
رشید احمد صدیقی کا نام اُردو ادب میں بڑے احترام سے لیا جاتا ہے وہ اپنے وقت کے ہی نہیں بلکہ سدا بہار ادیب تھے کہ برسوں قبل ان کا لکھا ہوا آج بھی تر و تازہ ہے۔ ان کے زبان و بیان اپنی سادگی اور پرکاری کے ساتھ ایک ایسا نمونہ ہیں کہ بس پڑھتے رہیے۔ زیرِ نظر اقتباس ان کی مشہور کتاب ’’آشفتہ بیانی میری‘‘ سے لیا گیا ہے جس میں ان کے وطن مالوف جون پور جسے شیرازِ ہند بھی کہا جاتا ہے کی لفظی تصویر یوں کھینچی گئی ہے کہ وہ پورا دور آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ یہ کتاب پوری کی پوری پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے جسے مکتبہ جامعہ نے برسوں پہلے چھاپا تھا اس کی مقبولیت کا اندازہ یوں لگایئے کہ اس کے کئی ایڈیشن شائع کیے گئے۔ جو بازار میں دستیاب ہے۔ باذوق قارئین کے لیے اس میں بہت کچھ ہے بس شروع کرنے کی دیر ہو گی۔
جونپور تاریخی شہر ہے، وہاں شاہانِ شرقی کے آثار اب تک موجود ہیں۔ کئی جید مسجدیں، مزارات اور مقبرے، ایک عالیشان قلعہ، عیدگاہ، پُل، پختہ سرائے اور کتنے سارے کھنڈر شاہی زمانے کے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دریائے گومتی وسط شہر سے گزرتا ہے جس پر شاہی زمانے کا بڑا مضبوط پُل ہے۔ برسات میں بالضرور طغیانی آتی ہے۔ یہ زمانہ شہر میں تردد اور تفریح دونوں کا ہوتا ہے۔ شہر سے متصل دریا کے کنارے شاہان شرقی کا ویران قلعہ ہے کتنا اونچا، مستحکم اور شاندار!
پُل کے ایک سرے پر پبلک لائبریری کی دو منزلہ عمارت ہے جس کی دیوار کے ایک رُخ پر دریا کا اُتار چڑھائو ظاہر کرنے کے لیے نمبر لگا دیئے گئے ہیں۔ اس لائبریری میں شہر کے ثقات و اشراف، اتنا کتابیں یا اخبارات پڑھنے کے لیے نہیں جتنا شام کو مل بیٹھنے کے لیے جمع ہوتے، شعر و ادب کی باتیں کرتے اور بیٹھے بیٹھے شہر، قلعہ اور دریا کی سیر کرتے اور کبھی کبھی دور و نزدیک بکھری ہوئی مسمار عمارتوں اور کھنڈروں کی یاد میں تھوڑی دیر کے لیے گم ہو جاتے۔
جن لوگوں نے جونپور کا قلعہ اور مسجدیں نہیں دیکھی ہیں وہ شاید اندازہ نہ کر سکیں کہ یہ کتنی ٹھوس، کوہ پیکر اور پُرشکوہ عمارتیں ہیں۔ دہلی اور آگرے کے مغلیہ عہد کی عمارتوں میں حُسن، نفاست، نزاکت اور پرکاری زیادہ ہے اور ان باتوں میں ان کا جواب دور دور نہیں لیکن جو سطوت و جلال جونپور کی مسجدوں اور آثارِ قدیمہ میں نظر آتا ہے وہ بھی اپنی جگہ پر مسلَّم ہے۔ یہ شان مجھے لاہور کی شاہی مسجد میں بھی نظر آئی ان مسجدوں کے اندرونی صدر دروازے کی طرف بڑھنے کی ہمت نہیں ہوتی جیسے یہ ہم کو پیس ڈالیں گی یا نگل جائیں گی۔ یہاں نماز پڑھنے میں خاص طرح کا انشراح و افتخار محسوس ہوتا ہے جیسے ہم واقعی خدائے برتر و توانا کے سامنے حاضر ہوں۔
