
۱۴؍جولائی ۲۰۱۵ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی نے ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک مشترکہ لائحۂ عمل (JCPOA) پر اتفاق کیا۔ دو سال سے زائد جاری رہنے والی گفت و شنید کے بعد طے پانے والے معاہدے کی رُو سے ایرانی جوہری پروگرام کو مصدقہ اقدامات کے تحت محدود کرکے معاہدے کا نفاذ یقینی بنایا جائے گا، جبکہ ایران جوہری مواد جمع نہیں کرسکے گا۔ بدلے میں ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی کرکے پُرامن جوہری تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ معاہدے میں نطنز (Natanz)، فردو (Fordow) اور اَرَک (Arak) میں قائم جوہری تنصیبات کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے ان کے معائنے اور حدبندی کی بات کی گئی ہے۔ مسودہ خاصا پیچیدہ ہے جس کا متن اور پانچ ضمیمہ جات ۱۰۰ سے زائد صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔
ہمارا مقصد جوہری عدم پھیلاؤ کے تناظر میں اس معاہدہ کا غیرجانبدارانہ اور معروضی جائزہ لینا ہے۔ معاہدے کے اچھے یا برے ہونے کے حوالے سے کوئی حتمی رائے پیش کرنے کے بجائے رائے سازی کے لیے قارئین کی مدد کرنا ہمارا مطمحِ نظر ہے۔ بہت سے پیچیدہ معاہدوں کی طرح JCPOA میں بھی بظاہر غیر متعلقہ معاملات پر سمجھوتے کیے گئے ہیں۔ اسی تناظر میں ہم نہ صرف مجموعی طور پر معاہدے کے فوائد اور اس سے جڑے خطرات کا جائزہ لیں گے بلکہ مختلف شقوں کی خوبیوں اور خامیوں پر بھی نگاہ ڈالیں گے۔ ان سوالات اور مسائل کو بھی اٹھایا جائے گا جو معاہدے کے کامیاب نفاذ کی صورت میں آنے والے مہینوں اور برسوں میں سر اٹھاسکتے ہیں۔
ممکنہ فوائد
معاہدے کے مطابق دس سے پندرہ سال تک ایرانی جوہری پروگرام محدود رہے گا اور یہ پابندیاں تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے باز رکھیں گی۔ نتیجتاً اُن حالات سے بچا جاسکے گا جو ایرانی جوہری سرگرمیوں کے اعادے اور جنگ کی صورت میں پیدا ہوسکتے تھے۔ معاہدہ اس بات کی ضمانت دے گا کہ جوہری مواد شفاف طریقے سے جمع کیا جارہا ہے اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) ایرانی سرگرمیوں کا جائزہ لے کر یہ تصدیق کرنے کے قابل ہے کہ جوہری پروگرام خالصتاً پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔
جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) اور آئی اے ای اے کے جائزہ نظام کی خامیوں سے قطع نظر، یہ معاہدہ جوہری عدم پھیلاؤ کے اصولوں کو دوام تو بخشے گا لیکن دو معنوں میں یہ NPT سے بھی زیادہ مؤثر ہے۔ اول یہ کہ ریاستیں NPT سے علیحدہ ہوکر جوہری ہتھیار بنا سکتی ہیں، مگر ایران نے اس معاہدے کے تحت کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے۔ دوم یہ کہ این پی ٹی اُن سرگرمیوں پر نگران نہیں جو جوہری بم کی تشکیل میں مددگار ہوں، مگر یہ معاہدہ ایسی نگرانی کا بھی مجاز ہے۔ یہ معاہدہ جہاں امریکا اور ایران کے مابین ۳۷ سال بعد باضابطہ سفارتی تعلقات کا نکتۂ آغاز بنے گا، وہیں اس کے دیباچہ میں یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ ایران کا پرامن جوہری پروگرام ’’عدم پھیلاؤ کے بین الاقوامی اصولوں اور عملی ضروریات‘‘ کے مطابق ’’مناسب رفتار‘‘ سے آگے بڑھے گا۔
ممکنہ خطرات
جس طرح عالمی طاقتیں ایران سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئیں، دیگر ریاستیں بھی یورینیم افزودہ کرکے اور دوہرے استعمال کے قابل آلات بناکر جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار دورانیہ کم کرسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کوئی ایک یا ایک سے زائد فریق تمام شقوں کو مطلوبہ انداز میں لاگو نہ کریں جس کا نتیجہ ایسے اختلافات کی صورت میں نکل سکتا ہے جو آسانی سے دور نہیں ہوں گے۔
ایران این پی ٹی کا رکن ہے مگر اس کی جوہری صلاحیت زیادہ ہے۔ پابندیاں ختم ہونے کے بعد ممکن ہے وہ عالمی برادری کی پروا نہ کرتے ہوئے کم عرصے میں محدود پیمانے پر جوہری ہتھیار حاصل کرلے۔
معاہدے کے تمام فریقین نے اُن مشکلات سے نمٹنے پر زور دیا جو اس کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ ایران اور امریکا میں موجود معاہدے کی مخالفت اور فریقین کی جانب سے معاہدے کو کم سے کم لاگو کرنے کی خواہش سے یہ مشکلات جنم لے سکتی ہیں۔
معاہدے کے اہم نکات
فریقین نے اختلافات دور کرنے کے لیے مشترکہ کمیشن تشکیل دیا ہے، جس میں چین، یورپی یونین، فرانس، جرمنی، ایران، روس، برطانیہ اور امریکا کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ کوئی بھی فریق اپنی شکایت لے کر کمیشن کے پاس جاسکتا ہے۔ اگر ۱۵؍روز میں مسئلہ حل نہیں ہوتا تو معاملہ کمیشن میں شامل ریاستوں کے وزرائے خارجہ کے پاس لے جایا جاسکتا ہے جن کے پاس حل نکالنے کے لیے مزید ۱۵؍دن ہوں گے۔ اسی دوران کوئی بھی فریق مشاورتی بورڈ تشکیل دینے کی درخواست کرسکتا ہے، جو مخالف فریقین اور ایک آزاد رکن پر مشتمل ہوگا اور محض مشورہ دینے کا مجاز ہوگا۔ اگر ان میں سے کوئی بھی طریقہ کارگر نہ ہوا تو معترض فریق اپنی یقین دہانیوں پر عمل کرنے کا پابند نہیں رہے گا اور وہ اس بات سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مطلع کرسکتا ہے۔ ایسا ہوا تو اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیاں ۳۰ روز کے بعد خود بخود دوبارہ عائد ہوجائیں گی، الاّ یہ کہ سلامتی کونسل اس کے برعکس قرارداد منظور کرلے۔
خوبیاں: مشترکا کمیشن کی زیرنگرانی یہ مرحلہ وار نظام تنازع کو طول پکڑنے نہیں دے گا اور کمیشن کا کوئی بھی فریق معاملہ کے ازسرِنو جائزے کا عمل شروع کرواسکتا ہے۔ سلامتی کونسل کا کوئی بھی مستقل رکن اگر کمیشن کی کارکردگی یا اعتراض کا نشانہ بننے والے فریق کے طرزِ عمل سے مطمئن نہ ہو تو وہ پابندیاں دوبارہ عائد کرواسکتا ہے۔
خامیاں: اگر مصالحت اور ثالثی کی کوششیں ناکام ہوتی ہیں تو بات معاہدے کی منسوخی تک جاسکتی ہے۔ ایران کہہ چکا ہے کہ اگر مکمل یا جزوی پابندیاں لگائی گئیں تو وہ بھی معاہدے سے مکمل یا جزوی انحراف کرسکتا ہے۔ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اب کوئی فریق ملک اس معاہدے سے ہٹ کر کوئی اقدام نہیں کرسکتا، اسے لازماً کمیشن سے رجوع کرنا ہوگا۔ یہ عنصر ایران کے لیے مثبت لیکن کچھ دیگر ریاستوں کے لیے (جن میں مشرق وسطیٰ کی ریاستیں سرفہرست ہیں) منفی ہے۔
خلاصہ: تصفیے کے اس نظام میں معقولیت اور بروقت اقدام کی صلاحیت دونوں موجود ہیں اور یہ سلامتی کونسل کو بھی اختیار دیتا ہے کہ اگر ایران منحرف ہوجائے تو وہ پابندیاں دوبارہ لگا دے۔ تاہم حقیقت میں اس معاہدے کا اطلاق اور ریاستوں کی جانب سے دوسروں کو اس پر عمل کرنے کا پابند بنانا حالات پر منحصر رہے گا۔ ہرچند کہ یہ معاہدہ محض جوہری صلاحیت سے متعلق ہے، مگر اس کے نفاذ میں وسیع تر سیاسی، معاشی اور عسکری منظرنامے کو بھی مرکزی اہمیت حاصل رہے گی۔ ابھی تک ایران کے ۱۹۰۰۰؍گیس سینٹری فیوجز آئی آر ون ایس (IR-1s) کے کمتر معیار پر ہیں مگر ایران نے کچھ جدید آئی آر ٹو ایم (IR-2m) مشینیں بھی بنالی ہیں اور مزید کی تیاریوں میں ہے۔
معاہدے کے اہم نکات
دس سال میں ایران اپنے ۱۹۰۰۰؍گیس سینٹری فیوجز میں دو تہائی کمی کرنے کا پابند ہوگا اور ۶۱۰۴ آئی آر ون سینٹری فیوجز رکھ سکے گا، جن میں سے یورینیم افزودہ کرنے کے لیے ۵۰۶۰ سے زیادہ استعمال نہیں کیے جاسکیں گے۔ پندرہ سال تک وہ کوئی نیا افزودگی پلانٹ نہیں لگاسکے گا اور (U-235) یورینیم آئسوٹوپ ۶۷ء ۳ فیصد سے زیادہ افزودہ نہیں کرسکے گا (بم بنانے کے لیے تقریباً ۹۰ فیصد تک افزودگی درکار ہوتی ہے)۔ اس ۶۷ء۳ فیصد افزودہ یورینیم کے ذخائر بھی تقریباً ۱۰۰۰۰؍کلو گرام سے کم کرکے ۳۰۰ کلو تک لانے ہوں گے۔ آٹھ سال تک ایران کسی بھی طرح کے سینٹری فیوج پر تحقیق و تجدید کا کام نہیں کرسکے گا۔ مختصر پیمانے پر جدید نوعیت کا کام کرنے کی بھی اس شرط پر اجازت ہوگی کہ اس سے یورینیم کی افزودگی میں مدد نہ لی جائے۔ آٹھ سال بعد جدید ٹیکنالوجی سے استفادے پر عائد پابندیاں ہٹالی جائیں گی۔
خوبیاں: امریکی اندازے کے مطابق اس وقت ایران کو ایک بم بنانے کے لیے درکار یورینیم افزودہ کرنے میں دو سے تین مہینے لگیں گے (اسی دورانیے کو breakout time کہا جاتا ہے)۔ دس سال کے لیے اس دورانیے کو بڑھا کر بارہ مہینے تک کردیا جائے گا۔ اگر ایران نے اس حد کو پار کرنے کی کوشش کی تو آئی اے ای اے کی نظروں سے بچ نہیں سکے گا۔
خامیاں: ایران اس پیمانے پر افزودگی جاری رکھ سکے گا جس کی عملی طور پر اسے ضرورت نہیں ہے۔ دس، پندرہ سال کی پابندیوں کے بعد وہ افزودگی، ٹیکنالوجی کے استعمال اور نئے پلانٹ لگانے میں آزاد ہوگا جس کا نتیجہ زیادہ طاقتور اور جدید سینٹری فیوجز کی تیاری کی صورت نکل سکتا ہے۔ دس سال بعد ایران جوہری پھیلاؤ کو خفیہ رکھنے والی لیزر ٹیکنالوجی کی مدد سے یورینیم افزودہ کرسکتا ہے۔ پابندیوں کے خاتمے پر اگر ایران اپنی پرامن ضروریات سے بڑھ کر افزودگی کرتا ہے تو جوہری ہتھیاروں کی طرف پیش قدمی کے خدشات پختہ ہوجائیں گے۔
خلاصہ: افزودگی کی طرف ایرانی پیش قدمی نے جوہری بحران کو جنم دیا تھا، لہٰذا معاہدے کے تحت این پی ٹی کے دائرے میں رہتے ہوئے اس خطرے سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ معاہدے کے بعد بریک آؤٹ ٹائم کا بڑھ جانا اور خفیہ طور پر افزودگی کے امکانات معدوم ہونا اہم کامیابی ہے، مگر دس پندرہ سال بعد بھاری پابندیاں ہٹ جائیں گی اور ایران این پی ٹی کے تحت جوہری ہتھیار نہ رکھنے والی دیگر ریاستوں کی صف میں آجائے گا۔ نطنز میں افزودگی کا سب سے بڑا مرکز قائم ہے اور ۲۰۰۲ء میں جب یہ انکشاف ہوا کہ ایران نے اسے خفیہ طور پر تعمیر کیا ہے تو بحران کا آغاز ہوا۔ درحقیقت نطنز میں افزودگی کے دو مراکز ہیں: ایک صنعتی مرکز جو ۵۰۰۰۰ سینٹری فیوجز کے لیے قائم کیا گیا اور وہاں ۱۵۰۰۰ سے زیادہ آئی آر ون، اور تقریباً ۱۰۰۰ آئی آر ٹو ایم ایس سینٹری فیوجز موجود ہیں۔ دوسرا نسبتاً چھوٹا مرکز جدید سینٹری فیوجز کی آزمائش اور ۲۰۱۳ء تک ۲۰ فیصد تک افزودگی کے لیے استعمال ہورہا تھا۔
معاہدے کے اہم نکات
نطنز میں ایران دس سال تک صرف ۵۰۶۰ آئی آر ون سینٹری فیوجز پر کام کرسکے گا۔ تمام آئی آر ٹو ایم سینٹری فیوجز وہاں سے IAEA کی زیر نگرانی مرکز منتقل کردیے جائیں گے۔
خوبیاں: دس سال کے لیے نطنز میں موجود تیار سینٹری فیوجز کی تعداد میں کمی کی جائے گی اور ایران سب سے کم طاقتور آئی آر ون سینٹری فیوجز کو ہی افزودگی کے لیے استعمال کرسکے گا۔
خامیاں: دس سال بعد ایران فوری طور پر جدید سینٹری فیوجز کے ساتھ افزودگی شروع کرکے اپنی صلاحیت بڑھا سکتا ہے۔
خلاصہ: نطنز میں افزودگی پر پندرہ سال تک پابندی ہوگی۔ اس کے بعد بھی افزودگی کی حدود اور رفتار کو ’’مناسب‘‘ اور ’’عملی ضروریات اور بین الاقوامی عدم پھیلاؤ کے اصولوں کے مطابق‘‘ رکھنا ہوگا۔ مگر یہ واضح نہیں ہے کہ اس حوالے سے ایران کی پاسداری کو کس طرح جانچا جائے گا۔ اس مقام پر ایرانی سرگرمیوں نے ۲۰۰۹ء میں بحران کو جنم دیا جب یہاں زیرِ زمین تنصیبات کا انکشاف ہوا، جو مغربی حکومتوں کے خیال میں غیرعلانیہ افزودگی کے لیے استعمال ہورہی تھیں۔ ۲۰۱۳ء تک ایران فردو میں تقریباً ۲۷۰۰ آئی آر ون سینٹری فیوجز نصب کرچکا تھا جن میں سے کچھ کو ۲۰ فیصد تک افزودگی کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔
معاہدے کے اہم نکات
معاہدے کی رو سے ایران پندرہ سال تک نہ تو یورینیم افزودہ کرسکے گا، نہ سینٹری فیوجز کے حوالے سے تحقیق و تجدید کرے گا اور نہ ہی اس مقام پر جوہری مواد اکھٹا کرے گا۔
خوبیاں: اس مقام پر جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت پندرہ سال کے لیے بالکل ختم ہوجائے گی۔
خامیاں: ایران کسی انتہائی خفیہ مقام پر یورینیم افزودہ کرکے معاہدہ توڑسکتا ہے۔ دس سال بعد وہ اس شرط پر جدید سینٹری فیوجز استعمال کرسکتا ہے کہ انہیں یورینیم افزودہ کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا اور پندرہ سال بعد یورینیم کی افزودگی بغیر کسی رکاوٹ کے دوبارہ شروع کرسکتا ہے۔
خلاصہ: ۲۰۱۳ء کے عبوری سمجھوتے کی بنیاد پر ہونے والے اس معاہدے کے بعد فردو میں مقررہ تعداد سے زیادہ سینٹری فیوجز جمع کیے جاسکیں گے اور نہ ہی یو ۲۳۵ کی افزودگی ۲۰ فیصد سے زیادہ ہوسکے گی۔ لیکن پندرہ برس بعد یا اس سے پہلے ہی ایران نے معاہدے سے انحراف کیا تو فردو میں افزودگی کو روکنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ ایران ۲۰۰۶ء سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کو خاطر میں نہیں لارہا جن میں ارک کے مقام پر ہتھیار ساز پلوٹونیم بنانے کے لیے انتہائی موزوں آئی آر ۴۰ ری ایکٹر کی تعمیر روکنے کاحکم دیا گیا ہے۔
معاہدے کے اہم نکات
ایران آئی آر ۴۰ کی ساخت میں تبدیلی کرے گا، اپنی سرگرمیوں میں کثیف پانی (Heavy water) کم سے کم استعمال کرے گا، اور ری ایکٹر کے تابکاری مواد کو تلف کرے گا۔ ایران نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پندرہ سال تک استعمال شدہ ایندھن کو دوبارہ استعمال نہیں کرے گا اور اس کے بعد بھی ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
خوبیاں: آئی آر ۴۰ کی ساخت میں تبدیلی سے ایران محض ایک چھوٹا ری ایکٹر ہی بناسکے گا جس سے ارک میں پلوٹونیم پیدا کرنے کی صلاحیت بہت محدود ہوجائے گی اور اگر ایران نے ہتھیار ساز پلوٹونیم بنانا چاہا تو بھی بہت محدود پیمانے پر ہی بنا پائے گا۔ ایران یہ وعدہ کرے گا کہ اس ری ایکٹر کے استعمال شدہ ایندھن سے پلوٹونیم نہیں نکالا جائے گا اور اسے بیرون ملک بھیج دیا جائے گا۔ اس ایندھن میں موجود پلوٹونیم تک ایران کی کوئی رسائی نہیں ہوگی۔
خامیاں: گو کہ ایران نے ایسا نہ کرنے کا یقین دلایا ہے مگر وہ چاہے تو ۱۵؍سال بعد ایندھن ازسر نو استعمال کرسکتا ہے۔
خلاصہ: کوئی ملک جوہری ہتھیاروں کے لیے ایندھن بنانا چاہے تو پلوٹونیم یا انتہائی افزودہ یورینیم ہی دو راستے ہیں۔ معاہدہ اس خطرے کو بخوبی دور کردیتا ہے کہ آئی آر ۴۰ منصوبے سے پلوٹونیم پیدا ہوسکے گا، علیحدہ ہوسکے گا، جوہری ہتھیار سازی کے لیے جمع کیا جاسکے گا۔ ایران غیرقانونی ذرائع سے اپنے جوہری پروگرام کے حساس عناصر کے لیے سامان اور استعمال کے طریقے حاصل کرچکا ہے اور اس دوران کئی ریاستوں کے برآمدات کی جانچ کے قوانین کی خلاف ورزی کی گئی۔
معاہدے کے اہم نکات
جوہری پروگرام کے لیے ایرانی خریداری پر نظر رکھنے کی خاطر ایک باضابطہ شفاف نظام ترتیب دیا گیا ہے، جس کی نگرانی مشترکہ کمیشن کرے گا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۲۲۳۱ کونسل کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ مشترکہ کمیشن کے متعلقہ گروپ (Procurement Working Group) کی سفارش پر جوہری استعمال یا دہرے استعمال کی خاطر ایران کو سامان دینے کے عمل کی نگرانی کرسکتی ہے تاکہ ایرانی پاسداری کو یقینی بنایا جاسکے۔
خوبیاں: اس مؤثر نظام کی بدولت پی فائیو+جرمنی (P5+1) اور ایران کا مشترکہ گروپ خفیہ ایرانی جوہری سرگرمیوں کو روک دے گا اور ایران نے اگر خفیہ خریداری کی تو اسے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتے ہوئے پابندیاں دوبارہ لگادی جائیں گی۔
خامیاں: کوئی نہیں۔
خلاصہ: اگر یہ نظام صحیح طریقے سے چلا تو یہ یقین دہانی حاصل ہوجائے گی کہ ایرانی جوہری پروگرام شفاف ہے اور نظام کے صحیح چلنے کے امکانات اس لیے روشن ہیں کہ اگر ایران نے اس راستے سے ہٹ کر کوئی خریداری کی تو اسے معاہدے سے روگردانی سمجھا جائے گا۔ ایرانی پاسداری کا تعین کرنے کے لیے آئی اے ای اے کی تصدیق کلیدی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ وہ یہ تصدیق کرنے کی مجاز ہے کہ جوہری تنصیبات، سرگرمیاں اور مواد ہتھیار سازی کے کام میں نہیں لائے جارہے کوئی خفیہ یا غیرامن پسندانہ سرگرمیاں نہیں ہورہیں۔
معاہدے کے اہم نکات
معاہدے کے تحت آئی اے ای اے کو اختیار ہے کہ وہ ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی، سینٹری فیوجز کی پیداوار اور سامان اور مواد کے ذخیرے و تلف پر نظر رکھ سکے۔ معاہدے کی رو سے ایران پر لازم ہے کہ وہ اضافی پروٹوکول (Additional Protocol) لاگو کرے جس کے تحت آئی اے ای اے غیر ظاہر شدہ مقامات کے معائنے اور ظاہر شدہ تنصیبات اور جوہری تجارت کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھ سکتی ہے۔ معاہدہ ایسی سرگرمیوں کا سدباب کرتا ہے جن سے جوہری ہتھیار بنانے کی طرف پیش قدمی ہوتی ہو اور آئی اے ای اے کو وہ شک کی بنا پر تحقیقات کا جواز بھی فراہم کرتا ہے۔
خوبیاں: آئی اے ای اے کی تصدیق کا واضح مقصد آٹھ برس میں یہ تعین کرنا ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام مکمل طور پر شفاف اور پرامن ہے۔ ایجنسی یورینیم کی افزودگی اور حساس جوہری سرگرمیوں سے متعلق ایرانی پاسداری کو یقینی بنائے گی اور اس کے لیے وہ درآمدی اعداد و شمار سمیت یورینیم کی افزودگی اور سینٹری فیوجز کی پیداوار کے مقامات تک رسائی حاصل کرے گی۔ ایرانی پاسداری کی جانچ کے لیے آئی اے ای اے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی مجاز ہوگی اور ایران تمام شقوں کی پاسداری کرتے ہوئے کسی بھی نئی جوہری تنصیب کی تعمیر سے قبل ایجنسی کو مطلع کرنے کا پابند ہوگا۔ آئی اے ای اے کے ان اختیارات کا ذکر معاہدے کے اضافی پروٹوکول میں کیا گیا ہے اور اگر ایران اسے لاگو کرنے کے حوالے سے ایجنسی سمیت چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکا کو مطمئن نہ کرسکا تو پابندیاں دوبارہ لگ سکتی ہیں۔
خامیاں: آٹھ سال تک تو ممکن ہے کہ ایران اضافی پروٹوکول کا پابند رہے مگر اس کے بعد شاید ایسا نہ ہو کیونکہ وہ اس دورانیے کے بعد پروٹوکول کی پارلیمانی توثیق کا پابند ہے، اسے لاگو کرنے کا نہیں۔ ایران کسی بھی مقام یا معلومات تک رسائی کی آئی اے ای اے کی درخواست قبول کرنے سے انکار کرسکتا ہے، جس کے بعد قانونی فیصلے میں ۲۴ دن لگ سکتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ۲۴ روز میں ایران کے لیے کوئی بھی ثبوت مٹانا انتہائی مشکل ہوگا مگر جن سرگرمیوں کا براہ راست تعلق جوہری مواد سے نہ ہو، انہیں چھپانا اتنا مشکل نہیں ہوگا۔
خلاصہ: کچھ مخصوص معاملات میں آئی اے ای اے کو ایرانی تنصیبات تک غیرمعمولی رسائی حاصل ہوگی، لیکن معاہدے سے ظاہر ہے کہ ایران نے اضافی پروٹوکول سمیت مزید وعدے کرنے میں مزاحمت دکھائی ہے۔ حالانکہ ۲۴ سالہ دھوکا دہی کے بعد یہ وعدے لینا ضروری سمجھا جارہا تھا۔ سیاسی و عملی مشکلات کے باعث کسی خفیہ مقام یا سرگرمی تک رسائی کی درخواست کا دفاع کرنے میں مشکل ہوسکتی ہے کیونکہ ایسی رسائی پر ایران، آئی اے ای اے اور دیگر فریقین کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے۔ اختلافات دور کرنے کے لیے دیے گئے ۲۴ روز میں ایران دھماکا خیزی کی جانچ جیسی سرگرمیوں کے ثبوت مٹا سکتا ہے کیونکہ ان کا جوہری مواد سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔
ان حالات میں ایرانی پاسداری کے حوالے سے تنازع کھڑا ہوسکتا ہے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ اگر ایسا کوئی تنازع اٹھ کھڑا ہوا تو مشترکہ کمیشن اسے کیسے حل کرے گا اور اگر حل نہ کرسکا تو پھر کیا ہوگا۔ پی فائیو اور جرمنی نے اس بنا پر مذاکرات کیے تھے کہ اگر ایران نے معاہدے کی پاسداری کی تو اس پر عائد پابندیاں ہٹالی جائیں گی لیکن سمجھوتا اس بات پر ہوا ہے کہ پابندیوں میں نرمی ایران کو جوہری سرگرمیوں سے متعلق معاہدے کی پاسداری پر آمادہ کرے گی اور اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو پابندیاں دوبارہ لگادی جائیں گی۔
معاہدے کے اہم نکات
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے JCPOA کی توثیق کی ہے جس میں ایران پر یورپی یونین، امریکا اور سلامتی کونسل کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کی معطلی اور خاتمے کا نظام الاوقات دیا گیا ہے۔ معاہدے میں پابندیوں کے خاتمے کے تین مراحل بیان کیے گئے ہیں تاکہ ایران پر دس سال تک دباؤ برقرار رہے۔ کچھ پابندیاں عملدرآمد شروع ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گی جبکہ باقی پابندیاں آٹھ اور دس سال تک ایرانی رویے کا جائزہ لینے کے بعد اٹھائی جائیں گی۔
خوبیاں: سلامتی کونسل کی توثیق معاہدے کو جواز فراہم کرتی ہے اور خاص طور پر پابندیاں دوبارہ لگانے سے متعلق اس کے دائرئہ کار کو بھی وسعت دیتی ہے۔ جامع نظام الاوقات ایران کو یقین دہانی کراتا ہے کہ اگر اس نے معاہدے کی پاسداری کی تو پابندیاں ختم ہوجائیں گی اور دیگر فریقین کو ایران پر دباؤ برقرار رکھنے کی گنجائش دیتا ہے یہاں تک کہ معاہدہ پوری طرح نافذ العمل ہوجائے۔ معاہدے کے تحت اگر کوئی بھی فریق ایرانی پاسداری سے مطمئن نہ ہوا تو پابندیاں دوبارہ لگائی جاسکتی ہیں۔
خامیاں: ابتدائی طور پر پابندیاں ہٹانے سے ممکن ہے کہ معاہدے کے دیگر فریقین کو بھی ایران کے ساتھ تجارت میں ایسے فوائد ملنے لگیں جنہیں پاکر وہ ایرانی عدم پاسداری کے باوجود پابندیاں دوبارہ لگانے کے حق میں نہ رہیں۔ جیسے جیسے پابندیاں ہٹتی جائیں گی ویسے ویسے ہوسکتا ہے کہ ایران کی پاسداری میں کمی آتی جائے۔ پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں ہوسکتا ہے ایرانی معیشت اتنی مضبوط ہوجائے کہ اسے دوبارہ پابندیاں عائد ہونے سے کوئی خطرہ ہی نہ رہے۔
خلاصہ: ایران پر سلامتی کونسل کی پابندیوں کا مقصد یہ تھا کہ اگر وہ اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرتے ہوئے عالمی برادری کو یہ اعتماد دلا دے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن ہے تو پابندیاں ہٹالی جائیں گی۔ JCPOA میں بھی اسی بات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ایک یا ایک سے زائد فریقین پابندیاں دوبارہ عائد کرواسکتے ہیں، مگر ایران یہ واضح کرچکا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو وہ معاہدے پر جزوی یا مکمل عملدرآمد روک دے گا۔ یعنی پابندیوں کا دوبارہ لگانا ایک ایسا ہتھیار ہے جسے کوئی بھی فریق استعمال کرسکتا ہے تاہم اس کے لیے ممکنہ نتائج کو دھیان میں رکھنا ہوگا۔ ایران بارہا یہ زور دے چکا ہے کہ وہ جوہری توانائی کو بجلی کے حصول یا کینسر کے علاج میں کام آنے والے ریڈیائی آئسوٹوپس کی پیداوار کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے اسے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے اور عالمی برادری اس ضمن میں مدد کرکے اسے معاہدے پر عملدرآمد کی ترغیب دے سکتی ہے۔
معاہدے کے اہم نکات
معاہدہ پی فائیو اور جرمنی کو پابند کرتا ہے کہ وہ جوہری توانائی کے پرامن استعمال میں ایران کی مدد کریں اور ایران اس بات پر آمادہ ہے کہ وہ ان چھ ممالک کے تعاون سے ارک میں آئی آر ۴۰ کی جگہ ۲۰ میگاواٹ کا ری ایکٹر تعمیر کرے گا۔
خوبیاں: ارک میں نئے ری ایکٹر کی تعمیر ایرانی جوہری پروگرام سے لاحق خطرات کو کم کرے گی اور معاہدے کا نفاذ جوہری تحفظ، سلامتی اور ذمہ داری سے متعلق عالمی معاہدات میں ایران کی شمولیت کی راہ ہموار کردے گا۔
خامیاں: یہ واضح نہیں ہے کہ معاہدے کی بنیاد پر کتنے اہم سیاسی، معاشی اور تجارتی فیصلے کیے جائیں گے اور ان کا ارک ری ایکٹر اور اس کے استعمال شدہ فضلے کی ایران سے باہر منتقلی پر کیا اثر ہوگا۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ مشترکہ کمیشن کو عملی طور پر ایرانی پاسداری کے تعین کے لیے درکار وسائل دستیاب بھی ہوں گے یا نہیں۔ معاہدے کے کچھ مخصوص حصوں میں پی فائیو اور جرمنی کی ذمہ داریوں کو واضح نہیں کیا گیا، جس سے غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور معاہدے کا نفاذ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
خلاصہ: معاہدے کے تحت ایران تو اپنی ذمہ داریاں پوری کرسکتا ہے مگر پی فائیو اور جرمنی کی ذمہ داریوں کا واضح تعین نہ ہونا اس کے متن کو خواہشات کی ایسی فہرست میں تبدیل کررہا ہے، جو ایک جھنجھٹ بن سکتی ہے۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“Parsing the Iran deal”. (“carnegieendowment.org”. August 6, 2015)
Leave a Reply