پاکستان کے آبی وسائل اور بڑے ڈیمز کی تعمیر

پاکستان میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر کا موضوع اس وقت ہر طبقۂ فکر میں زیرِ بحث ہے۔ ان مباحث میں ہمیں واضح طور پر دو گروپ نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جو اسے ملکی بقا اور تعمیر و ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیتا ہے جبکہ دوسرے گروپ کو اس پر کئی تحفظات ہیں‘ خاص کر سرحد اور سندھ نئے آبی ذخائر بالخصوص کالا باغ ڈیم پر اپنے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔ وفاق کی جانب سے بعض یقین دہانیوں اور منصوبے میں ترامیم کے باعث سرحد نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر راضی ہوگیا‘ تاہم سندھ اب بھی اپنے خدشات کا اظہار بدستور کر رہا ہے۔

اس صورتحال میں ’’اسلامک ریسرچ اکیڈمی‘ کراچی‘‘ نے ایک پریزنٹیشن کا اہتمام کیا‘ جس کا موضوع ’’پاکستان کے آبی وسائل: کیا بڑے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہے؟‘‘ تھا۔ پریزنٹیشن میں نئے آبی ذخائر کے تکنیکی پہلو‘ وسائل اور عوامی آراء کا جائزہ لیا گیا۔ ماہرین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ پاکستان کی معاشی ترقی اور بقا کے لیے نئے آبی ذخائر ناگزیر ہیں اور اس کے لیے کالا باغ ڈیم کے بجائے اکھوڑی اور بھاشا ڈیم پر غور کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان انجینئرز فورم کے رہنما ڈاکٹر بشیر احمد لاکھانی نے بتایا کہ کالا باغ ڈیم مسئلہ کا واحد اور آخری حل ہرگز نہیں ہے بلکہ اکھوڑی اور بھاشا ڈیم پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ اکھوڑی ڈیم ۲۰۱۳ء تعمیر کیاجاسکتا ہے‘ جس سے ۰ء۷ ملین ایکڑ فٹ ذخیرۂ آب اور ۶۰۰ میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے جبکہ بھاشا ڈیم سے ۷ء۶ ملین ایکڑ فٹ ذخیرۂ آب اور ۴۵۰ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اور واپڈا ۱۹۱۱ء کے آبی معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔

سابق سیکرٹری آبپاشی سندھ ادریس راجپوت نے اپنے خصوصی خطاب میں بڑے ڈیموں کی تعمیر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کے فائدے کے ساتھ نقصانات بھی ہیں۔ بڑے ڈیموں سے صرف مراعات یافتہ طبقہ کو ہی فائدہ پہنچے گا اور غریب طبقہ غربت کی لکیر سے مزید نیچے چلا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں قدرتی طور پر پانی بڑھنے کے بجائے کم ہو رہا ہے۔ جب پانی ہی نہیں رہے گا تو ڈیم بھرنے کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟ انہوں نے بتایا کہ منگلا ڈیم سندھ میں پانی کی کمی کے باوجود بھرا جاتا ہے جبکہ اُس وقت سندھ میں گنّا‘ روئی اور گندم کے لیے پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ سندھ میں پہلے ہی پانی کی کمی کی وجہ سے زراعت حیران کن حد تک کم ہو گئی ہے۔ کوئی بھی ڈیم بنے تو اس کا فائدہ صرف ایک صوبے کے بجائے چاروں صوبوں کو برابری کی بنیاد پر پہنچنا چاہیے۔ ادریس راجپوت نے تجویز پیش کی کہ ’’رن آف ریور پروجیکٹ‘‘ کے ذریعے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس میں لاگت بھی کم آئے گی۔

اس موقع پر آبی ذخائر کے بارے میں وسیع معلومات رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اسد اﷲ بھٹو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کے حکمرانوں کی زیادتیوں اور بدعہدی و بداعتمادی کی وجہ سے کالا باغ ڈیم سندھ میں نفرت کا نشان بن چکا ہے‘ اس لیے متنازعہ ڈیم کے بجائے دیگر ڈیم کے لیے کام کیا جائے۔ ماضی میں جتنے بھی پانی کے معاہدے ہوئے ہیں‘ ان میں سے آج تک کسی معاہدہ پر عمل نہیں ہوا۔ کالا باغ ڈیم پر سندھ کے عوام کا موجودہ ردِعمل ایک فطری عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے ڈیم کے مسئلہ پر صوبوں کے عوام کو آپس میں لڑا کر موجودہ سسٹم کو لپیٹنے کا فیصلہ کرلیاہے۔ وردی کے معاملے پر انہوں نے عوام کے سامنے وعدہ کرنے کے باوجود بدعہدی کا مظاہرہ کیا تو اس مسئلہ پر ان کی آئینی ضمانت عوام کیسے قبول کر سکتے ہیں۔ صدر کی جانب سے کسی فورم پر منظوری کے بغیر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے قوم کا پیسہ خرچ کرنے پر نیب کے ارباب حل و اقتدار کی خاموشی افسوس ناک ہے۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ کسی بھی ڈیم کی تعمیر میں سب سے پہلے متاثر ہونے والے عوام کے خدشات دور کر کے انہیں اعتماد میں لیا جائے۔ اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ بلاشبہ ملک میں پانی کے ذخائر کی اشد ضرورت ہے مگر گذشتہ پچپن برسوں سے ہر حکمران نے پانی کے ذخائر کے لیے مخلصانہ طور پر سوچنے کی بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کالا باغ ڈیم کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس سے پہلے بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے بھی اس کو استعمال کیا۔ یہی کچھ موجودہ فوجی حکمران کر رہے ہیں ۔ اس سے پہلے چشمہ لنک کنال اور اب گریٹر تھل کنال صرف فوجیوں کو تحفے میں دی گئی زمینوں کو آباد کرنے کے لیے بنایا جارہا ہے۔

اسد اللہ بھٹو نے نئے آبی ذخائر کے مسئلہ پر تجاویز پیش کیں :

۱۔ پانی کے تمام وسائل انڈس بیس سسٹم واپڈا سے لے کر ارسا کو دیے جائیں اور اسے بااختیار‘ خود مختار اور دستوری ادارہ بنایا جائے۔

۲۔ ۱۹۹۱ء کے آبی معاہدے کو دستوری تحفظ دیا جائے۔

۳۔ ارسا کے ممبرز کا تقرر صوبوں کی طرف سے وزراے اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کی مشترکہ مشاورت سے کیا جائے اور انہیں ہٹانے کے لیے حکومت کے بجائے جوڈیشل کونسل کو اختیار دیا جائے۔ ارسا کی ممبرشپ کے لیے وفاقی حکومت اور صوبوں کی جانب سے کسی ریٹائرڈ فوجی کی نمائندگی پر بھی پابندی لگائی جائے۔

۴۔ ارسا کو حکومت کے بجائے پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ اور ۱۹۹۴ء کے وزارتی فیصلہ کو رد کیا جائے۔

۵۔ واپڈا کو صرف رجسٹریشن اور ٹرانسمیشن کا کام دیا جائے۔ ڈسٹری بیوشن کا کام صوبوں کے حوالے کیا جائے۔ پانی کا معاملہ واپڈا سے واپس لیا جائے۔ پانی کے بہاؤ‘ تمام ذخائر اور نہروں پر ٹیلی میٹر سسٹم لگایا جائے‘ نیشنل واٹر کونسل تشکیل دے کر اس کو دستوری تحفظ دیا جائے۔

اس موقع پر اسلامک ریسرچ اکیڈمی‘ کراچی کے ڈائریکٹر سید شاہد ہاشمی‘ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور مختلف شعبہ ہائے حیات کی نمائندہ شخصیات بھی موجود تھیں۔

(رپورٹ: محمد آفتاب احمد)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*