امن، ہم آہنگی اور تیل

عراقی کُرد لاکھ دعوے کرتے پھریں کہ وہ الگ نہیں ہونا چاہتے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مکمل آزادی کی راہ پر گامزن ہیں۔

انجیل کے علما کہتے ہیں کہ انجیل کے مختلف نسخوں میں جنت کا جو باغ مذکور ہے، وہ جنوبی عراق میں اُس مقام پر تھا، جہاں دریائے دجلہ اور فرات ملتے ہیں۔ مگر جب عراقی رُوئے ارض پر کسی جنت کو تلاش کرتے ہیں تو شمالی عراق میں کرد علاقے کی طرف دیکھتے ہیں۔ بات کچھ ایسی ناقابلِ فہم بھی نہیں۔ گزشتہ ماہ موسم بہار کی آمد کے جشن یعنی نوروز کے موقع پر ہزاروں عراقیوں نے شمالی عراق کا رخ کیا، جہاں باغات پھولوں سے بھرے پڑے ہیں اور پہاڑوں پر برف کے پگھلنے سے پانی بہتا چلا آرہا ہے۔

شمالی عراق کے پچاس لاکھ باشندوں کے لیے صرف فطرت کا حسن ہی سب کچھ یا واحد اثاثہ نہیں۔ وہاں امن ہے، سکون ہے، استحکام ہے۔ دوسری طرف باقی ماندہ عراق کے ڈھائی کروڑ باشندے قدرے غیر مستحکم ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ۲۰۱۱ء سے اب تک شام کی خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے ایک لاکھ تیس ہزار پناہ گزینوں کو قبول کیا گیا ہے، جن میں نصف کرد نسل کے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ رواں سال ان پناہ گزینوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ مشرق سے ایرانی کرد آتے ہیں جو سوئٹزرلینڈ کے رقبے کے مساوی علاقے میں تیزی سے پنپتی ہوئی تعمیراتی صنعت میں اپنا کردار ادا کرنے اور بہتر زندگی کے امکانات کا اہتمام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ شمال سے ترک بزنس مین طیاروں میں سوار ہوکر آرہے ہیں کیونکہ وہ تیل کی دولت سے مالا مال اس خطے سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتے ہیں۔ یہاں تیل اتنی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے کہ اس کی بُو فضا میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ جرمنی کے بعد اب ترکی کے لیے عراق دوسری سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ اس تجارت میں سے ۷۰ فیصد کا تعلق کرد علاقے سے ہے۔ ترک علاقے سے روزانہ چار ہزار ٹرک سرحد عبور کرکے شمالی عراق جاتے ہیں۔

مگر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ تیزی سے پنپتے ہوئے کرد شہر دوہوک (Dohuk) کے باہر پچاس ہزار شامی پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کے باہر ایک کرد باشندہ کہتا ہے کہ بیس سال قبل ہم بھی ایسی ہی حالت میں تھے کیونکہ انفال کا سانحہ ہوچکا تھا اور صدام حسین نے کردوں کو کچلنے کے لیے بے محابا طاقت استعمال کی تھی۔ عراقی فورسز نے کردوں کی بغاوت کچلنے کے عمل میں ایک لاکھ افراد کو قتل کیا، چار ہزار سے زائد دیہات تباہ ہوئے اور دس لاکھ سے زائد افراد کو پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

۱۹۹۱ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کیے جانے والے محفوظ علاقے میں کرد دوبارہ جمع ہونے لگے۔ ان کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خطے کے تمام ممالک پریشان ہو اٹھے۔ شمالی عراق میں کردوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور معاشی قوت نے ترکی، شام اور ایران کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کردوں میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی کہیں ان کے ہاں کرد اقلیت کو بھی خود مختاری کی طرف گامزن نہ کردے۔ اندرونی سیاست کی خرابیاں بھی موجود تھیں۔ عراقی کردستان کے مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان ۱۹۹۴ء میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جو ۱۹۹۷ء تک جاری رہی۔

اختلافات اور کشیدگی تب سے اب تک جاری ہے۔ کردستان ریجنل گورنمنٹ چلانے کی اہلیت رکھنے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان رَسّا کشی جاری رہی ہے۔ کردوں کی بڑی تعداد چاہتی ہے کہ جو آزادی انہیں میسر ہے، اب اسے باضابطہ شکل دے دی جائے تاکہ ایک آزاد کرد ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ باضابطہ طور پر کرد تسلیم کیے جانے والے تین عراقی صوبوں سے باہر کی کچھ زمین اور بالخصوص متنوع آبادی والا شہر کرکوک بھی ان کے کنٹرول میں آ جائے جو بہر حال نسلی اور عددی برتری کے اعتبار سے کرد ہے۔

کردوں نے صبر سے کام لیا ہے اور اس کا صلہ بھی انہیں مل رہا ہے۔ امریکا نے خود کو کردستان سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اب عراقی بجٹ کا ۱۷؍ فیصد کردوں کو مل رہا ہے۔ تیل کی بڑھتی ہوئی برآمدات کی مہربانی سے یہ حصہ خاصا معقول ہے، گوکہ عراق کے ۳۰ فیصد آزاد اخراجات منہا کرنے کے بعد وسائل تقسیم کیے جاتے ہیں۔

۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی لشکر کشی کے بعد سے کردستان کے حالات میں بہتری آئی ہے۔ انہوں نے تعمیر نو کا مرحلہ بہت حد تک مکمل کرلیا ہے۔ اس مدت میں فی کس آمدنی دس گنا ہوچکی ہے۔ کردستان کی آزادی کے لیے سرگرم ملیشیا پیش مرگ کو اب باضابطہ، تربیت یافتہ اور منظم فوج میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ بغداد اور دیگر عراقی شہروں میں توانائی کا شدید بحران ہے مگر کردستان میں ایسا نہیں۔ کردستان کی علاقائی حکومت بجلی کی فاضل پیداوار دوسرے شہروں کو فراہم کرکے معقول آمدنی یقینی بناچکی ہے۔ کرد آپس میں خواہ کتنا لڑتے ہوں، وفاقی حکومت سے معاملات طے کرنے میں انہوں نے بھرپور اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں نافذ کیے جانے والے آئین میں انہوں نے اچھا خاصا حصہ پایا ہے اور اب بغداد میں ان کا ایک باضابطہ اعلیٰ منصب ہے۔

٭ تیل والے خطے کی سرحدیں

کرد حکام کھل کر آزادی یعنی آزاد ریاست کے قیام کی بات نہیں کرتے مگر بہت سے عوامل اشارہ کرتے ہیں کہ اُن کے دلوں میں آزاد ہونے کی خواہش پروان چڑھ چکی ہے۔ باقی ماندہ عراق کی مایوس کن حالت بھی ایک بڑا عامل ہے۔ کرد چاہتے ہیں کہ انہوں نے عشروں کی ریاضت سے جو خوشحالی پائی ہے، وہ نہ صرف یہ کہ برقرار رہے بلکہ پروان بھی چڑھے۔ اگر کردستان کو عراق سے الگ نہ کیا گیا تو باقی ماندہ ملک کی خرابیاں بھی کردستان کو لے ڈوبیں گی۔ القاعدہ کی جانب سے شدید بمباری نے عراق کے طول و عرض میں خرابیاں پیدا کی ہیں۔ شام میں شیعہ حکومت کا خاتمہ قریب ہے۔ ایسے میں عراقی شیعہ اس خیال کے حامل ہیں کہ کرد کو الگ ہو جانے دیا جائے تاکہ بچے کھچے عراق کو کنٹرول کرنا اور چلانا آسان ہو۔

عراق کے تیزی سے آمریت کی طرف رواں وزیر اعظم نوری المالکی کا رویہ کردوں کے معاملے میں خاصا معاندانہ ہو چلا ہے۔ انہوں نے دسمبر میں فوج کرکوک بھیجی جس کے جواب میں کردوں نے بھی اپنی ملیشیا پیش مرگ کو متحرک کیا۔ مارچ میں ۱۱۸؍ ارب ڈالر کے بجٹ میں نوری المالکی نے کردوں کی جانب سے غیر ملکی آئل کمپنیز کو قرضے کی مد میں ادائیگی کے لیے صرف ۶۵ کروڑ ڈالر منظور کیے جبکہ کردوں کا مطالبہ ساڑھے تین ارب ڈالر کا تھا۔ اس کے جواب میں کردوں نے اپنے پارلیمانی ارکان اور وزرا واپس بلالیے۔ اب بغداد میں کردوں کی کوئی نمائندگی نہیں۔ عراق کے کرد صدر جلال طلابانی نے اپنی نرم طبیعت سے بہت سے الجھے ہوئے معاملات کو سلجھایا ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ وہ بھی دسمبر ۲۰۱۲ء سے جرمنی میں زیر علاج ہیں۔

سیاست دانوں کی موجودہ خواہشات خواہ کچھ ہوں، تیل کے نئے ذخائر کی دریافت سے عراق کا جغرافیہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ کردوں کا کہنا ہے کہ آئین خود مختار علاقوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ تیل کے نئے ذخائر دریافت کیے جائیں۔ انہوں نے غیر ملکی کمپنیوں کو پیداوار میں شریک بنانے کی شرط پر نئے ذخائر دریافت کرنے اور انہیں بروئے کار لانے کی دعوت دی ہے۔ بغداد میں وفاقی حکومت کہتی ہے کہ ایسا کرنا غیر قانونی ہے کیونکہ تیل کی دولت ریاست کی ملکیت ہے اور اس پر پورے ملک کا حق ہے۔ اس کا یہ بھی استدلال ہے کہ تیل کی آمدنی وفاقی حکومت کے پاس جانی چاہیے تاکہ وہ تمام صوبوں یا خطوں میں موزوں طریقے سے تقسیم کرے۔ وفاقی حکومت اس بات سے بھی چراغ پا ہے کہ کردستان کی علاقائی حکومت کی جانب سے تیل کے شعبے میں کیے جانے والے ۵۰ سودے متنازع علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

جب تک عراق کی جانب سے برآمد کیے جانے والے تیل کا بڑا حصہ جنوب سے آتا تھا اور پائپ لائن پر وفاقی حکومت کا کنٹرول تھا، عراق میں معاملات پیچیدہ نہ تھے۔ بغداد کی بالا دستی قائم تھی۔ کردستان میں تیل کے نئے ذخائر کی دریافت نے معاملے کو اُلٹ پَلٹ کر رکھ دیا ہے۔ کردستان میں تیل کے تسلیم شدہ ذخائر ۴۵؍ ارب بیرل ہیں جو امریکا کے مجموعی ذخائر کے مساوی اور عراق کے مجموعی ذخائر کا ایک تہائی یا کچھ کم ہیں۔ کردستان میں تیل کی پیداواری صلاحیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کردستان میں آئل کی سب سے بڑی آپریٹر برٹش ٹرکش فرم جینل کے ایک ایگزیکٹیو کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۵ء تک خطے کی پیداوار ۱۰؍ لاکھ بیرل یومیہ ہوجائے گی اور ۲۰۲۰ء تک یہی پیداوار ۲۰ لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ سکتی ہے۔

کردستان کی علاقائی حکومت اور بغداد کے درمیان مناقشے کے نتیجے میں ترکی جانے والی مرکزی پائپ لائن آئے دن بند کردی جاتی ہے مگر کردوں کو اس کی کچھ خاص پروا نہیں کیونکہ تیل کی پیداوار کا بڑا حصہ ٹینکروں کے ذریعے ترکی بھیجا جاتا ہے۔ چند برس تک ترکی اور عراقی کردوں کے درمیان ایسے اشتراکِ عمل کا تصور تک محال تھا۔ کردوں نے ترکی تک متبادل پائپ لائن بچھائی ہے جو ستمبر تک مکمل ہو جائے گی۔ ترکی اب تک تیل کے معاملے میں ایران اور روس پر انحصار کرتا آیا ہے۔ اب وہ کردوں سے روابط بڑھا رہا ہے تاکہ کوئی بھی ملک تیل کی برآمدات کے معاملے میں اُس کی مجبوری کا فائدہ نہ اٹھاسکے۔ ترکی میں توانائی کے بیشتر ادارے حکمراں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے) سے قربت رکھتے ہیں اور اس حقیقت نے ترک کردوں کو رام کرنے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ انقرہ میں حکام کا کہنا ہے کہ ترکی اور عراقی کردوں کے درمیان تیل اور گیس کی تلاش، پیداوار اور برآمد کے حوالے سے ایک وسیع البنیاد معاہدہ تکمیل کے قریب ہے۔

اِس پیش رفت کو بغداد میں شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی سوچ یہ ہے کہ ترکی سُنی اکثریت والی ریاست ہونے کے ناطے اب عراق میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اُنہیں یہ فکر بھی لاحق ہے کہ اگر کردوں نے تیل کی دولت میں اپنا پورا حصہ پالیا تو عراق کے دیگر خطے بھی ایسا ہی کرنے کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ عراق کے دونوں بڑے اتحادی ایران اور امریکا بھی اِنہی خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ امریکا نے اب تک کردوں کی مکمل آزادی کی خواہش کو دبائے رکھنے کی کوشش کی ہے اور بغداد حکومت پر دباؤ ڈالا ہے کہ کردوں کو کسی نہ کسی طرح اکاموڈیٹ کیا جائے۔ مگر اب اس کا امکان معدوم ہوتا جارہا ہے۔

(“Northern Iraq: Peace, Harmony and Oil”… “The Economist”. April 20th, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*