آج کل مسلمانوں کی آپس کی گفتگو میں یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے: ’’ہم ایک تکثیری سماج (Plural Society) میں رہتے ہیں۔ ہمیں اس کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے‘‘۔ مسلمانوں کی آپس کی گفتگو کے علاوہ بعض غیر مسلم دانش مند بھی مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ وہ تکثیری سماج کے تقاضوں کو سمجھیں اور اُن کا لحاظ رکھیں۔ چنانچہ یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ’’تکثیری سماج‘‘ کی اس مقبولِ عام اصطلاح کے معنی متعین کیے جائیں۔
لغوی مفہوم
Illustrated آکسفورڈ ڈکشنری میں Pluralism کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے:
A form of society in which the members of minority groups maintain their independent
cultural traditions (ایسا سماج جس میں رہنے والے اقلیتی گروہ اپنی تہذیبی روایات پرقائم ہوں) بہ حوالہ ۱۹۹۸ء ایڈیشن / دہلی
آکسفورڈ ریفرنس ڈکشنری میں Pluralism کے تحت ذیل کا مفہوم درج کیا گیا ہے:
The existence or toleration in society of a number of groups that belong to different races or have different political or religius beliefs
(سماج میں ایسے گروہوں کی موجودگی یا اُن کے تئیں رواداری جن کا تعلق مختلف نسلوں سے ہو یا جن کے مذہبی و سیاسی تصورات مختلف ہوں)۔ [بحوالہ ۲۰۰۱ء ایڈیشن نیویارک]
برٹانیکا ریفرنس انسائیکلو پیڈیا میں Pluralism کے تحت ذیل کی عبارت درج ہے:
’’Pluralism اِس تصور کا نام ہے کہ لبرل جمہوری نظام کے اندر اقتدار مختلف معاشی طبقات اور نظریاتی گروہوں کے درمیان منقسم ہوتا ہے۔ (یا منقسم ہونا چاہیے) بجائے اس کے کہ اقتدار پر صرف ایک اعلیٰ طبقے کا قبضہ ہو Pluralism کے مطابق تنوع کسی بھی سماج کے لیے مفید شے ہے۔ چنانچہ تہذیبی گروہ ہوں یا پیشہ ورانہ انجمنیں، اُن کو خود مختاری حاصل ہونی چاہیے۔ ان متنوع گروہوں میں مذہبی گروہ، ٹریڈ یونین اور نسلی اقلیتیں سب شامل ہیں) بہ حوالہ ۲۰۰۵ء ایڈیشن۔ نئی دہلی
اِن عبارات کی روشنی میں Pluralsim یا کثرتیّت کے دو معنیٰ سامنے آتے ہیں۔ ایک معنیٰ کے لحاظ سے کثرتیت ایک امرِ واقعہ کا نام ہے اور وہ واقعہ ہے ’’کسی سماج میں متنوع گروہوں کی موجودگی‘‘۔ درج بالا تشریحات میں سے اول الذکر تشریح میں یہی مفہوم نمایاں ہے اور دوسری تشریح میں بھی اس کا ذکر ہے۔ لیکن کثرتیت یا Pluralism کی اصطلاح کے ایک اور معنیٰ بھی ہیں اور اس معنیٰ کے لحاظ سے کثرتیت ایک ’’رویے‘‘ (Attitude) یا رجحان کا نام ہے۔ یہ رجحان ہے ’’سماج میں متنوع گروہوں کی موجودگی کو ایک پسندیدہ شے سمجھنے کا یا اس تنوع کے سلسلے میں رواداری برتنے کا‘‘۔ کثرتیت کی اصطلاح کے اِس مفہوم کا تذکرہ برٹانیکا ریفرنس انسائیکلوپیڈیا کی تشریح میں ہے جو اوپر درج کی گئی ہے اور دوسری تشریح میں بھی اس مفہوم کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
کثرتیت ایک واقعہ
یہ بات کہ انسانی سماج میں مختلف اور متنوع گروہ موجود ہیں، ایک واقعہ ہے۔ اِس واقعہ کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی سماج میں یہ تنوع رنگ، نسل، علاقے زبان کا بھی ہے، لباس، طرزِ بودوباش اور ثقافتی مظاہر کا بھی ہے اور عقائد، نظریات اور فلسفۂ حیات کا بھی۔ قرآن مجید بھی اس واقعہ کا تذکرہ کرتا ہے۔ انسانوں کے درمیان عقیدے اور دین کے فرق کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید بتاتا ہے کہ اس فرق کی وجہ وہ آزادی ہے جو اللہ نے انسانوں کو دی ہے۔ یہ آزادی اللہ کی مشیت کی بنا پر ہے۔ اُس نے انسانوں کو جبراً کسی ایک راستے کے اختیار کرنے کا پابند نہیں کیا ہے:
