بھارت میں مسلمان کسی حد تک سیاسی بے وزنی کا شکار ہوچکے ہیں کہ کانگریس کے مقتدر راہنما اور ایوان بالا میں قائد حزبِ اختلاف غلام نبی آزاد کو شکوہ کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی کے ہندو اراکین اب ان کو اپنے حلقوں میں جلسے اور جلوسوں میں مدعوکرنے سے کتراتے ہیں۔ لکھنؤ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے مذکورہ راہنما نے دل کے پھپھولے کھول دیے۔ ان کا کہنا تھا ۱۹۷۳ء میں کانگریس میں شمولیت کے بعد سے لے کر آج تک انہوں نے ہر انتخابی مہم میں شرکت کی ہے اور ہندو راہنما ان کو اپنے انتخابی حلقوں میں لے جانے کے لیے بے تاب ہوتے تھے۔ پہلے جہاں جلسے جلوسوں میں ان کو مدعوکرنے کے لیے ۹۵فیصد درخواستیں ہندو راہنماؤں کی آتی تھیں، اب پچھلے چار سالوں میں سکڑ کر محض ۲۰ فیصد رہ گئی ہیں۔ آزاد، جموں کشمیر کے ضلع ڈوڈہ میں ایک مقامی کانگریسی لیڈر کے گھر پیدا ہوئے، مگر اپنے انتخابی کیریئر کا آغاز ۱۹۸۰ء میں مہاراشٹرہ کے ہندو اکثریتی لوک سبھا حلقہ واسن سے کیا۔ وہ ۱۹۸۴ء میں دوبارہ اسی نشست سے منتخب ہوئے۔ اکثر فخراً یہ کہتے تھے کہ ان کا سیاسی کیریئر اقلیتی سیاست کے بجائے بھارت کے سیکولر ہندو اکثریت کا مرہون منت ہے۔ ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۸ء تک جموں و کشمیر کے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے علاوہ غلام نبی آزاد نئی دہلی میں سینئر مرکزی وزیر اور کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کے برسوں تک رکن اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ ایک روز صبح سویرے ان کا فون آیا کہ کسی وقت ان سے دفتر میں آکر ملوں۔ کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو کے لیے کام کرنے کی وجہ سے ان کو کور کرنا بیٹ کا ایک حصہ تھا۔ خیر آفس جاتے ہوئے میں نرمان بھون میں وزارت صحت کے ہیڈ کوارٹرز پہنچا اور ان کے پی۔اے راما چندرن کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس نے مجھے انتظار گاہ میں بیٹھنے کے لیے کہا۔ جنوبی بھارت کا یہ سانوالا گھٹے جسم کا مالک پی۔اے ان کا خاصہ نک چڑھا ملازم تھا۔ میں نے دیکھا کہ وزیر موصوف کے کمرے کے باہرسبز بتی جل رہی تھی، جس کا مطلب تھا کہ وہ کسی میٹنگ میں مصروف نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ راما چندرن جی انتظار گاہ میں آرہے افراد کو ایک ایک کرکے یا وفد کی صورت میں وزیر کے کمرے میں لے جارہے تھے۔ میں نے ان کو یاد دلایا کہ وزیر موصوف نے خود مجھے بلایا ہے۔ قریباً ایک گھنٹے تک نظر انداز کرنے کے بعد پی اے نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر پرسوں ملاقات کے لیے آنے کو کہا۔ کیونکہ کل وزیر دہلی سے باہر ہیں۔ میرے بار بار کے اصرار پر وجہ یہ بتائی کہ آج ملاقاتیوں کی فہرست میں مسلمان نام کچھ زیادہ ہیں۔ ’’ہمیں وزیر سے ملنے والوں میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک میں ہیں اور اس کا تقاضا ہے کہ وزیر سے ملنے والوں کی فہرست بھی سیکولر ہو۔ آج کی فہرست میں ہندو ملاقاتیوں کی تعداد کچھ کم ہے‘‘۔ راما چندرن کی یہ توضیح سن کر میں چکرا گیا۔ لیکن جاتے جاتے ان کو بتایا کہ آزاد صاحب خاص طور پر اس وقت وزارتی کونسل میں صرف مسلمان اور کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے ہیں۔
پچھلے سال وزیراعظم نریندر مودی کے آبائی صوبہ گجرات میں کانگریس نے بی جے پی کو ہروانے کے لیے جہاں پوری مشینری جھونک دی تھی، وہیں کارکنوں کو باضابط ہدایت دی گئی تھی کہ اسٹیج پر کوئی مسلم لیڈر براجمان نہ ہو۔ حتیٰ کہ گجرات سے کانگریس کے مقتدر لیڈر اور سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو پس پردہ رہنا پڑا۔ امیدواروں کو بتایا گیا تھا کہ وہ مسلم محلوں میں ووٹ مانگنے نہ جائیں اور جلسے، جلوسوں میں لمبی داڑھی و ٹوپی والوں کو اگلی صفوں میں نہ بٹھائیں۔ کچھ اسی طرح کی حکمت عملی کانگریس اب اگلے ماہ ہونے والے پانچ صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابی مہم میں اپنا رہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے دست راست بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے تقریباً طے کیا ہے کہ بگڑتی ہوئی معیشت، بے روزگاری اور کرپشن سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پولارائزیشن بہترین ہتھیار ہے۔ ہندو کو مسلمانوں کا خوف دلا کر ان کو یکجا کرکے مسلم ووٹ بینک کی ہوا نکالی جائے۔ ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ ایک عالیشان رام مندر کی تعمیر کے لیے قانون سازی کی تجویز پیش کرکے اس کو ایک انتخابی موضوع بنانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس ماہ کے اواخر میں جب سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کی سماعت شروع ہوگی، تو کارروائی کے دوران دلائل و پیش کردہ شواہد کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کرکے موضوع کو انتخابات تک خوب گرم رکھا جائے گا۔ اسی طرح کشمیر میں بے یقینی کی آگ جلائے رکھنا بھی ملک میں ہندوؤں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے تناؤ کا ماحول برقرار رکھنے کے پلان کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں تعلیم و ترقی کے بجائے سکیورٹی کا احساس زیادہ گھر کر گیا ہے، جوایک خطرناک علامت ہے۔ اب اگر غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے مقتدر مسلمان راہنما، جنہیں بھارت کے سیکولر چہرہ کو وقار بخشنے کے لیے اکثر رول ماڈل کے بطور پیش کیا جاتا تھا، اب سیاسی بے وقعتی کا رونا روتے ہوں، تو عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔ ویسے عام مسلمان تو پہلے سے ہی ایسے اشخاص سے کٹا ہوتا تھا اور ان کو ’’سرکار ی مسلمان‘‘ کے نام سے نوازتا تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضمیرالدین شاہ نے اپنی حال ہی میں شائع سوانح حیات کا سرورق ’’سرکاری مسلمان‘‘ رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ان کا سامنا کئی ایسے کامیاب مسلمانوں سے ہوا ہے، جو اپنے سیکولرہونے کا بھرم رکھنے کے لیے مسلم فرقہ سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مسلم افسر کو اپنی کمیونٹی کے مفاد اور اپنی نوکری کے درمیان خاصی تنگ رسّی پر چلنا پڑتا ہے اور اکثر اپنی نوکری کو ترجیح دے کر اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ شاہ صاحب فوجی جنرل کے علاوہ بالی ووڈ کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ کے بھائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ان کے والد کو بحیثیت ایڈمنسٹریٹر اجمیر بھیجا گیا تو وہاں مسلمانوں کا رد عمل تھا کہ ایک اور ’’سرکاری مسلمان‘‘ آگیا۔ مطلب پوچھنے پر ان کے والد نے بتایا کہ جب کوئی مسلمان کسی بڑے سرکاری عہدہ پر پہنچ جاتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اب ان کا خیر خواہ نہیں رہا، اب یہ حکومت کی زبان بولے گا اور عام مسلمانوں سے کٹ کر رہے گا۔ خیر اب تو یہ حال ہے کہ پچھلے چار سالوں میں دہلی میں اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ گورکھپور کا اردو بازار، ہندو بازار ہوگیاہے، ہمایوں نگراب پچھلے سال ہنومان نگر ہوگیا، اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر تاریخی مغل سرائے شہر دین دیال اپدھائے نگر ہوگیا اور مغل شہشاہ اکبر کا بسایا ہوا الہ آباد اب پریاگ راج ہوگیا ہے۔ احمد آباد کو اب کرناوتی نگر بنانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں تاریخ مٹائی نہیں جاسکتی، مگر یہاں تو تاریخ مسخ ہورہی ہے۔ یہ مٹتے ہوئے نام، مسخ ہوتی تاریخ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے خود اعتمادی چھین کر احساس کمتری میں دھکیل دے گی۔کیونکہ یہ صرف نام نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کی جھلک تھی، جو ثابت کرتی تھی کہ مسلمان اس ملک میں کرائے دار نہیں بلکہ حصہ دار اور اس کی تاریخ کا حصہ تھے۔ لیکن شاید غیر محسوس طریقے سے ۱۵ ویں صدی کے اواخر کے اسپین کے واقعات دہرائے جا رہے ہیں۔ جلد ہی بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی تاریخ کو قصہ پارینہ بنایا جائے گا۔ اسے زندہ جاوید رکھنے کی جدو جہد کرنی پڑے گی۔ ورنہ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ مسلمان رہنماؤں کو بھی اپنے اندر جھانک کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر وہ قوم کا بھلا کرسکیں ہیں؟ کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ ایک متبادل حکمت عملی تیار کرنے پر سنجیدہ غور و خوض کیا جائے؟
(بحوالہ: روزنامہ ’’۹۲ نیوز‘‘ کراچی۔ ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۸ء)
Leave a Reply