
۱۹۴۷ء میں آزادی کے وقت پاکستان ایک غریب ملک تھا، لیکن یہ چین، بھارت اور بہت سے ان ملکوں کے مقابلے میں خوشحال تھا جو آج ’’ابھرتی ہوئی معیشت‘‘ (Emerging Economies) بنے ہوئے ہیں۔ آج پاکستان کی فی کس اوسط آمدنی ایک ہزار ڈالر ہے جبکہ چین کی پانچ ہزار ڈالر اور جنوبی کوریا کی پندرہ ہزار ڈالر ہے۔ پاکستان کی نصف سے زائد دولت پر ملک کی ایک فیصد آبادی کا قبضہ ہے، بقیہ ۹۹ فیصد آبادی کو سالانہ ۵۰۰ ڈالر میں گزارا کرنا پڑتا ہے۔
آج جبکہ ملک میں نئے حکمرانوں کی آمد سے امیدیں بحال ہونے لگی ہیں کہ ان کی پالیسیاں پاکستان کو غربت کے چنگل سے نکالیں گی، یہ مناسب وقت ہے کہ ان بارہ اسباب و عوامل کو دہرا لیا جائے جو ہمارے عوام کو قیام پاکستان کے مقابلے میں آج زیادہ غریب بنائے ہوئے ہیں۔
پہلا: آبادی کی نمو۔ قیام پاکستان کے وقت اُس وقت کے مغربی پاکستان کی آبادی تقریباً ۵۰ ملین تھی، آج اس خطے میں آبادی ۲۰۰ ملین ہو چکی ہے۔ آبادی کی شرح نمو ۵ء۲ فیصد رہی، چنانچہ بڑھتے ہوئے لوگوں کے لیے وسائل کم پڑتے گئے۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافے کو ترغیب و ترہیب کے ذریعے اعتدال پر لایا جا سکتا ہے۔
دوسرا: گرانی۔ ریاست اپنی کمائی سے زیادہ خرچ کر دیتی ہے۔ خساروں کو پورا کرنے کے لیے وہ نوٹ چھاپتی ہے، چنانچہ عوام کی کمائی اور بچت دونوں کی قدروقیمت بتدریج گرتی چلی جاتی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ہر سال اوسطاً ۵ فیصد کے قریب گر جاتی ہے۔ ۱۹۷۰ء میں ایک ڈالر چار روپے کا تھا، آج ۱۱۰ روپے کا ہے۔ اگر خود ڈالر کی ارزانی کو پیش نظر رکھا جائے تو عام پاکستانی کو اپنا ۱۹۴۷ء والا معیار زندگی برقرار رکھنے کے لیے اس سے ۵۰ گنا زائد روپے کمانے ہوں گے، جتنے وہ ۱۹۴۷ء میں کماتا تھا۔
تیسرا: بیروزگاری۔ ۱۹۴۷ء میں ۸۰ فیصد عوام دیہی علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔ آج آبادی میں زبردست اضافے، شہر کاری (Urbanisation)، صنعتی ترقی کی ناکامی، خالص بیروزگاری اور نیم بیروزگاری (under-employment) نے کارگر عمر والی آبادی کے تقریباً نصف حصے کو متاثر کر رکھا ہے۔ اس کا واحد علاج تیز رفتار صنعتی ترقی، سرمایہ کاری اور عوام میں مہارتوں کا فروغ ہے۔
چوتھا: جہالت۔ ہماری تقریباً ۲۵ فیصد آبادی قطعی بے ہنر ہے، چنانچہ اس کے لیے کسی شعبے میں روزگار کی کوئی ضمانت نہیں لہٰذا وہ صرف جسمانی محنت مشقت کر سکتی ہے، اور اس صورتحال کا سبب پاکستان کے تعلیمی نظام کا بتدریج زوال ہے۔ اپنا نام لکھ لینے اور پڑھ لینے والا خواندہ سمجھا جاتا ہے، چنانچہ کسی بھی مروجہ معیار کے تحت پاکستان کی حقیقی شرح خواندگی اندازاً ۵۰ فیصد ہے۔ یکساں اور معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے بھاری سرمایہ کاری درکار ہے، جس کی سمت بھی درست ہو۔
