فلسطینی شعراء کی شاعری اور جذبۂ آزادی

فلسطین میں اسرائیلی فوج کی داستان خونچکاں اتنی طویل ہے کہ اسے پوری تفصیل اور جزئیات کے ساتھ رقم نہیں کیا جاسکتا۔ ارضِ فلسطین پر جو حالات اور واقعات رونما ہوتے ہیں‘ ہم تک اُن کی محض جھلکیاں ہی پہنچتی ہیں۔ بالفاظِ دیگر‘ ہم نے اسرائیلی جارحیت کی تصویریں ہی دیکھی ہیں‘ اس جارحیت اور سفاکیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس نہیں کیا ہے۔ ہم نے انسانوں کو مرتے نہیں دیکھا ہے‘ ظلم و جبر کی بھینٹ چڑھتے نہیں دیکھا ہے‘ بے روزگاری‘ بھوک‘ پیاس‘ بے سروسامانی اور ایسے ہی دیگر سنگین مسائل سے عوام کو تڑپتے نہیں دیکھا ہے چنانچہ اس پوری صورت حال کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم اس کے بارے میں صرف اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

البتہ ہمارے پاس ایک ذریعہ اور ہے فلسطینیوں کے جذبات اور احساسات کو سمجھنے کا اور وہ ہے فلسطینی شاعری۔ ویسے بھی شاعری کے بارے میں یہ نظریہ عام اور مسلّم ہے کہ یہ فن شاعر کے احساسات اور جذبات کا آئینہ ہوتا ہے۔ فلسطینی شاعری میں بھی یہ عنصر کافی نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ شاعری احتجاج‘ ارضِ وطن سے محبت اور ناانصافی‘ ظلم اور جبر کے خلاف پرورش پانے والے جذبات کی شاعری ہے۔ یہ شاعری انقلاب کے لیے ہے۔ یہ شاعری جدوجہد کا آئینہ ہے۔ یہ شاعری جذبۂ قربانی کی عکاس ہے۔ فلسطینی شاعری کی کئی نظموں کے اشعار زبان زد عام ہوئے اور ہر اُس جگہ پڑھے گئے جہاں جہاں اہلِ فلسطین گئے‘ یعنی فلسطینی شہروں اور دیہاتوں سے لے کر لبنان اور اس کے علاوہ صابرہ اور شتیلہ کے رفیوجی کیمپوں تک۔ چونکہ دل سے نکلنے والی ہر بات اثر رکھتی ہے‘ اس لیے فلسطینی شاعری کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ اس سے اسرائیلی حکام خوفزدہ رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب یہ بات چلی تھی کہ کیا اسرائیلی اسکولوں میں فلسطینی شاعری پڑھائی جانی چاہیے تو اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود بارک نے اس کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ اس وقت یہ موضوع پورے اسرائیل میں عام تھا کہ فلسطینی شاعری اگر پڑھائی گئی تو ایہودبارک کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائے گی۔ واضح رہے کہ ’’فلسطینی شاعری کا مسئلہ‘‘ اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب مشہور فلسطینی شاعر محمود درویش کی نظمیں کافی مشہور ہوئی تھیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ محمود درویش کو اسرائیلی حکومت نے اسرائیل کی حدود اور مقبوضہ علاقوں سے شہربدر کر دیا تھا۔ شہر بدری کا یہ عرصہ ۳۰ سال پر محیط رہا۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلسطینی شاعری کس متاثر کن جذبے سے عبارت رہی ہے۔ ابراہیم طوقان بھی ایک اہم شاعر گزرے ہیں۔ وہ صرف ۳۶ سال کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے لیکن ان کے جذبے کی آنچ تھی کہ آج بھی محسوس کی جاتی ہے اور فلسطینی شاعری کے باب میں ان کا نام پہلے لکھا جاتا ہے۔ چلتے چلتے ہم یہ بھی بتا دیں کہ ابراہیم طوقان ۱۹۰۵ء میں نابلوس میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے مقصد سے بیروت میں واقع امریکی یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے۔ اس کے بعد نابلوس کے النجات نیشنل اسکول میں عربی ادب کے استاد رہے اور پھر اُسی امریکی یونیورسٹی میں جہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی‘ بحیثیت پروفیسر مقرر ہوئے اور اپنی نگارشات پیش کرتے رہے۔ پیٹ کے عارضے کے سبب ۱۹۴۱ء میں اُن کا انتقال ہو گیا لیکن اُن کی شاعری عوام کے دلوں میں زندہ رہی اور آج بھی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۳۹ء کے انقلاب کے دوران ان کی یہ نظم ’’اے میرے وطن‘‘ قومی گیت کے طور پر گائی جاتی تھی۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*