
ہمارے معاشرے میں دو قالب ہیں جن میں انسان خود کو ڈھال سکتے ہیں دو سانچے جن کے مطابق اپنی شخصیت کی تعمیر کرسکتے ہیں اس طرح ہمارا معاشرہ انسانوں کی دو قسموں (Types) میں بٹا ہوا ہے ان میں سے ایک قسم وہ ہے کہ جو اس روایتِ کہنہ پر قائم ہے جسے مذہب اور اخلاق کا نام دے دیا گیا ہے یہ گروہ چاہتا ہے کہ زمانہ کے رجحانات اور دبائو کے علی الرغم اپنی وضعِ قدیم اور روایتِ کہنہ کو معاشرہ میں نافذ کرے حالانکہ اس روایت میں نفوذ کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے اس بات کو جاننے کے باوجود کہ یہ روایتِ کہنہ اپنی توانائی کھوچکی ہے یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ نئی نسل بھی ان کے قالب میں ڈھل جائے ان کا عکس اور ان کا نمونہ بن جائے۔
دوسری طرف لوگوں کی وہ قسم ہے جو دانشوری جدت ‘ ترقی پسندی پر انسانی آزادی کے نام پر جدید نسل کو بالکل آزاد چھوڑ دیتی ہے۔دراصل یہ لوگ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر وہ نئی نسل کے معاملات میں مداخلت کریں گے ان پر کوئی حکم چلائیں گے ان کو نیک اور بد کی امر اور نہی کریں گے تو انہیں قدامات ‘ مشرقیت اور پسماندگی کا طعنہ دیا جائے گا انہیں مذہبی اور مومن کہہ کر ان کا مذاق اڑایا جائے گا اس لیے وہ سماجی حالات کے تفسیر اور اپنے بیٹے اور بیٹیوں کی ترقی پسندانہ روش کو ایک خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں وہ ترقی پسندی کے اس کھیل میں ایک نعش کا کردار ادا کرتے ہیں یعنی۔ ان کی اولاد ترقی پسندی کے امکانا ت پر عمل کرتی ہے اور ماں باپ اپنی اولاد کے لیے یہ امکانات فراہم کرتے ہیں تاکہ انہیں (ان ماں باپ) کو دانشور‘ روشن فکر کہا جائے لیکن اپنی اولاد کی روش کے بارے مین ان کا سکوت اور رضامندی کا اظہار کسی دانشوری کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ یہ خوف اور اندیشہ کارفرما ہے کہ اگر ہم نے نئی نسل کو ٹوکنے یا ان کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی تو ہماری عزت و احترام کا ظاہری پردہ بھی چاک ہوجائے گا اور ہم حقیقتاً جس ضعف اور بے چارگی کا شکار ہیں وہ پوری طرح آشکار ہوجائے گی اور ہماری اولاد ہماری ہر بات کو حقارت سے رد کردے گی۔
یہ دو قالب ہیں۔ دو سانچے ہیں جن میں انسان ڈھل سکتے ہیں یہ دو قسمیں ہیں جن میں انسان بٹے ہوئے ہیں ان میں سے ایک قسم ماضی کی روایت سے اس طرح چمٹی ہوئی ہے کہ وہ کسی تغیر یا تبدیلی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور دوسری قسم جدید تہذیب و ثقافت کی اندھا دھند نقالی پر اس طرح کمر باندھے ہوئے ہے کہ اس نے برے بھلے کی تمیز کو ختم کردیا ہے یہ دو قسمیں ہیں لیکن دونوں غلط ہیں یہ دو راستے ہیں مگر دونوں گمراہی کے راستے ہیں اس لیے کہ ان میں سے ایک گروہ حقیقت اور و اقعیت کے سیلاب کو روکنا چاہتا ہے مگر اس سیلاب کو روکنے کی ناکام کوششیں کررہا ہے وہ آہ و زاری نالہ و فریاد طعن و تشنیع اور لعنت و ملامت کے ذریعے اس سیلاب کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے اور انسانوں کی دوسری قسم وہ ہے جس نے خود کو اس سیلاب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے یہ وہ زندہ ہیں جو زندگی کی حرارت اور توانائی سے محروم ہیں اور جنہیں سیلاب کی موجیں جس طرح چاہتی ہیں بہا لے جاتی ہیں یہ نعش کی طرح ہیں ان کی کوئی شخصیت نہیں ان کے تمام اخلاق و اقدار مردہ ہوچکے ہیں۔ یہ صبح سے شام تک محض دولت کمانے کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں۔ کام کرتے ہیں ہر غلط طریقہ اپناتے ہیں ہر ناجائز راستے پر چلتے ہیں اپنی عزت کو دوائوں پر لگا کر لوگوں کی خوشامد کرکے ‘ جھوٹ بول کر دھوکہ دہی کے ذریعہ غرض جس طرح بھی ممکن ہو اپنی جیبوں کو نوٹوں سے بھرتے ہیں مگر کس لیے؟ اس لیے کہ وہ اس دولت سے بیرونی اشیاء خرید سکیں گویا اپنی دولت کو مغربی سرمایہ داروں کی جیب میں منتقل کردیں۔
انسانوں کی یہ دونوں قسمیں بظاہر مختلف اور اپنے طریقہ کار کے لحاظ سے متضاد ہیں لیکن ان کے متضاد طریقہ کار اور جدید تمدن کے سیلاب کے مقابلہ میں ان کے مختلف ردعمل کا نتیجہ ایک ہی ہے اور یہ کہ یہ سیلاب بے روک ٹوک بہہ رہا ہے اور اپنے اس تند بہائو کے ذریعہ ہر چیز کو تباہ و برباد کررہا ہے ہماری تمام دیواریں گر رہی ہیں اور ان دیواروں کا ملبہ دونوں قسم کے انسانوں کے سروں کو آلودہ اور زخمی کررہا ہے ہمارے شہر قبرستان بن گئے ہیں اوریہ مرُدوں کی بستیاں ہیں جن سے تعفن اٹھ رہا ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply