
قدرتی وسائل کے بے محابا استعمال کے باعث ہماری زمین کا پورا ماحول شدید خطرے میں ہے۔ نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے سیّارے کا مجموعی زندگی پرور نظام ناکارہ ہوتے چلے جانے سے حیوانات کی کم و بیش ۱۲۰۰؍انواع کے معدوم ہوجانے کا خطرہ لاحق ہوچلا ہے۔
آج دنیا بھر میں ماحول ناکامی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور کسی کو بھی کچھ اندازہ نہیں کہ اس عمل کو کیسے روکا جائے۔ حال ہی میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں سمیت کم و بیش پانچ ہزار حیوانات کی انواع کو معدوم ہو جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ ان میں سے ایک چوتھائی یا تقریباً ۱۲۰۰؍انواع مکمل طور پر ناپید ہو جائیں گی۔ ہر دور میں دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں مختلف انواع کو خطرات لاحق رہے ہیں مگر پورے کرۂ ارض پر اتنی بڑی تعداد میں انواع کے معدوم ہوجانے کا خطرہ پہلے کبھی لاحق نہیں رہا۔ انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں واضح اکثریت کو ماحول میں پیدا ہونے والی گراوٹ کی کچھ پروا نہیں۔ ماحول کی گراوٹ کے بارے میں سوچنے والے خال خال ہیں۔ یہ خیال، غیر معمولی کوششوں کے باوجود، اب تک عام نہیں کیا جاسکا کہ زمین اور اس کے ماحول کو پہنچنے والا نقصان ہم سب کا ذاتی نقصان ہے کیونکہ ماحول میں رونما ہونے والی گراوٹ کے شدید منفی اثرات سے ہم کسی طور بچ نہیں پاتے۔
برطانوی اخبار دی گارجین کا کہنا ہے کہ کم و بیش ۱۲۰۰؍انواع ایسی ہیں جن کے ۹۰ فیصد سے زائد ٹھکانے تباہی سے دوچار ہیں۔ یہ انواع مکمل طور پر معدوم ہونے سے زیادہ دور نہیں۔ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوئینز لینڈ اور دی وائلڈ لائف کنزویشن سوسائٹی سے وابستہ سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے بتایا ہے کہ ۵۴۵۷ جانداروں کی نسل خطرے میں ہے۔ یہ انواع اگر گئیں تو ہمیشہ کے لیے گئیں۔
یہ تحقیق بڑے پرندوں، ممالیہ اور ایمفیبینز پر کی گئی ہے۔ کیڑے مکوڑوں کی دنیا کا اور بھی برا حال ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث ہر سال کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں ڈھائی فیصد تک کمی آرہی ہے۔ زمین جانداروں کے معدوم ہو جانے کے مرحلے سے پانچ بار گزر چکی ہے۔ اب چھٹے دور کی تیاری ہے۔ سائنسی تحقیق پر مبنی ۷۳ رپورٹس کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر روئے ارض سے کیڑوں مکوڑوں کے رخصت ہونے کا سفر یونہی جاری رہا تو ۲۱۱۹ء تک روئے ارض پر حشرات الارض میں سے کوئی نہیں بچے گا۔ دنیا بھر میں خوراک کے مآخذ کے لیے کیڑے مکوڑے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ ذرا سوچیے کیڑوں مکوڑوں کے چلے جانے سے روئے ارض پر کس نوعیت کے اثرات مرتب ہوں گے۔
خوراک کے مآخذ پر کیڑوں مکوڑوں کے چلے جانے کے انتہائی خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ شہد کی مکھیاں بھی ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا سے شہد کی مکھیاں ختم ہوجائیں تو انسانوں کو شدید نوعیت کے منفی اثرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تیزی سے خطرناک ہوتی ہوئی صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے جس نوعیت کی فکر مندی لوگوں میں ہونی چاہیے وہ کسی بھی سطح پر دکھائی نہیں دے رہی۔
سمندروں میں ایک چھوٹا آرگنزم phytoplankton (نبات تیراکہ) پایا جاتا ہے۔ فائٹو پلانکٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کو ایک مخصوص عمل سے گزار کر آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ سمندروں میں پایا جانے والا یہ آگنزم آکسیجن پیدا کرنے میں وہی کردار ادا کرتا ہے جو روئے ارض پر پودے اور درخت ادا کرتے ہیں۔ کینیڈا کی ڈلہاؤزی یونیورسٹی کے محققین نے جدید ترین طریقوں سے کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں بتایا ہے کہ ۱۹۵۰ء کے بعد سے اب تک فائٹو پلانکٹن میں ۴۰ فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔ فائٹو پلانکٹن کے بغیر ہمارے سمندر ’’ڈیڈ زون‘‘ بن جائیں گے۔ آبی حیات کو زندہ رہنے اور تیزی سے پروان چڑھنے کے لیے آکسیجن کی جو مقدار درکار ہوتی ہے وہ اگر نہ ملے تو آبی حیات کا تنوع بھی رفتہ رفتہ کم ہوتا چلا جائے گا۔ فائٹو پلانکٹن کی تعداد میں رونما ہوتی ہوئی کمی خوراک کے بحری مآخذ پر بھی شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔
فائٹو پلانکٹن میں کمی کا مطلب ہے، تھایامائن میں کمی۔ تھایامائن میں کمی کا مطلب ہے سمندر میں خوراک کے ذرائع میں پیدا ہونے والے معیار اور مقدار کی گراوٹ۔ سمندری پرندوں کی تعداد میں بھی ۷۰ فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے۔
بہت سے سمندری خطوں میں پہلے ہی خرابیاں بڑھ چکی ہیں۔ شمالی مائن کے سمندری خطے میں سیگلز کی تعداد کسی زمانے میں غیر معمولی ہوا کرتی تھی۔ اب وہاں سیگلز ڈھونڈنے سے دکھائی نہیں دیتے۔ اگر یہی حال رہا تو سمندر مچھلیوں سے خالی ہوتے جائیں گے اور صرف جیلی فش رہ جائے گی۔
سیدھی سی بات یہ ہے کہ ہمارا سیارہ رفتہ رفتہ دم توڑتا جارہا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کچھ بھی کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے بہت تیزی سے کرنا ہے۔ اور غلطی کی بھی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس دوران مغربی تہذیب بھی تیزی سے موت کو گلے لگا رہی ہے۔ پال جوزف واٹسن نے ’’دی کولیپس آف ویسٹرن سویلائزیشن‘‘ کے عنوان سے ایک شاندار دستاویزی فلم تیار کی ہے۔ ایک مضمون میں واٹسن نے لکھا ہے کہ ایک طرف تو روحانی اقدار کی پامالی ہے اور دوسری طرف کیمیائی اشیا پر غیر معمولی انحصار۔ رہی سہی کسر جذبات کو برانگیختہ کرنے والی اشیا کے غیر معمولی استعمال نے پوری کردی ہے۔ کسی بھی عظیم تہذیب کو برباد کرنے والے جتنے بھی بنیادی عوامل ہوا کرتے ہیں وہ سب مغربی تہذیب میں نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارا جانا ٹھہر گیا ہے۔ معاشی خرابیوں نے خرابیوں کو مزید ہوا دی ہے۔ منشیات پر انحصار خطرناک اور شرم ناک حد تک بڑھ گیا ہے۔
مذہب سے بیزاری مغربی معاشرے میں عام ہے۔ اپنے آپ کو باضابطہ مسیحیوں کی حیثیت سے شناخت کرانے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ معاشرہ سمت سے محروم ہوچکا ہے، ہمیں خود بھی نہیں معلوم کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔ شراب اور نشہ آور ادویہ کے استعمال سے اور خود کشی کی صورت میں واقع ہونے والی اموات کا تناسب خطرناک رفتار سے بڑھتا جارہا ہے۔ دی ٹرسٹ فار امریکاز ہیلتھ اینڈ ویل بیئنگ نے بتایا ہے کہ شراب اور منشیات سے فی لاکھ واقع ہونے والی ہلاکتوں کا تناسب ۴۳ سے بڑھ کر ۴۶ ہوچکا ہے۔
زمین کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے۔ بہت کچھ بدل رہا ہے مگر ہم اب تک جاگنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم میں سے بہت سوں کے نزدیک اب زندگی کا کوئی خاص مقصد نہیں رہا۔ جب کوئی مقصد نہ ہو تو زندگی بے کیف سی گزرتی ہے۔ یوں تو خیر دنیا بھر میں خرابیاں پائی جاتی ہیں مگر مغربی معاشرے کا معاملہ سب سے خطرناک ہے۔ اخلاقی اور روحانی اقدار کی پامالی نے اصلاحِ احوال کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی۔ ہم بے سمت چل رہے ہیں اور کچھ معلوم نہیں کہ کہاں پہنچیں گے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Planetary collapse threatens our survival”. (“The economic collapse”. March 19, 2019)
Leave a Reply