
دائیں بازو اور انقلابی قوم پرستوں کا اتحاد
ملک میں ایک غیر لبرل رجحان بھی تیزی سے پنپ رہا ہے۔ یہ رجحان مذہبی بنیاد پر انقلاب پسندی کا ہے۔ لوگ اپنے مسائل کا حل ایک ایسے انقلاب میں ڈھونڈتے ہیں جس میں تشدد کا عنصر شامل ہو۔ مگر یہ سوچ عملی سطح پر زیادہ شدت پسندی کی حامل نہیں۔
پس ماندہ اور زیریں متوسط طبقہ عسکریت پسندی کے ساتھ انقلاب کی بات کرتا ہے جبکہ متوسط طبقہ عسکریت پسندی کو انقلاب کی بنیاد بنانے کے لیے تیار نہیں۔
ریاست اس رجحان کو کسی غیر ترقی پسند رجحان کے طور پر پیش نہیں کرتی بلکہ استعمار کے خلاف پائی جانے والی نمائندہ سوچ قرار دیتی ہے۔ پرتشدد انقلاب کو انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے مظہر کے طور پر قبول کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسی زمانے میں بائیں بازو کے لبرل عناصر ہوا کرتے تھے۔ آج کچھ لوگ یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ طالبان کو قبول کرنے میں کوئی ہرج نہیں کیونکہ امریکی بالا دستی کے خلاف اٹھنے والی واحد آواز وہی ہیں۔ دائیں بازو میں بیشتر مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو پرتشدد طریقوں سے انقلاب لانے کو بہتر طریقہ گردانتی ہیں اور جن کے نزدیک دہشت گردی کے خلاف جنگ در اصل استعماری قوتوں کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سوچ کئی اعتبار سے ذہنی پیچیدگیوں کا نتیجہ ہے اور اب حالت یہ ہے کہ پاکستان کو امریکی توسیع پسندانہ عزائم کا ہدف تسلیم کرلیا گیا ہے۔
آج پاکستانی معاشرے میں ایسے بہت سے پڑھے لکھے لوگ مل جائیں گے جو عافیہ صدیقی کے ساتھ ساتھ سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کے بھی حامی ہیں۔ ان کے نزدیک اپنوں میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو غیروں کے ایجنٹ ہیں اور انہیں ختم کرنا ضروری ہے۔
متوسط اور بالائی متوسط طبقے میں بہت سے لوگ اب تشدد کے ذریعے انقلاب لانے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ زید حامد جیسے لوگ بھی تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں اور امریکا اور بھارت کے خلاف طاقت کے استعمال پر یقین رکھتے ہیں اور اسلامی خلافت کے احیا کے داعی ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جو قبائلی بنیاد پر کچھ نیا کرنے کو درست سمجھتے ہیں اور جنہیں مذہبی حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
موجودہ مرکزی سیاسی جماعتیں جس انداز سے کام کرتی رہی ہیں وہ عوام کے لیے خاصا ناقابل قبول رہا ہے کیونکہ ان پر استعمار کا ایجنٹ اور آلہ کار ہونے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں تیزی سے مقبولیت حاصل کرتی جارہی ہیں جو پرتشدد طریقوں سے کوئی بڑی تبدیلی لانے کی داعی ہیں۔ پاکستان میں قوم پرستی اب بہت حد تک دائیں بازو کی سوچ کا عکس ہوکر رہ گئی ہے۔ علمی سطح پر اسے درست قرار دینے کی ٹھوس مساعی بھی کی جارہی ہیں۔ حالات کے مطابق کسی بڑی تبدیلی کی گنجائش کو درست قرار دیتے ہوئے علمی سطح پر جو کچھ بیان کیا جارہا ہے اس میں جہادی جماعتوں اور جہادی کلچر کے لیے غیر معمولی قبولیت کا عنصر موجود ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں جدیدیت کا چہرہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے جسے ہم جدید پاکستان قرار دیں گے؟ حمیرا اقتدار، صبا محمود، آمنہ جیلانی اور کامران اسدر علی جیسے دانشور، جو جدید تعلیم سے آراستہ ہیں اور غیر ملکی جامعات میں پڑھاتے بھی رہے ہیں، اب پاکستان میں دائیں بازو کی عسکریت پسند سوچ کو تیزی سے پنپتا ہوا محسوس کرتے ہیں اور اسی کو پاکستان کی نئی شناخت قرار دیتے ہیں۔ اپنی کتاب ’’سیکولرائزنگ اسلامسٹ‘‘ میں حمیرا اقتدار نے، جو برطانیہ میں رہتی ہیں، یہ استدلال کیا ہے کہ جماعت اسلامی اور جماعت الدعوۃ جیسی جماعتیں معاشرے کو سیکولر ازم کی طرف لے جارہی ہیں۔ صبا محمود اور آمنہ جیلانی نے پاکستانی معاشرے میں خواتین سے متعلق اسلامی سوچ کو نمائندہ فکر قرار دیا ہے۔ کچھ عشرے پہلے تک دانشور یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ حکمراں طبقے کی ملائیت سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ سیاست میں مذہب کا عنصر شامل کیا جائے۔ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشرے کے روایتی جدت پسند کہتے تھے کہ سیاست میں مذہب شامل ہونا چاہیے مگر اپنی غیر معمولی لبرل شکل میں۔ مابعدِ جدت دور کے مفکرین اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ انقلابی عناصر کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ مجموعی طور پر مذہبی طبقے کی سوچ میں اعتدال پیدا ہو اور وہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کے بارے میں سوچ سکے۔ سیاسی اور مذہبی دائیں بازو کو اب جائز حیثیت دینے یا دلانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے جو بہت سے دانشوروں کے نزدیک انتہائی خطرناک بھی ہے۔ اول الذکر سیاسی مفکرین دائیں بازو کی قوم پرست عسکری آمریت کو جدت کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور موخر الذکر سیاسی مفکرین اسی آمریت کو مذہبی انقلابی عناصر کی علامت قرار دیتے نہیں تھکتے۔
بڑھتی ہوئی انقلاب پسندی متوسط طبقے کی تیزی سے پنپتی ہوئی سیاسی اور نفسیاتی ساخت کا مظہر ہے۔ مذہبی اور انقلابی عناصر نے یہ تاثر قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ وہ ملک میں غریبوں کی آواز بن کر ابھرے ہیں اور ریاست کے لیے حقیقی سہارا ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر افلاس ہی کی بنیاد پر انقلابی سوچ کو پنپنا ہوتا تو جن علاقوں میں غیر معمولی افلاس پایا جاتا ہے وہاں بیشتر افراد انقلابی سوچ کے حامل ہوتے مگر ایسا نہیں ہے۔ افلاس کسی بھی حقیقی تبدیلی کا نقیب اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب روایتی سیاسی ڈھانچا کمزور ہوچکا ہو، کسی بھی نوعیت کے خلا کو پُر کرنے کے لیے ریاستی قوت موجود نہ ہو اور عسکریت پسندی پنپ رہی ہو۔ پاکستان کا کیس یہ ہے کہ اس میں عسکریت پسندی کو (فوج اور صوبائی حکومتوں کے ہاتھوں) ریاستی حمایت اور مدد حاصل ہے۔
بہت سی عسکریت پسند مذہبی تنظیمیں صرف غریب نوجوانوں کو بھرتی نہیں کرتیں بلکہ وہ زیریں متوسط طبقے میں بھی خاصی اپیل رکھتی ہیں۔ ان تنظیموں میں خواندہ اور نیم خواندہ نوجوان بھی ملتے ہیں۔ متوسط طبقے کے لوگ ان تنظیموں کو عطیات دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔
پاکستان میں جہادی کلچر کے فروغ کو بہت سے لوگ جاگیر دارانہ نظام کی شکست و ریخت سے تعبیر کرتے ہیں اور اس اعتبار سے یہ جدت پسندی ہی کی ایک شکل ہے۔ کسی معیاری متبادل کے نہ ہونے سے انقلابی مذہبی عناصر کو لوگوں نے بڑھ کر گلے لگایا ہے۔
پاکستانی معاشرے کی بدلتی ہوئی نوعیت بھی فکری سطح پر بہت سی تبدیلیوں کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور دیہی آبادی کا سکڑتا ہوا حجم بہت سے لوگوں کو روایتی مذہبی سوچ سے دور کر رہا ہے۔ ۲۰۳۰ء تک نصف سے زائد پاکستانی شہروں اور شہری علاقوں میں آباد ہوچکے ہوں گے۔ دیہی معاشرے میں بریلوی اور صوفی مسلک زیادہ طاقتور ہیں۔ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی سیاسی، معاشی، عمرانی، نفسیاتی اور روحانی تقاضوں کو تبدیل کر رہی ہے۔ دیوبندی اور وہابی مسلک علمی اور فکری بنیاد پر کام کرتے ہیں اس لیے ان کی طرف جانے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ دیہی معاشرے کے مقبول مسلک شہری معاشروں میں نہیں چل سکتے۔ دیوبندی اور وہابی فکر ہی پاکستان میں حقیقی جدیدیت کی راہ ہموارکرسکتی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی یہی کہا تھا۔ بزرگان دین کے مزارات پر جانے والوں کی تعداد کم تو نہیں ہوگی مگر یہ مزارات لوگوں کی علمی اور روحانی تشنگی دور کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکیں گے۔ دیوبندی اور وہابی مسلک کی مقبولیت سے مذہبی تنظیمیں بھی فائدہ اٹھاتی ہیں کیونکہ انہیں بھرتی کے لیے مزید نوجوان ملتے ہیں۔
