
حکمران کمیونسٹ پارٹی (این سی پی) میں تنازع کے بعد نیپالی وزیراعظم کے پی شرما اولی نے ۲۰ دسمبر کو ۲۷۵ رکنی پارلیمان کو تحلیل کرنے کی سفارش کر دی، جس کے بعد ہمالیائی مملکت شدید سیاسی بحران کا شکار ہوگئی۔ وزیراعظم کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے صدر بی ڈی بھنڈاری نے ایوان کو تحلیل کیا اور اپریل یا مئی میں نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ جس کے نتیجے میں ملک بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ احتجاج کی قیادت حریف گروپ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم پشپا کمال دہل ’’پراچندا‘‘ کر رہے ہیں، جو حکمران جماعت کے شریک چیئرمین بھی ہیں۔ پارلیمان کی تحلیل کے خلاف عوامی احتجاج زور پکڑتا جارہا ہے۔ نیپال کی اعلیٰ عدالت نے صدر کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ایک درجن درخواستوں کی سماعت شروع کر دی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ مستقبل کے واقعات کی صورت گری کرے گا۔ اس دوران پراچندا نے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور اگلے انتخابات میں کامیابی کے لیے اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان کے مطابق ان کو پارٹی کی دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے نیپالی وزیراعظم اولی کی جگہ پارلیمانی پارٹی کی قیادت بھی سنبھال لی ہے اور پروگجی مادھو کمار کو پارٹی کا شریک چیئرمین مقرر کیا ہے۔ پراچندا نیپال میں ایک دہائی ۱۹۹۶-۲۰۰۶ء تک جاری رہنے والی طویل ماؤ نواز شورش کے دوران ایک پُرعزم رہنما بن کر ابھرے تھے۔ اس وجہ سے انہیں اندرونی سطح پر پارٹی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس حمایت کے ذریعے وہ ملک میں وزیراعظم کی تبدیلی چاہتے تھے، لیکن اولی نے حیران کن طور پر پارلیمان کو ہی تحلیل کرا دیا۔
درحقیقت نیپال میں موجودہ سیاسی بحران کی وجہ دو طاقتور رہنماؤں کے درمیان اقتدار کی لڑائی کی طویل تاریخ ہے۔ اس لڑائی کو رکوانے کے لیے چینی کمیونسٹ رہنما وقتاً فوقتاً مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ ان اختلاف کا آغاز پراچندا کی قیادت میں ایک دہائی تک جاری رہنے والی ماؤ نواز شورش کے دوران ہوا تھا۔ شورش کے دوران لوگ قتل ہوئے، پھانسی دی گئی، اغوا ہوئے اور بدترین جرائم دیکھنے میں آئے۔ جس کے نتیجے میں تقریباً ۱۷ ہزار لوگ مارے گئے اور ہزاروں بے گھر ہوگئے۔ لینن نظریے کے حامی ماؤ نواز پراچندا گروپ نے نیپالی بادشاہت کے خاتمے اور عوامی جمہوریہ کے قیام کے لیے پُرتشدد کارروائیوں کو جائز ٹھہرایا تھا۔ جبکہ اعتدال پسند اولی بادشاہت کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر پُرتشدد کارروائیوں کے خلاف تھے۔ تاہم ۲۰۰۶ء میں جامع امن معاہدے اور شورش کے خاتمے کے بعد دونوں رہنما مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم پر قریب آگئے تھے۔ ۲۰۱۷ء کے عام انتخابات میں ماؤ نوازوں نے پارلیمان کی ۲۷۵ میں سے ۱۷۵ نشستیں حاصل کرلیں۔ اس متاثر کُن کامیابی نے دونوں رہنماؤں کے تعلقات کو بدل کر رکھ دیا۔ صرف ایک سال کے بعد اولی کی قیادت والی نیپال کی کمیونسٹ پارٹی (یونائیٹڈ مارکسسٹ) اور پراچندا کی سربراہی میں نیپال کمیونسٹ پارٹی (ماؤ نواز) نے مل کر نیپال کمیونسٹ پارٹی (این سی پی) تشکیل دی۔ اس انضمام میں چینی رہنماؤں نے اہم کردار ادا کیا۔ نیپالی سیاست پر چینی اثر و رسوخ کافی بڑھ چکا ہے۔ ان دونوں رہنماؤں نے اختلافات کے باوجود بیجنگ کے حوالے سے ایک ہی موقف اختیار کیے رکھا ہے۔
