
عالمی منظر نا مے میں یہ وہ وقت ہے جب امر یکا اور چین کے درمیان کشمکش کی جھیل و سیع تر ہو تی جا رہی ہے۔ہو ا کچھ یوں ہے کہ امریکا بہا در عالمی جمہو ری ورچو ئل کا نفر نس منعقد کر نے کے درپے ہے۔ اس سلسلے میں اس نے چین کو تو مد عو نہیں کیا اور تا ئیوان کو مد عو کر رہا ہے۔ پاکستان کے لیے اس امر میں تشو یش یو ں اور زیا دہ بڑھ گئی کہ اس نے پا کستان کو بھی مد عو کر لیاہے۔ امریکا کے لیے پاکستان کے چین سے برادرانہ تعلقات ڈھکے چھپے نہیں۔ پاکستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت ہو، وہ امر یکا اور چین کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجانے کی صورت میں اپنا وزن چین ہی کے پلڑے میں ڈالے گی۔ خصوصاً اس نازک مو قع پر اسلام آباد میں Conclave 2021 سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا درست تھا کہ پاکستان کسی سیاسی بلاک کا حصہ بننے کے بجائے امریکا اور چین کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے۔
چین امریکا تعلقات میں پاکستان کا تاریخی کردار دونوں ملکوں کی یادداشت کا حصہ ہے، اگرچہ اس وقت معاشی اور عالمی سیاسی بالادستی کی رسہ کشی نے چین اور امریکا کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا ہے، مگر اس کے اثرات عالمی معیشت اور امنِ عالم کے لیے سودمند نہیں۔ چنانچہ پاکستان کی یہ خواہش دوطرفہ اخلاص پر مبنی ہے، لیکن اس کے اثرات کیا ہوں گے، اس حوالے سے کچھ کہنا آسان نہیں کیونکہ جب مفادت کا ٹکرائو اتنا کھل کر سامنے آجائے اور درپیش حالات مزید سنگین ٹکرائو کی جانب اشارہ کرتے ہوں تو دو عالمی طاقتوں کے مابین خلیج کو کم کرنے کی خواہش کی تکمیل کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ بہرکیف اس صورتحال کو سمجھنے میں امریکا کو مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ آج کا چین سرد جنگ کے دنوں والے روس جیسا نہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ موجودہ روس بھی ماضی کے سوویت یونین سا نہیں۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ دنیا میں طاقت کے محور تبدیل ہوچکے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران امریکا کے اپنے مس ایڈونچرز نے اس عمل کی رفتار کو مہمیز کیا۔ ہم افغانستان کے حالات کے تناظر میں اس خطے کی صورت حال اور علاقائی اقوام کی ترجیحات کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ دہشت گردی، امریکی جنگ اور عدم تحفظ کے ماحول نے ان ممالک کو علاقائی سطح پر مضبوط گٹھ جوڑ بنانے کی جانب راغب کیا ہے۔ چین کے تعلقات اس خطے کے ممالک کے ساتھ پہلے بھی بہت بہتر تھے، پاک چین تعلقات کے حوالے سے یہ بڑی واضح حقیقت ہے، مگر پچھلے بیس برسوں کے دوران اس خطے میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات نے یہاں کے ممالک کے لیے چین کے ساتھ علاقائی معاشی تعلق کو مضبوط کرنے کے آپشن کو حالات کا لازمہ بنا دیا ہے۔ ان دو دہائیوں کے دوران جب امریکی جنوبی ایشیا او رمشرقی وسطیٰ میں مس ایڈونچرز میں مصروفِ عمل تھے، چین اور روس نے خود کو معاشی، صنعتی، دفاعی اور سیاسی لحاظ سے بامِ عروج تک پہنچایا اور خود کو ایسا پارٹنر بنا کر پیش کیا جس پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ اب امریکا کے لیے اس حقیقت کو ماننا مشکل ہورہا ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے اور اس کو قبول کیا جانا ہی اس سیارے کے باسیوں کے لیے موزوں ہوگا۔ آج دنیا جن مصائب کا سامنا کرر ہی ہے وہ ماضی کے مقابلے میں کہیں بڑے ہیں، مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ انسانوں کو درپیش چیلنجوں کی یہی آخری حد ہے۔ کورونا وائرس کی مسلسل تغیر پذیر صورتوں کو ہی دیکھ لیں، یہ واضح اشارہ ہے کہ قدرت اس عالمِ رنگ و بو میں ہم انسانوں کو چیلنجوں سے مسلسل نبرد آزما دیکھنا چاہتی ہے۔ کورونا وبا ہی سے ہمیں یہ سمجھنے کا موقع ملتا ہے کہ دنیا کی بڑی معاشی اور سائنسی قوتیں بھی انفرادی سطح پر ان چیلنجوں سے نہیں نمٹ پارہی ہیں۔ ویکسین کے معاملے میں بھی دنیا دھڑے بندی اور ’’سیاست‘‘ کا شکار ہوئی اور چینی اور روسی ویکسینز کو قابل اعتبار سائنسی شواہد کے بغیر مغرب اور مغرب کے حاشیہ نشین کم تر درجے کا ثابت کرنے پر تلے رہے۔ جس وقت دنیا کو وائرس سے دفاع کے کسی بھی ذریعے کی اشد ضرورت تھی مغرب نے ویکسین سیاست سے عالمی سطح پر خوفناک ابہام پیدا کیا اور اس کے اثرات کورونا وبا کے خطرات میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے۔ اگر کورونا کے خلاف جدوجہد میں دنیا ایک پیج پر ہوتی تو بعید نہیں کہ یہ وبا اب تک ماضی کا ایک قصہ بن چکی ہوتی، مگر سیاست کی نذر ہونے سے اس کے خطرے بدستور موجود ہیں اور ان دنوں دنیا امیکرون سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ حالات ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ عالمی تفرقہ بندی کی حمایت کریں۔ اس پس منظر میں پاکستان کا یہ مؤقف حقیقت پر مبنی اور قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ اس دوران جب دنیا بڑی تیزی سے بلاکس میں تقسیم ہورہی ہے، کوئی تو ہو جو بلاکس کی بجائے پوری انسانیت کے مفاد کی بات کرے، مگر پاکستان یا دیگر ہم خیال ممالک کچھ نہیں کرسکتے اگر عالمی قوتیں خود ہی ٹکرائو سے اجتناب کی واضح کوشش نہ کریں۔ تاہم عالمی قوتیں کس طرح حالات کو تنائو کا شکار رکھنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتیں اس کی ایک مثال ہمیں امریکی صدر کی حالیہ ورچوئل عالم جمہوری کانفرنس کے دوران ملتی ہے جس میں امریکا کی جانب سے چین کو دعوت دینے کے بجائے تائیوان کو اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے۔ چین کے لیے یہ صورت حال کسی طور قابل برداشت نہیں ہوسکتی تھی۔ چنانچہ اس پر چین کا جو ردّعمل آیا اسے فطری ہی کہا جائے گا۔ کسی عالمی مقصد پر کوئی کانفرنس ہو، عالمی معیشت کو متحرک کرنے کے مواقع یا انسانوں کو درپیش چیلنجز، تسلی بخش پیش رفت عالمی یکجہتی سے مشروط ہے۔ چاہیے تو یہ کہ عالمی راہنما اس مشن میں دنیا کی رہنمائی کرتے مگر سیاست میں الجھ کر ان مواقع کو ضائع کیا جارہا ہے۔
عالمی حالات اور افغانستان کے معاملات نے اس خطے کو ایک تغیر پذیر صورت حال سے دوچار کردیا ہے، جس میں پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہمیں کیا راستہ اختیار کرنا ہے؟ اس کا واضح تعین کرنے کی ضرورت ہے اور یہ واضح تعین ہونے تک محتاط حکمت عملی اختیار کرنا ہمارے لیے زیادہ سود مند ہوگا۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ پا کستان کسی بھی صورت میں چین کو ناراض کر نے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ چنا نچہ پا کستان جو بھی فیصلہ کرے، اسے چین کو اعتما د میں لے کر کر نا ہو گا۔
Leave a Reply