’’یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سنا رہے ہیں اور (اے محمدﷺ) تم یقینا اُن لوگوں میں سے ہو جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے۔ ان میں کوئی ایسا تھا، جس سے خدا خود ہم کلام ہوا، کسی کو اُس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے اور (آخر میں) عیسیٰ ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روحِ پاک سے اُس کی مدد کی۔ اگر اللہ چاہتا تو ممکن نہ تھا کہ ان رسولوں کی آمد کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے وہ آپس میں لڑتے لیکن (اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبراً اختلاف سے روکے اس وجہ سے) انہوں نے باہم اختلاف کیا، پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی، ہاں اللہ چاہتا تو وہ ہر گز نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے‘‘۔ (البقرہ: ۲۵۲۔ ۲۵۳)
عقیدہ و مذہب کے اختلاف کے علاوہ انسانوں میں رنگ اور زبان کا اختلاف بھی موجود ہے۔ قرآن مجید اس کا تذکرہ کرتا ہے:’’اور اس (اللہ) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے، یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ دانش مند لوگوں کے لیے‘‘۔ (الروم: ۲۲)
سورہ فاطر میں ہے:
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمانوں سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے‘‘۔ (فاطر: ۲۷۔ ۲۸)
ان آیات کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں میں اختلاف اور تنوع کا وجود بِلاشبہ ایک واقعہ ہے۔ اس امر واقعہ سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔
کثرتیت بطور رویہ
اِس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے بعد کہ انسانی سماج میں تنوع اور اختلاف عملاً موجود ہے، یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ اختلاف پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ، مستحسن ہے یا غیر مستحسن۔ قرآن مجید اس سلسلے میں اختلاف اور تنوع کی دو قسموں میں واضح فرق کرتا ہے۔
(الف) جہاں تک انسانوں میں رنگ روپ، نسل، علاقے اور زبان کے فرق کا تعلق ہے، قرآن مجید اس نوعیت کے اختلافات کے سلسلے میں کسی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرتا۔ اُس کے نزدیک اِن اختلافات سے بعض مصالح وابستہ ہیں:
’’اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔ (الحجرات: ۳۱)
(ب) البتہ جہاں تک دین اور عقیدے کے اختلاف کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے تحت اس اختلاف کی آزادی تو انسانوں کو دی ہے، لیکن وہ کفر کے رویے کو پسند نہیں کرتا۔ قرآن مجید میں ہے:
’’اُسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اُس جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور اُسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے۔ وہ تمہاری مائوں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے۔ پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو؟ اگر تم کفر کرو اللہ تم سے بے نیاز ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا۔ اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ آخر کار تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے‘‘۔ (الزمر: ۶۔ ۷)