دیو بندی اور وہابی سوچ سے سب سے بڑا چیلنج بریلوی مکتب فکر کو لاحق ہے۔ اسے علمی سطح پر زیادہ ٹھوس ہونا ہے تاکہ حقیقی تبدیلی کی طرف بڑھنا ممکن ہو۔ توہین رسالت کے حوالے سے بریلوی ردعمل اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ حق یہ ہے کہ بریلوی اور صوفی مسلک اب اپنی ہی زمین پر ہار چکا ہے اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کام کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ ریاست کو بیرونی قوتوں سے زور آزمائی کے لیے جس نظریاتی بنیاد کی ضرورت پڑتی ہے وہ صوفی اور بریلوی مسلک کے پاس نہیں۔ اس مسلک کی بڑی شخصیات انتہا پسندی کے خلاف کوئی نظریاتی اور علمی دیوار کھڑی کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا انقلابی مذہبی عناصر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈے پڑتے جائیں گے جیسا کہ ولی نصر نے استدلال کیا ہے؟ انہوں نے اپنی تازہ کتاب میں لکھا ہے کہ انقلابی تنظیموں کی آواز کمزور ہوتی جائے گی کیونکہ لوگ ہر معاملے میں اور ہر وقت تشدد، پسند نہیں کرتے۔ بہتوں کے نزدیک یہ محض سادہ لوحی پر مبنی سوچ ہے۔ پاکستانی معاشرے میں تو پہلے کسی حد تک ملائیت کی راہ ہموار ہوچکی ہے۔ پاکستان میں کہیں تو شرعی قوانین جبرکے ساتھ نافذ ہیں اور کہیں غیر رسمی طور پر نافذ ہیں۔ سوال شرعی قوانین کے نفاذ کا نہیں بلکہ اس معاملے میں طاقت کے استعمال اور ریاست کی نظریاتی ساخت و شناخت کا ہے۔ بعض معاملات میں ریاست اپنی بات منوانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ توہین رسالت قانون کے حوالے سے جو عوامی ردعمل سامنے آیا ہے وہ اس بات کا مظہر ہے کہ ریاست ایک طرف ہٹ کر تماشا دیکھنے پر مجبور ہے۔ آسیہ بی بی کا کیس بھی یہی بتاتا ہے جسے تحفظ فراہم کرنے میں ریاست مجموعی طور پر ناکام رہی۔
راولپنڈی کے ایک اسکول میں چند نقاب پوش عسکریت پسند داخل ہوئے اور طالبات کو حجاب پر مجبور کیا۔ یہ بھی جاگیردارانہ سوچ کا ایک مظہر ہے۔ قانون سے کوئی بھی بالا تر نہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے بعض انقلابیوں کو جان بوجھ کر قانون سے بالا تر رہنے دیا ہے تاکہ ایک خاص حد تک رعب اور دہشت برقرار رہے۔ انقلابی مذہبی عناصر نے سیکورٹی کے اداروں سے کسی حد تک اشتراکِ عمل کر رکھا ہے جو دونوں کے لیے سودمند ہے۔ مذہب کو ریاستی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی سوچ اپنائی جاچکی ہے۔ یہ سوچ بین المملکتی تعلقات میں بھی ایک بڑے عامل کے طور پر ابھری ہے۔
پاکستان کے مقتدر طبقے اب نئے شراکت دار تلاش کر رہے ہیں۔ مضبوط اسٹیبلشمنٹ اب روایتی اشرافیہ سے ہٹ کر متوسط طبقے کو اپنانا چاہتی ہے۔ چند حالیہ کتابوں میں اس نکتے کو زیادہ زور دے کر بیان کیا گیا ہے کہ متوسط طبقے کو روایتی اشرافیہ کی جگہ اپنایا جاسکتا ہے اور اس تبدیلی سے ریاست کی نوعیت تھوڑی بہت تبدیل ہوسکتی ہے۔ متوسط طبقے کو لبرل سمجھنا غلط ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ متوسط طبقے کے بیشتر افراد کی سوچ پر مذہب حاوی ہے اور وہ مذہبی انقلاب پسندی پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان پر اثر انداز ہوگا کیونکہ اس کے نتیجے میں بیرونی تعلقات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی پورے معاشرے کی نوعیت کو تبدیل کر رہی ہے۔ لبرل طاقتیں الگ ہٹ کر انقلاب پسند قوتوں کو راستہ دے رہی ہیں۔ مذہب کو ریاست کی تشکیل کا جواز بنایا گیا تھا اور اب مذہب ہی کو ملک کی اندرونی کیفیت اور بیرونی تعلقات کی بنیاد بناکر ابھارا جارہا ہے۔ مغرب نواز اور بائیں بازو کے نظریات کی حامل اشرافیہ اب اپنا اثر کھوتی جارہی ہے۔ انقلابیوں کی باتیں کرنے والوں کو اچھا سمجھا جارہا ہے۔ کل تک جن طالبان کو صرف تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا آج ان کی حمایت کرنے والے بھی موجود ہیں۔ علمی سطح پر بھی انقلاب پسند عناصر کو قبول کرنے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ یہ کیفیت کئی عشروں پر محیط بھی ہوسکتی ہے۔
(“Pakistan’s Moderity Between Military and Militancy”. “Friday Times”. March 9-15, 2012)
Leave a Reply