
فلسطین کے صدارتی انتخابات میں محمود عباس کی کامیابی ایک ایسا واقعہ ہے جس کا بین الاقوامی برادری نے خیرمقدم کیا ہے۔ اس کامیابی سے فلسطین کی جمہوری طاقتوں کو تقویت پہنچی ہے۔ محمود عباس نے فلسطینیوں سے تشدد ختم کر دینے کی اپیل کی اور اسرائیلی قائدین سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہو جائیں۔ انہوں نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ تمام گروہ چار برسوں سے جاری شورش کو ختم کرتے ہوئے جنگ بندی پر راضی ہو جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی تسلط کی مزاحمت کے لیے سول نافرمانی کو اپنایا جانا چاہیے۔ صدر محمود عباس کو اندرونی اور بیرونی مسائل سے نمٹنے میں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فلسطین کے دو اہم اسلامی گروہ‘ حماس اور اسلامی جہاد‘ اسرائیل کے خلاف تشدد کے استعمال میں پیش پیش رہے ہیں۔ دونوں گروہوں نے ۱۹۹۳ء میں اسرائیل سے کیے گئے اوسلو معاہدے کی مخالفت کی تھی اور حالیہ انتخابات کا بھی مقاطعہ کیا ہے۔ اپنی مہم کے دوران انہوں نے تشدد کے خاتمے کی اپیلوں کو نہ صرف نظرانداز کیا ہے بلکہ اسرائیل پر برابر حملے جاری رکھے۔ عباس کے مخالف اسلامی عسکریت پسند افراد نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف تشدد ترک نہیں کریں گے۔ عباس کو ’الفتح‘ کی زبردست تائید حاصل ہے جو اسرائیل سے گفت و شنید کے ذریعے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے۔ مغربی ممالک فلسطینی اتھارٹی کو اس لیے موردِ الزام قرار دے رہے ہیں کہ وہ تشدد کو روکنے میں ناکام ہو گئی ہے اور ایسے ترقی پذیر ممالک‘ جو عرب کاز سے روایتی طور پر ہمدردی رکھتے ہیں‘ ان کے لیے فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی انتقامی کارروائیوں کی مذمت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اسلامی عسکریت پسندوں کو تقویت اسی لیے حاصل ہوئی تھی کہ فلسطینی عوام اسرائیل سے دس برسوں تک گفت و شنید کے باوجود کسی مثبت نتیجے سے محروم رہنے کی بنا پر بیزار ہو چکے تھے۔ انہوں نے صورتحال کا جائزہ لیا اور اپنے وطن کو آزاد کرانے اور یہودی بستیوں کو روکنے کے لیے انتفاضے کو فوجی شکل دے دی۔ حماس کے قائدین کو بھی یہ احساس ہو چلا ہے کہ تنظیم کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی طریقوں سے بھی استفادہ کیا جائے۔ اس ضمن میں پہلا اقدام یہ کیا گیا کہ حماس نے مقامی انتخابات میں حصہ لینا طے کیا تاکہ اس سال منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اسے ایک عوامی تنظیم کی شکل دی جاسکے۔ آخرکار حماس کے قائدین اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ وہ صدارتی انتخابات میں اس عزم کے ساتھ مقابلہ کرے گی کہ اسے بین الاقوامی طور پر منظور شدہ پارٹی کا موقف حاصل ہو سکے۔ یہی حماس کے طویل مدتی منصوبے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل عسکریت پسندی پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے۔ بھاری فوجی بندوبست کے باوجود فلسطین کے ’’خودکش بمبار‘‘ برابر اسرائیلی نشانوں پر وار کر رہے ہیں۔ قبضے کی بنا پر بھی اسرائیلیوں کو کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔ چونکہ مقامی اور بین الاقوامی صورتحال میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں‘ اس لیے اسرائیل کی یہ خواہش ہے کہ عرب۔اسرائیل تنازعہ کا جلد ہی کوئی تصفیہ نکل آئے۔ عرب ممالک اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیں اور اسے ایک وسیع تر رول اس خطے میں ادا کرنے کا موقع ملے۔
امریکا کے صدر جارج بش نے فلسطینی انتخابات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ایک جمہوری مستقبل کی جانب اہم پیش رفت ہے۔ ایک خودمختار‘ آزاد‘ قابلِ قبول جمہوری اور پورامن فلسطینی مملکت کے قیام کے لیے یہ کوششیں بے حد اہم ہیں اور ان سے اسرائیل کے تحفظ اور سلامتی میں مدد ملے گی‘‘۔
یورپین یونین اور روس نے بھی ایک ’’خودمختار‘‘ قابلِ قبول اور جمہوری فلسطینی مملکت کے قیام میں مدد دینے اور اسرائیل پر فلسطینی اتھارٹی سے گفت و شنید کرنے اور مغربی کنارے کے زیادہ تر حصہ سے دستبردار ہو جانے کے لیے دبائو ڈالنے کے عزائم کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم ایریل شیرون پر مغربی ممالک کا دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ شیرون کو بھی یہ احساس ہو گیا ہے کہ اسرائیل کا ۵ء۳ ملین فلسطینیوں پر اب حکمرانی کا تادیر قائم رکھنا آسان نہیں۔ اسی لیے شیرون اب روڈ میپ کا احیا چاہتے ہیں اور غزہ پٹی سے نہ صرف اسرائیلی افواج کو ہٹا لینا چاہتے ہیں بلکہ وہاں کی یہودی بستیوں کو اور مغربی کنارے کے شمال میں کچھ اور بستیوں کو بھی منتقل کر دینے کے لیے راضی ہیں۔ واقعات کی پیش رفت یہ بتاتی ہے کہ اسرائیل جیسا ہٹ دھرم ملک محض اس وجہ سے رعایتیں دینے پر آمادہ ہوا ہے کہ مزاحمتی تحریکوں نے اُس کی ناک میں دم کر دیا ہے‘ ورنہ اسرائیل نے آج تک عالمی برادری کی کسی رائے کی کوئی پروا نہیں کی۔ بلدیاتی انتخاب میں حماس کی فتح سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مزاحمتی تحریک کی جڑیں عوام میں مضبوط ہیں۔ چنانچہ اسرائیل‘ امریکا یا کسی اور قوت کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ان تحریکوں کی مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر انہیں تنہائی سے دوچار کر سکے جبکہ ان کی مظلومیت ہر پہلو سے عیاں اور واضح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شیرون غزہ سے انخلا کے کام میں فلسطینی اتھارٹی سے تعاون کرنے پر بھی آمادہ ہیں لیکن ان کا مطالبہ یہ ہے کہ گفت و شنید سے قبل کلی طور پر ساری ’’دہشت گردی‘‘ ختم کی جانی چاہیے۔ اب شیرون نے لیبر پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی ہے جو ایک عرصے سے گفت و شنید کے ذریعہ مسئلہ کے حل پر زور دیتی رہی ہے۔ فوجوں کے انخلا کی تائید کے مقابلے میں انہیں پارلیمنٹ کی ٹھوس اکثریت کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ لیکن یہودی آباد کاروں کی طاقتور لابی مسلسل ان کی مخالفت کر رہی ہے اور اپنے حمایتیوں سے انخلا کی مزاحمت کے لیے کہہ رہی ہے۔ فوج بھی اس بارے میں منقسم رائے رکھتی ہے۔ کئی فلسطینی قائدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی پیش کش ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے قیام کے لیے معاون نہیں ثابت ہو سکتی اور آخرکار ان علاقوں کو اردن اور مصر میں ضم کر دیا جائے گا۔ انہیں مغربی کنارے پر اسرائیل کی جانب سے دیوار کی تعمیر سے بھی یہ اندیشہ لاحق ہے کہ اس طرح یہودی مملکت میں داخلے کے راستے بند ہو جائیں گے۔ فلسطینی یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ اسرائیلی قائدین دراصل مغربی کنارے کی ان کی زمین کا زیادہ تر حصہ ہڑپ کرتے ہوئے ایک باقاعدہ سرحد تعمیر کر رہے ہیں۔ وزیراعظم ایریل شیرون نے تو پہلے ہی سے کہہ دیا ہے کہ وہ علاقہ متنازعہ ہے اور دراصل وہ اسرائیلیوں ہی کی ملکیت ہے یعنی بادشاہوں اور پیغمبروں کی سرزمین ہے ’’جودیا اور سمارا‘‘ جہاں یہودیوں کا بس جانے کا پورا پورا حق ہے اس لیے شیرون مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کے زیادہ تر حصے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ عباس کو فلسطینیوں کے کسی بھی مطالبے سے انحراف کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ بہرحال زبردست چیلنج درپیش ہے۔ یہ تو وقت ہی بتا سکے گا کہ آیا محمود عباس اسرائیل کو اپنے مطالبات مان لینے کی ترغیب دلانے میں کامیاب رہیں گے یا کوئی معاہدہ فریقین میں طے ہو جائے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply