صدام حسین کے خلاف مقدمے کے نکات

ایران نے صدام حسین کے خلاف تیار کردہ الزامات کے حوالے سے اعتراض اٹھایا ہے۔ عراقی ڈکٹیٹر کے خلاف جو ابتدائی الزامات ہیں‘ وہ ۱۹۹۰ء میں کویت پر عراق کی جارحیت‘ ۱۹۹۱ء کی جنگِ خلیج کے بعد کردوں اور شیعوں کی جانب سے ہوئی بغاوت کو کچلنے کے لیے ان پر بے انتہا ظلم ڈھانا‘ ۸۸۔۱۹۸۷ء میں کردوں کا نسلی خاتمہ اور ۱۹۸۸ء میں کردوں کے گائوں پر کیمیائی گیس سے حملہ کرنا ہیں۔ ۸۸۔۱۹۸۰ء تک عراق کے ذریعہ ایران پر مسلط کردہ جنگ کا الزامات کی فہرست میں شامل نہ کیا جانا ایرانیوں کی ناراضی کا سبب بنا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ایران پر جارحیت اور ایرانی سپاہیوں پر کیمیائی گیس کا استعمال ابتدا میں صدام کے خلاف تیار کردہ الزامات کی فہرست میں شامل تھا لیکن بغداد میں جج نے انہیں بیان نہیں کیا۔ ۹ جولائی کو اپنے جمعہ کے خطبے میں سابق ایرانی صدر آیت اﷲ ہاشمی رفسنجانی نے سوال اٹھایا کہ کیوں ایران عراق ۸ سالہ جنگ کے حوالے سے صدام حسین سے باز پرس نہیں کی گئی‘ جس میں اس کا اہم کردار تھا۔ آیت اﷲ رفسنجانی نے فرمایا کہ ’’اگر عراقی عدالت صدام حسین کی ذمہ داری عراق ایران ۸ سالہ جنگ میں شامل کرنے سے گریز کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عدالت امریکی حکم پر بنائی گئی ہے۔ آیت اﷲ رفسنجانی نے کہا کہ صدام کے خلاف مقدمہ میں اگر کیمیائی اسلحوں کے استعمال کو شامل کر لیا جائے تو اس سے ایران کی اسلامی حکومت کو ختم کرنے کے لیے مغرب کی صدام کو حمایت کا بھانڈہ پھوٹ جائے گا۔ ایران ۱۹۸۹ء میں آیت اﷲ خمینی کی قیادت میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب کے نتیجے میں ایک اسلامی جمہوریہ میں تبدیل ہو گیا۔ اس انقلاب نے امریکا نواز شاہ محمد رضا پہلوی کو اقتدار سے اتار پھینکا۔ ایک سال بعد ایران کو عراق کے ساتھ ایک جنگ میں جھونک دیا گیا‘ جس کے متعلق عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ امریکا کی بھرپور حمایت سے شروع کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ صرف کویت کے خلاف صدام کی جنگ کا زور و شور سے تذکرہ کیوں ہے جو صرف چند ماہ جاری رہی اور ایران کے خلاف جنگ جو ۸ برس تک جاری رہی‘ اس کے ذکر سے کیوں گریز کیا گیا؟

نئی منتخب مجلس (پارلیمنٹ) کے اسپیکر غلام حداد عادل نے بھی اس مقدمہ کو امریکی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ روزنامہ تہران ٹائمز نے اپنے جولائی کے شمارہ میں اول صفحہ پر شائع ہونے والے تبصرے میں کہا کہ ’’امریکی افسران صدام حسین کا مقدمہ بند کمروں میں چلانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ایسی اطلاعات کو پھیلنے سے روکا جاسکے‘ جو ۸۸۔۱۹۸۰ء ایران عراق جنگ میں امریکا کی جانب سے صدام کی حمایت سے متعلق ہیں‘‘۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آدم اِبرٹز نے کہا ہے کہ ’’یہ بات قابلِ فہم ہے کہ ایرانیوں کو جو کہ عراق کی جنگ میں بھیانک طور پر متاثر رہے ہیں‘ اس جنگ میں صدام کی ذمہ داری کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہوں‘‘۔ اس کا کہنا ہے کہ صدام حسین کے خلاف ۸۸۔۱۹۸۰ء جنگ کے الزام کو شامل نہ کرنے کی کئی ممکنہ وجوہات ہیں‘‘۔ رابرٹز نے کہا کہ ’’یہ بات واضح ہے کہ کئی مغربی دارالحکومتوں میں اس جنگ میں اپنی حکومتوں کے کردار کے حوالے سے پریشانی پائی جاتی ہے‘ ایران کے جنرل پروزیکوٹر آیت اﷲ عبدالنبی غازی نے کہا ہے کہ ایران عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کے خلاف قانونی اقدام کرنے کے لیے بین الاقوامی قانون کو حرکت میں لائے گا۔ انہوں نے موجودہ عراقی عدالت کی حیثیت کو چیلنج کیا جو صدام کے خلاف الزامات کا جائزہ لے رہی ہے اور کہا کہ یہ رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا کام کر رہی ہے اور یہ کہ یہ امریکی قابض فوج کے زیرِ اثر ہے۔ غازی نے کہا کہ ان کا دفتر عراقی عدالت کو صدام کے جرائم کی ایک فہرست فراہم کرے گا‘ جن کا ارتکاب اس نے ایرانی عوام کے خلاف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ایرانی عدالت صدام حسین کے خلاف شکایت درج کرنے کے حوالے سے عراقی عدالت کے دائرۂ اختیار کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔

ایرانی عدالت کے سربراہ آیت اﷲ محمود ہاشمی شہرودی نے کہا ہے کہ ایرانی عدالت صدام حسین کے ان جرائم کا سروے کر رہی ہے جو امریکا کے اشارے اور اس کے مفاد کی خاطر انجام دیے گئے۔ ۱۴ جولائی کو پریس سے بات چیت کرتے ہوئے آیت اﷲ شہرودی نے زور دیا کہ ’’ہم ایسے تمام ممکنہ وسائل کو کام میں لانا چاہتے ہیں تاکہ ایرانی قوم کے وہ حقوق حاصل کیے جائیں جنہیں نظرانداز کر دیا گیا تھا اور اس کے لیے ہم ٹھوس اور فیصلہ کُن ثبوت کے ساتھ صدام کے خلاف اس عدالت میں اپنی شکایات درج کرائیں گے۔ اس امر کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ صدام نے متعدد ایرانی شہروں پر حملہ کر کے ایرانی قوم کو شدید آلام و مصائب میں مبتلا کیا‘ آیت اﷲ شہرودی یہ بھی کہا کہ ’’یہ کہے بغیر بھی واضح ہے کہ ایرانی قوم کے حقوق صرف عدالت میں شکایات کرانے سے حاصل نہیں ہو سکتے‘‘۔ آیت اﷲ شہرودی نے مزید کہا کہ ’’ہم نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ صدام کے جنگی جرائم کے خلاف بین الاقوامی جنگی جرائم کی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

(بشکریہ: ہفتہ روزہ ’’ریڈینس‘‘۔ نئی دہلی۔ ۳۱۔۲۵ جولائی ۲۰۰۴ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*