اِس لیے اُن لوگوں کی رائے غلط ہے جو سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید نے انسانی سماج کے تنوع کو (خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو) ہر حال میں پسندیدہ قرار دیا ہے اور دین و عقیدے کی گمراہی سے جو اختلاف نمودار ہوتا ہے اس پر اپنی ناگواری کا اظہار نہیں کیا ہے۔ مندرجہ بالا آیت میں یہ صاف ارشاد موجود ہے کہ ’’اللہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
رنگ و نسل کے تنّوع کی حکمت
سورہ حجرات میں اللہ تعالیٰ نے قبیلوں اور برادریوں کے فرق کی حکمت یہ بتائی ہے کہ انسان ایک دوسرے کو پہچان سکیں۔ اس فرق کی بنیاد پر کسی تعصب کی گنجائش نہیں ہے۔ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ اِس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’اس آیت میں پوری نوعِ انسانی کو خطاب کر کے اُس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے، جو دنیا میںہمیشہ عالم گیر فساد کی مؤجب بنی رہی ہے یعنی نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کا تعصب۔ اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہی ہے، ایک ہی مرد اور ایک عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ درحقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شروع ہوئی تھیں۔ دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری امر تھا مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہر گز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ اور نیچ، شریف اور کمین، برتر اور کمتر کے امتیازات قائم کیے جائیں، ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے، ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں اور ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوق جمائے۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ اُن کے درمیان باہمی تعاون اور تعارف کی فطری صورت یہی تھی‘‘۔ (ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی)
گویا انسانی گروہ جب ایک دوسرے کی منفرد دو مخصوص صلاحیتوں کو ’’پہچان‘‘ لیتے ہیں تو اُن کے لیے باہمی تعاون کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ کوئی قبیلہ تجارت کی خاص صلاحیت رکھتا ہے، کوئی کھیتی باڑی میں آگے ہوتا ہے، کسی کے افراد صنعت و حرفت میں پیش قدمی کر کے اپنی مخصوص مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کسی قبیلے کے لوگ زیادہ فصیح اور زبان پر قدرت رکھنے والے ہوتے ہیں۔ جب انسانی نسلوں اور قوموں کی ان متنوع صلاحیتوں کو پہچان لیا جاتا ہے (ان صلاحیتوں کو Recognition حاصل ہو جاتا ہے) تو انسانی گروہوں کے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے کی اور باہمی تعاون کرنے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔
اسلامی معاشرے میں مختلف نسلوں کا تعاونِ باہمی
سید قطب لکھتے ہیں:
’’اسلامی معاشرے ہی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں اجتماع کا بنیادی رشتہ عقیدے پر استوار ہوتا ہے اور اس میں عقیدہ ہی وہ سند ہوتا ہے جو کالے اور گورے اور احمر و زرد، عربی اور رومی، فارسی اور حبشی اور اُن تمام اقوام کو روئے زمین پر آباد ہیں، ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتا ہے، جس کا پروردگار صرف اللہ ہوتا ہے‘‘۔ (معالم فی الطریق۔ باب: ۷)
’’یہ وہ خدا پرست اُمت ہے جس کے ہراول دستے کی شان یہ تھی کہ اُس میں عرب کے معزز خاندان کے چشم و چراغ ابوبکر شامل تھے۔ تو حبش کے بلال او روم کے صہیب اور فارس کے سلمان بھی موجود تھے۔ بعد کی نسلیں بھی ہر دور میں اسی دل نشین انداز اور حیرت انگیز نظام کے جلو میں یکے بعد دیگرے منصہ شہود پر ابھرتی رہیں۔ عقیدہ توحید اس امت کی قومیت رہی ہے، دارالاسلام اس کا وطن رہا ہے اور اللہ کی حاکمیت اس کا امتیازی شعار رہا ہے اور قرآن اس کا دستورِ حیات رہا ہے‘‘۔ (ایضاً باب نہم)
