
پاکستان ۱۹۴۷ء میں آزادی ملنے سے پہلے برطانوی ہندوستان کی معیشت کا ایک اہم حصہ تھا۔ مگر آزادی کے دو سال بعد ہی پاکستان کا یہ اعزاز ختم ہو گیا۔ اس کی بڑی وجہ بھارت کی وہ مسلسل معاندانہ کارروائیاں تھیں جن سے اقتصادی لحاظ سے پاکستان کو مفلوج کیا جا سکتا ہو۔
ان معاندانہ کارروائیوں کے پیچھے مقصد غالباً یہ تھا کہ وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی جدوجہد کی تھی، اپنی غلطی تسلیم کر لیں اور دوبارہ یونین میں شامل ہو جائیں، مگر ایسا نہ ہوا اور پاکستان نے خوش قسمتی سے اور بے شمار قربانیوں سے اقتصادی حالات پر قابو پالیا۔ کوریا کی جنگ ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی اور متعدد اشیا جنہیں پاکستان برآمد کر سکتا تھا اور وافر مقدار میں موجود تھیں، کی قیمتیں بڑھ گئیں۔
پٹ سن، جو صرف مشرقی پاکستان میں پیدا ہوتی تھی، کو ’’سنہری ریشہ‘‘ کہا جانے لگا اور اس کی برآمد سے بہت زیادہ زرمبادلہ کمایا گیا۔ کپاس، چمڑا اور اُون جو زیادہ تر مغربی پاکستان کی پیداوار تھے کی برآمد سے بھی بہت فائدہ حاصل کیا گیا۔ ان اشیا کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پاکستان اس قابل ہوا کہ وہ صنعتی ترقی کی طرف توجہ دے، تاکہ ایک ایسی معیشت کو سہارا مل سکے جس کا انحصار بھارتی معیشت پر نہ ہو۔
آزاد بھارت اور پاکستان کے اقتصادی رابطے ٹوٹ گئے تو پاکستان نے اپنی ترقی کے لیے شراکت داروں کی تلاش شروع کر دی۔ پہلا انتخاب امریکا کیا گیا، جس کے اس خطے سے اپنے مفادات وابستہ تھے، جس کا پاکستان ایک اہم حصہ تھا۔ ۱۹۵۴ء میں دفاعی معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان کو امریکا سے بڑی مقدار میں فوجی اور اقتصادی امداد ملنے لگی۔ یہ تعلق دس سال قائم رہا۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں امریکا پیچھے ہٹ گیا۔امریکا کے اس رویے کے جواب میں پاکستان نے چین کے ساتھ تعلقات بڑھا لیے، جو ایک ایسا ملک تھا جسے باقی دنیا سے الگ تھلگ سمجھا جاتا تھا، جس کی ایک وجہ تو اس کے نظریات تھے اور دوسری وجہ امریکا کی کمیونسٹ چین کو محدود رکھنے کی پالیسی تھی۔ پاک چین تعلقات دونوں ملکوں میں حکومتوں کی تبدیلیوں اور چین میں ایک اہم نظریاتی تبدیلی کے باوجود قائم رہے۔ دونوں ملکوں کے لیڈر اپنے تعلقات اور دیرپا دوستی کی نوعیت سے آگاہ ہیں۔ اس حقیقت کی ایک بار پھر توثیق ہو گئی جب حال ہی میں صدر آصف علی زرداری نے بیجنگ اور شنگھائی کا دورہ کیا تھا۔ یہ ان کا دو سال میں پانچواں دورہ تھا۔
امریکا اور چین سے تعلقات کے ساتھ ساتھ پاکستان نے مشرق وسطیٰ سے بھی قریبی تعلقات قائم کر لیے۔ ان تعلقات کی بنیاد متعدد وجوہات پر تھی۔ مشرق وسطیٰ کو افرادی قوت کی ضرورت تھی جو پاکستان مہیا کر سکتا تھا اور پاکستان کو سرمائے کی ضرورت تھی جس کا کچھ حصہ خطے میں تیل برآمد کرنے والے ممالک فراہم کرتے تھے۔ لیکن ان تعلقات سے ایک منفی پہلو بھی سامنے آیا۔ پاکستان ایک قدامت پسند اسلامی ملک کے طور پر ظاہر ہوا جس کے ملک کی معاشرتی ترقی پر بہت اثرات پڑے۔
امریکا کے دبائو پر سعودی عرب نے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں اسلامی مدرسوں کے لیے مالی امداد دی۔ ان مدرسوں میں ان نوجوانوں کو نہ صرف اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا جاتا تھا جن کا تعلق ۳۵ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین سے تھا، بلکہ انہیں جہاد کی تعلیم اور افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف لڑنے کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔
آج پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسے اپنی اقتصادی اور ترقیاتی ضرورتوں کا تعین کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ اسلامی نظریات تک محدود رہے یا ایک نئی ’’گریٹ گیم‘‘ کا حصہ بنے۔ یہ گریٹ گیم اس لیے کھیلا جا رہا ہے کیونکہ بڑی بڑی عالمی معیشتیں چین کی ترقی اور اس کی معیشت میں حیران کن اضافے کی شرح کا مقابلہ کرنا چاہتی ہیں۔
اگرچہ میں زور دیتا رہا ہوں کہ بھارت کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات قائم کیے جائیں مگر میں اس حقیقت پر قائم ہوں کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے جو آسانی سے قریب نہیں آسکتا۔ بھارت کے متعلق یہ تجربہ صرف پاکستان ہی کو نہیں ہوا بلکہ بھارت کے دیگر ہمسایہ ممالک بھی ایسے ہی تجربے سے گزرے ہیں۔ اس طرح پاکستان کی پوزیشن ترکی جیسی ہو گئی ہے جو محض بار بار ٹھکرائے جانے کی خاطر یورپی یونین سے قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ایک نیا اقتصادی خطہ وجود میں لانے کے لیے ترکی اور پاکستان مل کر کام کرسکتے ہیں جس کا مقصد وسط ایشیائی خطے کی ترقی ہو، جبکہ دونوں ملکوں کے اس خطے کے ساتھ مضبوط تاریخی تعلقات ہیں۔
ترکی کی حالیہ اقتصادی ترقی نے بیشتر مبصرین کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ ’’انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون‘‘ کے لینڈن نامس جونیئر کے مطابق ’’آج ترکی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اقتصادی طاقت ہے جہاں متعدد کمپنیاں ہیں جو روس اور مشرق وسطیٰ میں سرمایہ دار مارکیٹوں تک رسائی حاصل کر رہی ہیں اور اربوں ڈالر کی آمدن حاصل کررہی ہیں‘‘۔ ۲۰۱۰ء کی پہلی سہ ماہی میں ترکی میں ۴ء۱۱ فیصد کی حیران کن اقتصادی توسیع ہوئی ہے اور اس طرح وہ چین کے بعد دوسرے نمبر پر اور بھارت کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں آگیا ہے۔ یورپی یونین کے متعلق کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ وہ ۲۰۱۰ء میں ایک فیصد سے زائد کی شرح سے اقتصادی ترقی حاصل کرسکے۔
ترکی کی کارکردگی حیرت انگیز ہے کیونکہ صرف دس سال پہلے اس کے بجٹ میں ۱۶ فیصد جی ڈی پی کا خسارہ تھا اور افراطِ زر کی شرح ۷۲ فیصد تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ ترکی اب یورپی یونین میں شامل ہونے کے معیار کی شرائط کو موجودہ ارکان کے مقابلے میں بہتر طور پر پورا کرتا ہے۔ اس کی جی ڈی پی کی شرح کا قرضہ صرف ۴۹ فیصد ہے اور آئندہ سال میں یہ اپنے بجٹ کا خسارہ تین فیصد سے کم پر لاسکتا ہے۔ قرضوں کی نادہندگی کے لحاظ سے جائزہ لیں تو ترکی ۱۹۲ نمبر پر ہے، اٹلی ۱۹۴ اور یونان ۱۹۸ نمبر پر ہے۔
ترکی میں کاروباری لوگوں کی نئی نسل نے یورپ جیسے جارحانہ سیکولرازم کے نظریات کو خیرباد کہہ دیا ہے جو جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے اپنائے تھے۔ ان میں سے بیشتر جو ترک معیشت میں سب سے آگے ہیں باعمل مسلمان ہیں اور اپنے عقیدے کے متعلق انہیں اب کوئی شک و شبہ نہیں۔ وہ وزیراعظم طیب اردگان کے پیروکار ہیں جنہوں نے معاشرتی قدامت پسندی اور ٹھوس اقتصادی نظم و ضبط کو کامیابی کے ساتھ یکجا کیا ہے۔ جب سے جمہوریہ ترکی وجود میں آیا ہے اس کے بعد سے وزیراعظم کی جسٹس ڈیولپمنٹ پارٹی سب سے زیادہ غلبے والی پارٹی تسلیم کی جاتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ ترکی نشاندہی کر رہا ہے کہ پاکستان کیا کرسکتا ہے؟ یہ اس کا شراکت دار بن سکتا ہے اور غیر عرب مسلمان ملکوں کا ایک بلاک قائم کر سکتا ہے اور اس میں افغانستان کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کیونکہ امریکا کا اس ملک سے انخلا شروع ہونے والا ہے۔
(بشکریہ: ’’ڈان‘‘۔ کراچی۔ ترجمہ: ریحان قیوم)
Leave a Reply