جب بھی این سی پی میں اختلاف پیدا ہوا، چینی رہنماؤں نے پارٹی کی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے دونوں رہنماؤں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کی۔ چنانچہ جولائی ۲۰۲۰ء میں جب پراچندا نے پہلی بار اولی کے خلاف بدعنوانی اور بدانتظامی کے الزامات لگائے تو کھٹمنڈو میں چینی سفیر نے پراچندا اور دیگر رہنماؤں سے ملاقات کرکے معاملہ حل کرانے کی کوشش کی۔ ایوان صدر کی جانب سے اسمبلیاں تحویل کرنے کے بعد بھی چینی سفیر نیپالی رہنماؤں میں بات چیت کرانے کے لیے مرکزی کردار رکھتے ہیں۔ انہوں نے ملک کے صدر اور دیگر رہنماؤں سے ملاقاتوں کاسلسلہ جاری رکھا ہے۔ بحران حل نہ ہونے پر گویوزو کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کے چینی وفد نے حال ہی میں نیپال کا دورہ کیا۔ گویوزو نے ہی اولی اور پراچندا کی پارٹیوں کو ایک کرانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ ان کا دورہ بہت اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ وہ اولی اور پراچندا سمیت پارٹی قیادت پر فیصلہ کن اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ چین کی کوشش ہے کہ اگر دونوں رہنما اختلاف ختم نہیں بھی کرتے تو آئندہ انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف انتخاب نہیں لڑیں، تاکہ نیپال میں بھارت نواز جماعت کو مضبوط ہونے سے روکا جاسکے۔ حقیقت میں نیپال کے بارے میں چینی پالیسی بھارت کو دیکھتے ہوئے تشکیل دی جاتی ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران چین کھٹمنڈو کو مسلسل بھارت مخالف لائن اختیار کرنے کی تاکید کرتا رہا ہے۔ اس کی ایک زبردست مثال ۲۰۰۴ء میں ماؤ نواز باغیوں کی جانب سے کھٹمنڈو کی ناکہ بندی کرکے سامان کی ترسیل روکنا تھا۔ اُس وقت بھارت نے بہت سے مغربی ممالک کی طرح ماؤ نوازوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے نیپال کو سامان کی فراہمی معطل کردی تھی، لیکن چین نے ماؤ نوازوں سے نظریاتی تعلق کے باوجود نیپال کو سامان کی فراہمی جاری رکھی۔ اسی طرح نئے آئین میں حقوق نہ ملنے پر مادیسیوں کے احتجاج کے دوران بھی بھارت نے دو ماہ کے لیے نیپال کو سامان کی فراہمی بند کردی تھی، لیکن چین سے سامان کی فراہمی جاری رہی۔ چین کا پروپیگنڈا تھا کہ مادیسی مظاہرین کے پیچھے دراصل بھارت ہے۔ جس کے نتیجے میں مقامی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوا اور بڑے انسانی بحران نے جنم لیا۔ ۲۰۱۵ء میں تباہ کن زلزلے کے بعد صورتحال کچھ معمول پر آنا شروع ہوئی۔ بہرحال اس طرح کی حکمت عملی کے تحت چین نے نیپال کے ساتھ دفاع سمیت ہر شعبے میں مضبوط تعلقات قائم کرلیے۔
