آج اسرائیل کی عمر ۵۸ سال ہو گئی ہے۔ اسرائیلی‘ پارٹیوں اور باربی کیوز کے ذریعے اس کا جشن منا رہے ہیں اور ان کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ انہوں نے ایک حیران کن کام یہ کیا ہے کہ ایک دوسری قوم کی سرزمین پر ایک قوم کی مملکت قائم کی ہے اور یہ کام انہوں نے بھاری قیمت پر کیا ہے۔
جو لوگ اس کا جشن نہیں منا رہے یعنی اسرائیل کے عرب شہری وہ بھی احتجاج کے ذریعے دنیا کو متوجہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل نے پچیس ہزار لوگوں کو بغیر کسی معاوضے کے ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا ہے۔ مزید لاکھوں فلسطینی بھی غزہ کے پناہ گزین کیمپوں‘ مغربی کنارہ اور پڑوسی عرب ریاستوں میں اسرائیل کی جانب سے بے دخل کیے جانے پر احتجاج کر رہے ہیں۔
دنیا بہرحال کچھ سننے کے لیے تیار نہیں ہے‘ ۱۹۴۸ء کی طرح ‘جب بیشتر فلسطینی باشندے یہودی مہاجروں کو بسانے کے لیے بے دخل کیے جارہے تھے ‘ میرا خاندان بھی ان لوگوں میں شامل تھا جن کو بے دخل کیا گیا‘ اگرچہ کہ میں اس وقت بچہ تھالیکن اپریل ۱۹۴۸ء کی ایک صبح یروشلم میں اپنے گھر سے نکالے جانے کی بے چینی اور پریشانی کی وہ کیفیت مجھے اب بھی واضح طور پر یاد ہے۔ جب ہوا میں ہر طرف بہار کی خوشبو کا احساس تھا۔
فلسطین جب سے اب تک محاذِ جنگ بنا ہوا ہے۔ جب سے یہودی ہماری زمینوں پر قبضے کرنے کے لیے جنگ چھیڑے ہوئے ہیں یعنی اقوامِ متحدہ کی ۱۹۴۷ء کی قراردادِ تقسیم کے بعد سے۔ میرے والدین نے فیصلہ کیا کہ عارضی طور پر گھر خالی کر دیا جائے۔ ان کا اصرار تھا کہ ہم واپس آئیں گے اور یہ کہ دنیا اس طرح کی ناانصافی ہونے نہیں دے گی۔ لیکن ان کا خیال غلط تھا‘ دنیا نے ایسا ہی ہونے دیا اور ہم کبھی نہیں لوٹے۔ بس تھوڑی تسلی یہ تھی کہ ہمارے ساتھ اس طرح کے بہت سارے اور بھی لوگ تھے جو کہ خیموں میں ختم نہیں ہو گئے۔ جیسا کہ جنگ میں عموماً ہوا کرتا ہے۔ ہماری زندگیاں‘ ہماری تاریخ اور ہمارا مستقبل مسخ کر دیا گیا ہے۔ ان ابتدائی دنوں میں‘ مَیں یہ سوچ کر ذہنی کرب میں مبتلا ہو جاتا تھا کہ کس طرح یہودی دخل اندازوں نے ہمارے گھروں پر قبضہ کیا‘ کس طرح وہ ہمارے گھروں میں رات کو سوتے ہوں گے‘ کس طرح وہ ہماری املاک‘ خاندان کے لوگوں کی تصاویر اور خاندان کے بچوں کے کھلونوں کا مشاہدہ کرتے ہوں گے۔
بعد میں اسرائیلیوں نے اس سے زیادہ خطرہ پیدا کر دیا‘ جتنا کہ ۴۹۔۱۹۴۸ء کی جنگ میں انہیں پانچ عرب ممالک کی افواج کی جانب سے خطرہ تھا۔ لیکن حقیقت میں ان کی افواج اپنے مدّ مقابل تمام افواج سے زیادہ بڑی تھیں جبکہ عرب افواج ساز و سامان اور تربیت کے لحاظ سے کمزور تھیں۔ برطانیہ میں نشوونما پاتے ہوئے مجھے ان سے کوئی ہمدردی نہیں ہوئی‘ لیکن مجھ سے یہ کہا جاتا رہا کہ یہودیوں کو ایک ریاست کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ محسوس کر سکیں۔ لیکن یہ سخاوت کس کی قیمت پر تھی؟
ہم فلسطینیوں کا ہولو کاسٹ میں کوئی ہاتھ نہیں تھا اور نہ ہی ہم نے یہودیوں پر کوئی ظلم کیا‘ لیکن پُرامن کاشت کار عوام کو اس تسلط کے ذریعہ ایک بھیک مانگنے والی قوم‘ پناہ گزین ٹولے ‘جلاوطنوں کے جھنڈ اور اسرائیل کے دوسرے درجے کے شہریوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
اس سے بھی بدتر بات یہ ہوئی کہ اب ہم پر دہشت گرد‘ خودکش حملہ آور اور انتہا پسند کا لیبل چسپاں کر دیا گیا۔ ہمارا جرم کیا ہے؟ یہی ناکہ ہم غلط وقت پر غلط مقام پر تھے اور اس کے لیے ہمیں بارہا سزائیں دی گئیں اور حال ہی میں ہمیں جو سزا مل رہی ہے وہ ’’غلط حکومت‘‘ کے انتخاب پر مل رہی ہے جس حکومت کی سربراہی ایک ایسی پارٹی کے ہاتھ میں ہے جسے مغرب ناکہ فلسطینی دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔
میںپچھلے مہینہ فلسطین گیا تاکہ میں دیکھوں کہ ۵۸ سالہ اسرائیل نے کیا کارنامے انجام دیے ہیں۔ یہ بھی موسمِ بہار تھا لیکن یہ زمین کا وہ سایہ تھا جس سے میں واقف تھا۔ میں نے وہاں ایک شکستہ معاشرہ قابلِ رحم حالت میں پایا جو ایک ریاست کے مرجھائے ہوئے خواب سے تمام تر مشکلات کے باوجود وابستہ تھا۔ اسرائیل کی پالیسیوں نے فلسطینی سرزمین کو بیریئرز اور چیک پوائنٹس کے پیچھے غریب آبادیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ غزہ جسے آزاد تصور کیا جاتا ہے ایک بڑے جیل کی مانند ہے۔ جہاں WB کے مطابق ۷۵فیصد لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور ۴/۱ بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں۔ جنوری سے اسرائیل نے غزہ کارگو کی آمدو رفت کو بند کر دیا ہے۔ گزشتہ ماہ زیادہ تر آٹے کا بحران رہا اور اب دوائیوں کا۔ اقوامِ متحدہ نے انسانی المیہ جنم لینے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ اب اسرائیل دھمکی دے رہا ہے کہ ایندھن کی سپلائی منقطع کر دی جائے گی غیرمعمولی فلسطینی قرضوں کی بدولت ‘عام طور سے جس کی ادائیگی فلسطینی ٹیکس محصولات سے ہوتی ہے جس کو جنوری سے غیرقانونی طور پر اسرائیل نے ضبط کر لیا ہے۔ دیواری رکاوٹوں نے پورے قصوں اور دیہاتوں کو سربمہر کر دیا ہے جس سے عام زندگی ناممکن سی ہو کر رہ گئی ہے۔ نئی جمہوری فلسطینی منتخب حکومت اسرائیل اور مغرب کی پابندیوں کی وجہ سے مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ سالانہ ایک بلین عالمی امداد جو فلسطینیوں کو دی جاتی تھی‘ بند کر دی گئی ہے۔ ۷۰ ملین ڈالر جو عرب ریاستیں دیتی تھیں‘ اس میں رکاوٹ کھڑی کردی گئی ہے اس لیے کہ بینکوں نے عالمی پاِبندیوں کے خوف سے رقوم منتقل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
۱۵۰۰۰۰ سرکاری ملازمین اور ان پر منحصر ۱۰ لاکھ افراد پر معاش کو تنگ کر دیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ ان کو تنخواہ دینے کے لیے پیسوں کی دقت کا سامنا ہے ۔میں نے ویران Supermarket اور دکانداردیکھے جو مایوسی کا شکار تھے ‘ مسلح افراد سڑکوں پر گھومتے نظر آئے اور ان کا یہ غصہ ضروریاتِ زندگی سے محروم ہونے کی وجہ سے تھا۔ دریں اثناء فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج نے ۹ فلسطینیوں کو قتل اور ۲۴ کو زخمی کر دیا تھا۔ انہوں نے فلسطینی قصبوں پر ۳۸ حملے کیے اور ۶۱ افراد بشمول ۱۱ بچوں کو پکڑ کر لے گئے۔
چاروں قوتیں تین مہینے کا ہنگامی امدادی پیکیج دینے پر رضاند ہو گئی ہیں۔ حماس سے تعلقات کی سرد مہری کی وجہ سے امداد حماس کو نظر انداز کر کے دی جائے گی۔ اگرچہ ناگزیر سہولیات بغیر کسی مرکزی انتظامیہ کے کس طرح بہم پہنچائی جائیں‘ یہ خیال کرنا بھی محال ہے۔ اگر فلسطینی حکومت ناکام ہوتی ہے تو عرب وزرائے خارجہ نے امن و امان میں ابتری پیدا ہونے کے حوالے سے خبردار کیا ہے‘ لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس سنگ دلی اور بے رحمی پر دنیا کی خاموشی حیران کن ہے۔ کوئی بین الاقوامی چیخ و پکار نہیں ہے۔ جس کا واضح مقصد فلسطینیوں کو اس امر پر مجبور کرنا ہے کہ وہ اس حکومت کو بے دخل کر دیں‘ جسے انہوں نے منتخب کیا ہے تاکہ وہ اسرائیلی مقاصد کی تکمیل کے لیے مزید ہموار ہو سکیں۔
مغربی کنارہ کے Settlements بلاکوں کو اور یروشلم نیز وادیٔ اردن کو اپنے ساتھ شامل رکھتے ہوئے یکطرفہ طور پر اسرائیلی سرحدوں کا تعین کرنا اسرائیلی وزیراعظم ایہود الماٹ کا منصوبہ یکطرفہ طور پر اسرائیلی سرحدوں کا تعین کرنا ہے ‘ جو سڑکیں اسرائیل کو جوڑتی ہیں‘ وہ فلسطینی سرزمین کو دو حصوں میں تقسیم کریں گی۔ جو کچھ باقی رہ جاتا ہے یعنی زیادہ سے زیادہ ۵۸% وہ غزہ کے قید خانے کے ساتھ‘ فلسطینی ریاست کی تشکیل کی صورت میں سامنے آئے گا۔
اولمرٹ جلد ہی واشنگٹن میں ہوں گے اور اس میں شک نہیں کہ اُن کو ایک ربر اسٹیمپ کی تلاش ہو گی اور جیسا کہ یہ خیال کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی جو منتشر اور بے قوت ہوں گے ‘کبھی بھی اسرائیل کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکیں گے۔ جو کوئی بھی اس پر یقین رکھتا ہے‘ جیسا کہ مغرب کی بے سوچی سمجھی اسرائیل کے لیے حمایت ہے۔ وہ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انہیں تاریخ سے قطعاً کوئی واقفیت نہیں ہے یا پھر انہیں عوام کی قوتِ ارادی کا اندازہ نہیں ہے جس کے سہارے وہ ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے اور فلسطینی اس سے مستثنیٰ نہیں۔
(بشکریہ: ڈیلی ’’ڈان‘‘۔ شمارہ۔ ۱۶ مئی ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply