تبدیل کردے گی۔ اس اصطلاح کی تعریفیں مختلف ہیں، لیکن پاکستانی عہدیداروں نے اسے جنگ کے خاتمے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ گزشتہ ماہ ایک عوامی خطاب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک جیو اکنامک وژن پیش کیا، جس میں کہا گیا کہ علاقائی تعاون اور امن و استحکام کا ماحول پائیدار ترقی کے حصول کا مرکز ہے۔ دنیا کے غریب ترین اور کم مربوط خطے کے لیے بلاشبہ یہ زبردست ثابت ہوگا۔ لیکن اگر اچھی نیت کو ایک طرف رکھ دیں تو پاکستان کے جیو اکنامک تصور کا حقیقت کی دیوار سے ٹکرانے کا امکان زیادہ ہے۔ ملک کے لیے جیو پولیٹکس کے چنگل سے نکلنا آسان نہیں ہوگا۔ خاص کر جب خطہ میں تنازعات ہیں اور علاقائی تعاون کی بھی کوئی صورت موجود نہیں ہے۔
پڑوس میں افغانستان امریکی فوجی انخلا کے بعد خانہ جنگی کے دھانے پر کھڑا ہے جبکہ لائن آف کنٹرول پر بھارت سے جنگ بندی کے باوجود اس بات کی کوئی علامت موجود نہیں کہ کوئی بھی فریق تنازع کشمیر پر اپنے روایتی موقف سے پیچھے ہٹے گا تاکہ دیرپا امن قائم ہوسکے۔ اس کے علاوہ امریکا اور چین کی سرد جنگ میں بائیڈن کے دور میں کمی ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ الاسکا میں گزشتہ مہینے دوطرفہ مذاکرات کے دوران امریکی اور چینی وفود میں سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ امریکا چین سرد جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، لیکن وہ گھسیٹ کر اس جنگ کا حصہ بنائے جائیں گے۔ کیوں کہ اسلام آباد نئی دہلی کے خلاف اپنے دفاع کے لیے چینی اسلحہ پر انحصار کرتا اور امریکا چین کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی دہلی کو جدید ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکا نے نائن الیون کے بعد سے پاکستان کو تین ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا لیکن ۲۰۱۶ء کے بعد سے امریکی اسلحے کی فراہمی میں نمایاں کمی آچکی ہے۔ واشنگٹن نے نہ صرف پاکستان میں دلچسپی کھو دی ہے بلکہ وہ اسلام آباد کو چین کے مضبوط اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ پچھلے سال جاری امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈی گروپ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ رپورٹ میں پاکستان کو چینی اسلحے کی فراہمی معطل کرنے کے مطالبے کے ساتھ پاکستان کے لیے چین کی سفارتی اور دفاعی مدد کا امریکا کی جانب سے بھارت کی سفارتی اور دفاعی مدد کاتقابلی جائزہ لیا گیا۔ اس صورتحال میں اسلام آباد کے لیے ایک معتدل رویہ اپنانا بہت مشکل ہوگا، دوسری جانب جیو اکنامکس پالیسی اپنانے کے لیے سخت اصلاحات کرنا ہوں گی، جس کی صلاحیت ہی پاکستان کے پاس موجود نہیں ہے۔
۲۰۱۵ء میں پاکستان اور چین نے بیلٹ اینڈ روڈ سے منسلک سی پیک منصوبہ شروع کیا۔جس کے تحت چین کے مغربی صوبے سنگیانگ کو پاکستان کی بحیرہ عرب میں موجود بندر گاہ سے منسلک کیا جاناتھا۔ یہ ایک عظیم اقتصادی منصوبہ تھا۔ سی پیک کے تحت پاکستان بجلی، سڑک اور دیگر بنیادی ڈھانچے پر تیزی کے ساتھ ۹۱؍ارب ڈالر خرچ کرنے میں کامیاب رہا۔ لیکن اس کے نتیجے میں پاکستان کی درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی ہوگئی اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے چلے گئے۔ اس وقت نوازشریف کی حکومت نے انتخابی سیاست بچانے کے لیے ناقص منصوبہ بندی کی، جس کے نتیجے میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس واپس جانا پڑگیا۔ اپنے آغاز کے چھ برس بعد بھی سی پیک معاشی طور پر کہیں موجود نہیں ہے، شاید اس کا معاشی فائدہ ہو بھی نہیں پائے۔ آج گوادر بندر گاہ پر کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔ کورونا وبا سے قبل کچھ اضافے کے باوجود چین اور پاکستان کے درمیان تجارت بہت معمولی ہے۔ سابق (ن) لیگی حکومت کے ایک ماہر معاشیات نے پیش گوئی کی تھی کہ ۲۰۲۰ء تک سی پیک کے ذریعے پاکستان کو سالانہ ۶ سے ۸؍ارب ڈالر آمدنی ہوگی، جو ابھی تک محض ایک خیالی تصور ہے۔ ۲۰۱۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں اسلام آباد میں سابق کرکٹر عمران خان کی سربراہی میں حکومت قائم ہوئی۔ عمران خان کی حکومت میں معاشی نمو رک گئی، برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور تجارت میں آسانی پیدا کی گئی، جس میں افغان سرحد پر نقل وحمل میں آسانی پیدا کرنا بھی شامل ہے۔ لیکن پاکستانی قیادت کے لیے جیو اکنامکس پالیسی پر عملی نقشے پر خیالی لکیریں کھینچنے جیسا ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان نے سری لنکا کو سی پیک میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ حالانکہ یہ واضح ہی نہیں کہ سی پیک میں شمولیت کا مطلب کیا ہے۔پاکستان کی دو اہم بندرگاہیں کراچی اور بن قاسم پورٹ پہلے ہی سری لنکا کی کولمبو بندرگاہ سے شپنگ لائنوں کے ذریعے منسلک ہیں۔ جبکہ کولمبو جہاز رانی کا علاقائی مرکز ہے، یعنی دوسرے الفاظ میں کولمبو ایک مدمقابل بندرگاہ ہے۔ اگر پاکستان واقعی صورتحال سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا لاجسٹک رابطوں کا تصور کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ ملک کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے مارچ کے اوائل میں ایران اور ترکی کے ساتھ پاکستان تک مال بردار ٹرین چلانے کااعلان کیا۔ لیکن ملک کی ریلوے لائنوں کی حالت کے پیش نظر لانچ کو ملتوی کردیا گیا۔ عمران خان اور دیگر حکام پاکستانی بندرگاہوں کو وسط ایشیائی ملکوں کے لیے سمندر تک پہنچنے کے مختصر راستے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بہت سی ریاستوں کے لیے یہ سچ ہے، لیکن وسط ایشیائی علاقائی اقتصادی تعاون پروگرام اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے مطابق پاکستانی راستے، سرحدی منظوری کے عمل اور دیگر وجوہات سے انتہائی سست اور مہنگے ترین ہیں۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۹ء میں قازقستان، ازبکستان اور ترکمانستان میں تقریباً نو گھنٹے کے مقابلے میں پاکستان سے سرحد پار کرنے میں اوسطاً ۶۴ گھنٹے لگے، جبکہ پاکستان میں کلیئرنس لاگت ان ملکوں کے مقابلے میں تقریباً ۴۳ فیصد سے ۲۲۰ فیصد تک زیادہ ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے کراچی اور بن قاسم پورٹ پر ۲۰۱۶ء سے ۲۰۱۹ء کے درمیان جہازوں کی آمد میں کمی دیکھی گئی۔ حالانکہ انہوں نے بندگاہ کی توسیع بھی کی تھی۔ انفراسٹرکچر اور ٹرانزٹ ٹریڈ کبھی بھی پاکستان کی جیو اکنامک پالیسی کا محور نہیں ہوسکتی۔ پاکستان دوسرے ممالک کے سامانِ تجارت کو فروخت کر کے خوشحال نہیں ہوگا۔ اس معاشی ماڈل نے دبئی اور سنگاپور جیسے شہروں کے لیے کام کیا، مگر ۲۲ کروڑ کی آبادی والا ملک، جو ہر سال دس لاکھ نوجوان لیبر فورس مارکیٹ میں داخل کرتا ہے، اس ماڈل کے ذریعے کامیاب نہیں ہوسکتا۔ برآمدات پاکستان کے معاشی مسائل کا پہلا حل ہے، اسی وجہ سے بلند شرح نمو بھی ایک فریب ثابت ہوئی۔ پاکستان کے لیے جیو اکنامک آلات جن میں تجارتی معاہدے، ٹیرف پالیسیاں اور ٹرانسپورٹ کے معاہدے شامل ہیں، سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ملکی مصنوعات بیرونی منڈیوں تک پہنچانا ہے۔ لیکن برآمدی مسابقت کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان کی سیاسی معیشت کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ملک کی سول اور فوجی اشرافیہ ہے، یہ موجودہ نظام میں مراعات یافتہ طبقہ ہے۔ پاکستان میں مسلسل سیاسی انتشار کے باوجود اشرافیہ نے بڑی صنعتوں آٹو موبائل، کھاد اور چینی کو کارٹلائز کررکھا ہے۔ ان کا منافع غیر مسابقتی درآمدات اور سبسڈی سے حاصل ہوتا ہے۔ مسابقت پاکستانی کمپنیوں کو جدت لانے اور پیداوار بڑھانے پر مجبور کرے گی اور اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر پاکستانی مصنوعات کو فائدہ بھی ہوگا۔ لیکن پاکستانی کمپنیاں پالیسیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا ناقص سامان اندرون ملک مہنگے داموں فروخت کرنے کا آسان راستہ اختیار کرتی ہیں۔پاکستان کی اشرافیہ اپنے لالچ بھرے رویے کی وجہ سے معاشی فوائد عام آدمی تک پہنچنے ہی نہیں دے گی۔اشرافیہ کی معیشت پر گرفت جیو اکنامک کو نان اسٹارٹر بنا سکتی ہے۔ سویلین اور ملٹری کارٹیل کے بہت سارے کھلاڑیوں نے پاکستان میں بجلی گھروں پر سرمایہ کاری کی اور خطے میں سب سے مہنگی بجلی فروخت کرکے بے تحاشا منافع کمایا۔ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اشرافیہ نے حکومتی حوصلہ افزائی سے پاکستان میں انتہائی منافع بخش قیمت پر بجلی کے کارخانے تو لگائے لیکن بجلی کی تقسیم کا نظام بدستوربھیانک منظر پیش کررہا ہے۔ گرڈ سسٹم کی خرابی اور بجلی کی بے دریغ چوری کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے بقایاجات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حکومت کی جانب سے ان بقایا جات کی ادائیگی کے آغاز کے بعد اگلے دو سال میں عام پاکستانی کے بجلی کے بل میں ۶۳ فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں، فوج کے فلاحی ٹرسٹ اور حکومتی ممبران کی ملکیت ہیں۔ مہنگی بجلی کے نتیجے میں پاکستان کی برآمدات کو مسابقت میں شدید مشکلات کاسامنا ہوگا، جس کے بعد گھریلو صنعتیں غیر ملکی مسابقت کے لیے سبسڈی کا مطالبہ کریں گی۔ ایسے میں نیا معاشی آغاز ناممکن نظر آتا ہے۔ پاکستان کو شعبہ توانائی کی طرح کپاس کے بحران سے بھی شدید نقصان کا خطرہ ہے۔ خام اور ویلیو ایڈڈ کپاس پاکستان کی برآمدات کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ اس کے باوجود گزشتہ سال کے دوران روئی کی پیداوار میں ۴۳ فیصد کمی ہوگئی ہے۔ جو تین دہائیوں میں سب سے کم سطح ہے۔ اس کمی کو کورونا کی وبا سے منسوب کیا گیا ہے۔ ابتدائی لاک ڈاؤن نے کپاس کی قیمتوں میں کمی کردی، جس کی وجہ سے کسانوں نے کپاس چھوڑ کر دوسری فصل اگانے کو ترجیح دی۔ لیکن پاکستان میں روئی کا بحران وبا سے پہلے بھی تھا۔ اس صنعت کو مسلسل چیلنجوں کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ ۲۰۱۹ء میں ملک کی کپاس کی متوقع ایک تہائی فصل خراب موسم کی وجہ سے تباہ ہوگئی۔ جبکہ چینی پر سبسڈی نے کسانوں کو روئی چھوڑ کر گنا اگانے کا لالچ دیا۔ پاکستان کے لیے کپاس کی فصل کی اہمیت کے پیش نظر حکومت کو کپاس کے بیجوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے تحقیقی اداروں کی امداد کو دگنا کرنا ہوگا۔ لیکن اکثر پاکستانی اپنے مسائل خود حل کرنے کی بجائے باہر سے کوئی بنابنا یا حل تلاش کرتارہا ہے۔ اس معاملے میں بھی پاکستان نے ازبکستان سے مدد کی درخواست کی ہے۔ درحقیقت سوتی فصل کی برسوں کی خرابی کے باوجود پاکستانی رہنماؤں نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی ہے۔ان کی بے حسی ہر شخص پر واضح کردیتی ہے کہ پاکستان میں ایک اہم جیو اکنامک کھلاڑی کی حیثیت سے عالمی معیشت میں ضم ہونے کی کتنی صلاحیت ہے۔ اپنا محور جیو اکنامک کو بنانے کے لیے سب سے پہلے گھر میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ جب تک کھیل کے قوانین کو تبدیل نہیں کیا جاتا پاکستان صرف بحران کاشکار رہے گا۔ کیوں کہ ملک کے بیشتر شہری پریشان جبکہ اشرافیہ اپنے بڑھتے بینک بیلنس سے خوش ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Pakistan’s geoeconomic delusions”.(“Foreign Policy”. April 5, 2021)
Leave a Reply