بھارت جیو اسٹریٹجک وجوہات کی بنا پر نیپال سے تعلقات مستحکم کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا رہتا ہے۔ کیوں کہ نیپال بھارت کا انتہائی قریبی ہمسایہ ہے اور چین کے مقابلے میں سکیورٹی کے حوالے سے بھارت سے زیادہ جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین نیپال کو بغیر سمندر ملک نہیں بلکہ بھارت کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ نیپال اور چین کی سرحد کی قریب بھارت کی جانب سے بنائی جانے والی ۸۰ کلومیٹر سڑک ہندوستان کو بہتر اسٹریٹجک پوزیشن فراہم کرتی ہے۔ جس کے بعد چین کے اشارے پر ہی نیپال نے کچھ بھارتی علاقوں پر ملکیت کادعویٰ کیا۔ جس کے بعد اولی حکومت نے نیپال کا نیا نقشہ شائع کیا، جس میں بھارت کے ۴۰۰ مربع کلومیٹر کے علاقوں کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس نقشے کی نیپال کی پارلیمان نے توثیق کی، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔ نیپال کا کردار بھارت کی داخلی سلامتی کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ القاعدہ، طالبان، لشکر طیبہ، جیش محمد جیسے دہشت گرد گروہ کھٹمنڈو اور نیپال کے دیگر علاقوں کو بھارت میں خفیہ کارروائیوں کے لیے ایک اڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ علاقے منشیات فروشوں، حوالہ ہنڈی کا کام کرنے والوں، انسانی اسمگلروں کا محفوظ ٹھکانہ بھی ہیں۔ دہلی اور کھٹمنڈو کے درمیان بہتر تعلقات نے متعدد مواقع پر بھارتی ایجنسیوں کو نیپال کے ذریعے ہونے والے دہشت گرد حملے روکنے میں مدد کی۔ داخلی سلامتی کے حوالے سے ایک اور اہم معاملہ بھارت اور نیپال کے ماؤ نوازوں کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔ بھارت کے ماؤ نوازوں نے ایک سرخ کوریڈور بنایا تھا، جو اترپردیش کے ترائی علاقے سے ہوتا ہوا جنوبی نیپال، کیرالہ، کرناٹک اور تمل ناڈو تک جاتا ہے۔ اگرچہ بھار ت میں سی پی این اور این سی پی جیسی بڑی ماؤ نواز جماعتیں انقلاب کا راستہ چھوڑ کر مرکزی دھارے میں شامل ہوچکی ہیں۔ لیکن نیپال میں ماؤ نوازوں کی طرف سے لگائی گئی آگ اب تک بجھائی نہیں جاسکی ہے۔ نیپال کی کمیونسٹ پارٹی کے کچھ گروپ آج بھی مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ۲۰۱۷ء کے انتخابات کے دوران بم دھماکوں اور پرتشدد واقعات کے بعد ان گروپوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ جغرافیائی، تزویراتی عوامل اور چین کے غالب اثر و رسوخ کی وجہ سے بھارت نیپال میں جاری سیاسی بحران میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ دہلی نے اس بحران کو نیپال کا اندرونی معاملہ قرار دے کر کسی بھی رہنما کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق بھارت اور نیپال میں سرحدی تنازع سمیت دیگر امور پر بات چیت کو مناسب انداز میں آگے بڑھایا جائے گا۔
آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے اور سیکرٹری خارجہ ہرشا شیرینگلا کے حالیہ دورۂ نیپال کے دوران اپنے ہم منصبوں سے اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی۔ یعنی پیغام صاف ہے کہ بھارت ہمسایہ اور خیر خواہ ہونے کے ناطے امن، خوشحالی اور ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے میں نیپال اور اس کے عوام کی حمایت کرتا رہے گا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس پیغام کا آئندہ انتخابات میں برسرِاقتدار آنے والے رہنما پر کوئی اثر پڑے گا۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Political crisis in Nepal and its geopolitical implications”. (“cppr.in”. January 1, 2021)
Leave a Reply