امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ یقین دلاتے رہے کہ وہ امریکا کے جنگی اخراجات کو کم کرکے اسی سرمائے کو امریکی شہریوں کی فلاح و بہبود اور انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی پر خرچ کریں گے۔امریکا کے اندر وہ اپنے انتخابی دعوؤں اور وعدوں کو کتنا عملی جامہ پہناتے ہیں، اس بارے تو کچھ کہنا قبل ازوقت ہی ہوگا۔ تاہم شام اور افغانستان کو ملٹر ی انڈسٹریل کمپلیکس کی خوفناک جنگی ایجادات سے نواز کر دنیا کو بڑا واضح پیغام دیا گیا ہے کہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو تختہ مشق بنائے رکھنے کا امریکی وطیرہ برقرار رہے گا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ شام کے ائیربیس کو نشانہ بنانا اور افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑا غیر جوہری بم گرانا ، ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی پالیسی ہے یا اس نے اپنے اقتدار کے دوام اور کاروباری مفادات کی خاطر جنگی پالیسی کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ہے۔ گرچہ دونوں حملوں کا نشانہ براہ راست دو اسلامی ملک بنے ہیں تاہم بالواسطہ طور پر دونوں حملوں میں نہ صرف روس کے مفادات کو چوٹ پہنچی بلکہ باالفاظ دیگر اسے متنبہ کیا گیا ہے۔
صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے فوراً بعد سی آئی اے نے روس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی ہے، اس الزام کے تحت دونوں کے مابین سفارتی تعلقات میں تناؤ اتنا بڑھاکہ امریکا نے روسی سفارتکاروں کو ملک بدر بھی کردیا ، گرچہ اس وقت روس کی جانب سے بھی سخت ردعمل متوقع تھا مگر صدر پیوٹن نے اعلان کیا کہ روس ردعمل میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہ جنہوں نے بطور صدر ابھی حلف نہیں لیا تھا، روس کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا اور امریکا روس تعلقات میں بہتری کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس سے قبل کہ نومنتخب امریکی صدر کی اس خواہش کو عالمی میڈیا میں پذیرائی ملتی متعدد ممالک کے کئی شہروں میں ٹرمپ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جسے عالمی میڈیا کی بھرپور توجہ ملی۔ ان ہنگامہ خیز خبروں میں جنگی پالیسیوں میں بدلاؤ، حریف ممالک سے تعلقات میں بہتری جیسی امیدیں گم ہوکر رہ گئیں۔ نتیجتاً دو ملکوں شام اور افغانستان میں امریکا نے انتہائی غیر متوقع اور غیر ضروری حملے کیے ہیں۔
۷؍ اپریل ۲۰۱۷ء کو علی الصبح مشرقی بحیرہ روم میں تعینات امریکی بحری بیڑے نے شام پر ٹوماہاک کروز میزائلوں سے حملہ کیا۔ حملے میں امریکی بحری بیڑے نے شام کے صوبے حمص میں واقع الشعیرات اڈے پر ۵۹ ٹوماہاک کروز میزائل داغے۔ الشعیرات اڈے کا جو کہ صوبہ حمص میں شہر حمص سے ۳۱ کلومیٹر جنوب مشرق میں تدمر روڈ پر واقع ہے، شامی افواج اور باغیوں یا دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اہم کردار رہا ہے۔ حال ہی میں روس سے لیے جانے والے سخوئی اور مِگ ۴۰ طیارے اسی بیس پر ہی رکھے گئے ہیں۔ روس اور شام نے ایس۔۴۰۰ میزائل سسٹم کے لیے بھی اسی اڈے کا انتخاب کیا تھا۔ باالفاظ دیگر شام میں امریکا نے جس اڈے کو نشانہ بنایا وہ شام اور روس کے مشترکہ زیراستعمال تھا۔
دوسرا بڑا حملہ امریکا نے پاک افغان سرحد سے متصل صوبہ ننگرہار کے قریب اچین ضلع میں کیا۔ جس میں دنیا کے سب سے بڑے غیر جوہر ی بم کو استعمال کیا گیا۔اس خوفناک بم کو ماسو آرڈننس ایئر بلاسٹ (ایم او اے بی) بم کہا جاتا ہے ، جس میں ۱۱ ٹن وزنی بارودی مواد تھا۔ اپنے نام کے مخفف کے لحاظ سے، امریکی فضائیہ میں عرف عام میں اِسے ’’مدرآف آل بمز‘‘ کہا جاتاہے۔ یہ بم امریکی فضائیہ کے سی ۱۳۰ طیارے سے پیراشوٹ کے ذریعے گرایا گیا۔ یہ ۳۰ فٹ لمبا اور ۴۰ انچ چوڑا ہے اور اس کا وزن ۹۵۰۰ کلوگرام ہے، وزن میں یہ ہیروشیما ایٹم بم سے دوگنا بڑا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق بم پھٹتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ جیسے قیامت آگئی ہو۔ اس بم کی قیامت خیزی کا اندازہ لگانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ دواضلاع میں دور تک اس بم کی آواز سنی گئی اور اس کے اثرات افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بھی مرتب ہوئے۔متعدد علاقوں کی بیشتر عمارات میں دراڑیں آگئیں۔ اچین اور قریبی اضلاع میں پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے اور زمین میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑا غیر جوہری بم ’’موآب‘‘ اس وقت چلایا گیا جب روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق کانفرنس جاری تھی۔ اس کانفرنس میں خطے کے گیارہ ممالک چین، روس، ایران، بھارت، پاکستان، ازبکستان، قازقستان، ترکمانستان، کرغیزستان، افغانستان اور تاجکستان شامل تھے۔
ماسکو کانفرنس افغانستان کے امن سے متعلق اس تین رکنی فورم کا تسلسل تھی کہ جس میں پہلے ابتدائی طور پر چین، روس اور پاکستان شامل تھے، بعد ازاں اس میں خطے کے تمام ممالک کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ایسی کانفرنس کہ جس میں خطے کے تمام ممالک شریک تھے اس کا امریکا نے بائیکاٹ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں خطے کے اندر روس کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا۔ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ امریکا نے افغان امن سے متعلق ہونے والے سنجیدہ اقدامات یا مذکرات کو سبوتاژ کیا ہو۔ ماضی قریب میں بھی امریکی رویہ اس امر کا عکاس ہے کہ امریکا بشمول نیٹو افغانستان میں پائیدار قیام امن کی کوششوں کو اپنے مفادات کے منافی سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل چین نے بھی پاکستان اور افغانستان کو ساتھ لے کر ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا۔ امن کے حوالے سے کچھ پیش رفت بھی ہوئی کہ امریکی خواہش پر امریکا کو اس میں شامل کرکے تین رکنی سے چار رکنی فورم کردیا گیا۔ امریکا نے خود شامل ہونے کے بعد اس پلیٹ فارم سے بھی کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہونے دی بلکہ اقوام متحدہ میں جاکر افغانستان اور بھارت کو ساتھ ملاکر افغانستان کے مستقبل سے متعلق ایک نئی مثلث تشکیل دے دی۔ امریکا کا یہ طرز عمل کم از کم اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ افغانستان میں سب کچھ امریکی ترجیحات میں شامل ہے ، ماسوائے امن کے۔
قرائن بتاتے ہیں کہ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر امریکا افغانستان میں امن کے دیپ روشن کرنے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے حصول اور خطے میں اپنی چودھراہٹ کا خواب لے کر آیا تھا۔ امریکا وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتا تھا۔ ابھرتی ہوئی طاقت چین کا راستہ بھی روکنا تھا۔ ایران اور روس کے قریب بھی رہنا تھا اور پاکستان کے جوہری پروگرام پر بھی نگاہ رکھنا چاہتا تھا۔ بالخصوص شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے قیام کے بعد افغانستان یا پاکستان میں امریکا اپنا عسکری وجود بھرپور قوت کے ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔ اپریل ۱۹۹۶ء میں شنگھائی فائیو کی بنیاد رکھی گئی۔ جس میں روس اور چین دونوں شامل تھے۔ جبکہ ازبکستان شامل نہیں تھا۔ جون ۲۰۰۱ء میں ازبکستان نے شمولیت اختیار کی۔جب شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے وجود میں آنے کے تھوڑے ہی عرصے میں نائن الیون کا حادثہ برپا ہوا۔ گرچہ اس واقعے میں کوئی ایک حملہ آور بھی افغان نہیں تھا مگر اس کے باوجود افغانستان پہ امریکا نے نیٹواور دوسرے اتحادی ممالک کے ساتھ چڑھائی کی۔ افغانستان جو کہ ایک طویل جنگی اور خانہ جنگی کی تاریخ اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ امریکا کے لیے اتنا ہی آسان ہدف ثابت ہوا کہ آج سولہ سالہ قبضے کے بعد بھی امریکا کو افغانستان میں دنیا کے سب سے بڑے بم چلانے کی ضرورت پیش آئی ہے۔
اپنے وقت کی تین بڑی طاقتوں نے یکے بعد دیگرے افغانستان کو تر نوالہ بنانے کی کوشش کی ہے مگر بالآخر تینوں کی کوششیں ناکامی پہ منتج ہوئیں۔ سلطنت برطانیہ، کہ جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، نے دو دفعہ افغانستان سر کرنے کی کوشش کی۔ ۱۸۳۸ء سے ۱۸۴۲ء، ۱۸۷۰ء سے ۱۸۸۰ء، اینگلو افغان جنگوں میں افغان قبائل کے بیچ پھوٹ ڈالنے کے باوجود بھی برٹش افواج کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ ۱۹۷۹ء میں کمیونسٹ روس افغانستان میں داخل ہوا۔ افغانستان میں پندرہ ہزار روسی فوجوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ افغانستان سے نکلنے والے آخری روسی فوجی کے الفاظ تھے کہ نو سالہ جنگ کے بعد آج ایک بھی روسی فوجی افغانستان میں موجود نہیں ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں امریکا نے نیٹو ممالک کے ساتھ حملہ کیا۔ ۱۶ سالہ جنگ کے بعد اسی افغانستان میں امریکا کو دنیا کا سب سے بڑا غیر جوہری بم گرانا پڑا۔ ۲۰۱۳ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کے جریدے میں عراق اور افغان جنگ پر امریکی اخراجات کا تخمینہ چار سے چھ ٹریلین یو ایس ڈالر لگایا گیا۔
گزشتہ تیس سال سے افغانستان منظم اداروں سے محروم ملک چلا آرہا ہے، جس کے باعث اپنے وسائل اور آبادی کے اعداد و شمارکے حوالے سے بھی دوسروں کا دست نگر ہے۔ اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق پختون افغانستان کی کل آبادی کا تقریباً ۴۲فیصد، تاجک ۲۷فیصد، ہزارہ ۱۱فیصد، ازبک ۹فیصد ہیں جبکہ ایمق، ترکمن، بلوچ، نورستانی اور قزلباشوں کی بھی قابل ذکر تعداد افغان آبادی کا حصہ ہے۔ مشرقی اور جنوبی افغانستان کو خالصتاً پشتونوں کا علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔کابل کے جنوب مغرب میں واقع علاقے بھی روایتی طور پر پختونوں ہی کا خطہ تصور کیے جاتے ہیں۔تاجک زیادہ تر کابل شہر، بدخشان اور کاپیسا کے صوبوں میں مقیم ہیں ، لیکن دوسری طرف انتہائی جنوبی صوبے یعنی ہرات میں بھی تاجکوں کی کافی بڑی تعداد نے سکونت اختیار کررکھی ہے۔ ہزارہ نسل کے لوگ وسطی افغانستان میں مقیم ہیں۔ ان کے اس علاقے کو ہزارہ جات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور بامیان صوبے کو اس کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ ایمق افغانستان کے وسطی پہاڑی سلسلے کے مغربی علاقوں میں بس گئے ہیں۔ کوہ ہندوکش کے شمال کا علاقہ ازبک قوم کا علاقہ تصور کیا جاتا ہے اور مزار شریف کو ان کے مرکز اور اہم شہر کا درجہ حاصل ہے۔
ایک طرف طویل جنگی تاریخ اور جنگ کو بطور پیشہ اپنائے رکھنے والے وہ افغان ہیں، جو نسلی، مسلکی اور لسانی اعتبار سے منقسم ہیں اور پاور شیئرنگ پہ بھی یقین نہیں رکھتے۔ دوسری طرف افغانستان پر امریکا اور نیٹو کی صورت میں وہ قوت مسلط ہے کہ جو اپنا مفاد آج بھی جنگ اور بدامنی میں کھوجتی ہے۔ جس کے باعث مستقبل قریب میں افغانستان کے حالات میں بہتری کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔حتیٰ کہ امریکا و نیٹوفورسز کا افغانستان سے فوری اور مکمل انخلابھی افغانستان میں پائیدار قیام امن کی ضمانت نہیں، جس کی بنیادی وجہ افغان سرزمین پر متحارب قبائل و گروہوں کا پاور شیئرنگ پر یقین نہ ہونا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف مختلف جہادی گروہ برسرپیکار تھے جو کہ امریکی مفاد کی جنگ لڑ رہے تھے، جسے سعودی عرب اور پاکستان کی جانب سے ’’جہاد‘‘ ڈکلیئر کیا گیا۔ ’’مجاہدین‘‘ اپنی دانست میں ’’جہاد‘‘ اور حقیقت میں مختلف ممالک کے مفادات کی لڑائی میں مصروف رہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سوویت یونین کے افغانستان میں آنے سے انخلا تک امریکی مفاد کی جنگ لڑی گئی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے نائن الیون تک خطے کے بالخصوص پڑوسی ممالک کے مفادات کی جنگ افغان و بیرونی گروہوں نے لڑی۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء سے تاحال دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر قبضے اور عزائم کے حصول کی جنگ جاری ہے۔ان تمام جنگوں کے باوجود یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ کوئی ایک بھی مسلح گروہ دوسرے کی بالادستی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ یہ مسلح گروہ دوسرے ممالک کی مفاد کی جنگ بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں، جس کو بنیاد بناکر مستقبل کے نئے نقشے ترتیب دینے کی چہ میگوئیاں ہیں۔
سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا، جبکہ امریکا کے افغانستان پہ حملے و قبضے میں پاکستان امریکا کا فرنٹ لائن اور نان نیٹو اتحادی تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا افغانستان کی تعمیر و ترقی بالخصوص شعبہ جاتی و ادارہ جاتی تعاون میں پاکستان کو مقدم رکھتا ، اس کے برعکس امریکا نے افغانستان میں نہ صرف بھارت کے قدم مضبوط کیے، بلکہ پاکستان کی تمام تر قربانیوں اور تعاون کو فراموش کرتے ہوئے دہشت گردوں سے تعاون کا الزام عائد کیا۔ یہی نہیں بلکہ امریکا نے افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو وار زون ڈکلیئر کرتے ہوئے پاکستانی علاقے میں کارروائیاں بھی کیں۔ افغانستان سے ماضی کے ’’مجاہدین‘‘ اور حال کے ’’دہشت گردوں‘‘ کو فاٹا میں دھکیلا گیااور پھر پاکستان سے مطالبہ کیا کہ فاٹا میں آپریشن کرے۔ پاکستان سے اس میں کچھ توقف ہوا تو تحریک طالبان پاکستان بن گئی۔ جس کا مرکز پہلے فاٹا اور فاٹا میں فوجی آپریشن کے بعد افغانستان شفٹ ہوا۔ جہاں سے براہ راست یہ بھارتی سرپرستی میں چلی گئی۔بھارت نے بھی اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ وہ مشرقی سرحد پر جنگ کے ذریعے کبھی بھی پاک فوج کو زیر نہیں کرسکتا، اس نے مغربی سرحد پہ بھی پاک فوج کو انگیج کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کے دفاع و سلامتی پر دہشت گردانہ حملوں کی افغانستان کی زمین سے براہ راست سرپرستی بھی کی۔ دوسری جانب امریکا افغان طالبان کی قوت توڑنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکا۔ سولہ سالہ جنگ کے بعد بھی افغان طالبان ایک حقیقت ہیں اور کئی علاقوں میں اپنا مسلمہ وجود رکھتے ہیں۔گرچہ پاکستان افغان طالبان کے خلاف جنگ میں امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی تھا، اس کے باوجود آج بھی امریکا و افغان حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ طالبان قیادت کو مذاکرات کی میز تک لائے۔ حالانکہ اس تاثر کو اب ختم ہونا چاہیے کہ افغان طالبان پاکستان کے زیر اثر ہیں اور پاکستان کی بات مانتے ہیں، یہاں تک کہ جب ملا عمر برسراقتدار تھے تو اس وقت انہوں نے جنرل مشرف کی بات نہیں مانی تھی اور جنرل محمود کو خالی لوٹا دیا تھا۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ داعش کا جنم اس وقت عراق میں ہوا جب امریکا عراق میں موجود تھا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ اور صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ داعش کے بنانے میں امریکی کردار کارفرما تھا۔داعش نے انتہائی مختصر عرصے میں یورپ سمیت کئی ممالک میں اپنے وجود کا احساس دلایا۔ بالخصوص یورپ کے ان ممالک کو داعش نے زیادہ نشانہ بنایا ،جنہوں نے عراق و شام میں بمباری کے لیے امریکا کا ساتھ دینے سے معذوری اختیاری کی، جیسا کہ فرانس۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح افغانستان میں بھی داعش نے اپنی موجودگی کا اعلان کیا اور داعش میں سب سے پہلے ان دہشت گردوں نے شمولیت کا اعلان کیا، جنہیں بھارتی یا اس کے سرپرستوں کی چھتر چھایا حاصل تھی۔ جس سے اس خیال کو تقویت ملی کہ اب طالبان کی قوت کو توڑنے اور افغانستان کو ’’کنٹرولڈ ڈسٹرب‘‘ میں رکھنے کے لیے باقاعدہ طور پر افغانستان میں داعش کی سرپرستی کی جارہی ہے۔خطے میں اس نئے وبال سے افغان حکومت سمیت خطے کے دیگر ممالک میں بھی تشویش کی لہر دوڑی اور داعش کے خلاف ایک دوسرے سے تعاون کی فضا میں روس، ایران، چین ، پاکستان سمیت وسطی ایشیائی ریاستوں سے روابط بھی کھل کرسامنے آئے۔ یہ وہی دور تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے مری مذاکرات کا اہتمام کیا، مگر ’’دوستوں‘‘ کو کہاں گوارا تھا کہ افغانستان میں امن سے پورا خطہ پرسکون ہو اور تعمیر و ترقی کی شاہراہ پہ چلے۔ چنانچہ مختصر وقفے سے طالبان امیر ملا اختر منصور کو بلوچستان میں نشانہ بنایاگیا، جس کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ان مذاکرات کے ذریعے امن کا قیام ایک خواب بن کررہ گیا۔
بھارت میں امریکا کے سابق سفیر رابرٹ ویل نے چند برس قبل اپنی حکومت کو افغانستان میں امن سے متعلق ایک تجویز پیش کی تھی، گرچہ اس تجویزکے مطابق رابرٹ ویل نے امریکی حکومت اورنیٹو کو مشور ہ دیا تھا کہ پختون افغانستان اور غیر پختون افغانستان کوتقسیم کردیا جائے۔ بیرونی افواج (امریکا، نیٹو) غیر پختون افغانستان (شمالی افغانستان) میں اپنا مرکز رکھیں۔ گرچہ طالبان کا گڑھ پختون علاقے سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم طالبان ، یا بیرونی افواج کے خلاف متحرک گروہ لسانی طور پر منقسم نہیں ہیں۔ مختلف لسانی گروہ افغانستان کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر شمال میں واقع قندوز صوبے میں پختونوں کی اکثریت ہے تو دوسری طرف جنوبی صوبے ہرات میں تاجک، ازبک، ہزارہ اکثریت میں ہیں جبکہ لوگر جیسے پختون علاقوں کے درمیان واقع صوبے میں بھی بڑی تعداد میں تاجک بستے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ شمال میں رہنے والے صرف ایک قومیت کے لوگ ہیں، یا جنوب میں صرف ایک ہی زبان کے بولنے والے موجود ہیں۔ چنانچہ لسانی بنیادوں پر تقسیم یا امن کی خواہش شاید اتنی سودمند نہ ہو، تاہم انتظامی بنیادوں پر تقسیم اور پاور شیئرنگ کے ذریعے کسی حد تک افغانستان میں امن ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ شام کی طرز پر افغانستان میں بھی ’’پیس زونز‘‘ قائم کرکے کئی علاقوں میں امن کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ شاعر مشرق افغانستان کو ایشیا کا قلب مانتے تھے۔ قلب میں بے سکونی ہو تو جسم میں سکون ممکن نہیں، لہٰذاخطے کے امن کے لیے پرامن افغانستان ضروری ہے۔ جس کے لیے خطے کے تمام ممالک کو نیک نیتی سے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔
آسیا یک پیکرِ آب و گِل است
ملتِ افغاں در آں پیکر دل است
از کشادِ او کشادِ آسیا
از فسادِ او فسادِ آسیا
(بحوالہ: ماہنامہ ’’ہلال‘‘۔ مئی ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply