
حضرت علیؓ فرماتے ہیں: لامحالہ دنیا لوگوں کے لیے ایک ایسا ٹھکانہ ہے جس میں وہ چند دن زندگی گزارتے ہیں اور پھر یہاں سے رختِ سفر باندھ کر روانہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس دنیا کے لوگ دو قسم کے ہیں: ایک قسم کے لوگ وہ ہیں جو اس دنیا کے بازار میں آتے ہیں اور اپنے آپ کو بیچ ڈالتے ہیں‘ اپنے آپ کو غلام بنالیتے ہیں ۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو اپنے آپ کو اس بازار سے خرید لیتے ہیں اور آزاد کرلیتے ہیں۔ (نہج البلاغہ ۔ کلماتِ قصار ۱۳۳)
یہ کلام اس قدر گہرا ‘محکم اور پُر معنی ہے کہ ایک ایسی ہی روح سے مترشح ہوسکتا ہے جو خدا کے نور سے روشن ہو۔ جی ہاں‘ بعض افراد کی زندگی کا ماحصل یہ ہے کہ (افسوس کہ اس وقت دنیا کے لوگوں کی اکثریت ایسے ہی افراد پر مشتمل ہے) انہوں نے غلامی اختیار کرلی ہے‘ اپنے آپ کو بیچ ڈالا ہے اور اپنی شخصیت کو گنوادیا ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ میں اپنے آپ کو ہار چکے ہیں‘ اپنے آپ کو برباد کرچکے ہیں‘ جو نفسانی خواہشات‘حرص و طمع‘ دشمنی و عداوت کی بندگی کا شکار ہیں‘ جاہلانہ عادات‘ بے منطق اور نامعقول رسوم کی قید میں ہیں‘ جو جدید فیشن کی تقلید اور اس اصول کے پیرو ہیں کہ خواہی نشوی رسواہم رنگِ جماعت شو‘‘ (اگر رسوائی سے بچنا چاہتے ہو تو لوگوں کے رنگ میں رنگ جاؤ) بعض لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ کیونکہ وہ کسی دوسرے کی ملکیت نہیں‘ کسی کے زر خرید نہیں‘ لہٰذا وہ آزاد ہیں۔ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ہزارہا باریک نکات اس بات میں پنہاں ہیں‘ وہ نہیں جانتے کہ قید‘ غلامی اور بندگی کی ہزاروں اقسام اور ہزار ہا شکلیں ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ طمع و لالچ کی غلامی بھی ‘ غلامی ہے ‘ جاہلانہ عادات کا اسیر ہونا بھی غلامی ہے‘ مال و دولت کی پرستش بھی غلامی ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام سالہا سال تک غلام کہلائے۔ یعنی اس بازار میں جہاں مال و اسباب فروخت ہوتے تھے‘ وہاں انہیں خریدا اور بیچا گیا۔ انہوں نے بے جان مال و متاع کی مانند ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں گردش کی ‘ ایک کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے کے ہاتھ لگے‘ ایک گھر سے دوسرے گھر ہوئے۔ وہ کسی چیز کے مالک نہ تھے حتیٰ کہ وہ جو خوراک کھاتے تھے یا جو لباس پہنتے تھے وہ ان کے مالکوں کی ملکیت ہوتا تھا۔ اگر وہ کوئی کام کاج کرتے اور اپنی محنت کا کوئی معاوضہ پاتے تو وہ بھی ان کا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ غلام جو کچھ کماتا ہے وہ اس کے مالک کا ہوتا ہے۔ حضرت یوسفؑ جسمانی لحاظ سے مکمل طور پر غلام تھے۔ لیکن انہی یوسف ؑنے ثابت کیا کہ پورے مصر میں اُن سے زیادہ آقا اور ان سے زیادہ آزاد کوئی اور نہیں۔ مصرکی ایک خوبصورت ترین عورت اُن کی محبت میں گرفتار ہوئی۔ لیکن انہی (جسمانی طور پر) غلام یوسفؑ نے اس ممتاز‘ خوبصورت اورجوان عورت کی خواہش کو رد کیا۔ اس سے کہا کہ ٹھیک ہے کہ قانونِ مالکیت کے لحاظ سے میرا جسم تیرا غلام ہے لیکن میری روح آزاد ہے ‘ میں شہوت اور ہوائے نفس کا غلام نہیں ہوں۔
’’غیر حق رامن عدم انگاششم۔‘‘ (میں خدا کے سوا ہر چیز کو بے حیثیت سمجھتا ہوں) میں صرف ایک حقیقت کا غلام ہوں اور میری روح صرف ایک فرمان کے سامنے سربسجود ہے‘ او روہ خداوندِ متعال ہے‘ جو میرا خالق ہے۔ میں غلامی کے علاوہ قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے پر بھی تیار ہوں لیکن شہوت اور ہوائے نفس کا غلام نہیں بنوں گا۔ میں یہ محرومیت اور ظاہری قید قبول کرلوں گا لیکن اس طوق کو گردن میں نہیں ڈالوں گا۔(لہٰذا آپؑ نے) درگاہِ خدا وندی کی جانب رخ کیا اور فرمایا : ’’بارِ الٰہا! قید خانہ میری نظر میں اس بات سے زیادہ محبوب اورپسندیدہ ہے جس کی یہ مجھے دیتے ہیں۔‘‘
تاریخ میں ایسے بہت سے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جو قانونِ مالکیت کی رو سے غلام‘ مملوک اور بندے تھے‘ لیکن روح‘ عقل اور فکر کے لحاظ سے آزادی کی معراج پر پہنچے ہوئے تھے۔ لقمان حکیم‘ جن کے اعزاز میں قرآنِ کریم نے ایک سورہ ان کے نام سے مخصوص کیا ہے‘ کیا غلام نہیں تھے؟ اس کے باوجود عقل ‘ رُوح اور اخلاق کے اعتبار سے انتہائی آزاد منش تھے۔ ہم اپنی آنکھوں سے ہمیشہ ایسی بہت سی مثالیں دیکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثالیں جو قانونِ ملکیت کے لحاظ سے آزاد ہیں لیکن اسیر اور غلام ہیں۔ جن کی عقل و فکر غلام ہے‘ جن کی روح اور دل غلام ہے‘ جن کی جرأت اور اخلاق غلام ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے’’ کہہ دو کہ حقیقی معنی میں خسارہ اٹھانے والے افراد وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے اپنے آپ کو گم کردیا ہے اور جنہوں نے اپنے آپ کو انسانی شخصیت سے محروم کرلیا ہے۔‘‘ ایک شخص کا اپنے آپ کو معاشرتی میدان میں کھو دینا‘یا اپنے گھر اور مسکن کو کھودینا‘یا اپنے مال و دولت کو کھودینا یا اپنے معاشرتی مقام کو کھو دینا اس قدر اہم نہیں ہے جتنا یہ کہ کوئی شخص اپنی معنوی اور انسانی شخصیت گنوا بیٹھے‘ اپنی حریت اور جرأت کھو بیٹھے ‘ اپنی شجاعت اور بہادری سے محروم ہوجائے ‘ اپنی خود مختاری اور سربلندی گنوا بیٹھے‘ اپنا خلوص اور سچائی کھو بیٹھے‘ اپنے ضمیر اور حساس دل سے محروم ہوجائے ‘ اپنی عقل اور ایمان کھو بیٹھے‘ اپنی سخاوت اور جوانمردی کی روح سے محروم ہوجائے۔
جیسا کہ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے: لوگ دو قسم کے ہیں ایک قسم کے لوگ اس دنیا کے بازارمیں مال و دولت ‘ مقام و منصب ‘ ہویٰ و ہوس‘ ٹھاٹ باٹ‘ اور فیشن اور تقلید کی عوض اپنے آپ کو بیچ ڈالتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کے لوگ اس بازار سے اپنے آپ کو خرید لیتے ہیں۔ اپنی حقیقی اور انسانی شخصیت کو دوبارہ پالیتے ہیں‘ اپنے لیے بزرگواری ‘ عزت نفس ‘ جوانمردی‘ شرافت‘ راستی‘ استقامت‘ عدالت‘ تقویٰ ‘ حقیقت طلبی اور ایمان و معنویت جمع کرلیتے ہیں۔ اس بازار میں اس قیمت پر یقین رکھتے ہیں جسے قرآن مجید نے مقرر کیا ہے کہ کوئی چیز انسان کی قیمت نہیں ہوسکتی جس کے عوض وہ اپنے آپ کو فروخت کردے۔
امام جعفر صادق ؓچند اشعار میں فرماتے ہیں۔ میں‘ ہستی اور وجود کے بازار میں اس گراں قیمت نفس کے لیے صرف ایک قیمت کا قائل ہوں۔ صرف ایک گہر ہے جو اس گراں بہا متاع کی قیمت بن سکتا ہے ۔ یہ گہر وہی ہے جو کون ومکان کے صدف سے باہر ہے میں پوری دنیا میں کسی ایسی چیز سے واقف نہیں جو اس مال کی قیمت بن سکے۔ اگر میں اپنے آپ کو اور اپنے نفس کو دنیا کے کسی مال کے عوض فروخت کردوں‘ تو کیونکہ مال دنیا فانی ہے لہٰذا ختم ہوجائے گا اور میری روح اور نفس کی گراں بہا متاع بھی کیونکہ فروخت ہوگئی ہے‘ اس لیے میرے ہاتھ سے نکل جائے گی‘ اب میں خالی ہاتھ ہوں‘ نہ میری متاع میرے ہاتھ میں ہے اور نہ اس کی قیمت۔
(ترجمہ: سعید حیدر)
Leave a Reply