
پاکستان کی فوج دنیا کی کئی دوسری مسلح افواج کی مانند تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ آج اس کی مالی سرگرمیوں کا حجم تقریباً دو سو ارب سرمائے کا حامل ہے جن میں فوج کے زیر کنٹرول ویلفیئر فائونڈیشن کی مالی سرگرمیاں بھی شامل ہیں اور جن کا دائرہ بینکنگ‘ انشورنس‘ لیزنگ اور رئیل اسٹیٹ سے لے کر پرائیویٹ سیکورٹی ‘ ایجوکیشن‘ایئر لائنز کارگو سروسز‘ گارمنٹس اور اہم زراعتی مصنوعات پر مبنی صنعتوں تک دراز ہے۔ یہ تجارتیں حکومت کے اضافی خرچ کی نشاندہی کرتی ہیں اس لیے کہ ان میں ریاستی اثاثوں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ چار ویلفیئر فائونڈیشنز یعنی فوجی فائونڈیشن ‘ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ (AWT)‘ بحریہ فائونڈیشن اور شاہین فائونڈیشن ریاستی وسائل کا استعمال کرتے ہیں‘ بغیر حکومت کو کچھ معاوضہ دیئے۔ بہرحال فوج کی اعلیٰ انتظامیہ یہ دعویٰ کرتی چلی آرہی ہے کہ یہ خالص نجی شعبوں کی تجارتی سرگرمیاں ہیں جو حکومتی باز پرس کے دائرے میں نہیں آتیں ۔ لہٰذا یہ سرگرمیاں فوج کی خفیہ معیشت کی حیثیت سے پھل پھول رہی ہیں۔
فوجی معیشت کی تین واضح سطحیں ہیں۔ دی ویلفیئر فائونڈیشن بہت ہی نمایاں حصے کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ چاروں فائونڈیشنز فوج کے ذیلی ادارے ہیں اور یہ ربط بہت ہی واضح ہے۔ عمومی طور سے تمام فائونڈیشنز اپنی اصل تنظیم کے لوگو استعمال کرتی ہیں اور مجموعی طور سے انتظامیہ کو اپنے متعلقہ سروس ہیڈ کوارٹرز سے فراہمی حاصل ہوتی ہے۔ دوسری طرف فوجی فائونڈیشن تین سروسوں پر مشتمل ادارہ ہے جو وزارت دفاع کے زیر انتظام ہے او ریہ ایک ایسے نظام کا حامل ہے کہ جس میں وسائل کو تینوں سروسز کے ویلفیئر بجٹ میں واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔ یہ مالی حصص‘ پرائیویٹ سیکٹر کے اثاثوں کا تقریباً ۶تا ۷ فیصد ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر عشرت حسین کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر میں فوج کا حصہ ۶ء۳ فیصد ہے۔ بہرحال سابق گورنر کے اندازے میں فوجی تجارتی سرگرمیوں کے ایک شعبہ رئیل اسٹیٹ میں جو سرمایہ کاری ہے وہ شامل نہیں ہے۔ ان کے تخمینے کی بنیاد وہ اعدادو شمارہیں جو انہیں کراچی اسٹاک ایکسچینج سے حاصل ہوئی ہیں اورجن میں فوج کی متعدد تجارتی سرگرمیاں شامل نہیں ہیں۔
فوج کا کارپوریٹ امپائر سو پراجیکٹوں پر مشتمل ہے جنہیں براہ راست یا بالواسطہ چارو ں ویلفیئر فائونڈیشنز کنٹرول کرتی ہیں اور ان میں سے بیشتر اندراج اسٹاک ایکس چینج میں نہیں ہے۔ اگرچہ یہ تجارتی مہمات بظاہر پوری مسلح افواج کے لیے شروع کی گئی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فوجی معیشت سے صرف افسران کا خاص طور سے اعلیٰ افسران کا طبقہ ہی بنیادی طور سے مستفید ہوتا ہے۔ ان فائونڈیشنوں میں یا فوج کے زیر کنٹرول دیگر تجارتی اداروں میں سینئر کمانڈروں کو ریٹائر ہونے کے فوراً بعد ٹھاٹ کی نوکریاں دے دی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے فوجی انتظامیہ کی اعلیٰ صفوں میں سیاسی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو سیاسی ہیئت کے لیے بہت ہی پریشان کن ہے اور جو اسے اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دیتا۔ ایک سیاسی فوج کا سیاست سے اچھی طرح پیوستہ رہنے کا اشتیاق اور نمایاں ہوجاتا ہے جب وہ اہم مالی منافعوں کو بھی یکساں طور سے اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھتی ہے۔ مسلح افواج کی اقتصادی سرگرمیوں میں براہ راست یا بالواسطہ شرکت اور اقتدارِ سیاست پر ان کا متوازن کنٹرول اہم و خصوصی معلومات تک ان کی رسائی کا سبب ہیں اور جس کی بناء پرپاکستان میں دو ویلفیئر گروپس یعنی AWT اور فوجی فائونڈیشن کو مضبوطی حاصل ہوئی اور یہ دو ملک کے بہت عظیم تجارتی اداروں میں تبدیل ہوسکے۔ مثلاً فوجی فائونڈیشن کو ساٹھ کی دہائی کے دوران ٹیکسوں سے آزاد کردیا گیا اور AWT نے ۱۹۹۳ء تک کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ جب نواز شریف کی پہلی حکومت کے زمانے میں ٹیکس اس پر عائد کیے گئے تو پھر بھی شاہین اور بحریہ فائونڈیشن کے مقابلے میں ٹرسٹ نے بہت تھوڑے ٹیکس ادا کیے۔ ایسا فوج کے سیاسی اثر و رسوخ کی بناء پر ممکن ہوا۔ فوج ایک سنجیدہ اقتصادی فعالیت رکھنے والے ادارے کی حیثیت سے جو اپنے دوسرے ہم وطن معاشی کھلاڑیوں کے مقابلے میں بازی لے جاتی ہے خاص طو ر سے اُ ن ممالک میں جہاں سیاسی عمل کی نشوونما بہت کمزور ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی مسلح افواج مثلاً امریکا‘ فرانس‘ برطانیہ اور دیگر ممالک کی افواج بھی اہم اقتصادی کردار کی حامل ہیں لیکن یہ افواج معمولاً سویلین تاجروں کی پیٹھ پر سوار ہوکر دوسرے ممالک کے وسائل کا استحصال کرتی ہیں نہ کہ اپنے ملک کے اندر مقابلے میں شریک ہوتی ہیں۔ اسی طرح چینی پیپلزلیبریشن آرمی‘ تھائی لینڈ پاکستان اور برما کی مسلح افواج‘ حتی کہ ایرانی حزب اللہ ملیشیا بھی‘ اپنی سیاسی اہمیت کے پیش نظر اپنے ملکی وسائل کا استحصال کرتی ہیں۔ خاص طور سے کمزور سیاسی نظام والے ممالک میں مسلح افواج متعدد اسباب کی بناء پر اقتصادی سرگرمیوں میں شریک ہونا چاہتی ہیں۔ان وجوہات کا دائرہ اپنے اہلکاروں کے ویلفیئر سے لے کر وسائل کی کمی کے اس خلا کو پُر کرنے تک دراز ہے جو انہیں اپنی مختلف پیشہ وارانہ سرگرمیو ں اور کارروائیوں کے لیے درکار ہیں۔ خاص طو رسے ایسی صورت میں جبکہ حکومتیں وسائل کی کمی کے باعث ایسا نہیں کرسکتی ہیں اور اس لیے بھی کہ حکومت کا ناکارہ ٹیکس نظام وسائل پیدا کرنے سے قاصر ہو یا پھر مسلح افواج کو اپنی الگ اقتصادیات کی اس لیے بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ریاست کے بعض دوسرے مقاصد کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہے۔ تاریخی طور سے گفتگو کی جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ مسلح افواج متعدد وجوہات سے تجارتی سرگرمیوں میں شریک ہوتی ہیں۔ مثلاً جرمنی کی فوج تجارتی دھندوں میں بُری طرح مصروف تھی یہاں تک کہ اُسے دوسری جنگ عظیم میں بری طرح شکست ہوگئی تو یہ سلسلہ رُکا۔ بہرحال سرد جنگ کے بعد کے دور میں مسلح افواج کی تجارتی سرگرمیوں میں براہ راست شرکت وہ طرز عمل ہے ۔ جو اصلاًترقی پذیر ممالک میں دیکھنے میں آتا ہے یہ وطیرہ اُن ممالک میں بھی رہا ہے جہاں مسلح افواج قومی تعمیر میں براہ راست شریک رہی ہیں یا پھر جہاں عوامی فوج رہی ہے۔ مثلاً چین‘ انڈونیشیا اور لاطینی و جنوبی امریکا کے متعدد ممالک میں۔ پیشہ ور اور فعال افواج میں تجارت کا چلن بہت زیادہ مقبول نہیں رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان اور ترکی کی فوج اس معاملے میں استثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک آدمی جب اس معاملے کو گہرائی سے دیکھنا شروع کرتا ہے تو واضح طور سے تین نمونوں کا مشاہدہ ہوتا ہے جو کہ دستیاب ہیں۔ پہلے قسم کے معاملات کا تعلق اس نمونے سے ہے جو چین انڈونیشیا‘ لاطینی امریکا کے کئی ممالک میں ہے جہاں فوج بشمول حاضر اہلکار براہ راست فوجی سرگرمیوں میں شریک ہوتی ہے۔ یہاں مسلح افواج سیاسی و اقتصادی روایات کے جز کے طور پر تجارتی مہمات کا حصہ بنتی ہیں تاکہ اس کے ذریعہ تجارتی سرگرمیوں براہ راست شریک ہونے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہو اور یہ اپنے لیے وسائل پیدا کرسکیں اور اپنے بجٹ کے خلاء کو پُر کرسکیں۔ انڈونیشیا میں تو فوج سوچ سمجھ کر تجارتی مہمات میں حصہ لیتی ہے تاکہ وہ اپنے وسائل کی کمی ان سے پوری کرے۔ حتیٰ کہ فوج اپنی اس آمدنی کے ذریعہ فوجی سازو سامان خریدنے کا بھی اہتمام کرتی ہے۔ چین میں بھی فوج اپنی دفاعی بجٹ کی کمی پورا کرنے کے لیے تجارتی آمدنی کا استعمال کرتی ہے۔ بہرحال پاکستان میں دفاعی بجٹ مکمل طور پر حکومت کے سر ہے اور اس کے علاوہ حکومت ۳۰ ارب روپے سے فوجی پنشن کا خرچ برداشت کرتی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ چین اور انڈونیشیا کی طرح کے معاملات میں بھی یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ فوج کی تجارت میں براہ راست شرکت اس ادارے کی پیشہ وارانہ صلاحیت کے لیے مضر ہے۔ لہٰذا ۱۹۸ء میں چین کی مسلح افواج نے تجارتی مہمات میں فوج کی براہ راست شرکت پر پابندی عائد کردی خاص طور سے سروس انڈسٹری میں۔ دوسرے ماڈل کا تعلق پاکستان اورترکی کی فوجوں سے ہے جہاں فوج براہ راست ملوث ہونے کے بجائے بالواسطہ طریقے سے تجارت میں حصہ لیتی ہے۔ یہ کام اس طرح ہوتا ہے کہ ریٹائرڈ فوجی تجارتی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں اور ان میں وہ سرمایہ استعمال ہوتا ہے جو ویلفیئر کے لیے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جو پاکستان میں بھی اختیار کیا جاتا ہے اور ترکی میں بھی۔ پاکستان میں پنشن اور ویلفیئر کے فنڈز کو تین فائونڈیشنز کو چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یعنی آرمی ویلفیئر ٹرسٹ ‘ بحریہ فائونڈیشن اور شاہین فائونڈیشن ۔

ریٹائرمنٹ کے بعد کے مرحلے کے لیے فوج کے پاس اتنی بڑی رقم ہوتی ہے کہ اس رقم کو وہ کاروبار میں لگادیتی ہے اور اس کی آمدنی سے ویلفیئر اسکیم چلاتی ہے۔ یہ طریقہ اُن لوگوں کے دعوے میں وزن پیدا کرتا ہے جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ ان تجارتی سرگرمیوں کا کوئی تعلق فوج سے نہیں ہے۔ اصل میں زیادہ تر فوجی اہلکاروں کی نظر میں یہ حقیقت کہ مذکورہ فائونڈیشنز اور بعض تجارتیں جنہیں ریٹائرڈ فوجی اہلکار چلارہے ہیں ہرگز اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ یہ مسلح افواج کے کارپوریٹ مفادات ہیں۔ دراصل جو چیز ہمیشہ فراموش کردی جاتی ہے وہ فوج کا سیاسی اثر و رسوخ ہے اور یہ حقیقت کہ یہ براہ راست حکومت میں شریک ہے اور یہ بات فوج کو ان تجارتی فائونڈیشنز میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے بڑی قوت فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں فوج اور عوام کے مابین تعلقات میں ایک عجیب و غریب قسم کے عدم توازن کے پیش نظر اکثر اوقات ٹھیکے ترجیحی بنیاد پر فوجی اداروں کو دے دیئے جاتے ہیں ۔ شہباز شریف کی طرف سے لاہور میں تعمیرات کا پورا وزن FWO اور NLC پر ڈال دیا جانا اس حقیقت پر کھلی شہادت ہے۔ شک کرنے والے یہ پوچھیں گے کہ کیا یہ ٹھیکے پیشہ وارانہ و مسابقانہ پیشکش کی بنیاد پر دیئے گئے ہیں؟ بہرحال حکومت کی شفافیت کے حوالے سے جو روش رہی ہے اس کے پیش نظر یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ آخری ماڈل جس کا پہلے حوالہ دیا جاچکا ہے کا تعلق ان سرگرمیوں سے ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں انجام پاتی ہیں اور جہاں ریٹائرڈ فوجی اہلکار سیکورٹی فرمیں یا آرگنائزیشن قائم کرتے جو براہ راست “Management of Conflict” سے مربوط ہوتی ہیں۔ یہ کمپنیاں مثلاً امریکا کی MPRI یا برطانیہ کی Executive Outcomes یا جنوبی افریقہ کی Sandline International کو حکومتوں اور مسلح افواج کے ذریعہ بالواسطہ طریقے سے دوسرے ممالک یا علاقوں میں اپنے سیکورٹی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کمپنیوں کی ایک اچھی تعداد کو براعظم افریقہ میں حکومتوں کی حمایت یا حکومتوں کو گرانے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔یہ سرگرمی پوری طرح فوجی نوعیت کی ہے اور اس کا طریقہ واردات ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہے جہاں پرائیویٹ کمپنیوں کو تجارتی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً قدرتی وسائل، ہیروں کی کانوں وغیرہ کے تحفظ کے لیے۔ بہرحال اس اپروچ کا انطباق دوسری ریاستوں کی سیاست و معیشت پر کیا جاتا ہے نہ کہ اپنے ملک پر جہاں کہ یہ نجی کمپنیاں رجسٹرڈ کی گئی ہیں۔ البتہ یہ تمام مذکورہ بالا معاملات پریشان کن ہیں۔ فوج کی تجارت میں براہ راست یا بالواسطہ شمولیت اہم تشویش کا حامل ہے خاص طور سے ایسی معیشتوں کے لیے جو اپنی بقاء کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہیں۔ اس لیے کہ اس صورتحال میں وسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں اور ان وسائل کا غیر معقول استعمال حتی کہ کارپوریٹ سیکٹر میں بھی ہو سکتا ہے۔ بہت ساے پہلوئوں سے پاکستانی ماڈل پہلے اور دوسرے ماڈل کا آمیختہ ہے۔ فوج نے درحقیقت دو گونہ اپروچ اختیا ر رکھی ہے پہلی اپروچ پبلک سیکٹر کی تجارتی سر گرمیوں کو نجی سیکٹر کی سرگرمیو ں میں تبدیل کرتی ہے سرکاری رقوم کے استعمال کے ساتھ۔ اس طرح کے کام National Logistic Cell‘Frontier Works Organization حتیٰ کہ فوجی فارمس کے ذریعہ ہوتے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں حکومتی سرمایہ استعمال ہوتا ہے لیکن بعد میں انہیں پرائیویٹ تجارتی مہمات (Ventures) میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ دوسری اپروچ کے تحت تجارتی مہمات کو ویلفیئر فنڈز سے چلایا جاتا ہے۔ ان دونوں طریقوں کو استعمال میں لاکر فوج اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اس کی تجارتوں کا کارپوریٹ سیکٹر کے تقریباً ۲۳ فیصد اثاثوں پر کنٹرول ہے اور اس کے دوفائونڈیشنز یعنی فوجی فائونڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ ملک کے دو عظیم ترین Conglomerates (کئی بڑی تجارتی کمپنیوں کا اشتراک) ہیں۔ اس وسعت میں بہرحال فوج کا وہ حاملِ نزاکت نیٹ ورک شامل نہیں ہے جو اقتصادی اور تجارتی امپائر کو تشکیل دیتا ہے۔ محض ایک اندازہ لگانے کے لیے کہ یہ نیٹ ورک کتنا گہرا ہے ایک آدمی کو اس کے تین واضح اور نمایاں سطحوں پر نظر ڈالنی ہوگی : (الف) چھوٹے اور متوسط قسم کی تجارتی سرگرمی والے پروجیکٹس یونٹس اور ڈویژنز کے ذریعہ آزادانہ طور پر چلائے جاتے ہیں۔ان تجارتی سرگرمیوں کا دائرہ بیکری سے لے کر دیگر محدود نوعیت کی تجارتی سرگرمیوں تک پھیلا ہوا ہے۔(ب) بڑے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز ۔ ان سے مراد NLC اور FWO جیسے ادارے ہیں جو باضباطہ طریقے سے پبلک سیکٹر شعبے کے تحت چلائے جاتی ہیں۔ (ج) بڑے پیمانے کی پرائیویٹ سیکٹر کمپنیاں جہاں کچھ یا کل سرمایہ پبلک سیکٹر کا استعمال ہوتا ہے۔ ان کا کنٹرول یقینی طور سے مسلح افواج کے ہاتھ میں ہے۔ مثلاً فائونڈیشنوں کی انتظامیہ سروس ہیڈ کوارٹرز سے مربوط ہے۔ پرائیویٹ تجارتی کمپنیوں کا انداز کرنے کے لیے یہ معلومات کافی ہوگی کہ فوجی فائونڈیشن کے ۲۱ پروجیکٹس ہیں‘ AWT کے ۴۱‘ بحریہ فائونڈیشن کے ۲۳ اور شاہین فائونڈیشن کے گیارہ پراجیکٹس ہیں۔ ان کا دائرہ بیکری‘ پیٹرول پمپ‘ انٹرنیشنل ایئر لائنز سے لے کر رئیل اسٹیٹ، فنانشیل سروسز اور بینکس تک ہے۔ فوج کے چھوٹے اور متوسط سائز کے انٹرپرائزز کے حوالے سے ایک حالیہ تجارتی مہم کی مثال دی جائے گی جس کا آغاز Corps Command / Cantonement بورڈ نے بہاولپور میں کیا ہے۔ اس مہم میں کنٹونمٹ بورڈ نے مین جی ٹی روڈ پر ایک ٹول پلازہ تعمیر کیا ہے او رپیسے وصول کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو کنٹونمنٹ بورڈ اور لوکل باڈیز کے قانون کے خلاف ہے۔ قانون کے مطابق ان میں سے کوئی بھی ادارہ ہائی وے پر ٹیکس عائد کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ یقینا ہائی کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف شکایت کو مسترد کردیا اور کسی کو اس میں حیرت نہیں ہونا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس طرح کے منصوبے پیسے کمانے کے لیے شروع کیے جاتے ہیں او رپھر ان پیسوں کو ریجمینٹل فنڈ میں ویلفیئر کے نام سے شامل کرلیے جاتے ہیں لیکن بغیر کسی جوابدہی کے۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے اور ان کے ذریعہ روپے کمانے کا مطلقاً کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ بدقسمتی سے شفافیت کی کمی بدعنوانی کو جنم دینے کا سبب بنتی ہے۔ پھر مسلح افواج جنھیں پرائیویٹ سیکٹر مہمات کا نام دیتی ہیں، اس کے لیے وہ دو طریقے استعمال کرتی ہیں۔ پہلا طریقہ وہ فوجی فائونڈیشن کی مانند اداروں کے لیے استعمال کرتی ہیں جنہیں حکومت کے بعض فنڈ سے چلایا جاتا ہے یا پھر ان رقوم سے چلایا جاتا ہے جو ویلفیئر فنڈ کا حصہ ہوتی ہیں۔ یہ طریقہ انہوں نے وراثت میں۱۹۴۷ء میں برطانیہ سے حاصل کیا ہے ۔یہ ان پیسوں کو تجارتی مہمات قائم کرنے میں لگاتے ہیں۔ اس صورت میں حاصل ہونے والے منافع کو براہ رست ریٹائرڈ اہلکاروں کے ویلفیئر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ان کے لیے اسکول ‘ اسپتال ‘ تربیتی مراکزوغیرہ قائم کیے جاتے ہیں چونکہ اس طرح کی سرگرمیاں واضح طور سے خود انحصاری کی حامل ہیں لہٰذا پبلک کی طرف سے اس میں مستقلاً کچھ نہیں ڈالا جاتا ہے۔ فوجی فائونڈیشن کے ذریعہ جو کاروبار کیے جاتے ہیں اُن سے کافی منافع آتا ہے جن سے کاروبار کو اور وسعت دی جاتی ہے۔ بہرحال عمدہ کاروباری سرگرمیاں فوجی فائونڈیشن کی مختلف تجارتی مہمات میں قدر مشترک کی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ کچھ ایسے گوشے بھی ہیں جہاں ماضی میں فائونڈیشن حکومتی مداخلت اور مالی مدد کے لیے مجبور ہوئی تاکہ قرضو ں اور دشواریوں سے باہر نکل سکے۔ اس کی ایک مثال فوجی اُردن سیمنٹ ہے۔ اس کو بچانے کے لیے اسلام آباد سے مددلینی پڑی۔ حقیقت یہ ہے کہ فنانشیل اسٹیٹمنٹ پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انٹریسٹ کی قابل ادائیگی رقم اتنی زیادہ ہے کہ اس طرح کے ادارے آسانی سے بیٹھ جائیں۔ دوسرا طریقہ دیگر تین فائونڈیشنوں سے متعلق ہے یہاں کاروبار کرنے کے لیے ویلفیئر کی رقم کو استعمال کیا جاتا ہے تاکہ نتیجتاً منافع پیدا ہو اور سرمایہ کاروں کو پیسے واپس کیے جاسکیں۔ یہ سرمایہ کار ریٹائرڈ پرزونیل ہوتے ہیں جو اپنی رقوم و یلفیئر اسکیم میں لگائے ہوتے ہیں۔ جو چیز دلچسپ ہے ان تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کے حوالے سے وہ یہ کہ یہ ایسے شعبے ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے بھرپور تحفظ حاصل ہے اور جن کا تعلق کثرتِ استعمال والے اشیائے صرف سے ہے۔ مثلاً فوج کی اہم صنعتی سرگرمیوں کا تعلق چینی‘ کھاد‘ سیمنٹ اور غذائی مصنوعات سے ہے۔ ایسا اس خیال کی بناء پر ہے کہ سرگرمیوں کو اُنہی شعبوں تک محدود ہونا چاہئے جن میں نقصان کا خطرہ کم ہو اور نفع کے امکانات زیادہ ہوں۔ یہی وہ پیمانہ ہے جو دوسرے شعبوں کی سرگرمیوں میں بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ٹریڈ اور سروس انڈسٹری کو نقطۂ ارتکاز بناتے ہوئے سرمایہ کاری ایسے شعبوں میں کی جاتی ہے جہاں فائونڈیشنز یا تو اپنے Parent Services کی فراہم کردہ تجارتوں سے فائدہ حاصل کر سکے یا پھر جہاں اونچا منافع ملنے کی توقع ہو۔ اس حوالے سے دو مثالیں ہیں AWT کا اونی ملبوسات کا پروجیکٹ اور AWTبحریہ و شاہین کا رئیل اسٹیٹ کاروبار۔ اضافی منافع اس طرح ہے کہ فوجی شہرت کی وجہ سے زمینیں رعایتی قیمت پر حاصل کی جاتی ہیں اور بہت اونچی قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں۔ یقینا منافع اُن تجارتو ں میں بھی دیکھائی دیتا ہے جہاں سروس نے کسی پروجیکٹ میں اپنے وسائل کا بڑا حصہ نہیں لگایا ہے۔ اس کی ایک مثال بحریہ فائونڈیشن ہائوسنگ اور تعمیرات کے پروجیکٹ سے ہے۔ راولپنڈی اور دیگر شہروں میں بحریہ ٹائون کی تعمیر منافعوں کی ایسی داستان سے بھری پڑی ہے جو افراد نے کمائے ہیں۔ معاملہ جو بھی ہو اس سے پراجیکٹ میں ریاض نامی ایک شخص اور بحریہ کے روابط کی کار فرمائی کا پتہ چلتا ہے جبکہ اول الذکر، ہائوسنگ پراجیکٹس میں بڑی سرمایہ کاری کا ذمہ دار ہے اور اس کے بدلے اسے بحریہ کا نام استعمال کرنے کا حق ملا۔ یہ تعلق ۲۰۰۰ء میں اس وقت ختم ہوگیا جب بحریہ فائونڈیشن نے بحریہ اسکیم کے تمام حصص کو مِلک ریاض کے نام منتقل کردیا۔ بحریہ نے ریاض کو عدالت میں بحریہ کے نام کا استعمال جاری رکھنے پر بھی چیلنج کیا۔ بہرحال عدالت نے فیصلہ تاجر کے حق میں دے دیا اور استدلال یہ کیا کہ لفظ بحریہ اس کے عظیم ہائوسنگ پراجیکٹ کے مترادف بن چکا ہے او ریہ کہ اس کا کاروبار متاثر ہوگا اگر وہ بحریہ کے نام اور لوگو کو استعمال نہیں کرے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت نے اُن قوانین کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جو نجی کمپنیوں کو کسی سرکاری لوگو کے استعمال سے روکتے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تین فائونڈیشنوں کے ذریعہ جو رئیل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ پراجیکٹس چلائے جاتے ہیں ان ہائوسنگ اسکیموں سے الگ ہیں جنھیں متعلقہ سروس ہیڈکوارٹز چلاتے ہیں۔ اس عمل کے برعکس جس پر فائونڈیشنیں عمل پیرا ہیں اور جو ایک مخصوص قیمت پر زمینیں حاصل کرتی ہیں‘ سروس ہیڈ کوارٹرز کوئی قیمت ادانہیں کرتے ہیں اُن زمینوں کے لیے جوویلفیئر ہائوسنگ اسکیم کے لیے حاصل کی جاتی ہیں۔ گھر یا فیلیٹ کی صرف تعمیراتی قیمت لی جاتی ہے اس افسر سے جسے یہ ملکیت دی جاتی ہے۔ اس لیے اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ وہ زمین جو پہلے فوجی مقاصد کے لیے مخصوص تھی اب ایسی ہائوسنگ اسکیموں میں استعمال ہورہی ہے۔ تنہا صرف لاہور کنٹونمنٹ میں تقریباً ۶۰۰ ایکڑ زمین جو فوجی مشقوں اور دیگر استعمال کے لیے مخصوص تھی من مانہ طور پر لے کر ہائوسنگ اسکیموں میں تبدیل کرد گئی یا افسران کو محض ایک کروڑ ۷۰ لاکھ روپے کی معمولی قیمت کے عوض دے دی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فیصلے کو چیلنج کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔
آج فوج کی اقتصادی سرگرمیاں معیشت کے تینوں کلیدی شعبوں میں دیکھی جاسکتی ہیں یعنی زراعت ‘ صنعت اور سروس انڈسٹریز میں۔ وہ عام اصول جن پر عمل ہوتا معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ تجارت کو ایسے شعبوں تک وسیع کرنا ہے جہاں فائونڈیشنوں کو زیادہ منافع کا یقین ہو۔ بہرحال اس اصول کو تسلیم کرنے کے ساتھ ضروری نہیں ہے کہ فائونڈیشنیں اہلیت بھی رکھتی ہوں۔بعض فوجی کمپنیاں عظیم فعلی اور انتظامی اخراجات کا بوجھ اپنے اوپر رکھتی ہیں۔ جہاں تک AWT کا تعلق ہے تو اسے ۲۰۰۲ء میں حکومت سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ ساڑھے چار ارب روپے کا قرض اس پر سے ہلکا کردے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف نے اپنے ایک بیرونی قرض کے ذریعہ مدد کرکے ٹرسٹ پر سے قرضوں کا بوجھ ہلکا کیا۔ یہ بہت اونچی سطح کی بدمعاملگی ہے اور یقینا اُسی قسم کی بدمعاملگی ہے جو نواز شریف رعایتوں کی شکل میں اتفاق گروپ کے لیے حاصل کررہے تھے۔ یہ بیک وقت دلچسپ بھی ہے اور قابلِ فہم بھی کہ سیاسی قیادت نے فوج کے اس اقتصادی امپائر کو وسعت دینے میں اپنا تعاون جاری رکھا اس خیال سے کہ ٹھیکے اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنے سے ان کی حکومت مسلح افواج کے غیظ و غضب سے محفوظ رہے گی۔ اگرچہ موہوم مقصد کا حصول ممکن نہیں تھا اس لیے کہ اس اقتصادی امپائر نے پھر بھی پھیلنا شروع کردیا۔ بہرحال نواز شریف صرف اکیلے آدمی نہیں تھے جنہوں نے فوج کو تجارت میں مدد دی ہو۔ ویلفیئر فائونڈیشنز کے متعدد پراجیکٹوں کی منظوری بے نظیر بھٹو حکومت کے دور میں بھی ہوئی ان افواہوں کے ساتھ کہ زردار ی کے قریبی دوستوں اور شاہین فائونڈیش کی انتظامیہ کے مابین شاہین پے ٹی وی اور ریڈیو پراجیکٹس کے قیام کے حوالے سے بہت ہی قریبی روابط ہیں۔ نوے کی دہائی میں کسی بھی سیاسی حکومت نے فوجی بزنس کمپلیکس کے حوالے سے کوئی بڑا اعتراض نہیں اٹھایا۔ علاوہ ازیں کارپوریٹ سیکٹر میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو فوج کے بزنس میں ہونے حتی کہ ان کا پارٹنر بننے پر بھی انہیں اعتراض نہیں ہے۔ اس تابعداری اور خفیہ تعاون کی تعبیر اس طرح ہوسکتی ہے کہ یہ فوج کے اقتصادی رول کی ضمنی پیداوار ہے جو گاہک کو خوش رکھنے والی ذہنیت کی عکاس ہے۔ اشرافیت اور کلیت پسندی پر مبنی پاکستان کے سیاسی نظام میں جسے اوپر سے لے کر نیچے تک نشوونما و ترقی کے ایک مطلق العنان اقتصادی ماڈل کی حمایت حاصل ہے‘سیاسی طبقہ اور دیگر کلیدی حلقے اپنے ذاتی مفادات کے لیے فوج میں شراکت کے آرزومند ہوتے ہیں۔ چونکہ فوج میدانِ سیاست کی ایک مستقل کھلاڑی ہے اور اقتدار میں بھی واپس آتی رہتی ہے اس لیے دوسرے کھلاڑی جی ایچ کیو کے ساتھ شراکت بنائے رکھنا چاہتے ہیں یا اپنے مفادات کی خاطر اس کے مفادات کو چھیڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس رجحان کے سبب قومی وسائل کے استحصال کے ماحول کو جو طبقۂ اشراف کا پیدا کردہ ہے، دوام حاصل ہوا ہے۔ اس کے کثیر الجہات منفی اثرات ہیں اوریہ صرف معیشت پر نہیں ہیں بلکہ خود فوج کی پیشہ وارانہ قابلیت و صلاحیت پر بھی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ان کے تجارتی اداروں میں حاضر فوجی اہلکار کی کوئی بڑی تعداد شریک نہیں ہے۔ درحقیقت وردی پوش افراد کا جھنڈ نیشنل لاجسٹک سیل اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن میں ہے۔ یہ دونوں ادارے تجارتی نوعیت کے اداروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ابتداء میں یہ دونوں ادارے اس لیے قائم کیے گئے تھے تاکہ وہ خصوصی پراجیکٹس کو اپنے ہاتھ میں لیں اور ملکی ہنگامی صورتحال سے نمٹیں۔ لیکن اس کے بعد انہیں از خود منافع پیدا کرنے کی جانب آمادہ کیا گیا۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ محدود تعداد پاکستانی فوج کی تجارتوں کو چین اور انڈونیشیا کی فوجی تجارتوں کے ہم پلہ نہیں کرسکتا۔ کسی کا استدلال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستانی ماڈل مختلف ہے اس لیے کہ یہ حاضر افسران کو استعمال نہیں کرتا۔ بہرحال یہ دو اہم مسائل ایسے ہیں جنہیں ضرور سمجھا جانا چاہیے:
پہلا یہ کہ تجارتی مہمات اگر حاضر افسران استعمال نہ بھی کرتی ہیں تو بغیر کسی حجت کے یہ پیشہ وارانہ سوچ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ سینئر افسران جو اچھی طرح واقف ہیں اُن نوازشات سے جو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے انتظار میں ہیں اور وہ ان کمپنیوں میں ملازمت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی سہولیات و مراعات کی صورت میں ہیں لہٰذا وہ حاضر ملازمت کے دوران اپنے کام کے معیار پر سمجھوتہ کرلینا چاہیں گے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ان اداروں میں تقر ر کے لیے لوگوں کے انتخاب کا کوئی درست نظام نہیں ہے۔ ایک سینئر ریٹائرڈ افسر کے مطابق جنرل ضیاء نے ان فائونڈیشنوں کا استعمال ان لوگوں کو نوازنے کے لیے کیا جنہیں وہ پسند کرتے تھے اور ان لوگوں کو کنارے لگانے کے لیے کیا جنہیں وہ ناپسند کرتے تھے اس طرح سے کہ وہ اپنے ناپسندیدہ افراد کو جی ایچ کیو کے اہم مناصب سے ہٹا کر ان فائونڈیشنز میں بھیج دیتے تھے۔ لیکن اکثریت کے لیے یہ ایک ایسی سہولت ہے جو ان کے فوجی کیریئر کے دوران عظیم سمجھوتوں کی متقاضی ہوتی ہے خاص طور سے اونچے مناصب میں۔ دوسرا یہ کہ علامتیت کا ایک عنصر یہاں شامل دیکھائی دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سپاہیوں کی وہ تعداد جو یونٹ‘ دویژن اور کورز کی سطح پر ان تجارتوں میں شریک ہے اور حتی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کے فوائد پر بھی نظر رکھتی ہے ان میں سے بیشتر انہیں اپنی قوت اور اپنے اثر و رسوخ کی توسیع کا ذریعہ خیال کریں گے۔ یہ رجحان ان کے اندر مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ذہنیت پروان چڑھائے گا جو اس ادارے کی تنظیمی اصول و ضوابط و اخلاقیات کو تباہ برباد کرکے چھوڑے گا۔ اس کے بعد مسائل ایک دوسرے خوشگوار ماڈل کے ساتھ بھی ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ اس قسم کی سرمیاں نہیں ہیں جن میں ایک پیشہ ور اور فعال فوج کو مصروف ہونا چاہیے۔ بہرحال یہ عسکری پیشے کی حفاظت کے تئیں حساسیت ہی تھی جس نے چنیوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی مسلح افواج کو ان سے الگ کرلیں۔ کچھ اور بھی پابندیاں تھیں جو عائد کی گئیں۔
نوٹ: مضمون نگار ایک زیر طباعت کتاب “Military Inc, Inside Pakistan’s Military Economy” کی مصنفہ ہیں جس کا اجرا اپریل ۲۰۰۷ء میں ہونا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ نیوز لائن۔ کراچی دسمبر ۲۰۰۶)
Leave a Reply