پانچواں: عدم مساوات۔ پاکستانی قوم نے ایک ایسی ریاست میں جنم لیا، جہاں کے دیہی علاقوں میں جاگیر دارانہ عدم مساوات رائج تھی۔ یہ نظام تب سے پھیلتے پھیلتے کاروبار، صنعت اور بیوروکریسی میں سرایت کر چکا ہے۔ امیر اور غریب میں فرق بے انتہا بڑھ چکا ہے۔ پاکستان کا ایک فیصد خوشحال طبقہ دولت کی ریل پیل سے مستفید ہو رہا ہے جبکہ آبادی کا وسیع حصہ مستقلاً غربت کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
چھٹا: جنگیں۔ اپنے قیام ہی سے پاکستان کو مشرقی سرحدوں پر واقع اپنے سے بڑے ہمسائے کے ساتھ دوطرفہ مخاصمت کا ماحول ملا، چنانچہ پاکستان کے مالی اور ذہنی سرمائے کا بھاری حصہ اپنی سرحدوں کے تحفظ پر صَرف ہوتا رہا۔ بھارت کے ساتھ تین جنگوں، اسلحے کی ختم نہ ہونے والی دوڑ اور افغانستان میں امریکی جنگوں میں شمولیت جیسے مسائل نے پاکستان کے محدود وسائل کو ضائع کر دیا اور اقتصادی و سماجی ترقی پر سے توجہ ہٹ گئی۔ بھارت سے دفاع کا بوجھ کم کرنے کے لیے پاکستان کو تزویراتی اور سفارتی ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی جوہری صلاحیت مدد دے سکتی ہے۔
ساتواں: انتہا پسندی۔ ۱۹۷۷ء سے پاکستان مذہبی اور منسلکہ انتہا پسند قوتوں کا یرغمال بن چکا ہے۔ ان قوتوں کی اسٹریٹ پاور اور بعض پاکستانی رہنمائوں اور ایجنسیوں کی جانب سے بیرونی اور اندرونی مقاصد کے فروغ کے لیے ان کے گمراہ کن استعمال سے پاکستان میں پایا جانے والا برداشت کا ماحول، جنونیت اور تشدد کے ماحول میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ان قوتوں کو ہرگز اجازت نہ دی جائے کہ وہ ملکی ترقی کو یرغمال بنا لیں۔
آٹھواں: عدم تحفظ۔ ملک کے بہت سے شہروں اور علاقوں میں عدم تحفظ کی موجودہ صورتحال نے منظم جرائم، مذہبی منافقت، پرتشدد انتہا پسندی اور سیاسی موقع پرستی کے آمیزے سے جنم لیا ہے۔ پاکستان میں سلامتی کے بارے میں دنیا بھر میں پائے جانے والے خدشات حقیقی خطرات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ جب تک تحفظ اور سلامتی کا مسئلہ حل نہیں کیا جائے گا، کوئی بیرونی یا ملکی سرمایہ کاری یا ترقیاتی منصوبے عمل میں نہیں آ سکتے۔ تذبذب، متزلزل عزم اور خوف حکومت کے بدترین دشمن ہوا کرتے ہیں۔
نواں: نقل مکانی اور ہجرت۔ آزادی کے بعد سے پاکستان کی آبادی کے اجزا نمایاں طور پر تبدیل ہوئے ہیں۔ بہت سے تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد ملک چھوڑ گئے ہیں۔ ان نقل مکانی کرنے والوں میں بعض مذہبی اقلیتوں کے لوگ بھی شامل ہیں اور وہ بھی جو اقلیت میں تبدیل ہو گئے۔ دوسری جانب پاکستان میں لاکھوں قبائلی افغانوں کی بہتات ہے۔ کہیں کہیں قابلیت کی جھلکیوں کے باوجود آج کا پاکستان ذہنی، ثقافتی اور مالی لحاظ سے ۶۰ سال پہلے کے مقابلے میں بحیثیت مجموعی زیادہ پسماندہ ہے۔
