
شیخ حسینہ واجد کی حکومت جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالقادر مُلّاکو پھانسی دینے میں کامیاب ہوگئی مگر خیر، یہ نہ سمجھا جائے کہ شیخ حسینہ واجد کی انتقامی سیاست یہاں ختم ہوگئی۔ کئی اور ہیں جو پھانسی کے منتظر ہیں۔ نام نہاد انٹر نیشنل کرائم ٹریبونل نے، جس میں کوئی بھی غیر ملکی جج، وکیل یا مبصر شامل نہیں، مزید چار شخصیات کو پھانسی کی سزا سنا رکھی ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے کئی رہنما اب تک مقدموں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ شیخ حسینہ واجد نے ۱۴؍دسمبر کو ڈھاکا میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہیں سے بھی آنے والی کوئی ٹیلی فون کال اُنہیں اِن لیڈروں کو پھانسی دینے سے نہیں روک سکتی۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون، امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے ذاتی طور پر شیخ حسینہ واجد کو فون کرکے عبدالقادر مُلّاکو دی جانے والی پھانسی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ شیخ حسینہ واجد نے عالمی رہنماؤں کی جانب سے رحم کی اپیل کے باوجود عبدالقادر مُلّاکو پھانسی دے کر ثابت کردیا کہ وہ کسی کا احترام نہیں کرتیں۔ ساتھ ہی انہوں نے انتباہ کیا ہے کہ وہ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنائیں گی یعنی فرماں بردار عدلیہ کی مدد سے وہ مزید رہنماؤں کو پھانسی دے کر دم لیں گی۔
بنگلہ دیش میں بھارت کی جنگ
شیخ حسینہ واجد جو کچھ کر رہی ہیں، اس میں انہیں بھارت کی مکمل حمایت اور مدد حاصل ہے۔ گزشتہ ماہ بھارتی سیکرٹری خارجہ سجاتا سنگھ کے دورے نے ان کے حوصلے مزید بلند کیے اور یہ طے ہوگیا کہ بھارت انہیں ہر قیمت پر بنگلہ دیش میں اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے۔ بھارت نے ۱۹۴۷ء سے سابقہ مشرقی پاکستان میں سیاسی سرمایہ کاری شروع کردی تھی۔ ۱۹۷۱ء میں یہ سرمایہ کاری حد سے بڑھ گئی۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام سے شائع ہونے والے اخبار ’’نبا بارت‘‘ نے ۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو ایک رپورٹ میں بتایا کہ بھارت نے ۲۰۰۸ء کے بنگلہ دیشی انتخابات میں ۸۰۰ کروڑ روپے خرچ کیے تھے۔ یہ اہتمام عوامی لیگ کو اقتدار میں لانے کے لیے تھا۔ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں بھارت ایک ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بھارت چونکہ عوامی لیگ کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار رہتا ہے، اس لیے جب بھی عوامی لیگ اقتدار میں آتی ہے، بنگلہ دیش کو ہر اعتبار سے بھارتی مفادات کا نگران سا بنادیا جاتا ہے۔ بھارتی مصنوعات کے لیے بنگلہ دیش کی منڈیاں مکمل طور پر کھول دی جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت بھارت کو تمام اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرنے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ بھارت کو اپنی مشرقی ریاستوں کے لیے بنگلہ دیش سے راہ داری درکار ہوتی ہے۔ اس معاملے میں عوامی لیگ کی حکومت مکمل تعاون کرتی ہے۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں اور بالخصوص آسام میں سرگرم علیٰحدگی پسندوں کو گرفتار کرکے بھارت کے حوالے کرنا اور اسلام نواز شخصیات کا قتل بھارت کے لیے عوامی لیگ کی حکومت کے غلامانہ کردار کا غماز ہے۔
اسلام اور اسلام پسندوں کے خلاف جنگ چھیڑ کر عوامی لیگ دراصل بنگلہ دیش کی سرزمین پر بھارت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ بھارت کے نزدیک اس کے حقیقی دشمن اسلام پسند عناصر ہیں۔ اس جنگ میں وہ عوامی لیگ سے بھرپور تعاون چاہتا ہے اور یہ تعاون اسے ملتا بھی ہے۔ دوسری طرف عوامی لیگ بھارت کو اپنا سب سے زیادہ قابل اعتماد آقا گردانتی ہے۔ شیخ حسینہ کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ بھارت کی مدد کے بغیر ان کے سیاسی وجود کی بقا ممکن نہیں۔ جو کچھ بھارتی فوج کشمیر میں کر رہی ہے، وہ کچھ عوامی لیگ کی حکومت بنگلہ دیش میں کر رہی ہے۔ از روئے عدالت اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ صرف دو ماہ کے دوران اپوزیشن کے ڈھائی سو سے زائد کارکنان کو اغوا یا ہلاک کیا جاچکا ہے۔ بھارت یہ محسوس کرتا ہے کہ اسلام پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے عوامی لیگ کے اقتدار کا تسلسل ناگزیر ہے اور عوامی لیگ کو اقتدار میں رکھنے کے لیے عملی سطح پر بہت کچھ تبدیل کرنا لازم ہے۔ اگر بھارتی قیادت عوامی لیگ کو اقتدار میں رکھنے میں کامیاب نہ ہو تو مشرقی محاذ پر ایک اور پاکستان اس کے لیے دردِ سر بن سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے بھی عوامی لیگ کے اقتدار کو یقینی بنانے کے لیے کئی ہتھکنڈے اختیار کیے۔ ان میں سب سے اہم ہتھکنڈا تھا، ون پارٹی سسٹم۔ شیخ حسینہ نے کچھ اور سوچا اور کیا۔ ماضی کی تمام حکومتوں کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے ارتکاب کے پیش نظر ۱۹۹۶ء میں بنگلہ دیش کی تمام سیاسی جماعتوں نے طے کیا کہ آئین میں ایک غیر جماعتی یعنی مکمل غیر جانب دار نگراں حکومت کی گنجائش رکھی جائے جو دھاندلی سے پاک انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔ اس سوچ پر عمل کرتے ہوئے نگراں حکومت کے سیٹ اپ کو آئین کا حصہ بنادیا گیا۔
۲۰۰۸ء میں ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بعد عوامی لیگ نے نگراں حکومت کو اپنے اقتدار کے تسلسل کی راہ میں دیوار گردانا۔ پارلیمنٹ میں اپنی عددی برتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی لیگ نے ترمیم کے ذریعے نگراں حکومت کا سیٹ اپ آئین سے نکال دیا۔
سازش اور قتل کی سیاست
بنگلہ دیش میں ۵ جنوری ۲۰۱۴ء کو انتخابات ہونے والے ہیں۔ ۳۰۰ رکنی پارلیمنٹ کے لیے عوامی لیگ اور حکمراں اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کے ۱۵۴؍ارکان کو پہلے ہی بلا مقابلہ منتخب قرار دیا جاچکا ہے۔ شیخ حسینہ جانتی ہیں کہ طاقت استعمال کیے بغیر وہ انتخابات نہیں جیت سکتیں۔ حال ہی میں دیگر سطحوں کے انتخابات میں عوامی لیگ اور اس کی ہم نوا جماعتوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ وہ انتخابات سے قبل ہی انتخابی فتح یقینی بنانے کے لیے سب کچھ کر رہی ہیں۔ انہوں نے عدلیہ، میڈیا اور فوج، تینوں کا سہارا لیا ہے۔ عدلیہ، پولیس اور فوج میں عوامی لیگ کے ہم خیال عناصر سے بھرپور مدد لی جارہی ہے۔ وہ کسی بھی مخالف کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سلسلے میں وہ آرمی کی ریپڈ ایکشن بٹالین سے بھرپور کام لے رہی ہیں۔ سابق صدر حسین محمد ارشاد نے ایک جماعتی حکومت کی مخالفت کی تو انہیں بھی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں گرفتار کیا گیا۔ اب وہ رہا تو ہوچکے ہیں مگر ان پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ جماعت اسلامی کے تمام مرکزی اور ثانوی حیثیت کے رہنماؤں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ جماعت اسلامی کے تمام سطحوں کے دفاتر مقفل کردیے گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی چھاترو شبر کو کسی بھی طرح کے اجتماع منعقد کرنے کی اجازت نہیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے بھی بیشتر رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ’’گارجین‘‘ کے کالم نگار جان پلگر نے ۱۵؍دسمبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں بنگلہ دیش کو جیل قرار دیا ہے۔
ماورائے عدالت قتل
بنگلہ دیش میں حکومت کے مخالفین کو ڈرانے دھمکانے اور ماورائے عدالت ختم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ۱۴؍دسمبر کو ۱۴؍افراد ماورائے عدالت قتل کردیے گئے۔ ان میں سے ۸ کو نوا کھلی کے نزدیک چھوٹے سے قصبے کمپنی گنج میں قتل کیا گیا۔ ۱۵؍دسمبر کو ملک گیر ہڑتال کے موقع پر پولیس نے ۹؍افراد کو قتل، ۳۰۰ کو زخمی اور ۲۰۰ کو گرفتار کیا۔ ۱۳؍دسمبر کو ریپڈ ایکشن بٹالین نے لکھمی پور کے ایک مخیر ڈاکٹر فیض احمد کو ان کے گھر میں گھس کر قتل کیا اور لاش چھت سے نیچے پھینک دی۔ ڈاکٹر فیض کی بیوہ ہاجرہ نے بتایا کہ ان کی لاش خاصی تلاش کے بعد ایک اسپتال سے ملی۔ ڈاکٹر فیض غریب مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ ان کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ اپنے علاقے میں جماعتِ اسلامی کے امیر تھے۔ ملک کی عدلیہ کو ایسی کسی بھی انسانیت سوز واردات میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے تک لانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔
قتل کی صنعت
مطلق العنانیت میں سب سے پہلے انصاف کا قتل ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت یہی کھیل جاری ہے۔ عوامی لیگ نے سرکاری اداروں میں اپنے ہم خیال لوگوں کو بھرپور انداز سے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ عدلیہ، پولیس اور فوج میں عوامی لیگ کے ہم خیال عناصر مخالفین کو ختم کرنے کی حکومتی مہم میں برابر کے شریک ہیں۔ حکومت سے ذرا بھی اختلاف رکھنے والے کو برداشت نہ کرنے کی پالیسی اپنالی گئی ہے۔ جہاں مطلق العنانیت ہو، وہاں مخالفین کو قتل کرنے کی صنعت تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔ ترکی میں منتخب وزیراعظم عدنان میندرس کو سزائے موت دی گئی۔ مصر میں ججوں نے ہزاروں افراد کو ریاستی مشینری کے ہاتھوں بہیمانہ انداز سے موت کے گھاٹ اتارے جانے کو یکسر نظر انداز کردیا مگر سید قطب اور ان کے ساتھیوں کو سزائے موت دینے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ سریندر کمار سنہا بھی عوامی لیگ کا ہم خیال جج ہے۔ اس نے انٹر نیشنل کرائم ٹریبونل کے جج مسٹر نجمل پر زور دیا کہ وہ تیزی سے سزائیں سنائیں۔ اس کے عوض انہیں سپریم کورٹ کا جج بنادیا جائے گا۔ یہ بات جسٹس نجمل نے برسلز میں مقیم دوست سے اسکائپ پر گفتگو میں بتائی۔ شیخ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمن کے دور میں چالیس ہزار مخالفین کو کسی بھی سطح کا مقدمہ چلائے بغیر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ مارکسسٹ پارٹی کے لیڈر سراج سکدر کو قتل کرنے کے بعد شیخ مجیب نے پارلیمنٹ میں خوشی سے چیختے ہوئے کہا تھا ’’کہاں ہے سراج سکدر؟‘‘
عبدالقادر مُلّاکے خلاف مقدمہ بے بنیاد تھا۔ ان پر ایک خاندان کے چھ افراد کے قتل کا مقدمہ تھا۔ گواہ صرف ایک خاتون مومنہ بیگم تھیں جو اس وقت تیرہ سال کی تھیں۔ ان کے تین بیانات میں واضح تضاد موجود تھے۔ فرید پور کے ایک گاؤں کا ایک شخص بھی عبدالقادر مُلّاکا ہم نام تھا اور ممکنہ طور پر یہ سب کچھ اسی نے کیا تھا۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں اتنے کمزور استغاثہ کی بنیاد پر سزا نہیں سنائی جاتی مگر بنگلہ دیش میں انصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل کو بے بنیاد مقدمات کی فیکٹری میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ عبدالقادر مُلّاکو اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ اس پر انسانی حقوق کی تمام تنظیموں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ عبدالقادر مُلّاکا کیس بنگلہ دیش میں ہائی کورٹ لیول پر سنائی جانے والی سزا کا واحد کیس ہے۔ یہ بنگلہ دیش میں سزائے موت کا واحد معلوم کیس ہے جس میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔ اپیل کے بغیر سزائے موت دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شمار ہوتا ہے۔
گھڑے ہوئے الزامات
جس واقعے کی بنیاد پر عبدالقادر مُلّاکو سزائے موت دی گئی، وہ اپریل ۱۹۷۱ء میں ہوا تھا۔ اس وقت عبدالقادر مُلّا ڈھاکا یونیورسٹی میں ایم ایس سی فزکس کے طالب علم تھے۔ ہنگاموں کے باعث یونیورسٹی بند تھی، اس لیے عبدالقادر مُلّا اپنے آبائی گاؤں فریدپور چلے گئے تھے۔ مذکورہ واقعہ ان کے ایک ہم نام نے کیا۔ اس موقع پر عبدالقادر مُلّاکا ڈھاکا میں موجود رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ عدالت نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس ہنگامہ خیز صورت حال میں عبدالقادر مُلّاکا ڈھاکا میں قیام ممکن ہی نہ تھا، کیونکہ ان کی کوئی نوکری تھی، نہ کوئی گھر تھا۔
عدالت نے اس نکتے پر بھی غور کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ کوئی بھی جرم کسی ارادے یا سبب کے بغیر سرزد نہیں ہوتا۔ عبدالقادر مُلّا کے کیس میں عدالت نے اس نکتے کو یکسر نظر انداز کیا کہ جس واقعے میں عبدالقادر مُلّاکو ملوث کیا گیا، وہ کسی بھی اعتبار سے کوئی مقصد یا سبب نہیں رکھتا تھا۔ مومنہ بیگم کا خاندان عبدالقادر مُلّاکے خاندان کا کسی بھی اعتبار سے دشمن نہ تھا۔ ایسے میں قتل کا کوئی مقصد یا سبب دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں عبدالقادر مُلّاکو کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ وہ کسی خاندان کے چھ افراد کو قتل کرتے؟ ہاں، شیخ مجیب کی عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے لوگوں نے بنگالی قوم پرستی کے نام پر ۱۹۷۱ء میں ان ہزاروں غیر بنگالی پاکستانیوں کو ضرور قتل کیا جو بنگلہ دیش کے قیام کے مخالف تھے۔
۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی جماعتِ اسلامی نے اخوت کے اسلامی اصولوں کا پرچار بند نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے کردار کے اعتبار سے بنگلہ دیش کی سیاست میں جماعتِ اسلامی کے رہنما بہت نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی نے کبھی نسلی یا لسانی تعصب کی بات نہیں کی۔ ایسے میں یہ سوچنا بھی فضول ہے کہ بنگالی نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والے مومنہ بیگم کے خاندان کو ایک اور بنگالی عبدالقادر مُلّانے قتل کیا ہوگا!
مزید پھانسیوں کے لیے بنگلہ دیشیوں کو تیار رہنا چاہیے۔ ان میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما بھی شامل ہیں۔ ملک پہلے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پانچ سال میں دو مرتبہ بنگلہ دیش بدعنوان ترین ممالک میں سر فہرست رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شیخ حسینہ واجد ریکارڈ پر ریکارڈ بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ تازہ ترین ریکارڈ یہ ہوگا کہ عدلیہ کو بے گناہوں کی پھانسی کے لیے بے دریغ استعمال کیا جائے۔
(“Planned Killing in Guise of Judicial Trial in Bangladesh”… “drfirozmahboobkamal.com”. December 16, 2013)
شہید عبدالقادر مُلّا کا آخری خط
میں عبدالقادر مُلّا……قیدی نمبر۳۸۹
سکنہ کال کوٹھڑی۔ سینٹرل جیل ڈھاکا۔بنگلہ دیش
مجھے نئے کپڑے فراہم کر دیے گئے ہیں۔ نہانے کا پانی بالٹی میں موجود ہے۔ سپاہی کا آرڈر ہے کہ جلدازجلد غسل کرلوں۔ کال کوٹھڑی میں بہت زیادہ آنا جانا لگا ہوا ہے۔ ہر سپاہی جھانک جھانک کر جارہا ہے۔ کچھ کے چہرے افسردہ اور کچھ چہروں پر خوشی نمایاں ہے۔ ان کا بار بار آنا جانا میری تلاوت میں خلل ڈال رہا ہے۔ میرے سامنے سیّد مودودیؒ کا تفہیم القرآن موجود ہے۔ترجمہ میرے سامنے ہے: ’’غم نہ کرو، افسردہ نہ ہو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو‘‘۔
سبحان اللہ! کتنا اطمینان ہے، ان کلمات میں۔ میری پوری زندگی کا حاصل مجھے ان آیات میں مل گیا ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان کتنی سانسیں ہیں؟ یہ ربّ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ مجھے اگر فکر ہے تو اپنی تحریک اور کارکنان کی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان سب پر اپنا فضل اور کرم قائم رکھے۔ آمین!
اللہ پاکستان کے مسلمانوں اور میرے بنگلہ دیش کے مسلمانوں پر آسانی فرمائے۔ دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو ناکام بنادے۔ آمین!
عشاء کی نماز کی تیاری کرنی ہے۔ پھر شاید وقت ملے، نہ ملے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ ہم سب نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے، اس پر ڈٹے رہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ راستہ سیدھا جنت کی طرف جاتا ہے۔
آپ کا مسلمان بھائی
عبدالقادر مُلّا
Leave a Reply