
آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس نے نگورنو کاراباخ کے آس پاس کے ان بیشتر علاقوں کو حاصل کر لیا ہے جو ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۴ء کے درمیان ہونے والی جنگ کے دوران اس کے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ اس جنگ میں تقریباً ۳۰ ہزار افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوگئے تھے۔ حالیہ جنگ کے دوران تین بار معاہدہ جنگ بندی کا اعلان ہوا لیکن جنگ روکنے میں کامیابی نہیں مل سکی تھی، تاہم اب فریقین میں ایک معاہدہ کے تحت کاراباخ کا علاقہ دوبارہ آذربائیجان کو واپس حاصل ہوجائے گا۔
آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف، آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پاشنیان اور روسی صدر پوٹن نے نگورنو کاراباخ جنگ بندی معاہدہ ۲۰۲۰ء کا اعلان کیا، جس کا متن آذربائیجان کے حق میں ہے۔ معاہدے کے مطابق لڑائی کے دوران قبضے میں لیے گئے علاقے آذربائیجان کے پاس رہیں گے، اس میں شوشا نامی مرکزی قصبہ بھی شامل ہے، جو بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے عسکری نقطہ نظر سے بھی بہت اہم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نگورنو کاراباخ کے بعض علاقوں سے انخلا کے ٹائم ٹیبل پر بھی اتفاق کرلیا گیا ہے۔ نگورنو کاراباخ میں ۲۷ ستمبر ۲۰۲۰ء سے تقریباً چھ ہفتے (ڈیڑھ ماہ) تک خونریز لڑائی کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ armistice ایک ایسے وقت کیا گیا ہے، جب آذربائیجان کی فوج مسلسل کامیابیوں کے ساتھ آرمینیائی فوجوں کو پسپا کرتی ہوئی انھیں آرمینیا کی جانب تیزی سے دھکیل رہی تھی۔ اس جنگ میں ایک اندازے کے مطابق۳۰۰۰ سے زیادہ عام لوگ اور فوجی ہلاک ہوئے، جس میں آرمینیا کا آذربائیجان کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ نگورنو کاراباخ علاقے کے آرمینیائی رہنما اریاک ہروتیونیان نے بھی کہا کہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے، جنگ بندی کے معاہدے سے اتفاق کر لیا جانا چاہیے۔
آرمینیا کے ۲۰۱۹ء سے چلے آرہے ۴۵ سالہ وزیراعظم نیکول پاشنیان نے اس معاہدے کو اپنے اور اپنے لوگوں کے لیے ناقابل حد تک تکلیف دہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا ’’میدانِ جنگ کی صورتحال، زمینی حقائق اور اس سے متعلق بہترین ماہرین کے عمیق تجزیے اور صلاح و مشورے کی بنیاد پر جنگ بندی کے معاہدے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگر اس وقت جنگ بندی کے معاہدہ کو قبول نہ کیا جاتا تو مزید پسپائی اور علاقوں کے ہاتھوں سے نکل جانے کا قوی امکان تھا۔یہ ایک فتح تو نہیں لیکن جب تک آپ اپنے کو شکست خوردہ تسلیم نہ کریں تب تک یہ ہار بھی نہیں ہے۔ ہم کبھی بھی اپنے آپ کو شکست خوردہ نہیں سمجھیں گے اور یہی ہمارے قومی اتحاد اور ایک نئے عہد کا آغاز ثابت ہوگا‘‘۔
یاد رہے! دریائے ڈینیوب اور بحیرہ اسودکے شمال میں پھیلا ہوا علاقہ ’مشرقی یورپ‘ کہلاتا ہے۔جب کہ ’جنوبی قفقاز‘ مشرقی یورپ اور جنوب مغربی ایشیا کی سرحد پر واقع ایک جغرافیائی و سیاسی خطہ ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا ۱۹۲۲ء سے ۱۹۹۱ء تک قائم رہنے والے کمیونسٹ ملک سوویت یونین (موجودہ روس) کا حصہ تھے۔ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ۱۹۹۰ء کے عشرے سے نگورنوکاراباخ کا علاقہ متنازع چلا آرہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس علاقے کو حاصل کرنے کے لیے ۸۰ اور۹۰ کی دہائی میں بھی شدید جنگیں ہو چکی تھیں۔۱۹۸۸ء میں اس علاقہ میں آرمینیائی فوج نے حملہ کرکے مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا تھا۔واضح رہے کہ آذر بائیجان میں قریبا ۹۶ فیصد آبادی مسلمان ہے، نگورنو کاراباخ کا علاقہ عالمی سطح پر آذر بائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے،لیکن اس کا انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں یعنی عملاً آرمینیا کے پاس رہا۔ کوہ قفقاز (کاکیشیا) میں آرمینیا کی سرحد سے۵۰ کلومیٹر دور یہ علاقہ ۴۴ سو مربع کلومیٹر پرمحیط ہے۔۹۲۔۱۹۹۱ء میں آرمینیا ئی فوج کی مدد سے روسی افواج کی۳۶۶ بریگیڈبھی کاراباخ کے علاوہ آذربائیجان میں اندر تک گھس آئے تھے۔
اس معاہدہ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان فرنٹ لائن پر روسی امن فوجی دستے تعینات کیے جائیں گے۔ روس اس علاقے میں ۱۹۶۰ فوجی اور۹۰ بکتر بند گاڑیاں بطور امن فوج تعینات کرے گا۔ آذربائیجانی صدر علی یوف کے مطابق ان کا اتحادی ترکی بھی قیام امن کی کوششوں میں کردار ادا کرے گا، تاہم مذکورہ معاہدہ میں ترکی کے کسی کردار کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ ترک وزیر دفاع جنرل ریٹائرڈ ہولوسی آکار اور روسی ہم منصب سرگئی شوگو نے کاراباخ کی نگرانی کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ اور روسی وزیر خارجہ سر گئی لیوروف کے مطابق اس یاد داشت پر روس اور ترکی نے اتفاق کیا ہے۔
روسی وزارت خارجہ کے ترجمان دمتری پسکو کا کہنا ہے کہ روس، آرمینیا، آذربائیجان کے مشترکہ بیانیے میں ترک امن دستوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔ پسکو نے یہ بھی کہا کہ صدر پوتن اپنے ترک ہم منصب صدر ایردوان کے تعمیری نقطہ نظر کی بہت تعریف کرتے ہیں۔
آرمینیا، روس اور آذربائیجان کے سربراہان حکومت کے مابین طے پانے والے اس سہ فریقی معاہدہ کا نفاذ منگل ۱۰ نومبر۲۰۲۰ء سے ہوگیا ہے۔ معاہدے سے چند روز قبل روس نے انکشاف کیا تھا کہ آرمینیا کی سرزمین پر آذربائیجان کی سرحد کے پاس اس کا ایک فوجی ہیلی کاپٹر روسی فوجیوںسمیت مار گرایا گیا تھا۔ آذربائیجان کی فوج نے روس سے اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت کی تھی۔سوویت یونین کے دور کے خاتمے کے بعد سے ہی روس کے آذربائیجان اور آرمینیا کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ کاراباخ کے معاملے میں روس آرمینیا کا اتحادی ہے جبکہ ترکی آذربائیجان کا حامی ہے۔روسی امن فوج ۵ برس کے لیے اس علاقے میں تعینات رہیں گے اور جنگ بندی کی نگرانی کریں گی۔ روس کے امن فوجیوں کی علاقے میں آمد شروع ہوچکی ہے۔ انہوں نے ’’درہ لاشین‘‘ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ پہاڑی گزرگاہ آرمینیا اور نگورنو کاراباخ کے درمیان واقع ہے۔
یاد رہے! مذکوہ سہ فریقی معاہدہ درحقیقت ایک ’’آرمسٹائس‘‘ ہے جو باضابطہ معاہدہ کی ایک خاص صورت ہے۔بین الاقوامی قوانین کی رو سے ’’آرمسٹائس‘‘ ایک عارضی معاہدہ ہوتا ہے، اس کے بعد مستقل امن کے لیے معاہدے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔یہ آرمسٹائس دو متحارب گروہوں کے مابین لڑائی روکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ضروری نہیں ہوتا کہ جنگ کا بالکل خاتمہ ہوجائے بلکہ یہ ایک modusvivendi ہے یعنی یہ امن معاہدے اور جنگ بندی کی محض ایک ابتدائی صورت ہے۔ جب کہ اس کے برعکس امن معاہدہ میں مہینوں اور سال بھی لگ سکتے ہیں۔ یہ دو لڑنے والے فریقوں کے مابین ’فوری و وقتی‘ جنگ بندی ہے تاکہ بات چیت شروع کی جاسکے۔ اس کی ایک مثال ۱۹۵۳ء کا ’’کوریائی آرمسٹائس‘‘ یا معاہدہ ہے۔اسی طرح ۳۰ اکتوبر ۱۹۱۸ء میں (جنگ عظیم اول کے دور میں)سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ مغربی اتحادیوں کی جنگ ختم کرنے والا معاہدہ، Armistice of Mudros تھا، جو سابقہ عثمانیوں (ترکوں) کے لیے انتہائی سخت و ظالمانہ تھا۔یہ آرمسٹائس یونان کی بندرگاہ مدروس پر ایک بحری جہاز میں ہوا۔ معاہدہ مدروس میں سلطنت عثمانیہ کی طرف سے بحری امور کے وزیر رؤف بے کی زیر قیادت سہ رکنی وفد اور اتحادیوں کی طرف سے برطانوی ایڈمرل سمرسیٹ آرتھر گف کالتھورپ کے درمیان شرائط طے پائیں۔تاہم یہ معاہدہ دیرپا ثابت نہ ہوسکا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو آذربائیجان اور ترکی کو اس معاملہ پر اپنی مستقل و پائیدار گرفت برقرار رکھنے کے لیے اپنی کوششوں کو مستقل جاری رکھنے اور کسی بھی وقت کسی خوش فہمی کا شکار ہونے سے بچنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے! آرمینیا ئی وزیر اعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ شوشا اور کاراباغ کو آذری قبضہ میں ہی رہنے دے گا بلکہ ہم آذربائیجان کی طرح تیاری کرکے اسے دوبار حاصل کرلیں گے۔
آذربائیجان کی فوج نے جنوبی قفقاز میں آرمینیائی قبضے سے ۱۳ دیہاتوں کو آزاد کروا یا تھا۔ الہام علی نیوف نے ٹویٹر پر کہا: آذربائیجان کی شاندار فوج نے Khojavend، کے Dolanar اور Bunyadli گاؤں، Jabrayil کے Dag Tumas، Nusus، Xelefli، Minbashili اور Veyselli کے گاؤں اور Zengilan کے Venedli اور Mirzehasanli گاؤں کو آزاد کرایا۔ بعدازاں علیوف نے ٹویٹ کیا کہ فوج نے Gubadli کے Zilanli، Kurd Mahrizli، Muganli اور Alagurshag گاؤں بھی آزاد کروا لیے ہیں۔ Agdam آذربائیجان کا شہر ہے۔۱۹۹۳ء میں نگورنو کاراباخ کی جنگ میں آرمینائی افراد کے ہاتھوں آذری لوگوں کے قتل اور دباؤ کے باعث آذری یہ شہر خالی کر گئے باوجود اس کے کہ یہ شہر جنگ میں شامل نہ تھا۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس شہر اور اس کے ثقافتی ورثے کو آرمینائی لوگوں نے منصوبہ بند انداز میں تباہ و برباد کیا۔ یہ شہر بالکل خالی کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے اسے ’بھوت شہر ’بھی کہا جانے لگا۔اس کی مرکزی مسجد کو جانوروں کا باڑہ بنادیا گیا۔ تاہم حالیہ ۲۰۲۰ء کی نگورنو کاراباخ ڈیڑھ ماہ جاری رہنے والی جنگ کے بعد آذربائیجان کی آرمینیا کے خلاف کامیابی کے بعد اس علاقے میں ایک بار پھر ’اللہ اکبر‘ کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔ تین دہائیاں قبل چھن جانے والاشہر Shusha واپس لے لیا گیا۔ نگورنوکاراباخ کے اس شہر کی فضا۱۹۹۲ء کے بعد پہلی مرتبہ اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھی۔ ۲۸ سال قبل آرمینیا کی عملداری کے دوران شوشا میں اذان بند کردی گئی تھی۔ حالیہ سہ فریقی معاہدہ کے مطابق یہ قصبہ اور اس کے ملحقہ اضلاع باقاعدہ طور پر۲۰ نومبر ۲۰۲۰ء کو دوبارہ آذربائیجان کے سپرد کر دیئے جائیں گے۔
ترک صدر طیب ایردوان نے کہا ہے کہ انقرہ اور ماسکو ایک ساتھ مل کراس مشترکہ مرکز سے اس جنگ بندی کی نگرانی کریں گے، جسے آذربائیجان نے آرمینیا کے قبضے سے چھڑانے والے علاقوں میں نامزد کیا ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے ترجمان اسٹیفین دوجارک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’سیکرٹری جنرل کو اس بات پر اطمینان ہے کہ دشمنی کے خاتمے کے لیے ایک معاہدہ (armistice) طے پا گیا ہے۔ اس سلسلے میں روس کی کوشش کے لیے ہم بے حد شکرگزار ہیں۔ حقیقی معنوں میں تو اطمینان اس بات پر ہے کہ اس سے عام شہریوں کے مسائل اور مصائب کے ختم ہونے کے توقعات وابستہ ہوگئے ہیں‘‘۔
فرانس جو کہ ترکی کا موجودہ حریف اور آرمینیا کا حلیف ملک ہے اس کی جانب سے کہا گیاکہ دشمنیوں کا خاتمہ انتہائی اہم تھا۔ انہوں نے آذربائیجان سے معاہدے کی شرائط پر عمل کرنے کی اپیل کی اور آرمینیا کے ساتھ اپنی دوستی کی تصدیق کی۔
ایران جو کہ آذربائیجان کا پڑوسی اور آرمینیا کا حلیف ملک ہے، اس نے معاہدے کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے ایک حتمی تصفیہ ہوجائے گا، جس سے خطے میں پائیدار امن قائم ہوگا۔
روس جو کہ ان دونوں ملکوں پر ستر سال سے زائد قابض رہا، اس کا کہنا تھا کہ ’’ہم امید کرتے ہیں کہ ہونے والے ان معاہدوں سے ہم نگورنو کاراباخ بحران کے کسی مستقل و منصفانہ حل کی جانب پیش رفت کر سکیں گے، جو کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے لوگوں کے مفاد میں بھی ہو۔‘‘جنگ بندی کے اس تازہ معاہدے پر آرمینیا میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ دارالحکومت یریوان میں احتجاجی مظاہرین نے وزیر اعظم کا استعفیٰ مانگتے ہوئے اسے غدار قرار دیا۔ مشتعل افراد نے پارلیمان میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور پارلیمان کے صدارت مرزویان پر تشدد کر کے ادھ موا کر دیا۔ آرمینائی وزیرِ اعظم نے مستعفی ہونے کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔جب کہ دوسری طرف آرمینیائی قبضے سے نگورنو کاراباخ کا علاقہ حاصل کرنے پر آذری عوام سڑکوں پر نکل آئے اور جشن منایا، نوجوانوں نے ترکی اورپاکستان کے پرچم لہراکر رقص کیا۔آذری صدر کا خطاب سننے کے بعد لوگوں کا ہجوم سڑکوں پر امڈ آیا اور خوشی میں نعرے بازی کی۔ اس موقع پر عوام نے سڑکوں پر روایتی رقص کیے اور لوک گیت گائے۔ آذری عوام نے کاراباخ ہمارا تھا اور ہمارا ہے، کے نعرے لگائے اور مرحوم صدر حیدر علی ایف کے مزار تک مارچ کیا۔آذربائیجان کے لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے سفارتی محاذ پر ان کی مدد کی ہے، اس لیے وہ پاکستان کو تکریم دے رہے ہیں۔آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان نگورنو کارا باخ پر تنازع کی وجہ سے پاکستان نے ابھی تک آرمینیا کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر علی علی زادہ کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کا پرچم پاکستان اور ترکی کے پرچموں کے بنا ادھورا ہے۔ آذربائیجان کے قومی پرچم کی۱۰۲ ویں سالگرہ کے موقع پر ٹویٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے لکھا ’’ترکی اور پاکستان نے جنگ میں ہماری بھر پور حمایت کی‘‘۔پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاہدحفیظ نے آرمینائی مقبوضہ علاقہ کاراباخ کے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے متعلقہ فیصلوں کے مطابق کاراباخ کے دوبارہ آذربائیجان میں شامل ہوجانے پر بلکہ آزاد کرانے پر آذربائیجان کے عوام اور حکومت کومبارکباد پیش کی۔ جنگ بندی پر اظہارِ مسرت کیا۔خیال رہے! آذر بائیجان کشمیر کے تنازع پر پاکستان کے موقف کا حامی ہے۔
Leave a Reply