دسواں: عدم سرمایہ کاری۔ ملک اس لیے غریب ہے کہ ریاست غریب ہے۔ ملک اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کر دیتا ہے چنانچہ یہی حال عوام کا بھی ہے۔ بچت کی رقم اگر گرانی سے زائل ہونے لگے تو بچت کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہو گا۔ اگر قومی اور انفرادی سطح پر بچت کو فروغ نہ دیا جائے تو بنیادی ڈھانچے تعلیم، صنعت، چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں میں سرکاری یا نجی شعبے کی طرف سے سرمایہ کاری مستقبل قریب میں مفقود رہے گی۔ پاکستان کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار جاری رکھنا پڑے گا جو کہ آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوں گے۔
گیارہواں: عالم گیریت۔ بدقسمتی سے واشنگٹن اتفاق رائے (Washington Consensus) نے پاکستان کو اس امر پر آمادہ کر لیا کہ تجارت اور مالی آزاد روی (Liberalisation) سب کے لیے بلاامتیاز اچھی چیز ہے۔ چنانچہ پاکستان کے حفاظتی بند یکطرفہ طور پر ٹوٹ گئے۔ پاکستان ایسی بیشتر عمدہ مصنوعات تیار نہیں کر سکتا جو مسابقت میں ٹک جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللے تللے کی عادتوں نے پاکستان کو برآمدی ملک بنانے کے بجائے درآمدات کا مرکز بنا کر رکھ دیا ہے۔ مستقل تجارتی خسارے کو غریب پاکستانی تارکینِ وطن کی ترسیلات (Remittances) سے جزوی طور پر کم کرنے میں مدد ملتی ہے، تاہم ہماری بیشتر حکومتیں اپنے خوشحال دوستوں کے سامنے کشکول اٹھانے پر آمادہ و تیار رہی ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات دفاعی ضروریات کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔
بارہواں: بدانتظامی۔ سابقہ گیارہ عوامل میں سے بیشتر کا منبع یہی بدانتظامی ہے۔ بعض مستثنیات کو چھوڑ کر پاکستان کا ریکارڈ یہ رہا ہے کہ عمل درآمد تو درکنار پالیسیاں ناقص رہیں یا سرے سے مفقود رہیں۔ اس کا سبب پاکستان کی بیوروکریسی کا زوال اور بالآخر دھڑن تختہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ ضوابط اور موزوں طریقہ کار کی دھجیاں اڑانا بھی ایک سبب ہے۔ ذاتی پسند ناپسند پر فیصلہ سازی معمول بن چکی ہے۔ سینئر بیوروکریٹ سول سرونٹ کی ذمہ داریوں کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ بدعنوانی کبھی ایک اتفاقی واقعہ تھا، آج وبائی مرض کی طرح پھیل چکی ہے۔
پیشہ ورانہ اہلیت اور قابلیت رکھنے والے افراد نے مختلف شعبوں میں ٹھوس پالیسیاں نہ بنائیں اور ان پر عمل درآمد نہ کیا، تو پاکستان دشواریوں کے مہیب خطرات پر قابو نہیں پا سکے گا۔
غربت کے اسباب کا چیلنج تھوڑے تھوڑے اقدامات سے زیر نہیں ہو سکے گا۔ اس کے لیے تو ایک جامع پالیسی ڈیزائن درکار ہے، جو پاکستان کو ایک جدید، پُرامن اور خوشحال ملک میں تبدیل کر دے۔ محب وطن پاکستانیوں کو چاہیے کہ ایسی پالیسی سازی کا مطالبہ کریں اور اس کی تشکیل اور نفاذ میں مدد بھی دیں۔ تاریک پہلو کو غالب نہ آنے دیں۔ (مترجم: منصور احمد)
(منیر اکرم اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب ہیں)
(“Pakistan’s Poverty Dozen”… Daily “Dawn”. Nov. 24, 2013)
Leave a Reply