ملک عجیب و غریب دو راہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں جمہوری حکومت ہے اور دوسری طرف یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ملک بھر میں کہیں بھی منتخب نظام دکھائی نہیں دے رہا۔ عوام جمہوریت سے جو کچھ بھی چاہتے ہیں وہ حاصل کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ”یہ توہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے“، والی کیفیت ہے۔ دنیا بھر میں یہ تاثر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ پاکستان میں صرف نام کی منتخب یا جمہوری حکومت ہے۔ اور یہ کہ ملک کے نظامِ سیاست و معیشت پر اصلاً تو سویلین ملٹری نظامِ حکومت قابض و متصرف ہے۔ یہ ’’ہائبرڈ‘‘ نظام حکومت ہے جس نے ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘ پیش کیا ہے۔
’’دی ڈپلومیٹ ڈاٹ کام‘‘ کے لیے یکم اکتوبر ۲۰۲۰ء کو شائع ہونے والے ایک سیاسی تجزیے میں محمد تقی نے لکھا ہے کہ طاقت ثابت کرنے کے تازہ ترین مقابلے میں ایسا لگتا ہے، پاکستان کی سویلین ملٹری نظامِ حکومت نے اُس سے زیادہ منہ بھرلیا ہے جتنا چبایا اور ہضم کیا جاسکتا ہے۔
محمد تقی لکھتے ہیں: ’’دو سال سے بھی زائد مدت سے ملک بہت حد تک مارشل لائی نظام کے تحت چل رہا ہے۔ اب یہ بالکل واضح ہوچکا ہے کہ پاکستان کی غیر معمولی طاقتور فوج کسی بھی صورت عمران خان سے دست بردار نہیں ہونا چاہتی۔ اور وہ ایسا کرے گی بھی کیوں؟ جب بھی ٹاپ براس کہتی ہے کہ اُچھلو تو فوج کے حمایت یافتہ وزیر اعظم صرف یہ پوچھتے ہیں کہ کتنا اُچھلنا ہے؟ دو سال کے دوران معیشت کا حال برا ہوچکا ہے۔ معیشت ڈوبتی جارہی ہے مگر فوج یہی چاہتی ہے کہ اس کا لایا ہوا وزیر اعظم ہی تیرتا رہے‘‘۔
’’یہ بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ ملک کس نظام کے تحت چلایا جارہا ہے۔ اب یہ کہنا بہت مشکل ہوچکا ہے کہ فوج کا راج کہاں ختم ہوتا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کہاں شروع ہوتی ہے۔ جارج آرویل کے مشہور ناول ’اینمل فارم‘ میں بھی یہ مخمصہ ملتا ہے کہ ماضی اور حال کے مطلق العنان حکمرانوں میں فرق کیسے کیا جائے کیونکہ دونوں ایک سے ہیں۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے سے متعلق قوانین جس تیزی سے منظور کرائے گئے ہیں، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کا سویلین ملٹری نظام حکومت کس طور کام کر رہا ہے‘‘۔
’’پاکستان دو سال سے منی لانڈرنگ اور ایسے ہی دوسرے متنازع امور پر نظر رکھنے والے ادارے فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کی گرے لسٹ پر ہے۔ اس فہرست پر وہ ممالک ہیں جن کی حکومتیں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو رقوم فراہم کرنے جیسے معاملات روکنے میں مجموعی طور پر ناکام رہی ہیں۔ اس حوالے سے اصلاحات اب ناگزیر ہوچکی ہیں‘‘۔
’’اکتوبر میں فیٹف کے اجلاس سے قبل ستمبر میں پاکستان نے فیٹف کے تقاضوں سے ہم آہنگ قوانین منظور کرکے درست سمت میں فوری نوعیت کا قدم اٹھایا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے فیٹف سے کلین چٹ بھی مل سکتی ہے اور وہ گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں جاسکتا ہے۔ اگر فیٹف کے مطالبات اور تقاضوں کے مطابق قوانین نہ بنائے جائیں یا پہلے سے موجود قوانین میں خاطر خواہ ترامیم نہ کی جائیں تو ملک کو بلیک لسٹ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسی پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں، جن سے ملکی معیشت شدید بحران سے دوچار ہوسکتی ہے‘‘۔
’’فیٹف نے جو کچھ لازم قرار دیا ہے اسے یقینی بنانے کی آڑ میں عمران خان کی سربراہی میں قائم پی ٹی آئی حکومت نے ستمبر کے وسط میں ایسے آٹھ قوانین منظور کیے، جن کے ذریعے حزب اختلاف کو نشانہ بنایا جانا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں حکومت کی مدد انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹوریٹ نے کی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ پارلیمانی سیشن کے دوران ان کے ارکان کو فون کالز موصول ہوئیں، جن میں ان سے کہا گیا کہ پارلیمانی کارروائی سے دور رہیں۔ اس کا مقصد حکومت کو اپنی مرضی کے مطابق قانون سازی کرنے کا اختیار دینا تھا۔ اس سے قبل حزب اختلاف نے پارلیمان کے ایوان بالا ’’سینیٹ‘‘ میں حکومت کے لائے ہوئے متعدد بل ناکام بنائے تھے۔ اس کا حل یہ تلاش کیا گیا کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلاکر حزب اختلاف کے کم و بیش پینتیس چالیس ارکان کو پارلیمان ہاؤس سے دور رہنے کو کہا جائے۔ اس کا مقصد ایسے قوانین منظور کرانا تھا جو فیٹف کی ضرورت سے بھی دو قدم آگے ہیں۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے ذریعے دراصل پارلیمانی روایات کو بلڈوز کیا گیا ہے اور اپوزیشن کو اس کے حقوق سے محروم کرنے کی راہ ہموار کی گئی ہے‘‘۔
’’پاکستان میں ایسے قوانین منظور کرلیے گئے ہیں جو فیٹف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں، تاہم یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان قوانین کی مدد سے اب متعلقہ اداروں کو کسی بھی شخص کے خلاف تحقیقات کے لامحدود اختیار مل گئے ہیں۔ اب ٹیلی کمیونی کیشن بھی مانیٹر کی جاسکے گی اور کمپیوٹر سسٹم کی چھان بین بھی کی جاسکے گی۔ نئے قوانین پر جو چند اعتراضات کیے جارہے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے قومی احتساب بیورو کو بھی کام کرنے کی وسیع تر آزادی دی گئی ہے‘‘۔
’’اس مرحلے پر یہ سوال کسی کے بھی ذہن کے پردے پر ابھر سکتا ہے کہ اگر مجرموں پر ہاتھ ڈالنے میں آسانی پیدا کرنے والے قوانین مرتب کیے جائیں تو ایسا کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ ٹھیک ہے مگر تناظر دیکھنا بھی تو لازم ہے۔ پاکستان میں معاملات ہمیشہ کچھ کے کچھ رہے ہیں۔ جن پر اشرافیہ کی نظرِ کرم رہی ہے ان پر سات خون معاف ہیں۔ اور جن کے بارے میں طے کرلیا گیا ہو کہ کسی بھی حالت میں معاف نہیں کرنا ان کے خلاف تمام قوانین بروئے کار لائے جاتے ہیں‘‘۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Pakistan’s hybrid regime: The army’s project Imran Khan”.(“thediplomat.com”. October 1, 2020)
Leave a Reply