امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان نے، دنیا بھر میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے کہ امریکا کی نگاہ میں پورا یروشلم اسرائیل کا جائز دارالحکومت ہے۔۔۔ اور ہونا بھی چاہیے۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ بھونچال کتنے روز رہتا ہے۔ اسرائیل بہرحال اپنے صہیونی منصوبوں کو مرحلہ وار آگے برھاتا چلا جارہا ہے۔ مسلم دنیا، باہمی چپقلش اور استعماری قوتوں کی خوشامد میں لگی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی آسکے گی؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
اسرائیل کا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ بیت المقدس اس کے زیرِ انتظام رہے گا اور فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ کم از کم اس کے مشرقی حصہ پر (جو ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں، اردن کے ہاتھوں سے نکل کر اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا تھا) فلسطینی کنٹرول ہونا چاہیے۔ اسی مشرقی بیت المقدس میں تقریباً ۳۵۔ایکڑ رقبہ پر مشتمل وہ خطۂ زمین ہے جو حرم الشریف کے نام سے موسوم ہے اور جس کی حدود میں مسجد الاقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ (پتھر والا گنبد) واقع ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے نبیٔ آخرالزماںﷺ نے معراجِ سمٰوٰت کا عظیم سفر کیا تھا اور جس کی طرف رخ کر کے تقریباً ۱۵ سال تک خود نبی اکرمﷺ اور ان کے صحابہ نماز ادا کرتے رہے۔ اسی لیے اس کو قبلۂ اول کہا جاتا ہے۔ دنیا کی صرف تین مسجدوں کے بارے میں ارشادِ نبویﷺ ہے کہ وہاں نماز پڑھنے کے لیے خصوصی طور پر جانا اور اُنہیں دوسری تمام مساجد پر فوقیت دینا جائز ہے۔ یہ تین مسجدیں کعبۃ اﷲ، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ ہیں۔
۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء کو اسرائیلی انتہا پسند جماعت لیکوڈ پارٹی کے سربراہ (بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بھی) ایریل شیرون نے حرم الشریف (مسجدِ اقصیٰ) کا دورہ کیا‘ جس پر فلسطینی مسلمانوں نے پُرامن احتجاجی مظاہرے کیے۔ اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین کو گولیوں سے بھون دیا۔ اس کے بعد سے پورا فلسطین ایک بھٹی کی مانند سلگ رہا ہے۔ اہلِ فلسطین، دو بار انتفاضہ کے نام سے غیرمعمولی تحریکِ آزادی چلا چکے ہیں۔ اس طرح محاصرہ کا شکار غزّہ بھی بار بار اسرائیلی عسکری جارحیت کا شکار ہوتا رہا ہے۔
اسرائیلی اس بات پر بضد ہیں کہ مسجدِ اقصیٰ کی حدود میں ہیکل سلیمانی ضرور تعمیر کریں گے۔ متحدہ یروشلم (بیت المقدس) کو اپنا دارالحکومت بنائے رکھیں گے۔۔۔ اور امریکا سمیت ساری دنیا کے سفارت خانوں کو، تل ابیب سے یروشلم منتقل کروائیں گے۔ دوسری طرف یہودیوں کو اس بلاجواز کارروائی سے روکنے کے لیے مسلمان بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ اب تک کئی ہزار افراد اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں اور ہزارہا مکانات مسمار کیے جاچکے ہیں اور نہیں معلوم کہ یہ سلسلہ کہاں تک پہنچے گا۔ پوری دنیا کی نگاہیں بیت المقدس میں جاری کشمکش پر مرتکز ہیں۔
دریں حالات ہمارے ہاں امریکی اشارے پر‘ اور ریاستی اداروں پر قابض طاقتور حلقوں کی آشیرواد سے یہ بحث چھیڑی جاتی رہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینے میں کیا حرج ہے۔ ہمارا اسرائیل سے کیا جھگڑا ہے؟ اب تو بہت سی عرب حکومتوں نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے یا کرنے والی ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عربوں نے کب ہمارا ساتھ دیا کہ اب بھی ہم ان کی وجہ سے اسرائیل سے دشمنی مول لیے رہیں۔ اُس سے ہماری دشمنی کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ اسرائیل اور بھارت دوست بنے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو ہم بھی اس کے دوست بن سکتے اور بھارت سے اس کی قربت کو کم کرسکتے ہیں۔
یہ دلائل سادہ دل اورمعاملے کے تاریخی‘ واقعاتی‘ ایمانی‘ اخلاقی اور نفسیاتی پہلوؤں سے ناواقف لوگوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ محض ایک ملک کو ماننے یا نہ ماننے کا نہیں۔ اسرائیل یہودیوں کا جبری طور پر حاصل کردہ نسلی وطن اور عالمگیر صہیونی تسلط کا نقطۂ پَرکار ہے۔ حق و باطل کی ازلی کشمکش میں سے پچھلے ۳۔۴ ہزار سال کے سیکڑوں خَم دار پہلو اس سے وابستہ ہیں‘ جنہیں ہوش و حواس میں رہنے والا کوئی باغیرت مسلمان نظرانداز نہیں کر سکتا۔
بیت المقدس کی اہمیت اور اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ اس پر اسرائیلی اور عرب دعوؤں میں حقیقت کتنی ہے؟ اور اس حوالے سے صہیونی عزائم اور منصوبے کیا کیا ہیں؟ مسئلۂ فلسطین کی نزاکت اور اس کے ایمانی پہلوؤں سے ہی نہیں‘ واقعاتی اور تاریخی حقائق سے بھی روشناس ہونا ضروری ہے۔
Leave a Reply