جونپور کی یہ پرانی شاہی عمارتیں اس درجہ پاس پاس واقع ہیں کہ تقریباً ہر روز ان کے دیکھنے کا اتفاق ہو جاتا تھا۔ کبھی دن میں کئی بار جیسے ان کا دیکھنا زندگی کے روز مرہ کے معمولات میں داخل ہو گیا ہو۔ اس زمانے میں جونپور میں ایسے کھنڈرات اور ایسے خاندان بھی کثرت سے موجود تھے جو اس شہر کی گزشتہ عظمت اور فضیلت کی بے اختیار و بار بار یاد دلاتے رہتے تھے۔ ۱۹۱۳ء اور ۱۹۱۴ء میں شیعہ کانفرنس کا ایک بڑا شاندار جلسہ جونپور کے شاہی قلعے کے اندر منعقد ہوا تھا۔ تصور کی نگاہ میں حضرت صفی (مرحوم) اپنی مشہور نظم بڑے دل نشیں اور ولولہ انگیز لہجے میں سناتے نظر آتے ہیں:
جونپور، اے مولدِ سلطانِ عادل شیرشاہ
تیرے آثارِ قدیمہ تیری عظمت پر گواہ
میں نے یہ سماں اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے جونپور واقعتا اپنی عظمتِ دیرینہ کے ساتھ ہمارے ارد گرد آہستہ آہستہ اُبھر رہا ہو!
اب سوچتا ہوں اُس زمانے کا جونپور علم و فضل اور شاعری و شرافت کی قدیم روایات کے اعتبار سے کتنا قابلِ قدر خطہ تھا۔ بیشتر مسلمان گھرانے ایسے تھے جو کسی نہ کسی اعتبار سے اپنی ایک حیثیت رکھتے تھے۔ رؤسا، علما اور فضلا کے علاوہ عوام کا طبقہ تھا جس کے افراد پہلوانی کرتے تھے، پنجہ لڑاتے تھے، نیچہ باندھتے تھے، عَلم اٹھاتے تھے، طبل بجاتے، سوز خوانی اور ماتم کرتے، فیرینی کباب بیچتے تھے، بٹیر لڑاتے اور کبوتر اُڑاتے تھے۔ بہ ایں ہمہ سوسائٹی میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، کرتے کچھ ہوں بیٹھتے سب کے برابر تھے۔ نجابت اور شرافت کا اس زمانے میں کتنا لحاظ رکھا جاتا تھا۔
ہر خاندان میں خواہ وہ کتنا ہی فلاکت زدہ کیوں نہ ہو کوئی نہ کوئی شاعر، مرثیہ خواں، خوش نویس، پہلوان، پتنگ باز، داستان گو ہوتا۔ بزرگوں کے زمانے کی ایک بیاض ہوتی جس پر خاندان ہی کے کسی اگلے پچھلے سربر آوردہ شاعر کا کلام محفوظ ہوتا جسے صاحبِ خانہ گھر پر مجلس منعقد کر کے بڑے فخر سے اور فن کے جملہ آداب ملحوظ رکھ کر سناتا۔ اس کلام کو نسلاً بعد نسل گھر کا کوئی کاتب بیاض پر خوش خط نقل کرتا۔ اس بیاض میں جہاں تہاں کچھ مجرب دوائیں اور دعائیں افرادِ خاندان کی شادی، ولادت، وفات وغیرہ کی تاریخیں، مہاجن کے قرض اور سود سے متعلق یادداشت بھی درج ہوتی!
میری طالب علمی کے زمانے میں سربرآوردہ شریف شیعہ خاندانوں کی تعداد جونپور اور مضافات میں کافی تھی۔ اسکول کے ساتھی زیادہ تر اِن ہی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اکثر اُن کے گھروں پر جایا کرتا۔ گھر کے بزرگ مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتے تھے اور بڑی شفقت سے پیش آتے۔ چھوٹوں سے شفقت اور عزت سے پیش آنے کا جو انداز میں نے اس زمانے کے بزرگوں میں پایا اب وہ کہیں نظر نہیںآتا۔ کبھی اپنی خاندان یا باہر کے شعراء کا منتخب کلام یا خاندانی بیاض سے مرثیے اور سوز اس خوبی سے سناتے کہ جی خوش ہو جاتا۔ ان کا اندازِ شعر خوانی اور شعر کی خوبیوں کی توضیح اتنی مکمل اور دل نشین ہوتی کہ آج اچھے اچھے فنکاروں اور معلموں میں نہیں نظر آتی۔ شعر و ادب کا جتنا چرچا میں نے ان خاندانوں میں دیکھا کہیں اور نظر نہ آیا۔
شعر سننے سے زیادہ ان کی زبان اور انداز سے شعر کا ’’اظہار و ابلاغ‘‘ دلکش معلوم ہوتا تھا۔ ایک شعر اب تک یاد ہے:
بعد مرنے کے گناہوں سے سبک باری ہے
پھول اٹھاتے ہیں جنازے کے اٹھانے والے
شعر پرانے انداز کا ہے لیکن پڑھنے والے نے شانوں کو خفیف سی جنبش اور ہاتھوں کو ہلکی سی تکان دے کر ثانی مصرع کو کچھ اس طرح پڑھا اور ادا کیا کہ واقعی ایسا معلوم ہونے لگا جیسے پھول اور جنازہ اٹھانے میں کوئی فرق نہیں رہ گیا تھا اب خیال آتا ہے جیسے یہ لوگ شعر ہی نہیں پڑھتے تھے بلکہ اسے کر دکھانے میں فنونِ لطیفہ کی جتنی اقسام ہیں سب برتتے تھے اور کس سلیقے سے برتتے تھے!
لکھنؤ، فیض آباد، پٹنہ یا الہ آباد میں معرکے کا کوئی مشاعرہ یا مرثیہ خوانی کی مجلس منعقد ہوتی تو جونپور کے لوگ کثرت سے شریک ہوتے۔ واپس آکر پبلک لائبریری کے برآمدے میں جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے جلسے کی کارروائی پر نقد و تبصرہ ہوتا۔ اس نشست کی حیثیت ایک طور پر آج کل کے سمپوزیم کی ہوتی۔ پوری پوری غزلیں اور مرثیے ازبر ہوتے اور اسی انداز سے سنائے جاتے جس سے سنے گئے تھے اور پڑھنے والوں کو داد اس طرح دی جاتی تھی جیسی شاید خود مصنف کو نہ دی گئی ہو گی۔ ایک صاحب نے غالباً صفی صاحب کا ایک شعر اس لطف سے سنایا تھا کہ حاضرین دیر تک جھومتے رہے اور ایک بزرگ نے جو بڑے سنجیدہ اور سن رسیدہ تھے بہ آواز بلند ان الفاظ میں داد دی تھی ’’میاں، جزاک اللہ آدھا شعر تمہارا ہو گیا‘‘۔ پڑھنے والے نے اس داد کی پذیرائی جس فخر اور مسرت سے کی اس سے کچھ ایسا معلوم ہونے لگا جیسے صفی صاحب بقیہ مصرع کی ملکیت سے بھی محروم ہو گئے! شعر یہ تھا:
کچھ نہ کچھ گورِ غریباں پر بھی ساماں ہو گیا
چار تارے چرخ سے ٹوٹے چراغاں ہو گیا
طالب علمی کے زمانے میں میرا دل پسند مشغلہ بالخصوص برسات کے موسم میں جب میدان میں کوئی کھیل کھیلا نہ جا سکتا، اس کتب خانے میں جو دوسری منزل پر واقع تھا کھڑکی سے متصل آرام دہ کرسی پر دراز ہو کر اردو انگریزی افسانوں اور ناولوں کا مطالعہ تھا۔ یہاں سے دریا کی طغیانی نظر آتی تھی۔ پل کے طاقوں سے الغاروں مٹیالے پانی کا اُمنڈتے، بپھرتے، گونجتے، غراتے گزرنا اور پُل کا اس طغیان و ہیجان سے یکسر بے خبر و بے پروا ہونا کہ دریا کی دوسری طرف نزدیک ہی قلعہ کی سنگین فصیل دیوپیکر پشتی بانوں سے مستحکم جن پر کہن سال تناور درخت اور کنٹیلی گنجان جھاڑیاں ایک دوسرے میں گتھی ہوئی سیلاب کے تیز و تند دھارے سے اپنے ہمدم دیرینہ پُل کی طر ح بے نیاز پورب کی برسات کا ہر چہار طرف تسلط، سرمئی ملگجے بادلوں کے خلاف کئی کئی دن تک سورج کی روشنی کا راستہ بند رکھتے۔ یہ بادل طرح طرح سے امڈتے منڈلاتے رہتے ہیں، کہیں تہہ بہ تہہ اکٹھا ہو کر ہوا کے جھکڑ میں ایک دوسرے کو روندنے پھاندنے لگتے، کبھی ان کے گونجنے گرجنے کی آواز اس طرح سنائی دیتی جیسے غیب کی آواز دور اور قریب سے یکساں سنائی دے اور قضا و قدر کا کوئی اندوہناک فیصلہ نافذ ہونے والا ہو، تاریکی اور تہلکے کی اس گیر و دار میں پل کی سنگین حصار اور قلعے کی فصیل اور پشتی بان ایسے معلوم ہوتے جیسے بے ڈول بادلوں کے بڑے بڑے تودے بغیر کسی ارادے یا منصوبے کے ایک دوسرے پر ڈھیر کر دیئے گئے ہوں۔ شکستہ تاریخی عمارات آثارِ قدیمہ اور کھنڈرات دیکھ کر میں بہت متاثر ہوتا ہوں جیسے ان کے آگے جھکنے اور گلے لگانے کو دل چاہتا ہو۔ ذہن ان کی گزشتہ شان و شوکت اور عروج و زوال کے طرح طرح نقشے بنانا اور بننا شروع کرتا ہے پھر کچھ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے وہ اپنی ویران اور سنسان اوقات گزاری میں میری موجودگی اور غمخواری سے تسکین پاتے ہوں! اس عمر، زمانے، ماحول و معاشرت میں اس مقام پر طرح طرح کے افسانے اور ناول پڑھنے میں جو لطف آیا وہ پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔ کبھی ایسامعلوم ہوتا جیسے ان افسانوں اور ناولوں کا میں ہی مصنف تھا، میں ہی ماحول اور میں ہی ہیرو! لائبریری سے باہر نکلوں گا تو میرے احترام میں پُل کے نیچے بہتا ہوا پانی، پُل کے اوپر چلتی ہوئی مخلوق اور فضا کا نمناک رست خیز رُک جائے گا! ان کتابوں اور مصنفین کے نام گنانے سے کچھ حاصل نہیں اور خطرے سے بھی خالی نہیں، اس لیے کہ اندیشہ ہے کہیں ایسی کتابوں کے نام نہ لینے لگوں جو میں نے نہیں دوسروں نے پڑھی ہوں! مجھے ہر طرح کی چیز پڑھنے میں لطف آتا تھا البتہ یہاں ایک بات کا ذکر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں وہ اس لیے کہ اس پر آج بھی مجھے اتنا ہی یقین ہے جتنا آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے تھا وہ یہ کہ اس زمانے میں بھی جب مجھے اردو سے کہیں کم انگریزی آتی تھی۔ میں زبان و ادب کے اعتبار سے انگریزی کو اردو سے اونچا درجہ دیتا تھا۔ انگریزی کتاب پڑھتا تو کچھ ایسا محسوس کرتا جیسے مصنف جو کچھ کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے اور میرا بہی خواہ ہے۔ اردو کتابوں کی عبارت کا اکثر یہ اثر ہوتا جیسے مصنف کا مقصد اپنا کرتب دکھانا ہو، کوئی مجھے فائدہ پہنچانا نہ ہو۔ یہ باتیں اور اس طرح کی باتیں وضاحت سے نہیں بلکہ گڈ مڈ ہو کر ذہن میں آتیں۔ ممکن ہے اس کا سبب یہ بھی رہا ہو کہ ذہنوں پرانگریز، انگریزی حکومت اور انگریزی زبان کی گرفت عام تھی۔ غرض یہ تعبیر صحیح رہی ہو یا غلط، مجھے انگریزی کے مطالعے سے فائدہ پہنچا۔ انگریزوں سے میرا کچھ ایسا سروکار بھی نہیں رہا لیکن انگریزی زبان و ادب سے اب بھی بہرہ مند ہوتا ہوں۔ علوم و فنون کے بے پایاں ذخائر سے قطع نظر جو انگریزی میں ملتے ہیں اور اردو میں ’’برائے نام‘‘ سے بھی کم ہیں! ابھی اردو کو انگریزی سے بہت کچھ سیکھنا ہے!
بیسویں صدی کے پہلے پچیس تیس سال تک جتنے طالب علم انگریزی اسکول کے اونچے درجوں میں ہوتے، ان میں بیشتر انگریزی بولنے کی اچھی استعداد رکھتے تھے۔ ایسی استعداد جو آجکل کے بی اے کے طلبہ میں نہیں ملتی۔ ان میں جہاں تک مسلمان طلبہ کا تعلق ہے اس کا سبب یہ تھا کہ عربی، فارسی، اردو وہ گھر سے پڑھ کر آتے تھے۔ ایک زبان پر عبور ہو تو دوسری زبان کا سیکھ لینا آسان ہوتا ہے۔ اس لیے انگریزی میں وہ آسانی سے مہارت پیدا کر لیتے اور یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ انگریزی سیکھنا مسلمانوں کے لیے روزی کمانے، باالفاظِ دیگر سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا سب سے بڑا وسیلہ تھا۔ کچھ دنوں بعد عربی اور فارسی سے توجہ ہٹ گئی۔ اب انگریزی سے بھی کچھ ایسا لگائو نہ رہا۔ نتیجہ یہ ہے آجکل کے طلبہ کلاسکس سے تقریباً بیگانہ ہو گئے ہیں۔ موجودہ طلبہ قدیم طلبہ سے معلوماتِ عامہ، حالاتِ حاضرہ اور واقعاتِ عالم سے یقینا زیادہ واقف ہوتے ہیں اور اپنے پیش روئوں سے کہیں زیادہ جلد اور ہر طرح کے کاموں میں ہمت آزمائی یا قسمت آزمائی کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ مسابقت کا مطالبہ اب اتنا تیز و تند ہے کہ ٹھہرنے اور سوچنے کی فرصت نہیں ملتی لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ پر مسلّم ہے کہ کلاسکس کی گراں مائیگی سے ذوق و ظرف کو جو وزن و وقار اور زندگی کی جو تب و تاب یا خوبی و خوبصورتی ملتی تھی اس سے ہمارے نوجوان محروم ہو گئے۔ اس بحث کو خلط مبحث تک پہنچا دینے کے لیے یہ بھی کہوں گا کہ مذہب و اخلا ق کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ میں مذہب و اخلاق کو افکار و اعمال میں وہی درجہ دیتا ہوں جو کلاسکس کو شعر و ادب میں!
{}{}{}
Leave a Reply