چنانچہ برٹانیکا ریفرنس انسائیکلوپیڈیا میں بیان کردہ اِس خیال سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ جہاں تک رنگ و نسل کے تنوع کا تعلق ہے، اس نوعیت کے تنوع کی موجودگی، کسی سماج کے لیے ایک مفید شے ہے۔ اس لیے کہ مختلف گروہ مختلف قسم کی صلاحیتیں رکھتے ہیں اور ان گوناگوں صلاحیتوں سے پورے سماج کو فائدہ پہنچتا ہے۔ رنگ و نسل کے فرق کو ناپسندیدہ سمجھنا ایک غلط رجحان ہے۔ اسلام نے اس غلط رجحان کو اور اس پر مبنی تعصب کو ختم کیا ہے۔
دین اور عقیدے کا تنّوع محض گوارا ہے، مستحسن نہیں
کثرتیت (Pluralism) کی تشریح میں برٹانیکا ریفرنس انسائیکلوپیڈا میں جو نقطہ نظر درج ہے اس کے مطابق تو سماج میں ہر قسم کا تنّوع پسندیدہ ہے۔ لیکن اسلامی نقطہ نظر کے مطابق رنگ و نسل اور قبیلہ و برادری کا تنوع تو انسانی سماجوں کے لیے مفید ہے۔ لیکن دین اور عقیدے کے اختلاف کو کوئی پسندیدہ شئے نہیں قرار دیا جا سکتا۔ خود اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کے کافرانہ طرزِ عمل کو پسندیدہ نہیں قرار دیا ہے۔ بلکہ اُس پر اپنی ’’عدم رضا‘‘ کا اظہار کیا ہے۔
یہی اندازِ فکر اہل ایمان کا بھی ہونا چاہیے۔اس سیاق میں اس مقبولِ عام خیال پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو اکثر سننے میں آتا ہے۔ یہ خیال درج ذیل ہے:
’’ہمارا ملک مختلف مذاہب کا گلدستہ ہے۔ اس کی رونق کے لیے اس میں مختلف قسم کے پھولوں کی موجودگی ضروری ہے۔ اگر ایک ہی طرح کے پھول ہوں تو گلدستے میں حُسن نہیں آ سکتا‘‘۔
مندرجہ بالا خیال کثرتیت (Pluralism) کے اُس مقبولِ عام مفہوم کی نمائندگی کرتا ہے جس کے مطابق دین اور عقیدے کا اختلاف و تنوع ایک پسندیدہ شئے ہے۔ لیکن اسلام کا نقطۂ نظر یہ نہیں ہے۔ جو مسلمان دانشور (غالباً بِلا غور و فکر کے) مختلف ادیان کے وجود کو گلدستے سے تعبیر کرتے ہیں اُن کو اپنے اِس خیال پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ حق اور باطل دونوں کو پھول سے تشبیہ دینا حق اور باطل کے فرق کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ بطور امرِ واقعہ تو حق اور باطل دونوں کا وجود تسلیم کیا جانا چاہیے لیکن دونوں کو یکساں پسندیدہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔
رواداری
دین اور عقیدے کے اختلاف کو مستحسن قرار نہ دینے کے باوجود اسلام نے عملی رویے میں رواداری کی تعلیم دی ہے۔ رواداری کے اِس عملی رویے کی بنیاد ’’عدم اکراہ‘‘ کا اسلامی اصول ہے۔ حق اور باطل کی اطمینان بخش وضاحت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو آزاد چھوڑا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے برحق عقیدے کا یا باطل عقائد کا انتخاب کریں۔ اختیار کی اس آزادی کا استعمال انسان غلط بھی کر سکتا ہے اور صحیح بھی۔ اس سلسلے میں آخرت میں اُسے جواب دہی کرنی ہو گی۔ اختیار کے غلط استعمال اور صحیح استعمال کا انجام بہرحال یکساں نہیں ہو گا۔ اس حقیقت کے باوجود انسانوں کے اس اختیار کو سلب نہیں کیا جا سکتا کہ وہ چاہیں تو حق کو قبول کریں اور چاہیں تو اُس کو رد کر دیں۔
اہلِ ایمان کا رویہ بھی ’’عدم اکراہ‘‘ کے اصول کے تابع ہونا چاہیے یعنی وہ انسانوں کو حق کی طرف لازماً بلائیں اور اتمامِ حجت کی حد تک حق کو واضح کر دیں۔ لیکن قبولِ حق کے سلسلے میں کسی جبر و اکراہ سے کام نہ لیں۔ بلکہ انسانوں کو آزاد چھوڑ دیں جس طرح اللہ نے اُن کو آزاد چھوڑا ہے۔
