ارکانِ اسلام میں ’’صلوٰۃ‘‘ دوسرا اہم ترین رُکن ہے۔ لیکن صدیوں سے یہ کسی تبدیلی، نئے پَن اور اختراع سے محفوظ ہے۔ بلکہ اگر نماز میں اختراعات کی جائیں تو وہ فاسد ہو جائے گی۔ لگے بندھے طریقے سے ہر روز بار بار ایک جیسی عبادت کی جاتی ہے اور قیامت تک کی جاتی رہے گی۔ لیکن اس لگی بندھی اور بار بار ایک ہی طرح دہرائی جانے والی، نماز جیسی عبادت میں بھی دین کا حکم ہے کہ آنکھیں کھلی رکھو۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمہ وقت متغیر دنیا، معاملاتِ دنیا اور مسلسل اور لحظہ بہ لحظہ بدلتے زمان و مکاں کے متعلق ہمارا دین، آنکھیں کھلی رکھنے کا حکم نہ دیتا ہو۔ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ہمیں سمع، بصر اور فواد کی تین زبردست قوتیں دی ہیں۔ سننے، دیکھنے، سمجھنے اور تجزیہ کر کے بہتر سے بہتر اقدام کرنے کی راہ دکھائی ہے۔ کیوں نہ دین کے اس مزاج کو خود ’’اِقامتِ دین‘‘ کی جدوجہد کے لیے بھی اپنایا جائے اور بھرپور اپنایا جائے؟ اِسی زاویۂ نظر نے درجِ ذیل خیالات کے اظہار کی جسارت دی ہے۔
ایک سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ اگر ہمارے آقا و رہبر، نبیٔ اکرم، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفی بن عبداﷲ الہاشمیﷺ جزیرہ نمائے عرب کے بجائے فارس یا روم میں پیدا ہوئے ہوتے تو کیا تاریخ اور نتائج وہی ہوتے جو کہ ہمیں معلوم ہیں؟ اِس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اگر آپؐ فارس یا روم میں مبعوث کیے گئے ہوتے تو کیا آپؐ کی دعوت کا اسلوب اور طریقہ کار، سیاسی پالیسی اور حکمت کاری (Political Policy & Strategy) وہی ہوتی جو آپؐ جزیرہ نمائے عرب میں اختیار کرتے نظر آتے ہیں؟ زیادہ اہم، لیکن پیچیدہ سوال یہ ہے کہ دوسری صورت میں وہ پالیسی کیا ہوتی؟ وہاں حکمتِ عملی کیسی ہوتی؟ فارس میں کیا، کیا گیا ہوتا؟ اور روم میں دعوت اور سیاست سے کس طرح عہدہ برآ ہوا جاتا؟
یہ سوالات اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ کم از کم میرے علم کی حد تک یہ تینوں (رومی، ایرانی، عرب) معاشرے اور ان میں قائم سماجی، معاشی، سیاسی، تہذیبی، لسانی اور عسکری نظام (اگر کوئی تھا) اور وہاں کے حالات ہرگز یکساں نہیں تھے۔ مثلاً یہ کہ فارس و روم میں عظیم الشان بادشاہتیں صدیوں سے قائم تھیں۔ ان کے پاس اپنے دور کے بہترین اور موثر ترین نظام ہائے سیاسی و معاشی و عسکری موجود تھے۔ باجبروت اور ہمہ مقتدر بادشاہوں کے سلسلے تھے۔ ان کے ہاں بڑے بڑے اور متمدن شہر اور قصبات تھے۔ صوبوں، ضلعوں، تحصیلوں جیسے کئی سطحی حکومتی ڈھانچے قائم تھے۔ قوت و اقتدار کا بڑا حصہ بادشاہ یا شہنشاہ کی کرسی میں مرتکز تھا۔۔۔ لیکن معاشرتی طور پر، ایرانی سلطنت، رومی سلطنت سے جدا تھی اور یہ دونوں معاشرے عرب سماج سے الگ تھے۔ اِسی طرح اِن خطوں کی صدہا برس کی تاریخ بھی اور آب و ہوا بھی جدا تھی۔ نتیجتاً وہاں کے انسانوں کے مزاج بھی الگ تھے۔
جزیرہ نمائے عرب (تقریباً وہ تمام خطہ جو آج سعودی عرب کی ریاست میں شامل ہے) بالکل مختلف کیفیت کا حامل تھا۔ اس کی تاریخ بھی جدا، اس کی معاشرت اور آبادی کی تقسیم (Demography) بھی الگ، اس کی سیاست و معیشت بھی منفرد اور اس کا عسکری نظام بھی علیحدہ طرز کا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ پورے جزیرہ نمائے عرب میں کوئی دریا اور قابلِ ذکر جھیل نہیں ہے، وسیع و عریض قابلِ کاشت رقبے نہیں ہیں، وہاں زیادہ اور گھنی آبادیاں آج بھی نہیں ہیں۔۔۔ موسم سخت گرم رہتا ہے۔ تیل اور معدنیات کی دریافت سے قبل یہ خطۂ زمین کسی طالع آزما بیرونی حکمراں کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتا تھا۔ صرف یمن کا خطہ بحری آمد و رفت کے اہم دروازے کی حیثیت سے حملہ آوروں اور توسیع پسندوں کے لیے اہمیت اور کشش کا حامل تھا اور آج بھی ہے۔ بقیہ جزیرہ نمائے عرب پر صدیوں (بلکہ غالب امکان ہے کہ ہزاروں سال سے) کوئی بڑی لشکر کشی نہیں ہوئی اور نہ وہاں کوئی ’’بادشاہ‘‘ حکمراں رہا۔ کوئی مرکزی اقتدار یا بڑا مرکزِ اقتدار بھی نبیٔ اکرمؐ کی آمد کے وقت وہاں موجود نہیں تھا، بلکہ صدیوں سے نہیں تھا۔ اس وقت وہاں کوئی بڑا شہر بھی آباد نہیں تھا۔ سب سے بڑا شہر مکہ تھا، جس کی آبادی بارہ سے سولہ ہزار کے آس پاس بتائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھیں، جو دور دور اور منتشر تھیں۔ ان شہروں اور آبادیوں کے بھی کوئی اکلوتے حاکم نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ ایک ایک شہر میں کئی کئی سردار مل کر نظام چلایا کرتے تھے۔ خود مکہ شہر پر کوئی فردِ واحد حکمراں نہیں تھا۔ اسی لیے ان کا نظام، وحدانی اور آمرانہ نہیں، شورائی تھا۔
قبائلیت اور بَدوِیّت سے معمور، یہ عرب خطہ اور معاشرہ، نبیٔ اکرمﷺ کو اتفاقاً نہیں ملا تھا یا اس معاشرہ کو آپؐ حادثاتی طور پر حاصل نہیں ہو گئے تھے۔ بلکہ میرا یقین ہے کہ ان مخصوص نتائج کو۔۔ جو بعثتِ محمدیؐ کے نتیجہ میں تاریخ کا حصہ بنے۔۔ حاصل کرنے کے لیے اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے جزیرہ نمائے عرب کو صدیوں کے تعامل سے گزار کر ایسا بنا دیا تھا۔ اِسی طرح حضورِ اکرمؐ نے جو دعوتی و سیاسی پالیسی اور حکمتِ عملی اپنائی، وہ بالکل اُسی معاشرے اور تاریخ کے اُسی مخصوص مرحلے کے لیے تھی اور بالکل درست تھی۔ وقت و حالات نے اس کی گواہی دی ہے۔
یہاں پھر وہی سوال اٹھاتا ہوں کہ اگر آپ فارس یا روم میں مبعوث کیے جاتے یا مثلاً آپ کسی بگڑی ہوئی مسلمان قوم میں بھیجے گئے ہوتے (انبیائے بنی اسرائیل کی طرح)، تو کیا آپؐ پھر بھی ویسی ہی دعوتی و سیاسی پالیسی اور حکمتِ عملی لے کر چلتے جو آپؐ جزیرہ نمائے عرب کے مشرک، اور ساتھ ہی منتشر معاشرے میں لے کر چلے؟ یکساں نتائج والا سوال بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔
بہت ڈرتے ہوئے، لیکن ذمہ داری کے ساتھ ایک اور سوال اٹھانا چاہتا ہوں کہ عموماً ایک عام مسلمان سیرتِ نبوی کے انفرادی حوالوں کو اہمیت دیتا ہے تاکہ ذاتی زندگی میں حضورِ اکرمؐ کی پیروی کر سکے۔ اور اگر وہ اجتماعی زندگی کے حوالوں سے دلچسپی رکھتا بھی ہو تو اس لیے کہ وہ اپنے دور کی اجتماعی زندگی میں اُس شاندار اور بابرکت دور کی جھلکیاں دیکھنا چاہتا ہے۔ اپنے دور کو حضورِ اکرمؐ یا خلفائے راشدین کے دور جیسا بنا دینے سے، اور اُس میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے سے عام آدمی کو کوئی خاصی دلچسپی نہیں ہوتی اور اکثریت کو ہو بھی نہیں سکتی، چاہے ہم کتنی ہی خواہش کریں یا خواب دیکھیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آج جو مختصر سا گروہ اسلامی تحریک کے نام سے (کئی نسلوں سے) مسلسل محوِ سفر ہے، کیا اس کا سماجی و تاریخی شعور، اس کا سیرتِ نبوی اور جہدِ نبوی کو دیکھنے کا انداز اور نقطۂ نظر وہی ہونا چاہیے جو ایک عام مسلمان کا یا معاشرے کی اکثریت کا ہوتا ہے؟ اور یہ بھی کہ ’’محوِ سفر‘‘ رہنا ہی مقصود و مطلوب ہے یا راہِ سفر کے احوال و کیفیات و تجربات پر غور و فکر کرنا اور سیرتِ نبوی کے نورِ حکمت سے رہنمائی لے کر اپنی لگام (Steering)، اپنے ایکسیلیٹر اور اپنے بریک کا درست اور بہتر استعمال کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ سفر کرنا، سفر کے درست ہونے کی دلیل نہیں اور نہ ہی کولہو کے بیل کی طرح صبح تا شام چلتے رہنا، مدام چلنا کامیابی کی ضمانت ہے، حالانکہ یہ ’’سفر‘‘ خود ایک عمل ہے اور بڑے تسلسل، انہماک اور یکسوئی کا عمل ہے۔
ایک اور سوال جو میرے ذہنی افق پر اٹک جاتا ہے کہ قرآن نے متعدد انبیا علیہم السلام کے جو قصے اور ان کے اجزا تکرار و تواتر سے بیان کیے ہیں تو کیا یہ محض عبرت و گداز پیدا کرنے کے لیے ہیں یا ان کی کوئی اور زیادہ فعال (Dynamic) حکمت بھی ہے؟ کیا یہ قرآنی واقعات اور حوالے اس لیے بھی نہیں، کہ قیامت تک بدلتے چلے جانے والے زمان و مکان اور ایک ہی دور میں الگ الگ خطوں کے الگ الگ احوال و کیفیات میں اسلامی جدوجہد کے لیے یہ اشارات کا کام کریں، نورِ ہدایت و رہنمائی بنیں؟ جزیرہ نمائے عرب کے مشرک معاشرے کی کیفیات و احوال کو آخر پاکستانی مسلم معاشرے میں کس طرح جوں کا توں منطبق کیا جاسکتا ہے؟ یہاں نہ بکھرا ہوا، وسیع و عریض، کم آباد، بدوی معاشرہ ہے، نہ ’’لامرکزی‘‘ اقتدار ہے اور نہ لات و منات کے پجاریوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے ہماری جدوجہد مکی دور کی ہرگز نہیں۔ اسی طرح نبیٔ اکرم کی امامت و حاکمیت میں جو مدنی دور گزرا، ہم اس پر بھی اپنا انطباق نہیں کر سکتے۔ ہمارا معاشرہ ہرگز مدنی اوصاف کا حامل نہیں۔ اس کے برعکس پاکستانی معاشرہ بہت سے اسلامی اور بہت سے نااسلامی عناصر کا ملغوبہ ہے۔ یہاں اسلام، ریاست کا آئینی دین ضرور ہے، مگر عملاً بیشتر امورِ مملکت دین و شریعت سے غفلت، لاپروائی اور بے نیازی سے، اور شاید بعض امور سرکشی و بغاوت کی کیفیت میں چلائے جارہے ہیں۔ لہٰذا پاکستانی سماج بھی اور نظام بھی، اسلام و غیراسلام کا آمیزہ، بلکہ مرکب ہے۔ یہ ایک تیسری کیفیت ہے، مکی و مدنی تقسیم کے حوالے سے۔۔۔
ابھی تک جو کچھ عرض کیا گیا ہے، اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ خدانخواستہ راقم، سیرت و سنت کے اتباع کا قائل نہیں، الحمدﷲ، ہمارا دل اس پر پوری طرح مطمئن ہے کہ:
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بو لہبیست
(خود کو محمد مصطفیﷺ سے وابستہ رکھو اور وہیں سے سند لائو کہ وہی سراپا دین ہیں۔ اگر کوئی بات اُن کی سند سے خالی ہو تو پھر سب کچھ بو لہبی ہے۔)
اور اِس قرآنی ہدایت پر بھی ایمان پختہ ہے کہ:
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُق وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا (رسول اﷲﷺ جو کچھ تمہیں دیں، وہ لے لو، اور جس سے تمہیں روکیں، اُس سے رک جائو۔۔۔ الحشر:۷)
قیامت تک کے لیے اب محمد عربیﷺ ہی سب سے مستند حوالہ ہیں انفرادی زندگی کے لیے بھی اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی۔ وہی سرچشمۂ ہدایت اور نورِ نظر نواز ہیں۔ درجِ بالا سطور کا مقصود بس اس بات پر متوجہ کرنا ہے کہ نبیٔ اکرمﷺ نے بہترین سماجی و تاریخی شعور کے ذریعہ اپنے دور کے جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی جدوجہد اُس طرح کی جیسی وہاں کی جانی چاہیے تھی۔ اس کا نتیجہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس تاریخی عمل کی ہو بہو ’’کاپی کرنا‘‘ دین کو مطلوب نہیں ہے، کیونکہ نہ ہمارا سماج ویسا ہے اور نہ تاریخ کا صفحہ وہی ہے۔ البتہ نبیٔ اکرم کے نورِ بصیرت اور سرچشمۂ حکمت سے رہنمائی لے کر اپنے دورِ تاریخ اور اپنے سماج کے تقاضوں کے مطابق ہی جدوجہد، پالیسی اور حکمتِ عملی مرتب کرنی چاہیے۔ ایسا کرنا ہر اسلامی تحریک کی بنیادی اور اساسی ذمہ داری ہے۔
نبیٔ اکرمﷺ کی اسلامی جدوجہد کا پہلا نکتہ تو یہی تھا کہ سماجی شعور اور تاریخی شعور جتنا پختہ، ہمہ گیر اور مکمل ہو گا، اسی لحاظ سے جدوجہد بہتر اور زیادہ نتیجہ خیز ہو گی۔ دوسری رہنمائی یہ ملتی ہے کہ دعوت کا ایک الگ دائرہ ہے اور سیاست کا الگ۔ کبھی یہ دائرے جزوی طور پر Overlap کرتے ہیں، کبھی بالکل یکساں ہو جاتے ہیں اور اکثر الگ رہتے ہیں۔ البتہ دعوت کا دائرہ، سیاست کے دائرے کی نفی نہیں کرتا اور نہ سیاست کا دائرہ دعوت کے دائرے سے متصادم ہوتا ہے۔ سیاست کے دائرے کو آج کی اصطلاح میں “Power Politics” کہنا ہمارے مدعا کو زیادہ واضح کرے گا۔ نبیٔ اکرمﷺ کو اپنے دور میں اقتدار و اختیار کی حرکیات (Dynamics of Power Politics) کا جیسا غیرمعمولی شعور و ادراک تھا اور جس خوبصورتی، کمالِ مہارت اور لچک و پختگی کے نازک توازن سے آپؐ نے اس کو برتا، وہ خود لاجواب و بے مثال ہے۔ آپؐ کی سیاسی کامیابیوں میں Power Politics کی حرکیات کا شعور و ادراک اور حسنِ استعمال، سیرت کا نہایت روشن باب اور بڑا اہم سبق ہے۔
پاکستانی معاشرہ میں بھی دعوت کا کام ایک الگ دائرے کا کام ہے اور Power Politics اپنا الگ دائرہ رکھتا ہے۔ ناچیز کی رائے میں اسلامی تحریک کا بڑا کمزور پہلو پاکستانی سماج اور اس خطے کی تاریخ کا کمزور شعور و ادراک ہے اور اس سے بڑھ کر پاکستانی معاشرے کی ’’پاور پالیٹکس‘‘ کی حرکیات پر کم توجہی اور اس کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہ ہو سکنا ہے۔ پھر یہ کہ خود پاکستانی سماج ہم آہنگ اور یک جہت نہیں ہے۔ یہ بہت سے دیگر ملکوں سے زیادہ رنگا رنگی کا حامل ہے۔ ہمارا معاشرہ یکساں و یک رنگ (Homogeneous) نہیں، متنوع اور بوقلموں (Heterogeneous) ہے، بلکہ بعض پہلوئوں سے متضاد عناصر کا آمیزہ ہے۔ جب تک پاکستانی سماج کی سیاسی حرکیات کے ادراک اور بہتر استعمال کی صلاحیت نہیں بڑھائی جائے گی، اُس وقت تک کوئی غیرمعمولی سیاسی پیش رفت بھی نہیں ہو سکے گی۔ مثلاً یہ کہ اس خطے میں مسلم اقلیت کی غیرمسلم اکثریت پر صدیوں کی حکومت نے ایک خاص قسم کا سماج و کلچر، اجتماعی مزاج اور مخصوص قسم کی ’’اسلامیت‘‘ پیدا کی ہے۔ یہ پورا خطہ حنفی اکثریت کا حامل ہے۔ عادتاً ہی سہی، اکثریت ’’بریلوی‘‘ ہے۔ رویے میں لوگ لبرل ہیں۔ مسجد و مزار، قوالی و دھمال، قرآن خوانی و عرس، اہلِ معاشرہ کے شعور سے بڑھ کر اُن کے لاشعور میں بسی ہوئی اسلامی علامتیں ہیں۔ برصغیر میں صرف مجدد الف ثانیؒ اور شاہ ولیؒ اﷲ ہی نہیں، جلال الدین اکبر اور نور الدین جہانگیر بھی گزرے ہیں اور اُن کا ’’دینِ الٰہی اکبر شاہی‘‘ بھی یکسر ناپید نہیں ہوا ہے۔
’’پاور پالیٹکس‘‘ کے حوالے سے یہ نکتہ بھی سیرتِ نبوی سے معلوم ہو تا ہے کہ اس کی حرکیات کو بروئے کار لا کر اختیار و اقتدار حاصل بھی کیا گیا اور اسے Snowball Effect سے بھی گزارا گیا۔ مدینہ جیسی ایک ’’شہری ریاست‘‘ (City State) بنائی گئی، جو اگرچہ کہ چھوٹی تھی، مگر آج کے معنوں میں ایک ’’قومی ریاست‘‘ (Nation State) تھی۔ جہاں مسلمانوں اور یہودیوں کو برابری حاصل تھی۔ دونوں گروہ جس معاہدے (میثاقِ مدینہ) میں بندھے تھے، اس نے یہ ’’قومی ریاست‘‘ بنائی تھی۔ (’’میثاقِ مدینہ‘‘ کی تحریر تاریخ نے محفوظ رکھی ہے اور آج بھی دیکھی جاسکتی ہے)۔ تاریخ کی گواہی ہے کہ مدینہ کی ’’شہری ریاست‘‘ کو بنیاد بنا کر ایک طرف اختیار و اقتدار کو ضرب دیا جاتا رہا، اس کے ذریعہ مزید اختیار و اقتدار حاصل کیا جاتا رہا اور حدودِ ریاست بڑھتی رہیں۔ دوسری طرف جوں جوں اسلام کا اختیار و اقتدار مستحکم ہوتا گیا، اسے زیادہ خالص اسلامیت کی طرف موڑا جاتا رہا۔ جہاں رکاوٹ محسوس ہوئی، توقف کیا گیا یا حکمت عملی بدلی گئی۔ بالآخر اس معاشرے کی وہ سیاسی حرکیات (Dynamics of Power Politics) ہی بدل کر رکھ دی گئیں جن کی سیڑھی استعمال کر کے اختیار و اقتدار کی منزل تک پہنچا گیا تھا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس وقت کی سیاسی حرکیات کو (حرام و ناجائز امور سے اجتناب کرتے ہوئے) پوری طرح بروئے کار لا کر آگے بڑھا گیا۔ لیکن ایسا کر لینے کے بعد، ’’پاور پالیٹکس‘‘ کی اُس دور کی حرکیات اور تقاضوں کو جوں کا توں برقرار نہیں رکھا گیا، بلکہ جوں جوں موقع ملا، نئی حرکیات اور نئے تقاضے پیدا کیے گئے۔ ایک نیا سیاسی جہاں ظہور میں لایا گیا۔
پاکستانی معاشرہ میں کام کرنے والی اسلامی تحریک کو آج ’’لمحۂ قیام و سکون‘‘ یا ‘‘عرصۂ اعتکاف‘‘ (Pause) کی ضرورت ہے۔ اپنے سماج، اس کی نفسیات اور اس خطے کے تاریخی عوامل کا جائزہ لینا، غور کرنا اور نئے سرے سے اپنی حکمتِ عملی بنانا، خود تحریکِ اسلامی کی بقا و ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔ ایسا اسی وقت ہو سکے گا جب اہلِ دین اُس ذہنی سانچے (Mind Set) سے باہر آئیں گے کہ جس میں یا تو دورِ صحابہ پیشِ نظر ہوتا ہے یا پھر اپنا دور۔ درمیان کی تمام صدیاں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ کچھ ’’جزیرے‘‘ درمیان میں بھی ابھرے نظر آتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ایک تسلسل کا نام ہے۔ زمانہ تنی ہوئی مسلسل اور لامتناہی، لیکن مربوط رسّی کی طرحہے۔ ہم قینچی لے کر اور تاریخ کو ٹکڑوں میں کاٹ کر دیکھنے اور زمان و مکان کے گملے لگانے کی ذہنی ساخت رکھتے ہیں۔ اسی لیے اس خطے میں اسلامی جدوجہد گملوں میں پودے لگانے پر منتج ہوتی رہی ہے، پوری کی پوری کھیتیاں اور بڑے بڑے باغ و گلزار لگانے کی طرف اہلِ دین گئے ہی نہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ سماج یا معاشرہ اس سے زیادہ مضبوط و مستحکم اور جاندار و توانا وجود رکھتا ہے، جتنا سیاسی نظام۔ اگرچہ کہ سیاسی نظام کی کاٹ زیادہ ہوتی ہے، مگر مضبوطی اور توانائی میں سماج و معاشرہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ایک نیا سماج بنانے کے لیے اسلامی تحریک کا کیا ایجنڈا اور کیا حکمتِ عملی ہے؟ کبھی اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ ’’پاور پالیٹکس‘‘ بلکہ ’’روز مرہ کی سیاست‘‘ میں حد سے زیادہ اور قد سے بڑھ کر مصروفیت نے تحریک کی ترجیحات کو متاثر کیا ہے اور اُسے بے وزن بھی کر دیا ہے۔ سماجی تبدیلیوں کے عمل سے بے دخل بھی کیا ہے اور معاشرے کے اعصابی مراکز سے غافل اور دور بھی۔
اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ماضی میں یہاں کی اسلامی تحریک کو اقتدار و اختیار کے بعض دائروں میں پہنچایا بھی ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں (متحدہ مجلسِ عمل کی صورت میں) نصف حکومت اور کراچی میں دو بار بلدیاتی اختیارات اور ایک بار شہری حکومتی نظام کا اقتدار، تحریکِ اسلامی کے اصحاب کے حصہ میں آیا۔ مگر اپنے مخصوص و محدود مائنڈ سیٹ کی وجہ سے ان مواقع کو تاریخ ساز نہ بنایا جاسکا، اور نہ ہی Snowball Effect پیدا کر کے اقتدار و اختیار کو ضرب دیا جا سکا۔ بلکہ اپوزیشن والی سوچ لے کر (محدود) اقتدار کا یہ عرصہ گزار ڈالا گیا۔۔۔ نئے وژن، نئی سوچ، نئے دور کا کوئی سورج، مذکورہ بالا عرصۂ اختیار و اقتدار میں طلوع نہ ہو سکا۔
اب ضرورت ہے کہ پاکستان کی اسلامی تحریک، دعوت کا کام دعوت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر کرے اور سیاست کاری اپنے سماج کے مختلف حصوںکی ’’پاور پالیٹکس‘‘ کی حرکیات کو مدنظر رکھ کر۔ کیا ضروری ہے کہ خیبرپختونخوا کی طرز کی سیاست پنجاب اور سندھ میں کی جائے؟ یا کراچی جیسی سیاست ملاکنڈ ڈویژن میں ہو؟ اسلامی تحریک کو تنہائی سے بچنے، کم سے کم دشمن بنانے، موجود دشمنیوں کو کم یا غیرفعال کرنے اور طاقت کے مراکز میں پہنچنے اور موجود رہنے کی حکمتِ عملی لے کر چلنا ہو گا۔ اسے تو ’’دربارِ فرعون‘‘ کے مومنین بھی درکار ہیں اور جادوگروں میں چھپے اہلِ ایمان بھی۔ مکہ میں مستور ایمان رکھنے والے بھی چاہئیں اور ارد گرد پھیلے ’’قبائل‘‘ میں اپنے لیے نرم گوشے رکھنے والے عناصر بھی۔
اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ پاکستان کی اسلامی تحریک کو نئے در، نئے راستے، نئے مواقع، کشادہ وژن اور توانا تر عزمِ سفر عطا فرمائے۔
(یہ مختصر تحریر ۲۷ جولائی ۲۰۱۲ء کو لاہور میں منعقد ہونے والی ایک ’’مجلسِ علمی‘‘ میں پڑھی گئی۔)
Leave a Reply