حالیہ دنوں میں ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے کے بعد آبنائے ہرمز کو تیل بردار بحری جہازوں کے لیے بند کرنے اور اس کے ساتھ ہی خلیج میں ایک اور جنگ کے امکانات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ ایران کے اس قدم سے امریکا کے لیے یہ خطرہ پیدا ہوا ہے کہ امریکی حملے کی صورت میں ایران نہ صرف امریکا اور اس کے اتحادیوں کو خاطر خواہ نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ وہ خطے کے دیگر ممالک کی جانب سے تیل کی برآمدات کو بھی روک سکتا ہے۔
ایران ۵۳۔۱۹۵۱ء کی تجارتی پابندیوں کو بھولا نہیں ہے۔ یہ پابندیاں ہی جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم محمد مصدق کی برطرفی کا سبب بنیں۔ جس کے بعد سی آئی اے نے اقتدار دوبارہ محمد رضا پہلوی کے حوالے کردیا تھا۔
ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے سے تیل کی منڈیوں پر غیر معمولی اثرات ہوں گے۔
آبنائے ہرمز کی بندش:
ایرانی بحریہ اور پاسدارانِ انقلاب کے بحری بیڑے کی قیادت کو یہ معلوم ہے کہ روایتی بحری جنگ میں وہ امریکا کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے ایران ۸۸۔۱۹۸۰ء کی ایران۔ عراق جنگ کے بعد سے ہی آبنائے ہرمز کو بند کرنے کے لیے درکار صلاحیت کے حصول کی کوششوں میں مصروف رہا ہے۔ ان صلاحیتوں میں ہزاروں بارودی سرنگیں، تارپیڈو، جدید کروز میزائل، چھوٹی بڑی آبدوزیں اور تیز رفتار چھوٹی کشتیوں کا بیڑہ شامل ہے۔ ان میں سے اکثر آبنائے ہرمز میں ہی تعینات ہیں۔
امریکا کے نزدیک آبنائے ہرمز میں بحری تجارت کے لیے ایرانی بحریہ ایک خطرہ ہے۔ پینٹاگون کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایران اپنی تمام بحری صلاحیتوں کو آبنائے ہرمز میں آمدورفت کو متاثر کرنے اور امریکی فوج کی خطے تک رسائی روکنے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
سابق امریکی سیکرٹری دفاع جیمس میٹس نے ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء کے درمیان امریکی سینٹرل کمانڈ کی کمان کرتے ہوئے ایک کثیر القومی منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد ایران کو آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھانے سے روکنا اور پہلے سے موجود بارودی سرنگوں کا صفایا کرنا تھا تاکہ بحری آمدورفت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ بارودی سرنگوں پر زیادہ توجہ اس لیے دی گئی کیوں کہ جدید تیل بردار بحری جہازوں کو کسی تارپیڈو یا میزائل سے زیادہ بارودی سرنگوں سے خطرہ ہوتا ہے۔
امریکی فوج کے منصوبہ ساز افراد اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ایران آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو امریکی افواج ایرانی افواج پر غالب آجائیں گی۔ لیکن اس میں کتنا وقت لگے گا، اس بارے میں ان منصوبہ ساز افراد میں اختلاف ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ اس میں چند دن لگیں گے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ بحری آمدورفت معمول پر آنے میں تین مہینے لگ سکتے ہیں۔
آبنائے ہرمز میں جاری کشیدگی خطے کے دیگر ممالک تک پھیل سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں خلیج فارس میں کسی جنگ کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو خطے میں تیل اور گیس کی پیداوار اور برآمدات کو خاطر خواہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اگر امریکی افواج ایران پر حملہ آور ہوتی ہیں یا ایران کو ایسا محسوس ہوا کہ امریکا اس پر حملہ کرنے والا ہے، تو وہ جلد از جلد امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر فضائی حملے اور میزائل حملے کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایران جوابی حملے میں جلدی اس لیے کرے گا تاکہ امریکی حملے کے نتیجے میں اپنے ہتھیاروں کو تباہ ہونے سے پہلے استعمال کرلے۔
آبنائے ہرمز کی بندش کے ممکنہ اثرات:
آبنائے ہرمز کی بندش کے تیل کی عالمی منڈی پر کیا اثرات ہوں گے اس کا انحصار تیل کی ترسیل میں ہونے والی یومیہ کمی پر ہوگا۔ اوپر کی گئی گفتگو کی بنیاد پر مستقبل کے تین منظر نامے دکھائی دیتے ہیں۔ان میں سے دو کا تعلق براہ راست آبنائے ہرمز سے اور ایک کا خلیج فارس میں ہونے والی ممکنہ جنگ سے ہے۔
اگر آبنائے ہرمز صرف چند روز کے لیے ہی بند ہوتی ہے تو عالمی منڈی پر اس کے نسبتاً کم اثرات مرتب ہوں گے۔اس کے باوجود ابتدائی غیر یقینی کی وجہ سے تیل کی فی بیرل قیمت ۱۰۰ ڈالر تک جاسکتی ہے،لیکن یہ جلد ہی اپنی اصل قیمت پر واپس آجائے گی۔
آبنائے ہرمز کی بندش سے یومیہ ۲۰ ملین بیرل تیل کی ترسیل رک جائے گی۔تاہم اس کے متبادل کے طور پر سعودی عرب اور ابو ظہبی کی تیل پائپ لائن کو استعمال کرکے یومیہ چار ملین بیرل تیل کی ترسیل جاری رکھی جاسکتی ہے۔
دوسرا اور قدرے مایوس کن منظر نامہ یہ ہوسکتا ہے کہ آبنائے ہرمز ڈیڑھ سے دو ماہ کے لیے مکمل بند ہو جائے۔ایسی صورت حال میں تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوجائے گا، جو ایک مدت تک بر قرار بھی رہے گا۔ تیل کے عالمی ذخائر تیل کی ترسیل میں آنے والی کمی کو پورا کرسکتے ہیں لیکن ان ذخائر سے یومیہ ترسیل کو برقراررکھنا ایک چیلنج ہوگا۔
گزشتہ مطالعات یہ بتاتے ہیں کہ کسی بحران کی صورت میں انٹر نیشنل انرجی ایجنسی کے ممبر ممالک کے ذخائر سے پہلے ماہ میں یومیہ۴ء۱۴ ملین بیرل اور دوسرے ماہ میں یومیہ ۵ء۱۲ ملین بیرل تیل فراہم کیا جاسکتا ہے۔بھارت اور چین کے پاس تیل کے عالمی ذخائر کا پانچواں حصہ ہے جو کہ بحران سے نپٹنے کی عالمی کوششوں میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
ریاض میں قائم ایک تحقیقی ادارے کے مطابق اگر اضافی تیل موجود نہ ہو تو کسی بحران کی صورت میں تیل کی قیمت ۳۲۵ ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے، جیسا کہ لیبیا کے بحران کے دوران ہوا تھا۔ اُس پورے عرصے میں عالمی ذخائر سے صرف ۶۰ ملین بیرل تیل فراہم کیا گیا تھا۔
تیسرا اور سب سے خطرناک منظر نامہ خلیج میں ممکنہ جنگ کی صورت میں سامنے آسکتا ہے، جس میں آبنائے ہرمز تین ماہ کے لیے بند ہوجائے اور خلیج کے تیل پیدا کرنے والے ممالک اور تیل بر آمد کرنے کے انفراسٹکچر کو خاطر خواہ نقصان پہنچے۔ سعودی کمپنی آرامکو کے پلانٹ پر ہونے والا کوئی حملہ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے تیل کی ترسیل میں یومیہ ۷ ملین بیرل کی کمی کر سکتا ہے۔ایسی صورت میں تیل کی قیموں میں نا قابل یقین حد تک اضافہ ہوجائے گا اور یہ عالمی معیشت کے تباہ ہوجانے تک اسی سطح پر رہیں گی۔
اگر اس صورت حال میں سعودی عرب کے ۲۰۰ ملین بیرل یومیہ کے ذخائر اور دیگر تنصیبات محفوظ رہتی ہیں تودیگر عالمی ذخائر کی مدد سے اس بحران کے منفی اثرات کو کچھ حد تک کم کیا جا سکے گا۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
“Persian gulf conflict could send oil beyond $325”. (“oilprice.com”. July 7, 2019)
Leave a Reply