’’عدم اکراہ‘‘ کے بنیادی اصول کے علاوہ اسلام نے رواداری کے سلسلے میں دیگر بنیادی ہدایات بھی دی ہیں:
(الف) شرک کی مدلّل اور واضح تردید کی جائے لیکن معبود ان باطلہ کے سلسلے میں ناشائستہ الفاظ استعمال نہ کیے جائیں (جو گالی کی تعریف میں آتے ہوں)
(ب) اگر اقتدار اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو تو دیگر ادیان کے پیروئوں کو اپنے دین کے مطابق دینی مراسم انجام دینے کی پوری آزادی دی جائے۔
(ج) اہلِ ایمان کے اقتدار کی صورت میں مذکورہ بالا آزادی کے علاوہ دیگر ادیان کے حاملین کو تمام ثقافتی امور میں بھی پوری آزادی دی جائے یعنی وہ اپنا نظامِ تعلیم چلا سکیں اور معاشرتی معاملات میں اپنے مذہبی قانون پر عمل کر سکیں اور اس حد تک اپنا عدالتی نظام بھی قائم کر سکیں۔ اصولی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اُن کو تہذیبی خود اختیاری (Cultural Autonomy) دی جائے۔
(د) اہلِ ایمان اگر اقتدار رکھتے ہوں تووہ غیر مسلم شہریوں کو مجبور نہ کریں کہ وہ اسلامی ریاست کے دفاع میں عملاً بھی حصہ لیں۔ بس ان کے مالی تعاون کو کافی سمجھا جائے گا۔
(ہ) اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو کسی ایسے کام کے لیے مجبور نہ کیا جائے جو ان کے معتقدات سے ٹکراتا ہو۔
مظاہر کا تنوع
تمدنی مظاہر کا اطلاق کھانے پینے کے انداز، لباس، طرزِ بودو باش، تقریبات، تفریحات اور ناموں کے انتخاب وغیرہ پر ہوتا ہے۔ ان مظاہر کا تعلق ایک طرف دین کی بنیادی تعلیمات سے ہے اور دوسری طرف متنوع اور بدلتے ہوئے حالات و ظروف سے۔ چنانچہ اس موضوع پر غور و فکر کرتے وقت دونوں پہلوئوں پر نگاہ رکھنا ضروری ہے۔
اسلام نے ان امور کے سلسلے میں بعض بنیادی ہدایات دی ہیں اور اس کے بعد اہلِ ایمان کو آزاد چھوڑا ہے۔ کھانے پینے کے سلسلے میں اسلام نے اہلِ ایمان کو ہدایت دی ہے کہ وہ حلال و طیب چیزیں کھائیں اور اِسراف نہ کریں۔ ان ہدایات کے تحت جغرافیائی حالات کے لحاظ سے اور اپنے اپنے ذوق کے مطابق مسلمان ہر قسم کے کھانے کھا سکتے ہیں۔ اسلام میں اس تنوع کی پوری گنجائش ہے۔
لباس کے سلسلے میں چند اسلامی ہدایات یہ ہیں کہ ستر کو ڈھکا جائے، مردوں اور عورتوں کے لباس ایک جیسے نہ ہوں۔ مرد ریشمی لباس نہ پہنیں، لباس حیا اور تقویٰ کا آئینہ دار ہو اور اعتدال کے ساتھ زینت کا اہتمام کیا جائے۔ اسلامی ہدایات کا لحاظ کرتے ہوئے جس لباس کو بھی استعمال کیا جائے گا، اسلام میں اُ س کی اجازت ہے۔
عام طور پر تمام تمدنی مظاہر کے سلسلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شرعی حدود کی پابندی کی جائے اور اسلامی اقدار کی جھلک تمام مظاہر میں نظر آئے۔ چنانچہ تمدنی مظاہر کے سلسلے میں محدود اور پابند کثرتیت (Limited and Regulated Pluralism) کی اسلام اجازت دیتا ہے۔
مکاتبِ فکر
قرآن و سنت کی حدود کے اندر دین کے مختلف پہلوئوں کی تفصیلات مرتب کرنے میں اہلِ ایمان کے درمیان پوری ایمانداری کے ساتھ اختلافات ہو سکتے ہیں۔ اس نوعیت کی کثرتیت (Pluralism) کی بھی اسلام میں پوری گنجائش ہے۔ نظامِ تزکیہ، فقہ، طریقِ تفسیر اور کلام سب کے اندر مختلف مکاتب فکر ہو سکتے ہیں۔ بشرط کہ کتاب و سنت کے اندر اُن کی گنجائش ہو۔ ان مکاتب فکر کے درمیان صحت مند تبادلہ خیال کی روایت قائم ہونی چاہیے۔ تاکہ مسلمان معاشرہ ہر میدان میں پیش قدمی کر سکے۔
(بحوالہ: اشارات ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply