افغانستان میں نیا بادشاہ گر

افغانستان میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک متوقع بادشاہ گر نے بہتوں کو قیاس آرائیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

افغانستان میں کابل سے باہر کم ہی لوگ اتنے طاقتور ہیں جتنے بلخ کے گورنر ہیں۔ عطا محمد نور سے ملاقات کیجیے اور کچھ ہی دیر کی گفتگو میں آپ کو اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی پوزیشن اگر اس قدر مستحکم ہے تو کیوں ہے۔ وہ اپنے مہمانوں کا ایک بڑے ہال میں سنہرے تخت پر استقبال کرتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت مزار شریف پر ان کی مکمل گرفت ہے اور ازبکستان سے ملنے والی سرحد کے علاقے ہیراتن پر بھی ان کا خاصا تصرف ہے۔

عطا محمد نور استاد رہ چکے ہیں، اس لیے انہیں استاد عطا کہا جاتا ہے۔ انتظامی طور پر عطا محمد نور کابل میں مرکزی حکومت کے تابع ہیں۔ صدر حامد کرزئی نے انہیں گورنر مقرر کیا۔ وہ اپنی بھرپور قوت کے ساتھ کابل سے خوشگوار تعلقات کے حامل ہیں۔ دیگر صوبائی گورنروں کے مقابلے میں عطا محمد نور کو غیر معمولی آزادی دی گئی ہے۔ افغانستان میں آئندہ برس صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ غالب امکان اس بات ہے کہ صدر حامد کرزئی پھر منتخب نہ ہوسکیں گے اور ایسے میں عطا محمد نور بادشاہ گر ثابت ہوں گے۔

عطا محمد نور تاجک نسل سے ہیں۔ انہوں نے پہلے سابق سوویت افواج سے مقابلہ کیا۔ اس کے بعد احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر طالبان سے ٹکر لی۔ دونوں محاذوں پر وہ کامیاب رہے۔ امریکا نے جب ۲۰۰۱ء میں طالبان کو اقتدار سے محروم کیا تب شمالی اتحاد کے بڑے کمانڈروں میں عطا محمد نور نمایاں تھے۔ شمالی اتحاد کے مخالفین کو کمزور کرنے کے ہنر سے آشنا عطا محمد نور کو اقتدار کی مضبوط بنیاد ڈالنی آتی ہے۔ انہوں نے خاصی تیزی سے ان مغربی طاقتوں کا اعتماد حاصل کیا جو عطیات دیا کرتی تھیں۔ ۲۰۰۴ء میں وہ گورنر مقرر کیے جاچکے تھے۔

مزار شریف ایک ایسا شہر ہے جس میں بھرپور ترقی اور استحکام دکھائی دیتا ہے۔ طالبان نے افغانستان کے طول و عرض میں دوبارہ عروج پایا ہے مگر ان کے اثرات مزار شریف میں کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ بلخ میں زرعی اراضی کافی ہے۔ کپاس، اناج اور پھلوں کی پیداوار خاصی نمایاں ہے۔ مزار شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں نبی کریمﷺ کے ایک داماد مدفون ہیں۔ یہ شہر اب تجارتی مرکز اور اہم گزر گاہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ سابق سوویت فوج بھی اس شہر کو فوجی ساز و سامان کی ترسیل کے لیے استعمال کیا کرتی تھی۔ نیٹو کی شمالی سپلائی لائن میں مزار شریف کا اہم کردار ہے۔

مزار شریف نے گزشتہ برس ازبکستان سے ۷۳ کروڑ ڈالر کی تجارت کی۔ ۸۰ کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک اس شہر کو وسطی ایشیا کے عظیم ریلوے نیٹ ورک سے جوڑتا ہے۔ مستقبل قریب میں تجارت کا حجم بڑھنے کا امکان ہے۔ مقامی ایئرپورٹ بہت جلد ترکی، بھارت اور دبئی سے آنے والی پروازوں کا خیرمقدم کرے گا۔ تعمیراتی منصوبے تیزی سے بڑھے ہیں اور تکمیل کی طرف رواں ہیں۔ اس وقت مزار شریف کے وسطی حصے میں زیر زمین شاپنگ مراکز کے قیام کی تیاریاں جاری ہیں۔

عطا محمد نور ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ ان کے اثاثوں کی مالیت بڑھتی جارہی ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ وہ ہر بڑے ادارے سے رشوت وصول کرتے ہیں۔ دوسرے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ کماتے وہ کاروبار ہی میں ہیں مگر اس سلسلے میں اپنی سیاسی قوت کو بھرپور طور پر بروئے کار لاتے ہیں۔ حقیقت خواہ کچھ ہو، عطا محمد نور کی بڑھتی ہوئی قوت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ۲۰۰۹ء کے صدارتی انتخاب میں عطا محمد نور واحد گورنر تھے جنہوں نے حامد کرزئی کے حریف اور سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کی حمایت کی۔ تب سے اب تک حامد کرزئی سے ان کی بنی نہیں۔ صدر کرزئی نے متعدد مواقع پر الزام لگایا ہے کہ شمالی اتحاد کا علاقہ محصولات میں اہم کردار ادا نہیں کر رہا۔ عطا محمد نور پر محصولات میں ڈنڈی مارنے اور سرکاری اراضی ہڑپ کر جانے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ مگر حامد کرزئی کو یہ بھی اندازہ ہے کہ بلخ میں عطا محمد نور کی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ عطا محمد نور کے دور میں صوبے نے غیر معمولی رفتار سے ترقی کی ہے اور لوگوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کا بھرپور موقع ملا ہے۔ حامد کرزئی نے عطا محمد نور پر ڈھکے چھپے انداز سے تنقید پر اکتفا کیا ہے، کبھی انہیں برطرف کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے کی صورت میں صوبہ مکمل طور پر ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔

اب عطا محمد نور ایک بار پھر اسپاٹ لائٹ میں ہیں۔ عبدالرشید دوستم، احمد ضیاء مسعود اور محمد محقق نے کہا ہے کہ اگر عطا محمد نور نے صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو ان کی بھرپور حمایت کی جائے گی۔ عطا محمد نور نے صدارتی انتخاب لڑنے کا باضابطہ اعلان کرنے سے گریز کیا ہے تاہم اتنا ضرور کہا ہے کہ اگر موزوں امیدوار میدان میں نہ آئے تو وہ صدارتی انتخاب لڑنے سے گریز نہیں کریں گے۔

ان خیالات کے اظہار کے بعد جب معاملہ تھوڑا سا بگڑتا دکھائی دیا تو عطا محمد نور نے کابل جاکر صدر کرزئی کو اعتماد میں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الحال وہ صدارتی انتخاب لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے ٹی وی چینلز کو انٹرویو میں کہا کہ صدر کرزئی سے ان کے تعلقات اچھے ہیں اور اچھے ہی رہیں گے۔ عطا محمد نور کو بھی اپنی حدود کا اندازہ ہے۔ وہ پشتون اکثریتی علاقوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ ان کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ انہیں یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عطا محمد نور پشتو برائے نام بھی نہیں بولتے۔ اگر وہ پشتون علاقوں میں اپنی بنیاد مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم زبان کے معاملے کو اہمیت دینا ہوگی۔ ایسے میں امکان اس بات کا ہے کہ وہ نائب صدر یا بادشاہ گر بننا پسند کریں گے۔

(“Politics in Afghanistan: Attaboy”…
“The Economist” April 6th, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*