
میخائل کھودورکو وسکی کسی زمانے میں روس کا مالدار ترین آدمی تھا۔ مگر ہم نے جب انٹرویو کے لیے بلایا تو وہ ایک عام سی ٹیکسی میں پہنچا۔ اُس کے ساتھ باڈی گارڈز کا مجمع بھی نہ تھا اور کپڑے بھی کچھ زیادہ متاثر کن نہ تھے۔ جب تک اُس نے کریملن کی مخالفت نہیں کی تھی تب اُس کی گاڑی اچھی چل رہی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ اُس نے حکمراں طبقے کو اپنا مخالف بنالیا۔ اِس کے نتیجے میں اُسے اپنا بہت کچھ کھونا پڑا۔ اب وہ ڈھیلی ڈھالی پتلون اور شرٹ زیب تن کرتا ہے۔ میخائل کھودورکو وسکی نے دس سال جیل میں گزارے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں وہ کچھ نرم پڑا ہے مگر ولادیمیر پیوٹن کی حکومت کو گرانے کا اُس کا عزم ماند نہیں پڑا ہے۔ اب جبکہ آزادی مل چکی ہے، وہ ایک بار پھر پیوٹن کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں جُت گیا ہے۔
میخائل کھودو رکووسکی نے ۲۰ ستمبر ۲۰۱۴ء کو رہائی پائی۔ دوبارہ آزاد زندگی کی ابتدا کرتے ہوئے کھودورکو وسکی نے ’’اوپن رشیا‘‘ کے عنوان سے ایک آن لائن پلیٹ فارم شروع کیا جس کے ذریعے جمہوریت پسند روسی نوجوان اور منحرفین کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور مل کر کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ ابھی پورے یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ اوپن رشیا ایک بڑے پلیٹ فارم کی حیثیت سے کامیابی سے ہمکنار ہوگا یا نہیں، تاہم کھودورکو وسکی کا کہنا ہے کہ وہ روس میں حقیقی سیاسی تبدیلی یقینی بنانے کے لیے ہر سال لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کو تیار ہے۔ کسی دور میں کھودورکو وسکی کے پاس ۱۵؍ارب ڈالر تھے۔ اب اُس کے اثاثوں کی مالیت ۱۷؍ کروڑ ۵۰ لاکھ ڈالر تک ہے۔ کھودورکو وسکی نے متوازی حکومت قائم کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے تاکہ روس میں کسی بھی جوہری تبدیلی کی صورت میں متوازی کابینہ آسانی سے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے سکے۔ کھودورکو وسکی کا کہنا ہے کہ آج نہیں تو کل، پیوٹن کی حکومت ضرور ختم ہوگی۔
اس وقت کھودورکو وسکی اور اُس کی سی ذہنیت رکھنے والے دوسرے بہت سے صاحبِ حیثیت افراد کی کوشش یہ ہے کہ روسی حزب اختلاف کو زیادہ سے زیادہ منظم اور مضبوط کریں۔ دوسری طرف کریملن سرکار نے یوکرین پر لشکر کشی کے بعد بین الاقوامی توجہ حاصل کرلی ہے۔ ایسے میں روسی حکومت کی توجہ اندرون ملک منحرفین کے خلاف کریک ڈاؤن پر مرکوز ہے۔ حکومت نے مخالفین کی ویب سائٹس کو کنٹرول کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا شروع کر دیا ہے۔ نئی قانون سازی نے انٹرنیٹ پر ریاست کے کنٹرول میں اضافہ کردیا ہے۔ ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۲ء میں پیوٹن کے خلاف ملک گیر مظاہروں کی قیادت کرنے والے نام نہاد اپوزیشن لیڈر الیگزی نیولنی کو گزشتہ موسم سرما میں حکومت کے خلاف جانے اور ملک کے معاملات کو خراب کرنے کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد نظربند کر دیا گیا۔ نیولنی کے دوست اور معروف سیاسی کارکن لیوند والکوف کا کہنا ہے کہ اس وقت روس میں کوئی حقیقی اور منظم اپوزیشن نہیں۔ حکومت کے مخالفین پر مشتمل چند گروپ ہیں جو اپنے طور پر کام کر رہے ہیں۔ لیوند والکوف نے ۲۰۱۳ء میں نیولنی کی ماسکو کا میئر بننے کی مہم کا نظم و نسق سنبھالا تھا۔
کھودورکو وسکی نے اوپن رشیا کے ذریعے اپوزیشن کو منتظم اور متحد کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ وہ نئے ابھرنے والے اپوزیشن گروپوں کو بھی رابطے میں لانا چاہتا ہے۔ یوکرین پر لشکر کشی سے ولادیمیر پیوٹن کے لیے کچھ آسانی پیدا ہوئی۔ قوم پرستوں میں ان کی مقبولیت بڑھی مگر ساتھ ہی ساتھ معیشت میں بگاڑ بھی پیدا ہوا۔ مغربی دنیا نے یوکرین پر لشکر کشی کی پاداش میں جب روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تو معیشت پر دباؤ بڑھ گیا۔ جنگ مخالف لابی بھی متحرک ہوئی ہے۔ ماسکو میں اس حوالے سے ہونے والی ریلی میں تیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ افراطِ زر کی شرح بلند ہو رہی ہے۔ عوام کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ صورت حال اپوزیشن گروپوں کے لیے نعمت سے کم نہیں۔
کھودورکو وسکی سوئٹزر لینڈ کے علاقے سینٹ گیلن میں رہائش پذیر ہے۔ وہ روسی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی واحد شخصیت ہے جو خاطر خواہ مالیاتی وسائل رکھتی ہے اور قابل اعتماد انتخابی حلقہ بھی میسر ہے۔ روس کے معروف ماہر عمرانیات لیو گڈکوف کا کہنا ہے کہ کھودورکو وسکی کی پوزیشن بہت اچھی ہے۔ وہ نوجوانوں اور لبرل آبادی پر اچھا خاصا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کھودورکو وسکی تن تنہا ولادیمیر پیوٹن کو شکست نہیں دے سکتا مگر وہ اپنے وسائل کی مدد سے ایسی صورت حال ضرور پیدا کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں حکومت کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
کھودورکو وسکی کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ عوامی آدمی نہیں۔ سابق سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جن چند بڑے روسی سرمایہ داروں نے ریاستی وسائل کو کوڑیوں کے مول خریدا اُن میں کھودورکو وسکی بھی نمایاں تھا۔ اُس کی کمپنی یوکو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی چند بڑی آئل کمپنیز میں تبدیل ہوگئی۔ جن لوگوں نے ریاستی وسائل کی بندر بانٹ کی اور جی بھر کے اپنی تجوریاں بھریں، اُنہیں روس میں زیادہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ کھودورکو وسکی کو ثابت کرنا ہے کہ وہ عوامی آدمی ہے اور عوام کے مسائل حل کرنا چاہتا ہے۔
پیوٹن نے جب ۲۰۰۰ء میں پہلی بار اقتدار سنبھالا تو ملک کے مالدار ترین افراد کو بھی بلایا اور ان پر واضح کیا کہ وہ جس قدر بھی دولت کما چکے ہیں، وہ اُنہی کی رہے گی مگر ہاں انہیں ریاست کے چند اصولوں اور پابندیوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔ ماسکو کے نواح میں ولادیمیر پیوٹن کے گھر پر ہونے والی ملاقات میں روس کے ارب پتی افراد نے حکومت کی طرف سے لگائی جانے والی چند پابندیوں کو قبول کیا اور اپنا کام کرتے رہے۔
میخائل کھودورکو وسکی نے حکومت کی طرف سے دی جانے والی ہدایات کو مکمل طور پر قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے سے گریز کیا۔ اُس کی تیل کی تجارت بہت تیزی سے پھیل رہی تھی۔ کئی یورپی ممالک کے ساتھ مل کر وہ تیل کی پائپ لائن بچھانے کے منصوبے بھی بنارہا تھا۔ یہ گویا تیل کی تجارت پر روسی ریاست کی اجارہ داری کو چیلنج کرنا تھا۔ اس کے نتیجے میں وہ حکومت کی نظر میں بُرا بھی بن گیا اور پیوٹن سے ٹھن گئی۔ کھودورکو وسکی نے پیوٹن کے مخالفین کو بھرپور انداز سے نوازنا شروع کر دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ پیوٹن پر دباؤ بڑھائے تاکہ وہ اُس کے کاروباری مفادات کو زیادہ نقصان نہ پہنچا سکیں۔ مگر یہ سب کچھ کھودورکو وسکی کے خلاف گیا۔ پیوٹن نے اُس کے کاروباری مفادات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ پیوٹن نے اُن تمام بزنس ٹائکونز کو نشانہ بنانا شروع کیا جو اُن کے خلاف جا رہے تھے۔ ابتدا انہوں نے یوکو سے کی۔
اکتوبر ۲۰۰۳ء میں سائبیریا کے ایک ایئرپورٹ پر کمانڈوز نے کھودورکو وسکی کو اُس کے نجی طیارے سے گرفتار کر لیا۔ اُس کے بیشتر اثاثے ضبط کرنے کے بعد سرکاری اداروں کو فروخت کر دیے گئے۔ رجعت پسندوں نے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا۔ یہ تاثر مل رہا تھا کہ ملک کے مالدار ترین افراد سے فاضل اثاثے ضبط کر کے قومی خزانے کو مستحکم کیا جارہا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ تاثر بھی اُبھرا کہ روس کا قانونی نظام مخالفین کے خلاف کارروائیوں کے لیے بھرپور انداز سے استعمال کیا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف آواز بلند کرنے والے گروپوں نے اس صورت حال کے خلاف احتجاج کیا۔ ۲۰۰۴ء میں کھودورکو وسکی کی سزا ختم ہو رہی تھی مگر اُس پر دولت بٹورنے اور ٹیکس چوری کا الزام پھر عائد کر دیا گیا جس کے نتیجے میں اُسے مزید چار سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔
کھودورکو وسکی نے معافی مانگنا گوارا نہ کیا۔ گزشتہ دسمبر میں جب اُس کی والدہ کی حالت انتہائی نازک ہوگئی تو اُس نے ولادی میر پیوٹن سے درخواست کی کہ والدہ سے ملاقات کے لیے اُسے معافی دے کر رہا کر دیا جائے۔ پیوٹن نے یہ استدعا مان لی۔ کھودورکو وسکی کو سوچی میں موسم سرما کے اولمپکس سے دو ماہ قبل رہا کیا گیا۔ یہ اس بات کا اشارا تھا کہ پیوٹن کی پوزیشن بہت مستحکم تھی اور وہ اپنے مخالفین سے کچھ خاص خطرہ محسوس نہیں کر رہے تھے۔ ویسے بھی وہ جانتے تھے کہ کھودورکو وسکی اپنی والدہ سے ملنے جلد ملک سے باہر چلا جائے گا۔ کھودورکو وسکی نے رہائی پاتے ہی بیرون ملک کی پرواز پکڑی اور ماں کے پاس پہنچ گیا۔ گزشتہ اگست میں والدہ کے انتقال تک اُس نے سیاست کا نام نہیں لیا۔
یوکرین کی صورت حال نے روس کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ روسی حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دوسری طرف اندرون ملک اپوزیشن گروپوں نے بھی حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ جنگ مخالف لابی بھی میدان میں آگئی ہے۔ کھودورکو وسکی اور اُس کے ہم خیال لوگ چاہتے ہیں کہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیوٹن پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ اُن کے اقتدار کا خاتمہ ہو۔ پیوٹن نے مشرقی یورپ میں روس کا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اپنے دورِ اقتدار کا سب سے بڑا خطرہ مول لیا ہے۔ یوکرین کے علاقے کرائمیا پر حملہ کرکے اُسے روس سے منسلک کیا جاچکا ہے۔ یہ روس کی طرف سے بہت بڑا جوا ہے۔
یہ سیاسی و عسکری مہم جوئی روس کو بہت مہنگی پڑی ہے۔ امریکا اور یورپی یونین نے روس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں جن کے نتیجے میں معیشت کے لیے مشکلات بڑھی ہیں۔ افراطِ زر کی شرح بلند ہوتی جارہی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار روس میں سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں۔ تیل کی برآمدات پر روسی معیشت کا مدار ہے مگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ۹۰ ڈالر فی بیرل سے بھی گر گئی ہے جس کے نتیجے میں روسی بجٹ کو متوازن رکھنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔
کھودورکو وسکی اور اپوزیشن میں اُس کی ہم خیال شخصیات چاہتی ہیں کہ یوکرین پر حملے کے بعد لگنے والی پابندیوں کے نتیجے میں روسی معیشت کو پہنچنے والے نقصان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔ پیوٹن بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ مخالفین صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے بے تاب ہیں۔ ایسے میں اُن کی طرف سے بھی کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے جو معیشت اور سیاست کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کرے۔ کھودورکو وسکی نے صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے منحرفین پر فنڈنگ شروع کردی ہے۔ اُس نے انتخابات کی مانیٹرنگ اور دھاندلی کا سُراغ لگانے پر بھی خطیر رقوم خرچ کی ہیں۔ یہ سب کچھ بہت سی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ لیو والکوف کا کہنا ہے کہ کھودورکو وسکی اب بھی اپوزیشن پر مزید فنڈنگ کا ارادہ رکھتے ہیں، کیونکہ اُنہیں یقین ہے کہ دن بہ دن بڑھتی ہوئی مشکلات پیوٹن کے اقتدار کو اب زیادہ دن چلنے نہیں دیں گی۔
مگر اب ایسا بھی نہیں ہے کہ سب کچھ اُسی طرح ہوگا جس طرح کھودورکو وسکی اور اُس کے رفقا چاہتے ہیں۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کسی بھی کوشش کو سیکورٹی فورسز بھرپور طاقت سے ناکام بنا دیں گی۔ پیوٹن کی پوزیشن کمزور ہے مگر ایسی کمزور بھی نہیں کہ راتوں رات سب کچھ ان کے خلاف چلا جائے۔ کھودورکو وسکی بھی اس بات کو سمجھتا ہے۔ اسے بھی اندازہ ہے کہ عوام کو پیوٹن کے خلاف متحرک کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ تمام ریاستی وسائل بھی پیوٹن کے کنٹرول میں ہیں۔ کوئی بھی بڑی سیاسی تبدیلی اس وقت ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔ پیوٹن کے تمام مخالفین کو ان کے خلاف بھرپور انداز سے متحرک ہونے کے لیے مزید دو سال انتظار کرنا پڑے گا۔ روس میں ۲۰۱۶ء انتخابات کا سال ہے۔ تب کھودورکو وسکی اور اُس کے ہم خیال افراد لوگوں کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ اگر یوکرین کی صورت حال کے تناظر میں لگنے والی پابندیاں طول پکڑ گئیں تو پیوٹن کی پوزیشن کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے گی اور اُن کے لیے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا یا طول دینا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔
پیوٹن کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومت بچانے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے کیا کرنا ہے۔ جب کھودورکو وسکی نے اوپن رشیا کے نام سے آن لائن فورم لانچ کیا، تب پیوٹن نے اعلان کیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر حکومت انٹرنیٹ پر پابندی بھی عائد کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس کو امریکا اور یورپ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ خطرات کا سامنا کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنا بھی خارج از امکان نہیں۔ یوکرین کی صورت حال نے کھودورکو وسکی کے لیے امکانات پیدا کیے ہیں۔ اگر بین الاقوامی پابندیاں برقرار رہیں تو ملک میں رائے عامہ پیوٹن کے خلاف ہوتی جائے گی۔ ایسی کسی بھی صورت حال میں پیوٹن کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تصادم تک بھی نوبت پہنچ سکتی ہے۔
“Plotting Putin’s downfall”. (“Time”. Oct.3,2014)
Leave a Reply