
پاکستان کی مسلح افواج شمالی وزیرستان کے دشوار گزار پہاڑوں میں طالبان اور ان کے حامیوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ امریکی حکومت کم از کم دس برس سے پاکستان کو اسی طرح کی کارروائی کرنے کے لیے کہتی چلی آ رہی تھی۔ اس ضمن میں واشنگٹن کا خیال یہ رہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے منظرنامے سے مسلح عسکریت پسندی کے آخری اور مضبوط ترین ٹھکانے کا صفایا ہو جائے گا، خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کی جڑیں اکھڑ جائیں گی، جو افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف گوریلا جنگ لڑتا رہا ہے۔ اگرچہ شمالی وزیرستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے دس برسوں میں پاکستان کی طرف سے یہ سخت ترین کارروائی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ واشنگٹن اور پاکستان کی امیدوں پر پوری نہیں اتر ے گی۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس آپریشن میں ایسی حکمت عملی کا فقدان ہے جس میں حکومت اور مسلح افواج مل کر عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہوں۔ اس سلسلے میں تشویش کا پہلو یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں پہلے کی طرح طاقت کا بے ہنگم استعمال کیا جا رہا ہے، یعنی مقامی آبادی کو نکالنا، پھر فضائی حملوں، توپ خانے کا استعمال اور آخر میں زمینی افواج کے ذریعے بچے کھچے جنگجوؤں کا صفایا۔ یہ دیرپا نتائج حاصل کرنے کے نقطہ نظر سے محکم حکمت عملی کے بجائے ایک جنگی چال محسوس ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ شمالی وزیرستان کا آپریشن شاید اس طرح نتیجہ خیز ثابت نہ ہو جیسا کہ ہونا چاہیے، بلکہ یہ ایک طویل مگر نامکمل جنگ کا حصہ قرار پائے گا۔
قومی حکمت عملی تشکیل دینے کی غرض سے وزیراعظم کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوج کو طویل خاموشی سے نکالیں اور اسے پاکستانی عوام کو بتانے دیں کہ اس کا کارگر لائحہ عمل کیا ہے۔ پھر ضروری ہے کہ پہلی روش کو ترک کرتے ہوئے فوج کے نقطہ نظر کو بھی قومی حکمت عملی کا حصہ بنایا جائے۔ حکومتی روش کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ اسی سال فروری میں نواز شریف حکومت نے اندرونی سکیورٹی کے بارے میں قومی پالیسی تشکیل دی، جس کی تیاری میں بظاہر فوج کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس پر عملدرآمد میں کئی طرح کی رکاوٹیں پیدا ہو گئیں۔
شمالی وزیرستان میں اپنے اپنے ارادوں کے اشارے دیے جا رہے ہیں۔ اس طرح جاری آپریشن کے ذریعے طالبان قیادت کی نابودی کے بارے میں امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ پہلے ہی افغانستان یا پاکستان میں کسی دوسری جگہ چلے گئے ہوں گے۔ وہ امریکا کے ڈرون حملوں سے بچنے کے لیے ماضی میں بھی کراچی، لاہور، کوئٹہ اور اسلام آباد میں پناہ لیتے رہے ہیں۔ اگر اب بھی طالبان اور ان کے حامیوں نے ماضی والا طریقہ اختیار کیا ہے تو وہ خود فرار ہوکر شمالی وزیرستان کے دفاع کے لیے اپنے پیچھے ازبک، چیچن اور دوسرے ایسے جنگجوؤں کو چھوڑ گئے ہوں گے، جو پاکستان کی آبادی میں گھل مل کر اپنی شناخت چھپا نہیں سکتے۔
جب فوج یہ کہتی ہے کہ ان کے کمانڈر نے حکم دیا ہے کہ تمام دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کا بلاامتیاز خاتمہ کر دیا جائے تو اس میں اہداف کا تعین ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس میں حقانی گروپ کا ذکر نہیں جو شمالی وزیرستان ہی میں اپنے ٹھکانوں سے افغانستان میں امریکی افواج پر حملے کرکے پریشانی کا باعث بنتا رہا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا حقانی گروپ کو یہ علاقہ چھوڑنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔ طالبان، القاعدہ اور پنجابی جنگجوؤں کے مابین گہرے روابط اور باہمی تعاون کے پیش نظر یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو نشانہ بنائے بغیر آپریشن کامیاب ہوسکے گا۔
اس صورتحال سے قطع نظر، آپریشن پاکستان کو شمالی وزیرستان کے علاوہ بھی سویلین حکومت اور فوج کی متحدہ جدوجہد کی ضرورت کا سنجیدگی سے احساس دلائے گا۔ پنجاب کا بہت بڑا حصہ، سندھ میں کراچی اور بلوچستان کا جنوب مغربی حصہ جنگجوؤں کی زد میں ہے لیکن حکام نے سیاسی وجوہ کی بنا پر اس طرف سے آنکھ بند کر رکھی ہے۔ فرقہ وارانہ اور نسلی تشدد پاکستان کی سیاست میں بھی نفوذ کرگیا ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ عوام کے سامنے اس طویل جنگ کے بارے میں واضح اور دوٹوک انداز میں جامع حکمت عملی کا اعلان کریں۔ وہ اپنے آپ کو شمالی وزیرستان تک محدود نہ رکھیں جس سے وقتی سکون تو مل سکتا ہے لیکن اس سے ملک کی سلامتی کے حوالے سے بڑے اندرونی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ عوام کی اکثریت قتل و غارت اور معیشت کی ابتری سے تنگ آچکی ہے اور وہ بدامنی سے نمٹنے کے سلسلے میں حکومت کی نااہلی پر بھی نالاں ہے۔
عسکریت پسندی کے خلاف صحیح معنوں میں قومی سطح کی جنگ لڑنے پر آمادہ پاکستان کو دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کا سراغ لگانے اور ان کی ملکی اور غیر ملکی مالی امداد منقطع کرنے کے لیے امریکا اور دوسرے دوست ممالک کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ اس ضمن میں ملکی سطح پر جو کم از کم اقدام کیا جاسکتا ہے، وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مشتبہ مالی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور حسب ضرورت ان پر پابندی عائد کرنا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ دوسرے ممالک بھی ہماری اس طرح مدد کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ممالک سے پاکستان کے انتہا پسند گروپوں کو ارسال کی جانے والی رقوم پر پابندی عائد کریں۔
آخر میں خود پاکستانی معاشرے کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنا سر ریت میں چھپائے رکھے گا یا اپنی سرزمین پر پنپنے والی عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خطرے کا ادراک کرتے ہوئے اس کے خلاف صف آرا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان تیزی سے رو بہ زوال ہو کر اس سے کہیں بڑی خطرناک صورت حال سے دوچار ہو جائے گا۔
(کالم نگار اٹلانٹک کونسل میں سائوتھ ایشیا سینٹر کے ڈائریکٹر اور پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم کے بھائی ہیں۔)
“Pakistan’s Taliban offensive will fall short”. (“foreignpolicy.com”. June 24, 2014)
Leave a Reply