
پینسٹھ سالہ عبدالقادر ملّا کو رات کی تاریکی میں تختہ ٔدار پر لٹکا دیا گیا۔ ۴۲سال پہلے دسمبر کے اِسی مہینے میں مشرقی پاکستان کو بھارتی جارحیت کے نتیجے میں بنگلہ دیش بنایا گیا تھا۔ پاکستانی فوج کے ساتھ جو پاکستانی اپنے وطن کی حفاظت کے لیے سینہ سپر تھے، اُن میں۲۳سالہ نوجوان عبدالقادر بھی تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا کارکن، ڈھاکا یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ہر ملک کے ہر شہری پر لازم ہے کہ اپنی سرزمین پر دشمن کے ناپاک قدم برداشت نہ کرے۔ اس کے خلاف جو بھی اقدام ممکن ہو کر گزرے۔ اسے یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا انجام بھیانک ہو سکتا ہے۔ اس کے بہت سے ہم وطن جو دشمن کے ساتھ مل چکے ہیں، خون کی ہولی کھیلنے میں لگے ہیں۔ پاکستان کا نام لینے والوں پر عرصۂ حیات تنگ کر رہے ہیں، ان کی جان ومال اور آبرو کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ اس کی جان بھی لے سکتے تھے، لیکن اسے اس کی پروا نہیں تھی۔ وہ اپنی دھن میں مگن تھا، اپنے جذبے سے سرشار تھا، اپنا جھنڈا اونچا رکھنے کی اپنی سی سعی کر رہا تھا۔
پھر یہ ہوا کہ وہ نہ ہو سکا، جس کے لیے وہ سر بکف تھا۔ وہ ہو گیا، جو اُس کے مخالف چاہتے تھے۔ ۱۶؍دسمبر کو اس کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور وہ پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہ گیا۔ میدانِ جنگ نے دنیا بدل ڈالی تھی۔ ۱۵؍دسمبر کے محبِ وطن، غدار قرار پائے تھے اور اس دن کے غدار محب وطن بن چکے تھے۔ پاکستان سے محبت جرم بن گئی تھی اور پاکستان سے نفرت انعام و اکرام کی حق دار۔ ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ اس نے نہیں کیا تھا۔ اس کے ہزاروں، لاکھوں ساتھی تو سب کے سب حیران تھے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے اُن کے حلق میں اٹک گئے تھے۔ مغربی پاکستان سے آنے والے فوجی اور غیر فوجی رخصت ہونے لگے، انہیں (قیدی بنا کر) بھارت پہنچایا جانے لگا، لیکن عبدالقادر مُلّا اور اس کے ساتھیوں کو تو یہیں رہنا تھا، ان کے قید خانے کا نام بھارت نہیں، بنگلہ دیش تھا۔
عبدالقادر مُلّا، اس کے رہنمائوں، اس کے ساتھیوں، اس کے ہم خیالوں کی تعداد کم نہیں تھی، ان کی گنتی بھی کروڑوں کو چھوتی تھی، لیکن میدانِ جنگ کا فیصلہ ان پر مسلط ہو چکا تھا۔ اپنے ہی وطن میں اجنبی بن جانے والے نئے حقائق سے آنکھیں کب تک چراتے۔ وہ نئے ڈھنگ سے جینے کا سامان کرنے لگے، تنگ ہوتی ہوئی زمین بالآخر کشادہ ہونے لگی۔ شاہین کب پرواز سے تھک کر گرتا ہے۔
عبدالقادر مُلّا اور اس کے ہم نوائوں نے بنگلہ دیش کو اپنا وطن تسلیم کر لیا۔ اس میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے لگے، اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے سرگرم ہو گئے۔ عبدالقادر صحافت اور سیاست، دونوں محاذوں پر سرگرم رہا، اسے لوگ عبدالقادر مُلّا کے نام سے جاننے لگے۔ اس کی ذہانت اور فراست راستہ بنانے لگی، سکہ چلانے لگی۔ وہ دو بار اسمبلی کا رکن منتخب ہوا، ’’سنگرام‘‘ کا ایڈیٹر رہا، اپنے راستے پر چلتا رہا، آگے بڑھتا رہا۔ بنگلہ دیش کا منظر تبدیل ہونے لگا، توحید کے ترانے گونجنے لگے، اسلامی انقلاب کی چاپ پھر سنائی دینے لگی۔ مخالفوں میں کھلبلی مچ گئی، اس کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے، پاکستان کو توڑ کرسکون کا سانس لینے والوں کا سکون غارت ہو گیا۔ ان کا بنایا ہوا بنگلہ دیش ان کے ہاتھ سے نکل رہا تھا، ان کے نظریات کا مدفن بن سکتا تھا۔ انہوں نے بوسیدہ الزامات کو نئے کپڑے پہنانے شروع کر دیے۔ جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنمائوں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ ۴۲ سال پہلے کی درندگی ان کے سر تھوپی جانے لگی، مقدمات قائم ہونے لگے، نام نہاد ٹریبونل قائم ہوئے اور سزائیں سنائی جانے لگیں۔
د یا بھر میں ہنگامہ اٹھا، ترکی اور ملائیشیا سے پُرزور احتجاج ہوا، اقوام متحدہ اور یورپ کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بلبلا اٹھیں۔ عدالتی ٹریبونلز کی ساخت، انداز سماعت اور شہادتوں کے معیار پر سوالات اٹھائے گئے، لیکن بنگلہ دیش کے عاقبت نااندیش حکمرانوں نے راستہ نہیں بدلا۔ عبدالقادر مُلّا کو ٹربیونل نے عمرقید کی سزا سنائی تو حکومت پھانسی کا مطالبہ لے کر اپیل میں جا پہنچی۔ سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے اس کے گماشتوں نے اسے منظور کر لیا۔ عبدالقادر پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔
عبدالقادر مُلّا نے حکومت سے رحم کی اپیل نہیں کی۔ آخری ملاقات میں انہوں نے اپنے اہلِ خانہ کو تلقین کی کہ ان کے لیے آنسو نہ بہائے جائیں۔ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ لاریب عبدالقادر مُلّا پاکستان کے تازہ شہید ہیں، ان پر آنسو ہر گز نہیں بہانے چاہئیں، آنسو تو پاکستان کے اُن اربابِ اختیار پر بہانا چاہئیں، جن کی زبان سے مذمت کا ایک لفظ ادا نہیں ہوا۔ جن کو بنگلہ دیش کی حکومت سے احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی اور جن کو یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نظر آتا ہے، جنہوں نے قومی اسمبلی میں احتجاجی قرارداد کو بھی مؤخر کر دیا۔ پاکستان میں بیٹھی اُن زندہ لاشوں پر ہر پاکستانی کو نفرین بھیجنی چاہیے اور اپنے آپ پر آنسو بھی بہانے چاہئیں کہ انہوں نے معاملات کن لوگوں کے ہاتھ میں دے دیے ہیں، جو اپنے ہی ماضی سے بے خبر ہیں اور اپنے ہی خون کو پہچاننے سے انکاری ہیں۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور۔ ۱۵؍دسمبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply