اسرائیل کی Peace Now نامی ایک این جی او نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں جب صدر جارج بش نے اناپولس میں امن مذاکرات کانفرنس منعقد کی تھی اُس وقت سے مشرقی یروشلم میں جو تعمیراتی ٹینڈرز جاری ہوئے وہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ۳۸ فیصد زیادہ ہیں۔ ۱۹۶۷ء سے جب اسرائیل نے مغربی کنارہ اور غزہ پر قبضہ کیا تھا اور خاص طور سے ۱۹۹۳ء کے میڈرڈ امن مذاکرات کے وقت سے اسرائیل مشرقی یروشلم میں تقریباً ۱۳ نئی بستیاں تعمیر کر چکا ہے جو کہ ڈھائی لاکھ سے زائد اسرائیلیوں کی جائے رہائش ہے اور اس شہر کے اندر تقریباً اتنا ہی فلسطینیوں کو بسنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اگر آپ یاد کریں کہ دو ریاستی حل کے بیشتر منصوبے مشرقی یروشلم کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں (جبکہ مغربی یروشلم میں اسرائیلی دارالحکومت کو) تو آپ کے لیے یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ کیوں اس منصوبے پر فلسطینیوں کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک دوسری وجہ بھی ہے جس کی بناء پر دو ریاستی حل کی حمایت ختم ہو رہی ہے اور وہ ہے واشنگٹن کا رویہ۔ رملہ کے حالیہ دورے کے دوران جب امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس کو یہ یاد دلایا گیا کہ فلسطینیوں نے پہلے ہی آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ اسرائیل کے ۷۸ فیصد سرزمین کی واپسی کو اپنا جائز حق تسلیم کرتے ہوئے قبول کر لیں گے تو انہوں نے مبینہ طور پر جواباً عرض کیا ’’۷۸ فیصد تو آپ بھول جائیں، اس وقت جو گفتگو ہو رہی ہے وہ بقیہ ۲۲ فیصد پر ہو رہی ہے‘‘۔ پیغام واضح تھا یعنی فلسطینیوں کو اپنی مزید سرزمین سے دستبردار ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسرائیلی بہت دنوں سے مغربی کنارہ کی آباد بستیوں کو جو اس سرزمین کے طویل حصے کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور جن کا دائرہ شمال و جنوب و مشرق و مغرب کے محوروں تک دراز ہے اور جو ہائی ویز اور برقی نیٹ ورکس کی سہولیات سے آراستہ ہیں، اسرائیلی کمیونٹی کی نامیاتی توسیع سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن اسرائیلی تعمیر Peace Now) کے مطابق( گزشتہ سال ۵۵۰ فیصد بڑھ گئی ہے۔ یہ تعمیر اس دیوارِ جدائی یا رکاوٹ کے ساتھ جو تقریباً مکمل ہے اور اس رپورٹ کے ساتھ کہ جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل وادیٔ اُردن کے مشرقی کنارہ کے ساتھ اپنا سیکوریٹی کنٹرول باقی رکھنا چاہتا ہے، ایک دوسرا پیغام ارسال کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل اس سرزمین پر ہمیشہ کے لیے قابض رہنا چاہتا ہے۔ اس مسئلے کو شامل کر دیجیے پناہ گزینوں کے مسئلے کے ساتھ جو ابھی تک توجہ کا محتاج ہے۔ پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سارے دو ریاستی حل کے سابق حامیان مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔
اس بات کو یاد رکھنا اہم ہے کہ فلسطینی قومی تحریک نے محض ۲۰ یا ۳۰ سال پہلے عملی مصالحت کے طور پر دو ریاستی حل کو قبول کرنا شروع کیا تھا۔ اس بات کو مانتے ہوئے کہ اسرائیل کہیں نہیں جا رہا ہے، اعتدال پسند فلسطینیوں نے فیصلہ کیا کہ ان کی بہترین امید اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک ریاست کی ہو سکتی ہے نہ کہ ایک ایسی ریاست کی امید جو اسرائیل کی جگہ ہو۔ اس کے باوجود ۱۵ سال کا عرصہ مذاکرات میں گزر گیا اور کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ لہٰذا اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ جس تجویز کو عملی سمجھا گیا تھا اس پر سے فلسطینیوں کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ چنانچہ پیش رفت کا فقدان، زمین پر موجود کسی شک و شبہ سے بالاتر اسرائیل کی توسیع پسندانہ حقیقت اور تحریک حماس کی مقبولیت میں اضافہ جیسے عوامل نے شاید ہی کسی کے لیے یہ گنجائش چھوڑی ہو کہ وہ فلسطین کے لیے کسی مثبت مستقبل کی جستجو کرے، سوائے اس کے کہ پرانے نظریہ کو تقویت بخشی جائے جس کی رو سے ایک ایسی دو قومی، سیکولر اور جمہوری ریاست کا قیام عمل میں آئے جہاں یہودی اور عرب باشندے مساوات کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں۔
بعض لوگ مثلاً وہ دانشوران اور کارکنان جنہوں نے مل کر فلسطینی اسٹرائٹجی گروپ تشکیل دیا ہے (جس نے حال ہی میں عرب اخبارات میں اسے موضوع گفتگو بنایا ہے) یک ریاستی منظر نامے کی بات کرتے ہیں جس کا مطلب اسرائیل کو اس کی توسیع پسندانہ پالیسی کے خطرات سے متنبہ کرنا ہے۔ اس گروہ کی اب بھی یہ ترجیح ہو گی دو ریاستی حل اُبھر کر سامنے آئے۔ دوسرے بہرحال یک ریاستی حل کی جانب لوٹ رہے ہیں جیسے فتح جو فلسطین کی مین اسٹریم قومی تحریک ہے اور جس نے پہلے یعنی ۶۰ کی دہائی کے اواخر میں اس حل کو ناپسند کیا تھا۔
پہلے گروہ کا خیال ہے کہ ایک ریاستی حل کی تجویز اسرائیلی فیصلہ سازوں کے دماغ میں شاید ہی سما سکے۔ دوسرا گروہ یک ریاستی حل کو ترجیح دیتا ہے جس کے ذریعہ ایک حکومت کی تشکیل ممکن ہو سکے گی جسے فلسطینی اپنی اکثریتی آبادی کی بناء پر لازماً کنٹرول کریں گے۔ اگرچہ تاخیر سے سہی لیکن وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے بھی اُس خطرے کا اعتراف کر لیا۔ یہ واضح نہیں ہے دوسرے اسرائیلی فیصلہ سازوں نے بھی ایسا کیا ہے۔ ممکن ہے وہ مسئلے کو بعض انحرافی تدابیر کے ذریعہ معرض التواء میں ڈالنے کی کوشش کریں۔ مثلاً یہ کہ وہ مغربی کنارہ کی آبادی کے مراکز کو اُردن کے کنٹرول میں دے دیں گے۔ جہاں اسرائیل کی مستقل فوجی نگرانی ہو گی۔ اس طرح کے حل کی تجویز خود اسرائیل نے ۷۰ کی دہائی میں پیش کی تھی۔ اس منظر نامے کے مطابق غزہ بھی مصر کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔ لیکن اگر اُردن اور مصر کو اس طرح کے بارِ گراں کے لیے تیار بھی کر لیا جائے اگرچہ وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے پھر بھی ان میں سے کوئی بھی تدبیر خطے میں استحکام کے حوالے سے پائیدار ثابت نہیں ہو گی۔ یک ریاستی حل کے سنجیدہ حامیان یہ اعتراف کرتے معلوم نہیں ہوتے کہ اس کے حصول میں انسانی آلام و مصائب بہت زیادہ ہیں۔ جہاں تک خطرے کی گھنٹی بجنے کی بات ہے تو آج سے پچیس سال پہلے اس بات کو محسوس کر لینا چاہیے تھا جبکہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارہ میں یہودی بستیوں کی آباد کاری کا سلسلہ ابھی شروع ہوا تھا۔ آج ۵ لاکھ سے زائد یہودیوں کے ساتھ جو ۱۹۴۹ء کی Armistice Line پر رہ رہے ہیں اس عمل کو اُلٹا پھیرنے میں بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ لہٰذا یہ وقت ہے عمل کا نہ کہ بیان بازی کا۔ عملاً اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ چند ماہ میں دونوں فریق کوئی مناسب معاہدہ کر لیں تاکہ ساتھ زندہ رہ سکیں۔ اور اس کا مطلب ہے دو ریاستی حل۔ اسرائیلی اس کے علاوہ کسی دوسرے حل پر راضی نہیں ہوں گے۔ بہت سارے فلسطینیوں کا خیال ہے کہ یک ریاستی حل آئیڈیل حل ہو سکتا ہے جس کی صورت میں صیہونی منصوبے کی شکست فاش یقینی ہے۔ اور اسرائیل کی جگہ ایک دو قومی ریاست ہو گی جس پر بالآخر عرب اکثریت حکمراں ہو گی۔ لیکن اس سے پہلے اس طرح کی چٹانوں سے ٹکرا کر بہت سارے جہاز تباہ ہو چکے ہیں۔ یک ریاستی حل کا کامیاب ہونا ایک بھاری جنگ کے بعد ہی ممکن ہے جو کہ ایک آئیڈیل بات کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔
نوٹ: مضمون نگار القدس یونیورسٹی کے صدر ہیں۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘شمارہ ۲۹ ستمبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply